احساس زیاں جاتا رہا

 .............احساس زیاں جاتا رہا

احساس زیاں جاتا رہا

حبیب الرحمن سلطان پوری 


کیا یہی فتح وشکست کا پیمانہ ہے؟ کیا یہی حق وباطل کا معیار ہے،؟ کیا یہی سود وزیاں کے تولنے کا میزان ہے؟ کیا یہی سیاہ وسفید پرکھنے کا آلہ ہے؟ کہ ایک ٹی وی اینکر تیس کے بہ جائے چالیس کہہ دے تو ہمارے طبقے میں خوشی کی لہر دوڑ جائے ، پورا سوشل میڈیا اس ویڈیو کی لغزش پر جشن مناے، ویڈیو کو شییر اور پوسٹ کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے  کہ آج فتح وظفر کا علم ہمارے ہاتھوں میں ہے، جب کہ مد مقابل کو اس کی ذرہ برابر پرواہ نہیں، شکست وریخت تو دور کی بات شرمندگی کا بھی برابر احساس نہیں ، اور ہو بھی کیوں، جب کہ وہ لغش ہے، زلۃ ہے، زبانی پھسلن ہے، جس کا صدور ہر عام خاص سے ممکن ہے، مگر حیرت ہوتی ہے ہماری مسلم عوام پر اور اس سے کہیں زیادہ خواص پر کہ اپنی فتح وظفر کا معیار اتنا گھٹیا کردیا ہے، ناکامی و فتح یابی کا لیبل اس قدر کمتر کہ ایک ویڈیو کی لغزش پر جشن کا ماحول ہے، اور بڑے طمطراق سے ویڈیو کا عنوان میڈیا اینکر کی حواس باختگی سے دیا جا رہا ہے، ہائے رے میری نوجوان نسل،ہماری انھیں کرتوتوں سے باطل سمجھ چکا ہے کہ شاہین کی اڑان رکھنے والے کی پرواز چمگادڑ سے زیادہ کی نہیں ہے، مد مقابل کو یقین ہو چلا ہے کہ پہاڑوں پر کمندیں ڈالنے والے اب عیش وعشرت کے دلداہ ہو چکے ہیں، انھیں بہ خوبی اندازہ لگ گیا ہے کہ اب ان کی آواز پر جنگل کے درندے بھاگنے والے نہیں بلکہ انھیں تکا بوٹی کرکے ہی دم لیں گے، کیوں کہ اب ان میں نہ جلال ہے، نہ رعب ہے، نہ شوکت ہے، نہ دبدبہ ہے، بلکہ جس چیز میں کسی کا حصہ نہی وہ بھی گھٹیا سے گھٹیا اور کم سے کمتر ہو گئ ہے، اور وہ ہے سوچ کی وسعت، ذہن کی کشادگی، حوصلے کی بلندی، ارادے کی پختگی،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے