مگر اپنے بختِ خفتہ کو نہیں دیکھتے!


مگر اپنے بختِ خفتہ کو نہیں دیکھتے!


مگر اپنے بختِ خفتہ کو نہیں دیکھتے!


حفاظت اسلام کے نعرے تو بہت بلند کیے جاتے ہیں؛ مگر عملی پہلؤوں سے ہم خود گریزاں رہتے ہیں۔ اسلام کوئی مجسمہ نہیں، جس کی حفاظت کے لیے لاؤ لشکر کی ضرورت ہو۔
(حسین احمد مدنی)
آپ خود میں، اپنے احباء میں، اپنے اقرباء میں اور اپنے اعزاء میں اسلام سمو لیجیے! آپ بھی محفوظ ہوجائیں گے، آپ کے مقربین و معززین بھی محفوظ ہوجائیں گے اور اسلام بھی محفوظ ہوجائے گا۔

اس وقت یہی: "حفاظتِ دین" دین کی خدمت کا سب سے بڑا میدان ہے۔ حفاظت دین میں بے شمار اعمال آجائیں گے، مثلا: عقائد کی درستگی، صحت قرآنی الفاظ، نئی نسل کی بنیادی ضروری تعلیم، اسکولی بچوں پر کڑی نظر، ان کے عقائد و اعمال کی چیکنگ، ملک کے قانون ساز ادارے کا تحفظ، ملک کے میڈیا اور عالمی ذرائع ابلاغ اگر اسلام کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، تو ان کا تعاقب۔

آج معاملہ انگریزی تعلیم کا نہیں اور نہ ہی شرک جلی، اصنام پرستی اور دیومالائی عقائد کا ہے؛ بلکہ معاملہ غیروں کی تہذیب قبول کرنے کا ہے، اصل خطرہ نسل پرستی کا نہیں؛ معنوی، ذہنی اور تہذیبی ارتداد کا ہے؛ اس خطرے کو دیکھنے اور اس کو محسوس کرنے کے لیے کسی بڑی فراست اور دور بینی کی ضرورت نہیں؛ یہ تو نوشہ دیوار ہے ، جس کو ہر شخص پڑھ سکتا ہے؛ لیکن حفاظت دین کے لیے ان کا پڑھنا کافی نہیں؛ بلکہ ایسے افراد چاہییں، جو مضبوط دلائل سے ان کا منہ تواڑ جواب دیں؛ یہ کام باصلاحیت اور تجربہ کار علماء وفقہاء ہی کریں، جن کا عالمی مطالعہ ہو، وسیع اور کشادہ ذہن ہو؛ لیکن ان کی ایک کثیر تعداد نے مدارس ومساجد کے منبر ومحراب تک ہی خود کو محدود کررکھا ہے؛ الا یہ کہ چند جلسہ اور کانفرنس میں شریک ہوتے ہوں، جس کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا؛ علمائے کرام کو اس پس منظر پر غور کرنا چاہیے۔
حسین احمد مدنی نے کہا تھا:
"دین کی خدمت کا صرف یہی مطلب نہیں کہ مدرسوں اور خانقاہوں میں گوشہ گیر ہوکر کتابوں تک ہی منحصر رہا جائے؛ بلکہ مسلمانوں کی اور ملک کی اقتصادی، معاشی، نیز سیاسی خدمت بھی دینی فرائض میں شامل ہیں"۔
(حسین احمد مدنی)

گویا مصلح بننے کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کی اصلاح ہوسکے۔ یہ ذمہ داری صرف علماء و فقہاء پر ہی نہیں؛ عوام پر بھی ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی علوم حاصل کریں اور خود میں کم از کم اتنی صلاحیت پیدا کریں کہ کبھی اپنے مذہب اور اپنے عقائد واسلامی تعلیمات کا تعارف پیش کرنے کی ضرورت آپڑے، تو گردن جھکا کر شرم کا سامنا نہ کرنا پڑے؛ اتنا علم حاصل کرنا تو فرض ہے کہ اپنی شناخت کرالی جائے؛ لیکن مسلم طبقہ میں سوائے دینی علوم سے متعلقین کے شاید کسی کو صحیح طور پر اپنے عقائد واحکامات کا علم ہو؛ نہ معلوم ان کے دلوں میں کون سا کالا نکتہ پڑ چکا ہے، یہ کیسی غفلت میں ہیں؟ اللہ رحم فرمائے۔ شاید ایسوں ہی کے بارے میں مولانا آزاد نے کہا تھا:
"تمہاری غفلتوں پر اگر آسمان روئے، زمین ماتم کرے اور سمندروں سے مچھلیاں غم کرنے کے لیے اچھل پڑیں، جب بھی اس کا ماتم ختم نہ ہوگا؛ کیوں کہ تمہارا ماتم تمام دنیا کا ماتم ہے۔ تم دوسروں کی بیداری کے ترانے سن کر ترانہ سنج مدح وثنا ہوتے ہو؛ مگر اپنے بخت خفتہ وطالع گم گشتہ کو نہیں ڈھونڈتے کہ وہ کہاں گم ہوگیا ہے"۔
(مولانا ابوالکلام آزاد)

افسوس!۔۔۔۔ یہ کون سا راستہ اختیار کرلیا لوگوں نے!؟ بہرکیف: پھر بھی ایسے افراد ہیں، جو اسلامی تعلیمات اور اسلامی عقائد و احکامات کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن یا تو انہیں مواقع فراہم نہیں ہوتے، یا انہیں کوئی بہتر اسلامی اسکالر نہیں ملتا، جس سے وہ مطمئین ہوں سکیں، یا تو وہ مصروفیات کے باعث وقت نکال کر سیکھنے سے قاصر ہیں۔ نیز یہ کہ ایسی جامع معلومات کے لیے یوٹیوب پر بھی مستقل کوئی پہل نہیں ہے کہ مختصر وقت میں وہ مستفید ہوسکیں؛ ہیں بھی تو، کسی ایک سے تشفی بخش جواب ملنا مشکل ہے۔

اس لیے صاحب استعداد حضرات سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ اسلام کی اشاعت وسربلندی کے لیے آئیے اور جو بھی راستے ہوسکتے ہیں، ان میں بہتر راستہ اختیار کریے: یوٹیوب چینل بنائیے، یا کسی پروفشنل ویبسائٹ کے ذریعہ جہاں تک ممکن ہو، اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکامات دوسروں تک پہونچائیے، کم از کم اسلام کے بنیادی عقائد وارکان کی وضاحت کردیجیے اور اس متعلق کوئی مختصر؛ مگر جامع کتاب بھی بتا دیجیے، تاکہ جو پڑھنا چاہیں، ان کے لیے آسانی میسر ہو؛ امت کا ایک طبقہ آپ کی تھوڑی سی محنت اور مختصر سے وقت کے ذریعہ کثیر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کم از کم اتنا تو ضرور ہوگا کہ اس افادیت سے وہ ہزاروں کے مجمع میں یہ: نہیں محسوس کریں گے کہ ہم مسلمان تو ہیں؛ لیکن ہمیں اپنے عقائد نہیں معلوم ، ہم مسلمان تو ہیں؛ لیکن ہمیں اپنے احکامات اور اپنی تعلیمات نہیں معلوم، ہمیں یہ نہیں پتہ کہ اسلام کیا ہے؛ بلکہ وہ فخر سے کہیں گے کہ ہاں ہم مسلمان ہیں، ہمارا مذہب اسلام ہے، ہمارے عقائد یہ ہیں، ہماری مذہبی کتاب یہ ہے، ہمارے پیغمبر کی تعلیمات یہ ہیں اور اسلامی احکامات یہ ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، ان چیزوں سے روکا گیا ہے، ان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ہمیں اس طرح زندگی گزارنے کو کہا گیا ہے، وغیرہ۔

یہ تمام کام ویڈیو بنا کر یوٹیوب، انسٹا گرام اور فیس بک یا واٹسپ کلپ کے ذریعہ بخوبی انجام دیے جاسکتے ہیں؛ البتہ ویڈیو میں چند چیزوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے؛ ورنہ عوام کی کوئی خاص توجہ نہیں ملتی مثلا:
(1) ویڈیو زیادہ طویل نہ ہو: کم سے کم 4 منٹ اور زیادہ سے زیادہ 7 منٹ؛ اتنے وقت بہت کافی ہیں؛ اس سے طویل ویڈیو ناظرین دیکھنے اور سننے کے لیے اکثر تیار نہیں ہوتے۔
(2) ویڈیو میں بیک گراؤنڈ کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ خوبصورت ہو، مثلا کتاب وغیرہ کی آلماری ہو، یا کوئی کانفرنس نما نقشہ وغیرہ ہو۔
(3) بیٹھ کر پیش کرنا بہتر ہے؛ البتہ سامنے پھولوں اور کتابوں وغیرہ کی کوئی خوبصورت تپائی ہونی چاہیے۔ مزید دیگر خوش کن چیزیں بھی رکھی جاسکتی ہیں۔
(4) انٹرویو کا طرز بھی اختیار کیا جاسکتا ہے: کوئی شخص سوال کرے اور اس کا جواب کوئی دوسرا دے؛ لیکن ویڈیو میں دونوں ظاہر ہوں۔
(5) نرم مزاجی سے گفتگو کی جائے، جس میں راہنمائی کے ساتھ حوصلہ افزائی کا پہلو بھی رہے اور سلیقہ کے تحت آداب گفتگو بجا لایا جائے۔
جب ہر طرح سے ویڈیو مزین ہوتی ہے اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے، تو ناظرین کا ذہن اس طرف جاتا ہے: یہ کوئی پروفیشنل شخص ہے اور تخلیقی ذہنیت کا حامل ہے؛ اسے دیکھنا چاہیے اور وہ دیکھتے ہیں؛ چوں کہ ہر باصلاحیت شخص اچھا سے اچھا ہی پسند کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ جو بھی کیا جائے: بہتر سے بہتر ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے