خون خون ریزی تاچند؟


خون خون ریزی تاچند؟


رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستان! مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

علامہ اقبال کا یہ شعر ہندوستان کے موجودہ حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہےاور پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ تمام عوام ہند، بالخصوص مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں: لڑائی، دنگا اور فساد؛ ایک المیہ بن چکا ہے، سیکڑوں معصوموں کی جانیں لے لی گئیں، لاتعداد بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں وعصمتوں سے کھیلواڑ کیا گیا۔ اور یہ تمام مظالم بے قصوروں اور معصوموں پر ڈھایا جارہا ہے: 

اے درزدانِ قافلہ انسانیت! اے مثالِ درندگی وسبعیت! ظلم وعدوان تابکے؟ اور خون خون ریزی تا چند؟ کب تک خدا کی سرزمین اپنے حیوانی غرور سے ناپاک رکھوگے؟ کب تک انصاف؛ ظلم سے اور روشنی؛ تاریکی سے مغلوب رہے گی۔ یوپی میں تمہارے ہاتھوں انسانوں کی گردنیں سولی پر لٹک رہی ہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سامنے اب تک اس جمے ہوئے خون کے دھبے باقی ہیں، جو تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے ملک کے نونہالوں نے بہایا تھا، شمال مشرقی دہلی میں ان لاشوں کا کوئی شمار نہیں، جن میں سیکڑوں کو مٹی کے بوجھ کی جگہ تمہارے متبعین کی ایڑیوں کی پامالیاں اور بندوق کی گولیاں نصیب ہوئیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کا کوئ جواب نہیں؛ لیکن عوام ہند کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب جب ظالم اپنی طاقت کے زوروں پر ظلم کرتا ہے، تو اس کا خاتمہ ہوکر ہی رہتا ہے؛ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے انگریزوں کے خلاف کہا تھا کہ کفر کے ساتھ تو حکومت چل سکتی ہے؛ لیکن ظلم کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتی اور آج ہندوستان کا چپہ چپہ انقلاب کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ ان شاء اللہ انقلاب ضرور آئے گا اور جلد ہی آئے گا۔

البتہ ایسے حالات میں چاہیے کہ ہندی عوام عہدِ کوہن کی داستانیں (مسلمان بادشاہوں سے فرضی مظالم کی وہ داستانیں، جو کرایہ کے مؤرخین نے دیدہ ودانستہ اپنی تصانیف میں درج کی ہیں، تاکہ ہندؤوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوں) چھوڑ کر مستقبل کی فکر کریں؛ کیوں کہ انہیں برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

آگے اقبال کہتے ہیں:

یہ خاموشی کہاں تک ؟ لذت فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں

پروفیسر سلیم چشتی اس شعر کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اے اہل وطن! ان لوگوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرو، جو ہندوستان کی مختلگ اقوام میں منافرت پیدا کر رہے ہیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا، تو یقینا مٹ جاؤگے؛ کیوں کہ آئین قدرت یہی ہے: خدا اس شخص کی مدد کرتا ہے، جو امن وامان قائم کرنے کے لیے جد وجہد کرتا ہے۔ اگر آج آپ ڈر گئے، تو صدیوں تک آپ کی نسلیں ظالموں کے سامنے کانپیں گی، اگر آج آپ خاموش رہے، تو آپ کے بعد ہزاروں سال تک آپ کی نسلیں ظالموں کی آواز کے تابع ہوں گی۔ آپ کی لگائی ہوئی ایک آواز ہزاروں سال تک سنی جائیں گی اور لوگوں کی نگاہیں آپ کے خوف سے کانپ جایا کریں گی۔
کسی شاعر نے کیا خوب ہی کہا تھا:

خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے، تو کہرام مچا دو۔

عوام ہند! وقت کے حالات کو سمجھو! اب کوئی شیخ الہند، ابوالکلام، مدنی، گاندھی، امیبڈکر اور بھگت سنگھ آنے والا نہیں؛ اب آپ ہی کو ان کا کردار ادا کرنا ہوگا اور شیخ الہند و ابوالکلام بننا ہوگا؛ اب آپ ہی کو وہ کام انجام دینے ہوں گے؛ کل تاریخ میں ان کے ساتھ آپ کا نام بھی لکھا جائے گا۔ کیا آپ دیش کے لیے شیخ الہند نہیں بن سکتے؟ کیا آپ دیش کے لیے گاندھی نہیں بن سکتے؟ کیا آپ دیش کے لیے ابوالکلام اور بھگت سنگھ نہیں بن سکتے ؟ ؛ ضرور بن سکتے ہو؛ کچھ ماقبل ومابعد پر غور کرو: حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔

نہ سمجھو گے، تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی، داستانوں میں

اب وقت آگیا ہے کہ گونگے بولنے لگیں، اندھے دیکھنے لگیں، لنگڑے چلنے لگیں اور بہرے سننیں لگیں؛ کیوں کہ اسلام اپنے ہر پیرو سے اس کے آخری فرض کا طالب اور اس شے کا خواستگار ہے، جس کے بعد اس کے ذمے اور کچھ باقی نہ رہے گا اور وہ توحید الہی کے حق سے سبکدوش ہوجائے گا؛ پس جو زبان بول نہیں سکتی، اس کو بھی بولنے کی سعی کرنی چاہیے اور جو قدم اٹھ نہیں سکتا، اس کو بھی چلنے کے لیے اٹھنا چاہیے۔ اب کسی کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے، وقت کا تقاضا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ مل کر ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے ملک ہندوستان کے تحفظ کے لیے جان ومال؛ سب کچھ قربان کردیں۔

اہل ہند! تو وہ یکتا ہیں، جو جنگل میں چل دیں، تو راستہ بن جائے؛ اس لیے نکلو اپنے گھروں سے اور مل جل کر ہندوستان کو بچاؤ؛ ورنہ جمہوریت کا جنازہ نکال دیا جائے گا۔ یہ حالات تمہارے ہاتھوں میں ہیں، انہیں اپنا غلام بناؤ، اگر ڈر کر غلام بن گئے، تو دنیا تمہیں لات مارتی رہے گی اور حالات کو قابو میں لے کر غلام بناؤگے، تو یہی دنیا شیر سمجھ کر تمہیں سلام کرتی رہے گی۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تری رضا کیا ہے۔

ایسے حالات میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وہ غیور طلباء وطالبات، جنہوں نے ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور شاہین باغ جیسی تحریک کا منبع بنے، ان طلباء اور شاہین باغ کی شاہین ماؤں نے ایک تاریخ رقم کر ڈالی اور ہندوستان کے صفحات کا ایک عظیم حصہ بن گئیں، یقینا یہ مایہ ناز افراد "سلام" کے مستحق ہیں؛ ایسی نازک گھڑی میں شرم کرنا چاہیے تہذیب و ثقافت اور علوم کے ان ٹھیکیڈاروں کو، جو خود کو مرد کہنے کے باوجود سامنے نہیں آئے؛ بلکہ خوف وحراست نے انہیں ایسا جکڑا کہ شاید ان کا نام ونشان اس تاریخ سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے؛ لیکن اب بھی وقت ہے، حوصلہ پست کرنے کی ضرورت نہیں اور ہندوستان کے مسلمان کمزور نہیں۔ تاریخ کے وہ اوراق یاد ہوں گے کہ "جلیان والا" باغ کی لڑائی میں جب لاشوں کی پوسٹ مارٹم کی گئی، 5 دنوں تک پوسٹ مارٹم چلا، تقریبا 70 پٹھانوں کی لاشیں ملی، جنہوں نے اپنی پیٹھ میں گولی نہیں کھائی؛ بلکہ بندوق کے دہانے پر کھڑے رہے اور اپنا سینہ پیش کردیا۔
تو ہندوستانی افراد وہ افراد نہیں ، جو ڈر جائیں، ڈرتے تو وہ ہیں، جو دنیا میں رہنا چاہتے اور قرآن کہتا ہے :کل نفس ذائقة الموت۔ ملک جن بدترین حالات سے گزر رہا ہے ، اگر تمام ملت ومذاہب کے لوگ اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں اور فرعونوں کی فرعونیت کو نیست ونابود نہ کردیں، تو نہیں معلوم آئندہ کیا کیا ہونے والا ہے۔ 
جامعہ ملیہ کے ان غیور طلباء اور شاہین باغ کی ماؤوں اور بہنوں سے ایک درخواست ہے کہ:

اپنی تحریک کے شعلوں کو بجھا مت دینا
یہ شہیدوں کی امانت ہے، گنوا مت دینا
صبح صادق میں بہت دیر نہیں ہے؛ لیکن
ابھی عجلت میں چراغوں کو بجھامت دینا

پریشانیاں اور مصیبتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں؛ مگر آسانیاں بھی آئیں گی اور مصیبتوں کا خاتمہ بھی ہوگا إن شاء الله: "إن مع العسر یسرا"؛ ایسے حالات میں مناسب تدبیروں کے ساتھ ساتھ، اللہ تبارک وتعالی کے حضور توبہ، استغفار اور دعاؤں کا خاص اہتمام بھی کرنا چاہیے، بالخصوص سورہ یسین اور یہ دعا: "لا إلہ إلا أنت سبحانک إني کنت من الظلمین" بکثرت پڑھی جائے اور رب کریم سے دعا مانگی جائے۔ وہ بہت رحم وکرم والا ہے۔ کھٹکھٹاؤ! وہ دروازہ کھول دے گا، گڑگڑاؤ! وہ مان جائے گا، جھک جاؤ! وہ سربلند کردے گا، پھیلاؤ! وہ جھولی بھر دے گا، آپ کچھ نہ کرو بس اپنے رب کے ہوجاؤ؛ وہ زمانے کو آپ کا کردے گا: ان اللہ علی کل شیئ قدیر۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے