ليلة الجائزة یعنی انعام کی رات

ليلة الجائزة یعنی انعام کی رات

 عبید اللہ شمیم قاسمی العین
   رمضان المبارک کے بابرکت اور مقدس مہینے کے اختتام پر آنے والی رات ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی شب عیدالفطر جوکہ چاند رات کے نام سے معروف ہے،خصوصی برکتوں ، رحمتوں ، بخشش و مغفرت اور نہایت فضیلت کی حامل ہے، جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اس ماہ مبارک کی تمام راتوں سے زیادہ سخی اور فیاض ہو کر اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔حدیث مبارکہ میں اس رات یعنی شب عید کو ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ (انعام کی رات) سے پکارا گیا ہے،جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ ثواب کی نیت سے عبادت کرنے والوں کے لیے بڑی سعادتیں اور خوش خبریاں ہیں کہ جو اس ماہِ مبارک میں اپنی عبادات اور روزوں سے اس ماہ مقدس کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے۔اللہ کی رحمت اور مغفرت کو اپنے لیے برحق بنایا۔ جہنم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کیا اور یوں اللہ تعالیٰ کی تجلیات، انوارات اور انعامات کے حق دار ٹھہرے۔

’’لیلۃ الجائزہ‘‘ پر فرشتوں میں بھی خوشی کی دھوم مچی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرما کر دریافت فرماتا ہے: ’’اس مزدور کی اجرت کیا ہے، جس نے اپنی مزدوری پوری کرلی؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری جزا اور اُجرت ملنی چاہیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے فرشتو! تم گواہ رہو، میں نے امتِ محمدﷺ کے روزے داروں کو اجرت دے دی، یعنی روزے داروں کو بخش دیا۔احادیثِ مبارکہ میں بھی شب عید (لیلۃ الجائزہ) کی بڑی فضیلت آئی ہے۔

حضرت ابوہریرة رضي الله عنه  سے روایت ہے کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں۔١٭ یہ کہ ان کے (روزے دار کے) منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔٢٭ یہ کہ ان کے (روزے دار کے) لیے مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔٣٭ جنت ہر روز ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر میری طرف آئیں۔٤٭اس میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔٥٭رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا ’’کیا یہ شب مغفرت ’’شبِ قدر‘‘ ہے۔آپﷺ نے فرمایا، نہیں بلکہ (اللہ کا) دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہونے کے وقت اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔(مسند احمد، بزار،بیہقی)

لیلۃ الجائزہ یعنی شب عیدالفطر خصوصیت سے عبادت میں مشغول رہنے کی ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: 《من قام ليلتي العيدين محتسبا لله لم يمت قلبه يوم تموت القلوب》جو شخص ثواب کی نیت (یقین) کرکے دونوں عیدوں (عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ) میں جاگے (اور عبادت میں مشغول رہے) اس کا دل اس دن نہ مرے گا (مُردہ نہ ہوگا) جس دن سب کے دل مرجائیں گے (یعنی فتنہ و فساد کے وقت اور قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک دن میں یہ محفوظ رہے گا) (ابن ماجہ رقم الحدیث: ١٧٨٢ )اگرچہ حدیث ضعیف ہے مگر طبرانی وغیرہ کی دوسری روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں جو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ :  لَيْلَةَ التَّرْوِيَة، وَلَيْلَةَ عَرَفَةَ، وَلَيْلَةَ النَّحْرِ، ولَيْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.

 منذری، الترغيب والترهيب،(١٨٢/١) 
: ’’جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کے لیے) جاگا۔ اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی (وہ پانچ راتیں یہ ہیں(1) (لیلۃ الترویہ (8 ذی الحجہ کی رات) (2) لیلۃ العرفہ (عرفہ 9 ذی الحجہ کی رات) (3) لیلۃ النحر (10) ذی الحجہ، عیدالاضحیٰ کی رات) (4) لیلۃ الجائزہ (عیدالفطر کی رات) (5) شب برأت (پندرہویں شعبان کی رات) 

یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ہمارے اسلافؒ ان راتوں کی قدر فرماتے تھے اور اس میں عبادت،ذکر و اذکار اور دعا و مناجات کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ۔فقہاء نے بھی عیدین کی راتوں میں جاگنا مستحب لکھا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ ’’پانچ راتیں‘‘ دعا کی قبولیت کی ہیں، جن میں شب جمعہ اور عیدین کی راتیں بھی ہیں۔

"لیلۃ الجائزة" اللہ رب العزت کے خصوصی فضل و کرم کی بڑی عظمت و فضیلت والی رات ہے، جو اللہ تعالیٰ کے طرف سے امت محمدیہ علی صاحبها الصلاة والسلام کو ایک خصوصی تحفہ ہے جس کی اس کے بندوں کو بے حد قدر کرنی چاہیے اور اس مبارک شب کے قیمتی اور بابرکت لمحات کو لا یعنی کاموں میں ضائع کرنے کے بجائے توبہ و مناجات، اللہ کے ذکر و اذکار،نوافل اور دعائوں میں بسر کیا جائے،عموماً لوگ اس رات میں شب بیداری کرکے عبادات کا کوئی اہتمام نہیں کرتے، جو بڑی محرومی کی علامت ہے،بلکہ اس رات کو سیرو تفریح، ہوٹلوں میں کھانے پینے، گانے سننے اور بازاروں میں خریداری کی نذر کردیتے ہیں، لہٰذا پوری کوشش کریں کہ یہ مبارک رات کسی بھی طرح ضائع نہ ہونے پائے۔

ہم نے مہینے بھر، رب کریم کے ساتھ جو تعلق استوار کرنے کی کوشش کی،اسے اللہ تعالیٰ سے معافی، بخشش، مغفرت اور جہنم سے آزادی کے پروانے حاصل کرنے میں صرف کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مہینے بھر کی ہماری محنت اور جدوجہد جوکہ ہم نے اپنے رب سے اپنے ٹوٹے ہوئے رشتے کو استوار کرنے میں صرف کی اور اب جب کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہورہا ہے،اپنے مومن بندوں اور بندیوں پر انعامات کی بارش برسانے والا ہے،ہمارے کسی معمولی نافرمانی والے عمل سے خدا نخواستہ ضائع ہوجائے، لہٰذا شب عیدالفطر کو اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت و سلامتی ، مغفرت اور رحمت طلب کرتے ہوئے خوب یادِ الٰہی میں گزارنا چاہیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے