آسمان علم کا نیر تاباں غروب ھوگیا


آسمان علم کا نیر تاباں غروب ھوگیا


مفتی عفان منصورپوری

     مشفق استاذ محترم ، مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز شیخ الحدیث و صدر المدرسین ، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری نور اللہ مرقدہ دنیائے فانی کو الوداع کہکر اپنے مزاج کے مطابق شان بے نیازی کے ساتھ جوار رحمت الٰہی میں پہنچ چکے ھیں ، تاریخ تھی 25 / رمضان المبارک 1441ھ بوقت چاشت بروز منگل ،  یہ اتفاق نہیں بلکہ نظام قدرت ھے کہ سعید روح کے پرواز ھونے کے لئے مالک دو جہاں نےاس  ماہ مبارک " رمضان " کے آخری عشرے کے لمحات کا انتخاب کیا ھوا تھا  جس میں آخری سانس لینا اھل ایمان کے لئے اعلی درجہ کی سعادت و خوش بختی اور علامت قبولیت ھے ، طبیعت تو پہلے بھی متعدد مرتبہ تشویشناک حد تک آپ کی خراب ھوئی لیکن اللہ پاک کے خصوصی فضل و کرم اور بے شمار چاھنے والوں کی دعاؤں کی برکت سے پھر ایسے صحتیاب ھوئے کہ معمول کے مطابق درس و تدریس وعظ و نصیحت اور فیض رسانی کا سلسلہ جاری فرمادیا ، اس مرتبہ بھی حضرت الاستاذ کی طبیعت کی ناسازی کا علم ھوا تو مجھ جیسے نہ جانے کتنے شاگردوں نے دعاؤں کا سلسلہ شروع کیا اور یہ امید کرتے رھے کہ انشاء اللہ چند روز میں حضرت رو بصحت ھوجائیں گے اور پھر علوم ومعارف کے موتی بکھیرنے شروع کریں گے لیکن تقدیر تدبیر پر غالب آئی اور اس مرتبہ ایسا نہ ھوا چند روز کی شدید علالت کے بعد آپ غریب الوطنی کی حالت میں ( جو بجائے خود مقام سعادت و شھادت ھے ) عروس البلاد ممبئی کے ایک شفاخانے میں  واصل بحق ہوگئے اور پھر وصیت کے مطابق مقامی قبرستان ھی میں آسودہ خواب ھوئے  انا للہ وانا الیہ راجعون۔

   حضرت الاستاذ کے  انتقال پر ملال  کو دو دن گزر چکے ھیں لیکن طبیعت ایسی مغموم اور بجھی ھوئی ھے کہ نہ کچھ کہا جارھا ھے نہ لکھا جارھا ھے ، یادوں کا ایک سلسلہ ھے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا ، آپ کا مخصوص لب و لہجہ ، خوبصورت و منفرد اور دلنشیں انداز بیان ، جاذب نظر خط اور تحریر ، ھر چیز کو بہت اھتمام اور اھمیت کے ساتھ ذکر کرنا ، قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی عام فہم تشریح ، اردو و عربی قواعد و محاورات کی بہترین وضاحت اور اس طرح کی بہت سی ایسی خصوصیات ھیں جو ذھن ودماغ میں ایسی نقش ھوچکی ھیں کہ مٹائے نہیں مٹ سکتیں ۔

    بلاشبہ آپ ایک قابل فخر ، صاحب طرز ، کہنہ مشق ، طلبہ کی نفسیات کو سمجھنے والےایک کامل استاذ تھے ، خوش نصیب ھیں وہ تمام حضرات جن کو حضرت کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا موقع میسر ھوا .

     آپ صرف استاذ نہیں بلکہ استاذ گر تھے ، آپ سے پڑھنے والا پڑھانا سیکھ جاتا تھا نہ جانے کتنے شاگردوں نے آپ کے اسلوب کو اخذ کرکے اپنی تدریس کے انداز میں نکھار پیدا کیا ھوگا ، بھر پور توجہ کے ساتھ تمام طلبہ پر نگاہ رکھتے ھوئے ایسی سبک رفتاری سے کلام فرماتے  کہ لکھنے والا بآسانی آپ کی تقریر کو قلمبند کرلیتا اور ھر طالب علم گوش بر آواز ھوتا ،  امثلہ و نظائر کے ذریعہ مسئلہ کو سمجھاتے اور درمیان میں ایسے لطائف بھی سناتے یا ایسے جملے بولتے جس سے مجلس درس زعفران زار ھوجاتی اور نئی تازگی محسوس ھوتی ، سبق میں شروع سے اخیر تک دلچسپی ایسی برقرار رھتی کہ مجال ھے کہ کوئی طالب علم غافل ھوجائے یا بے توجہی کا مظاھرہ کرنے لگے ۔

     ھم نے بھی سنن ترمذی کے تقریبا تمام دروس بالاستیعاب ضبط کئے پھر تکرار کے موقع پر اور بعد میں تدریس کے وقت کاپی پر ایک نگاہ ڈالنے سے غیر معمولی فائدہ محسوس ھوا ۔
     تفھیم کے تو آپ بادشاہ تھے ، پیچیدہ سے پیچیدہ مباحث کو دلنشیں پیرایہ میں اس طرح پیش کرنا کہ غبی سے غبی طالب علم بھی مطمئن ھوجائے خدا کی طرف سے عطاء کردہ آپ کا وہ امتیاز تھا جس کا ھر شخص قائل اور معترف ھے ۔

     ھمیں حضرت الاستاذ سے سنن ترمذی اور شرح معانی الآثار پڑھنے کا موقع ملا ، صبح کے تیسرے گھنٹے میں اور مغرب کے بعد آپ کا درس ھوتا تھا ، محلہ بیرون کوٹلہ میں جو دارالعلوم سے خاصے فاصلے پر واقع ھے آپ کا مکان تھا وھاں سے پیدل بڑی پابندی کے ساتھ بروقت درس میں تشریف لایا کرتے تھے اور شروع ھی میں طلبہ کو یہ ھدایت فرمادی تھی کہ میرے آنے کے بعد کسی طالب علم کا درسگاہ میں آنا جرم ھوگا ، چنانچہ طلبہ اس کا بھرپور خیال بھی کرتے اور آپ کے آنے سے پہلے درسگاہ کھچاکھچ بھر جاتی ، اگر کبھی اتفاق سے آپ تشریف لائے اور طلبہ کی تعداد کم محسوس ھوئی تو ناراضگی کا اظہار فرماتے ھوئے واپس تشریف لے جاتے اور خاص طور سے ترجمان سے جواب طلب فرماتے  ، یہ مرحلہ طلبہ کے لئے بڑی تشویش اور فکر کا باعث بن جاتا تھا ، عصر کی نماز کے بعد طلبہ ڈرتے ڈرتے آپ کے گھر مجلس میں حاضر ھوتے غلطی پر نادم ھوتے ، معافی طلب کرتے ، آئندہ پابندی کے ساتھ حاضری کا عہد کرتے تو دوچار تنبیہی جملے کہکر  معاف فرما دیتے اور اگلے وقت تشریف لے آتے ، آپ کے اس عمل کا یہ اثر ھوتا کہ پھر طلبہ وقت سے پہلے درسگاہ میں موجود دکھائی دیتے ۔

    ھمارے سال بھی ایک مرتبہ ایسا ھی واقعہ پیش آیا ھم لوگ عصر کے بعد حاضر خدمت ھوئے ، معافی مانگی فرمانے لگے کہ تم لوگ کیوں آئے ، تمہاری وجہ سے میں واپس تھوڑا ھی آیا تھا ، جاؤ ان ھی طلبہ کو  بھیجو جو درس گاہ میں موجود نہیں تھے ، احساس تو ان کو ھونا چاھئے ، چنانچہ پھر طلبہ کی ایک بڑی جماعت حاضر ھوئی حضرت اولا ناراض ھوئے فرمایا میں اتنی دور سے تیاری کرکے محنت کرکے سبق پڑھانے جاتا ھوں اور تم لوگ غائب رھتے ھو پھر اسباق میں پابندی سے حاضری کی تاکید فرمائی ،اسکے فوائد و برکات بتائے اور پھر شفقت فرماتے ھوئے معاف فرمایا اور اگلے دن سلسلہ درس کا آغاز فرمادیا ۔

     ابتدائے سال میں مبادیات حدیث ، علوم حدیث ، مقام سنن ترمذی اور امام ترمذی کی مخصوص اصطلاحات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے جو کئی کئی روز تک مسلسل جاری رھتی ۔

    آپ کے سبق میں عبارت خوانی کا مرحلہ بھی بڑا اھم ھوتا تھا ، ھر طالب علم اس کی ھمت نہیں کرپاتا تھا ، آپ باقاعدہ گھر بلاکر عبارت خوانی کے خواہشمند طلبہ کا امتحان لیتے اور پھر چند طلبہ کو سال بھر عبارت خوانی کے لئے متعین فرمادیتے ، اطمینان کے ساتھ صاف صاف ، متوسط آواز میں ، صحیح عبارت پڑھنے کی تاکید فرماتے ، آواز تھوڑی بھی تیز ھوتی تو حضرت کو ناگوار گزرتی ، ٹوکتے اور فرماتے مائک دور کرکے پڑھو ، اعراب کی غلطیاں اگر آنے لگتیں تو عبارت خواں تبدیل فرمادیتے یا خود پڑھنا شروع فرمادیتے اس لئے عبارت خواں طلبہ بھرپور تیاری کرکے ھی سامنے آتے تھے ۔

     ھمیں بھی الحمدللہ کتاب کے معتد بہ حصہ کی عبارت پڑھنے کا موقع ملا ایک دفعہ پڑھتے ھوئے بار بار گلا صاف کرنے کے لئے کھنکھارنے کی نوبت آئی تو مجھے مخاطب کرکے فرمانے لگے : سنو ! سب طلبہ متوجہ ھو گئے تو ارشاد فرمایا کل سے چمچہ لیکر آیا کرو اور جہاں آواز پھنسے گلے میں چلا لیا کرو ، سب ھنسنے لگے حضرت بھی متبسم ھوئے اور فرمایا چلو آ گے پڑھو ۔

     مغرب کے بعد تشریف لاتے تو باضابطہ سبق کا آغاز کرنے سے پہلے حفظ احادیث کی غرض سے ایک مختصر حدیث لکھواتے اور تین مرتبہ اس کو اجتماعی طور پرکہلواتے ۔

   شروع سال سے اخیر تک آپ کا انداز تدریس بلکل یکساں رھتا اواخر سال میں بھی اسی بسط و تفصیل کے ساتھ اطمینان سے پڑھاتے رھتے جس انداز سے شروع میں پڑھاتے ، سب کے اسباق بند ھوجاتے اور آپ کے اسباق کا سلسلہ امتحان کے قریب تک جاری رھتا ، کتاب کی تکمیل کے موقع پر آپ کی الوداعی نصیحت بھی بہت اھم ھوتی تھی جس کا طلبہ کو اشتیاق رھتا تھا اور جب آپ دعاء کے لئے ھاتھ اٹھاتے تھے تو طلبہ کی روتے روتے یہ سوچ ہچکیاں بندھ جاتی تھیں کہ اب حضرت کی مجلس درس میں حاضری کا سلسلہ منقطع ھوجائیگا ۔

     طلبہ کے درمیان مقبول ترین اساتذہ میں آپ کا شمار تھا ، آپ کے شخصی رعب ، علمی مقام اور وجاھت کی وجہ سے طلبہ اگرچہ آپ سے بے تکلفانہ گفتگو نہیں کرپاتے تھے لیکن دل سے محبت اور قدر بہت کرتے تھے ۔

    سب سے اھم بات یہ ھے کہ حضرت الاستاذ نے یہ علمی تفوق ، رفعت مقام ، اور لوگوں کے دلوں پر دھاک کسی بےساکھی کے ذریعہ حاصل نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے صرف اور صرف اللہ کا فضل وکرم اور حضرت کی مقصد کے تئیں جفاکشی ، وقت کا صحیح استعمال اور بے پناہ محنت و جدوجہد ھے ، جاننے والے جانتے ھیں کہ دور طالب علمی سے لیکر زمانہ تدریس تک کیسے کٹھن اور صبر آزما حالات کا آپ نے خندہ پیشانی اور جذبہ شکر کے ساتھ مقابلہ کیا لیکن اپنی علمی سرگرمیوں پر آنچ نہ آنے دی یہ رتبہ بلند اور علمی دنیا میں آپ کا سکہ اسی جھد مسلسل اور قربانی کا نتیجہ ھے ۔

     حضرت الاستاذ سے پڑھنے کا موقع تو ھمیں دورہ حدیث میں ملا لیکن شعور کی آنکھیں کھولنے کے بعد ھی سے ھم نے حضرت الاستاذ کا نام سنا کیونکہ محلہ بیرون کوٹلہ میں جہاں آپ کی رھائش تھی اسی کے پڑوس میں حضرت والد محترم دامت برکاتہم کے ساتھ ھم لوگوں کی بھی سکونت تھی ، کچھ بڑے ھوئے تو بعد عصر آپ کی مجلس میں حاضری کا بھی موقع ملنے لگا ، پھر تو قرب وتعلق اور عقیدت بڑھتی ھی چلی گئی۔

    کتابیں اور علمی اشتغال آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا ، مزاج میں یکسوئی اور زندگی میں انتھائی سادگی تھی ، شھر میں زیادہ لوگوں سے آپ کے راہ و رسم نہیں تھے اور علمی اشتغال کی وجہ سے آپ کے پاس اس کا موقع بھی نہیں تھا ، جب بھی خدمت میں حاضری ھوتی کچھ پڑھتے ھوئے ، پڑھاتے ھوئے ، لکھتے ھوئے ، سنتے ھوئے یا نصیحت کرتے ھوئے ملتے ، عصر کے بعد عمومی مجلس ھوتی اس میں طلبہ آپ کے سر پر تیل رکھتے ،  کچھ پوچھتے تو آپ تسلی سے جواب مرحمت فرماتے ، دیر تک خاموشی رھتی تو خود فرماتے کچھ سوال کرو خاموش کیوں بیٹھے ھو ، یہاں آیا کرو تو سوال سوچ کے آیا کرو ۔

     فرق باطلہ کا تعاقب ، مسلک حق کی ترجمانی ،  منکرات پر برملا نکیر اپنے موقف پر خلوص نیت کے ساتھ جماؤ یہ چیزیں آپ کے مزاج کا حصہ تھیں ۔

    دیوبند جانا ھوتا تو حضرت الاستاذ سے ملاقات کے لئے حاضری ھوتی ، بڑی محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے ، اسباق کی تفصیلات معلوم کرتے دعائیں دیتے ، مدرسہ کے احوال دریافت فرماتے ،کوئی نئی کتاب چھپ کر آتی تو عنایت فرماتے مزید دونسخے دیتے اور فرماتے کہ یہ مفتی سلمان کو دینا وہ اس پر ندائے شاھی میں تبصرہ لکھدیں گے ، ندائے شاھی کا بھی پابندی سے مطالعہ فرماتے رسالہ اکثر آپ کی تپائی پر دکھائی دیتا ، بارھا فرمایا کہ تمھارا مضمون پڑھا اچھا تھا لکھتے رھو ایک مرتبہ فرمایا کہ تمہارا اور مفتی سلمان کا مضمون ضرور پڑھتا ھوں ۔

   مدرسہ عربیہ اعزاز العلوم ویٹ کے جلسہ سالانہ میں اکثر و بیشتر حضرت کی شرکت ھوتی تھی ، چند سال قبل ایسا اتفاق ھوا کہ حضرت اسٹیج پر تشریف فرما تھے اور آخری خطاب آپ کا ھونا تھا ، حضرت مولانا قاری شوکت علی صاحب زید مجدہ کا حکم تھا کہ تجھے بھی کچھ کہنا ھے اس کے بعد حضرت بیان فرمائیں گے ، میری ھمت بالکل نہیں ھورھی تھی ، میں نے عرض کیا حضرت آپ بیان فرمادیں ، آپ کی موجودگی میں ھم کچھ نہیں بول سکتے ، حکما فرمایا کہ بیان کرو میں بیٹھا ھوں جب تک ایسے نہیں بولوگے تو بیان کرنا کیسے آئیگا ۔

    مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروھہ سے آپ کا تعلق بہت گہرا اور پرانا تھا ، آپ مدرسہ کی مجلسِ شوریٰ کے ممبر بھی تھے اور پچھلے چند سالوں تک مسلسل ختم بخاری کے لئے تشریف بھی لاتے ، مدرسہ کے سابق مھتمم حضرت مولانا محمد قاسم صاحب علیہ الرحمہ سے آپ کی دیرینہ رفاقت تھی جس کو آپنے اخیر تک بخوبی نبھایا ۔
     چند ماہ بیشتر آپ کے صاحبزادہ گرامی کا انتقال ھوا تو مدرسہ کے ذمے داران کے ھمراہ آپ کی خدمت میں حاضری ھوئی ، جاتے ھوئے پوچھا کیوں آئے ھو ھم نے مرحوم صاحبزادے کا تذکرہ شروع ھی کیا تھا تو فرمانے لگے " جو گیا وہ سپنا اور جو رھا وہ اپنا " اللہ کو جو منظور تھا وہ ھوگیا ، بس جانے والوں کے لئے دعاء کرتے رھو ، پھر تعزیت کے مروجہ طریقہ کے عدم ثبوت پر گفتگو فرماتے رھے ، کچھ دیر کے بعد ھم نے عرض کیا کہ حضرت کئی سال سے آپ کی تشریف آوری مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں نہیں ہوسکی ھے اس سال تشریف لے آئیں ، مسکراتے ھوئے فرمانے لگے  " اب اس نے موضوع بدل لیا  حالانکہ آیا تھا یہ تعزیت ھی کے لئے " پھر فرمایا کہ جلسہ کی تاریخ کے لئے رجب کے شروع میں ملنا ، پھر ملاقات ھوئی تو کمزوری اور طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے معذرت فرمالی ۔

    حضرت الاستاذ کی شخصیت پر لکھنے کے بہت سے پہلو ھیں جن پر لکھنے والے انشاء اللہ خوب اور بہت خوب لکھیں گے یہ تو بروقت بے ترتیب کچھ تاثراتی سطور ایک ادنی شاگرد کی طرف سے حضرت الاستاذ کے لئے خراج عقیدت کے طور پر قلمبند کردی گئی ھیں ۔

   اس موقعہ پر ھم استاذ مکرم کے اھل خانہ بالخصوص آپ کے برادر گرامی استاذنا حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری مد ظلہ اور آپ کے جملہ صاحبزادگان واولاد واحفاد کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ھیں اور دعاء گو ھیں کہ اللہ پاک ھمارے حضرت کی مغفرت تامہ فرمائیں ، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائیں ، آپ کی زریں و سنہری دینی خدمات کا اپنی شایان بدلہ مرحمت فرمائیں اور مادر علمی دارالعلوم دیوبند کو آپ کا نعم البدل عطاء فرمائیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے