خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح : اٹھائیسواں پارہ اٹھائیسویں تراویح

خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح : اٹھائیسواں پارہ اٹھائیسویں تراویح

۲۸ پارہ
سورۃ المجادلہ:
سورہ مجادلہ مدنی ہے، اس میں۲۲ آیات اور۳ رکوع ہیں، اس سورت میں میں عام مدنی سورتوں کی طرح شرعی احکام کا بیان اور منافقین کا تذکرہ ہے، اس سورت کی ابتدا میں حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے واقعے کی طرف اشارہ ہے جو اپنے شوہر حضرت اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آئی تھیں جنہوں نے ان سے ظہار کرلیا تھا اور شکایت کا انداز ایسا تھا گویا کہ وہ جھگڑ رہی ہیں، اس لیے انہیں مجادلہ "جھگڑنے والی" کہا گیا، اس سورت کا نام بھی اس واقعے کے پس منظر میں مجادلہ قرار پایا، زمانہ جاہلیت میں ظہار (اپنی بیوی کو ماں کی طرح حرام قرار دینا) طلاق کے حکم میں تھا تھا اور اس کی وجہ سے بیوی شوہر پر  ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی تھی قرآن نے اس حرمت کی ایک حد مقرر کردی جو کہ کفارہ دینے سے ختم ہوجاتی ہے۔(۱،۴) 
سورہ مجادلہ کے دوسرے اہم مضامین درج ذیل ہیں:
 ۱) یہ سورت سرگوشی کا حکم بیان کرتی ہے یعنی اگر دو یا زیادہ شخص دوسرے لوگوں کے سامنے ایک دوسرے کے کان میں بات چیت شروع کر دیں تو اس کا کیا حکم ہے جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو تین افراد کی صورت میں دو کی سرگوشی کو آداب مجلس کے خلاف قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے تیسرے کے دل میں یہ بدگمانی آسکتی ہے کہ شاید دونوں میرے بارے میں کوئی خفیہ بات کر رہے ہیں لیکن یہاں جس سرگوشی سے منع کیا جارہا ہے وہ یہود کی عادت تھی اور محض مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے آپس میں کانا پھونسی کیا کرتے تھے یوں ہی جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے تو منہ بگاڑ کر "اسام علیکم یاابالقاسم" کہا کرتے تھے ان آیات میں ان قبیح حرکات پر ان کی مذمت کی گئی ہے البتہ ایسی سرگوشیوں اور خفیہ مشوروں کی اجازت دی گئی ہے جو نیکی اور تقوی کے بارے میں ہوں۔
۲) اجتماعی آداب میں سے مجلس کا ادب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب تمہیں مجلس میں وسعت پیدا کرنے کے لیے کہا جائے تو وسعت پیدا کر دیا کرو اورا گرتمہیںمجلس سے اٹھ جانے کے لیے کہا جائے اٹھ جایا کرو(۱۱) یہ حکم صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر باوقار ملج کے لیے ہے جو دین کے کسی بھی شعبہ کے سلسلہ میں منعقد ہوئی ہو لیکن یہ کوئی فرض اور واجب نہیں ہے بلکہ صرف مستحب ہے، جو پہلے سے مسجد میں یا کسی اور مجلس میں بیٹھا ہو، وہ اس جگہ بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہوتا ہے البتہ اسے چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو بعد میں آنے والے مسلمان بھائی کے لیے وسعت پیدا کر دے۔
یہ سورت ان منافقوں کا بھی تذکرہ کرتی ہے، جو یہود سے دوستی بھی رکھتے تھے اور اپنے مومن ہونے پر قسمیں بھی کھاتے تھے، ان کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں حزب الشیطان (شیطان کی جماعت) قرار دیا ہے، جو کسی صورت بھی اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کے ساتھ دوست نہیں رکھتے خواہ وہ ان کے ماں باپ، بیٹے، بھائی اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں، ان سعادت مندوں کے لیے اللہ نے چار نعمتوں کا اعلان فرمایا ہے:
پہلی یہ کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو جماد یا ہے۔ 
دوسری یہ کہ ان کی میں مدد کی جائے گی۔ 
تیسری یہ کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔
چوتھی یہ کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا ہے اور وہ بھی اللہ کی نعمتوں اور عطا پر راضی ہو گئے ۔ (۱۴۔۲۲)
 سورۃ الحشر:
سورۂ حشر مدنی ہے، اس میں ۲۴ آیات اور ۳ رکوع ہیں ، اس سورت کے اہم مضامین درج ذیل ہیں :
۱]  ابتدا میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس اور حمد و ثنا بیان کرتی ہے اور اس کی وحدانیت اور قدرت و جلال کی گواہی دیتی ہے۔


۲]  پھر یہ سورت قدرت الٰہیہ کے بعض آثار اور زندہ دلائل کا تذکرہ کرتی ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہود جو کہ عرصہ دراز سےیثرب میں قیام پذیر تھے انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے بڑےمضبوط قلعے تعمیر کر رکھے تھے ، معاشی وسائل پوری طرح ان کے قبضے میں تھے، یثرب والوں کو انہوں نے سودی قرضوں کی سنہری زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اور ان کا خیال یہ تھا کہ کوئی بھی ہمیں یہاں سے نہیں نکال سکتا لیکن ان کے اپنے ہی کرتوتوں کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آ کر رہا اور انہیں دوبارہ حشر کا سامنا کرناپڑا ( حشرجمع اور اخراج کے معنی میں ہے ) حشر اول میںانہیں مدینہ منورہ سے شام کی طرف دھکیل دیا گیا اور حشر ثانی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خیبر سے شام کی طرف چلے جانے پر مجبور کر دیا۔ یہود کا مدینہ  اور خیبر سے نکل جانا ایک ایسا واقعہ تھاکہ یہود کا تو کیا خود مسلمانوں کے لیے قطعی طور پر غیر متوقع تھا، ان کی معاشی خوشحالی، دفاعی انتظامات اور مضبوط جماعتی نظم کی وجہ سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انہیں بصد ذلت و خواری مدینہ منورہ اور خیبر سے نکلنا پڑے گا لیکن اللہ نے جب انہیں ان کی عہد شکنی ، تکذیب و انکار، تکبر اور سرکشی کی وجہ سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا تو ظاہری اسباب ان کے کسی کام نہ آئے اور الله کا فیصلہ وقوع پذیر ہو کر ر ہا۔ (۲،۵)
۳]  جب یہود کے قبیلہ بنونضیر کو مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا تو بہت سارا مال غنیمت مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا، جو مال غنیمت قتل وقتال کے بغیر ہاتھ آجائے اسے اصطلاح میں مال ’’فی‘‘ کہتے ہیں، اس مال فی ٔ کے بارے میں حکم دیا گیا کہ اس میں مجاہدین میں سے کسی کا حق نہیں بلکہ اس کی تقسیم کا اختیار اللہ کے نبی کو ہے۔ وہ اسے فقراء ضعفاء، مساکین، حاجتمندوں اور قرابتداروں میں تقسیم کریں گے، یہاں اگر چہ مسئلہ تو مال فیٔ کی تقسیم کا بیان ہورہا ہے۔ لیکن اس کے ضمن میں اسلامی اقتصادیات کا ایک اہم فلسفہ بھی بیان کر دیا گیا ہے وہ یہ کہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ دولت چنداغنیاء کے ہاتھوں میں گردش کرتی رہے بلکہ اسلام اس کا ایک طریقے سے پھیلاؤ چاہتا ہے کہ سوسائٹی کا کوئی فرد اور کوئی طبقہ بھی محروم نہ رہے ۔ زکوٰۃ ، صدقات، میراث اورخمس وغیرہ کی تقسیم میں یہی فکر کارفرما ہے، اقتصادیات کے اس عظیم فلسفہ کے علا وہ قانون سازی کے منبع اور مصدر کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے وہ یہ کہ: ’’جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو(۷)
وہ تمام قوانین اور مسائل و احکام جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کی طرف سے لے کر آئے ان کی اتباع واجب ہے خواہ وہ قرآن کی صورت میں ہوں یا سنت صحیحہ کی صورت میں، کتاب و سنت کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی قسم کی قانون سازی جائز نہیں ۔
۴]  سورہ حشر جہاں ایک طرف اللہ کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دینے والے مہاجرین اور انصار اور ان کی اتباع کرنے والے قیامت تک کے مسلمانوں کی تعریف کرتی ہے، وہیں ان منافقوں کی مذمت بھی کرتی ہے، جو یہود کو برے وقت میں اپنے تعاون کا یقین دلاتے رہتے تھے، اللہ فرماتے ہیں ان دونوں گروہوں ( یہود اور منافقوں) کا انجام یہ ہو گا کہ دونوں دوزخ میں داخل ہونگے ، اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔(۹،۱۷)
سورہ حشر کے آخری رکوع میں ایمان والوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم ہے، انہیں سمجھایا گیا کہ تم ان یہود و نصاری کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے حقوق الله کو بھلا دیا، جس کی پاداش میں اللہ نے خود ان کی ذات کے حقوق بھی بھلا دیے اور وہ آخرت کو بھول کر حیوانوں کی طرح نفسانی خواہشات کی تکمیل ہی میں لگے رہے۔ علاوہ ازیں اہل ایمان کو کتاب اللہ کی عظمت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے فرمایا گیا کہ اگر اللہ پہاڑوں کو عقل وشعور عطا فرما دیا اور پھر ان پر قرآن نازل کر دیا تو وہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتے ، افسوس ہے انسان پر کہ وہ اس بے مثال کلام کی عظمت سے ناواقف ہے اور اس کے حقوق ادا نہیں کرتا۔ سورت کے اختتام پر اسماء حسنیٰ کے ضمن میں اللہ کی عظمت اور کبریائی کا بیان ہے اور آخر میں وہی الفاظ ہیں، جن سے اس سورت کا آغاز ہوا تھا یعنی یہ کہ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے ۔‘‘ (۱۸،۲۴)
 سورۃ الممتحنہ:



سور ممتحنہ مدنی ہے، اس میں ۱۳ آیات اور ۲ رکوع ہے، اس سورت کا ابتدائی حصہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوا جنہوں نے مشرکین مکہ کو ممنون احسان کرنے کے لیے خفیہ طریقے سے مکہ کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی اطلاع دینے کی کوشش کی تھی ، وہ بدری اور مخلص صحابی تھے مگر ان سے ایک ایسی حرکت ہوئی جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند تھی ، بعد میں انہیں اس پر سخت ندامت ہوئی، انہوں نے صدق دل سے توبہ کی جو کہ قبول کر لی گئی ۔ اس پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں جن میں ایمان والوں کو اللہ نے حکم دیا کہ کفار جو کہ میرے دشمن بھی ہیں اور تمہارے دشمن بھی ہیں انہیں دوست نہ بناؤ ! یہ وہ سنگدل لوگ ہیں، جنہوں نے مکہ کی سرزمین ایمان والوں پر تنگ کر دی اور انہیں وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا، آج بھی ان کے دلوں میں آتش غضب بھڑک رہی ہے اور انہیں مسلمانوں کو دکھ دینے اور نقصان پہنچانے کا جو بھی موقع ہاتھ آتا ہے اسے ضائع نہیں جانے دیتے خواہ وہ موقع ہاتھ چلانے کا ہو یا زبان چلانے کا یہ رشتے ناطے جنہیں تم بڑی چیز سمجھتے ہو اور قبول ایمان
کے باوجود ان کے مفادات کا خیال رکھتے ہو یہ قیامت کے دن تمہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دیں گے، وہاں باپ بیٹے اور بھائی بھائی کے درمیان جدائی کر دی جائے گی، جب ان رشتوں کا یہ حال ہےتو ان کی خاطر اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت کرنا اور جماعت اسلامیہ کے رازوں کا افشاء کہاں کی دانش مندی ہے، اس سوچ کی تا ئید اور تقویت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان کیاگیا ہے جنہوں نے اللہ کے لیے اپنی مشرک قوم سے برأت کا اعلان کر دیا تھا، ان کے نام لیواؤں پر بھی لازم ہے کہ وہ کسی سے محبت کریں تو صرف اللہ کے لیے اور دوری اختیار کریں تو صرف اللہ کے لیے (۱،۶)|
جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے مقاطعہ کا حکم دیا تو انہوں نے اس کی تعمیل میں دیر نہ کی ، باپ نے بیٹے سے اور بھائی نے بھائی سے تعلق ختم کر دیا، یوں ان کے ایمانی دعوؤں کی سچائی بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی لیکن خونی رشتے اور وطن ایسی چیزیں ہیں کہ ان کی طرف میلان اور ان کی محبت اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہے، اس لیے قرآن ان فطری جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک بشارت سناتا ہے اور ایک معاملہ کی اجازت دیتا ہے۔ بات تو یہ سنائی گئی کہ کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالیٰ تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے، الله قدرت والا ہے اور اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔
یعنی ہوسکتا ہے کہ تمہارے رشتہ داروں کو بھی ایمان قبول کرنے کی توفیق دے دی جائے یوں آج کے دشمن کل کے دوست بن جائیں ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بے شمار مشرکوں کو اسلام کی حقانیت کے سامنے گردن جھکانے کی توفیق ارزانی ہوئی ۔ (۷)
جس معاملہ کی اجازت دی گئی وہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے نہ تو قبول ایمان کی وجہ سے تمہارے ساتھ قتال کیا اور نہ ہی تمہیں گھروں سے نکا لا تم ان سے حسن سلوک کر سکتے ہو۔ (۸)|
اصل میں اسلام محبت اور سلامتی کا دین ہے، وہ محض دھونس جمانے اور کسی اعلیٰ مقصد کے بغیر ملک اور زمین ہتھیانے کے لیے جنگ کی اجازت نہیں دیتا، وہ ان غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور تعاون کی تلقین کرتا ہے جو جنگ کو نا پسند کرتے ہوں اور امن کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہوں ۔
سورہ ممتحنہ ان خواتین کے بارے میں بھی رہنمائی کرتی ہے جو ایمان قبول کرنے کے بعد ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئی تھیں ، ان کے بارے میں حکم دیا گیا کہ ان کا امتحان لے لو اور انہیں اچھی طرح جان لو کہ آیا واقعی انہوں نے ایمان کی خاطر ہجرت کی ہے۔ اگر ہمیں ان کے ایمان پر اطمینان ہوجائے تو پھر انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو (امتحان کا ذکر آنے کی وجہ سے اس سورت کو ممتحنہ کہا جا تا ہے ) مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت نازل ہوا جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین دشمن ’’عقبہ بن ابی معیط‘‘ کی بیٹی ام کلثوم رضی الله عنہن ہجرت فرما کر مدینہ منورہ آئیں اور ان کا والد معاہد ہ حدیبیہ کے پیش نظر انہیں واپس لانے کے لیے مدینہ پہنچا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ کہہ کر خالی ہاتھ واپس لوٹا دیا کہ ہمارا معاہدہ صرف ایمان لانے والے مردوں کے بارے میں تھا خواتین کے بارے میں نہیں تھا۔ اس سورت کی آخری آیت میں دوبارہ تاکید کی گئی ہے، اے مسلمانو!تم اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے جو آخرت سے اس طرح مایوس ہیں جیسے کہ قبر والوں سے کافر مایوس ہیں ۔
 سورۃ الصف:

سورہ صف مدنی ہے، اس میں ۱۴ آیات اور ۲ رکوع ہیں ، اس سورت کا موضوع جہاد وقتال ہے، اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرنے کے بعد مسلمانوں کوسختی سے تنبیہ کی گئیہے کہ وہ اپنے عہد کی پابندی کیا کریں اور جو کچھ زبان سے کہیں اسے کر کے بھی دکھائیں، پھر یہ سورت مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے امت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ اور دشمنوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط اور متحد ہو کر کھڑے ہونے کی تلقین کرتی۔(۱،۴)
اس کے بعد بنی اسرائیل کا تذکرہ کرتی ہے جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس وقت مخالفت کی جب آپ نے انہیں قوم عمالقہ کے ساتھ جہاد کا حکم دیا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت سنائی تھی اور اس کی اتباع کا حکم دیا تھا، بنی اسرائیل نے اس حکم کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ (۲۵)
یہ سورت یہ بشارت بھی سناتی ہے کہ دین اسلام سارے ادیان پر غالب آ کر رہے گا، حجت اور دلیل کے میدان میں تو اسے اول روز ہی سے غلبہ حاصل ہے، مادی ، سیاسی اور ظاہری اعتبار سے بھی وہ دن دورنہیں جب اسلام پوری دنیا پر غالب ضرور آئے گا۔ (۹)
اگلی آیات میں سورۂ صف مسلمانوں کو ایک ایسی تجارت کی دعوت دیتی ہے جس میں خسارہ کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس تجارت کا دوسرا فریق وہ اللہ ہے جس کے ساتھ معاملہ کرنے والا کبھی نقصان میں نہیں رہتا، وہ تجارت ہے اللہ اور رسول پر ایمان اور اللہ کی رضا کے لیے مال و جان کے ساتھ جہاد ، اور اس کا متوقع نفع ہے، گناہوں کی مغفرت، جنت میں داخلہ، اللہ کی مدد اور دنیائے کفر پر غلبہ، کاش! مادی تجارت اور دنیاوی نفع نقصان میں ڈوبے ہوئے مسلمان یہ تجارت بھی کر کے دیکھ لیں تا کہ ان کی ذلت ، عزت میں اور مغلوبیت ، غلبہ میں تبدیل ہو جائے ، سورت کے اختتام پر اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ تم اللہ کے دین کی دعوت اور مدد کے لیے ایسے ہی کھڑے ہو جاؤ جیسے حواری اپنے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ سورت کی ابتدا میں خالی خولی باتیں کرنے اور کھوکھلے نعرے لگانے سے منع کیا گیا تھا اور اختتام پر دین الٰہی کی نصرت کے لیے کمر بستہ ہونے اور کچھ کر دکھانے کا حکم دیا گیا ہے، یوں اس کی ابتدا اور انتہا میں پوری مناسبت پائی جاتی ہے۔ 
سورۃ الجمعہ:
سورۂ جمعہ مدنی ہے، اس میں ۱۱ آیات اور ۲ رکوع ہیں، اس سورت کا شور جس پرپوری سورت گھومتی ہے، اس بار امانت کو بیان کرنا ہے، جسے پہلے بنی اسرائیل کے کندھوں پر رکھا گیا لیکن وہ اس کا حق ادا نہ کرسکے اور ان کی مثال اس گدھے کی سی ہوئی جس پر بڑی متبرک اور علمی کتابوں کا بوجھ لا دیا گیا ہو، اس بوجھ سے اس کی کمر جھکی جارہی ہو۔ لیکن ان کتابوں میں جو علوم و معارف اور جواہر واسرار ہیں ، ان سے وہ قطعاً بے خبر ہو اور نہ ہی ان سے اسے فائدہ حاصل ہورہا ہو، سورۂ جمعہ کا آغاز ہوتا ہے اللہ کی تسبیح وتحمید کے بیان سے اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور بعثت کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں ۔ یعنی تلاوت کتاب ، تزکیہ اور تعلیم کتاب وحکمت(۱،۳)
پھر یہود کا تذکرہ ہے جس میں وحی آ سمانی یعنی تو رات کے احکام پرعمل نہ کرنے کی وجہ سے انہیں گدھے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس پر مقدس کتابوں کا بوجھ لدا ہوا ہو اور انہیں مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے اگر واقعی وہ اولیاء اللہ ہیں تو پھر موت کی آرزو کر یں کیونکہ ’’اولیاء اللہ‘‘ کے لیے یہ جہاں تو قید خانہ ہے اور آخرت میں ان کے لیے نعمت وفرحت اور خوش عیشی کے ہزاروں سامان ہیں۔ ساتھ ہی پیشین گوئی بھی کردی گئی ہے کہ یہ موت کی آرزو کبھی بھی نہیں کریں گے۔ (۵ ،۷)
چنانچہ قرآن کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہو کر رہی ۔ سورت کے اختتام ہوتا ہے مومنوں پر نماز جمعہ کی فرضیت کے بیان سے ، انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اذان سنتے ہی ہر قسم کی تجارت اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو اور اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑا کرو، البتہ فارغ ہونے کے بعد انہیں دوبارہ کسب معاش میں لگ جانے کی اجازت ہے۔ (۸-۹)| 
سورۃ المنافقون:
سورہ منافقون مدنی ہے، اس میں ۱۱ آیات اور ۲رکوع ہیں، اس سورت میں منافقوں کے اخلاق، ان کے جھوٹ ، ان کی سیاہ کاریاں ، مسلمانوں کے لیے ان کے بغض و عناد اور ان کے ظاہر و باطن کے تضاد کو بیان کیا گیا ہے، یوں تو منافقوں کا مکروہ چہرہ اور قابل نفرت اوصاف کئی دوسری سورتوں میں بھی دکھائے گئے ہیں ۔ لیکن یہ سورت تو گویا صرف ان کی مذمت کے لیے مخصوص ہے ، سورت کی ابتدا ہوتی ہے منافقین کی صفات کے بیان سے جن میں نمایاں ترین صفات جھوٹ ، مکر ، دھوکا اور ظاہر و باطن کا تضاد تھا ان کے دلوں میں بھی تھا اور زبانوں پر بھی تھا۔ (۳،۱)

سورہ طلاق مدنی ہے، اس میں ۱۲ آیات اور۲ رکوع ہیں، مدنی سورتوں کے عمومی مزاج کی طرح اس سورت میں بھی بعض شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں ۔ خصوصاً وہ احکام جواز دواجی اور خاندانی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، طلاق کی اکثر اقسام اور ان پر مرتب ہونے والے عدت ، نفقہ اور سکنیٰ جیسے احکام اس سورت میں آ گئے ہیں ۔ سورت کی ابتدا میں طلاق کا شرعی طریقہ بتایا گیا ہے، مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے اور طلاق کے علاوہ کئی دوسرا راستہ باقی نہ رہے تو بیوی کو ایک طلاق رجعی دے کر چھوڑ دیں ، یہ طلاق ایسے طہر میں ہونی چاہیے جس میں بیوی کے ساتھ جماع نہ کیا ہو ، طلاق دینے کے بعداسے عدم ختم ہونے تک چھوڑ دیں، اسے ’’طلاق سنی‘‘ کہا جاتا ہے، یہ قیود وشرائط اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اللہ کی نظر میں طلاق انتہائی قابل نفرت عمل ہے اور اگر بعض استثنائی صورتوں کا معاملہ در پیش نہ ہوتا تو شریعت میں طلاق کی اجازت بھی نہ دی جاتی ۔ کیونکہ طلاق کی وجہ سے خاندان کی بنیادوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں جبکہ اسلام خاندانی نظام کے استحکام پر زور دیتا ہے۔ اس کے بعد سورہ طلاق وضاحت کے ساتھ مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کی عدت بتاتی ہےیعنی : یائس.......... ایک بوڑھی عورت جسے حیض نہ آتا ہو۔
صغیرہ ........ وہ بچی جس کا نکاح بالغ ہونے سے پہلے ہی کر دیا گیا ہو اور حاملہ ہے حالت حمل میں طلاق ہوجائے عدت کے علاوہ نفقہ اور سکنیٰ کے احکام بھی یہاں ذکر کیے گئے ہیں۔(۱،۷)
 ان شرعی احکام کو بیان کرتے ہوئے درمیان میں چار بار تقویٰ کا ذکر آیا ہے:
پہلی فرمایا اللہ سے ڈرو جو کہ تمہارا رب ہے۔
دوسری بار فرمایا اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔
تیسری بار فرمایا اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے کام میں سہولت پیدا کردے گا۔
چوتھی بار فرمایا اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس سے گناہ دور کر دے گا اور اسے اجر عظیم عطا کرے گا۔(۱،۲،۴،۵)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نظروں میں تقویٰ کی کیا اہمیت ہے اور یہ کہ قرآن کا اسلوب دوسری کتابوں سے کس قدر مختلف ہے، یہ قانون کی کوئی خوشک کتاب نہیں بلکہ اس میں قانون پرآمادہ عمل کرنے والی ترغیبات اور ترہیبات بھی کثرت کے ساتھ ہیں۔
سورت کے اختتام پر اللہ کے مقرر کردہ اور نازل کردہ احکام کی پامالی اور مخالفت سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور عبرت کے لئے ان امتوں کا ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے سرکشی اختیار کی تو وہ عبرت ناک عذاب اور سزا کے مستحق ہو گئیں۔(۸،۱۰)
 آخری آیات میں ارض و سما کی تخلیق میں قدرت الٰہیہ کی طرف سے اشارہ ہے۔(۱۲)
 سورۃ التحریم:
سورہ تحریم مدنی ہے اس میں۱۲ آیات اور دور کوع ہیں اس صورت میں جو احکام مذکور ہیں اور ان کا زیادہ تر تعلق (بیت نبوت) امہات المومنین اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنھم کے ساتھ ہے اس سورت کی پہلی آیت میں جس واقعے کی طرف اشارہ ہے اس کاتعلق خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ ہے جب آپ نے اپنی لونڈی ماریہ قطبیہ یا شہد کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، چنانچہ بڑی محبت آمیز انداز میں خطاب ہوا اور فرمایا گیا:اے پیغمبر! جو چیز اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ کیا اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔(۱)
 جب آپ نے تحریک کا یہ راز اپنی ایک زوجہ مطہرہ (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا) کو بتا دیا توانھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ راز افشاہ کردیا جس سے آپ کو سخت صدمہ ہوا یہاں تک کہ آپ نے بعض ازواج کو طلاق دینے کا ارادہ فرما لیا (لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کی نوبت نہیں آئی) اللہ نے بھی ان ازواج کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو تعجب نہیں کہ ان کا پروردگار تمہارے بدلے ان کو تم سے بہتر بیویاں دے دے“ (۵)
اس کے بعد سورت ایمان والوں کو حکم دیتی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آتش جہنم سے بچاؤ۔
اور یہ کہ اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو (۸)
سورت کے اختتام پر دو مثالیں بیان کی گئی ہیں:
پہلی مثال کافرہ بیوی کی ہے مومن صالح سے مراد حضرت نوح علیہ السلام اور کافر سے مراد فرعون ہے، ان دو مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر انسان خود مومن اور صالح نہ ہو تو اسے کسی مومن کی قرابت اور حسن نسب کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔ (۱۰،۱۱)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے