چلی بادِ خزاں ایسی کہ گلشن ہوگیا ویراں


 چلی بادِ خزاں ایسی کہ گلشن ہوگیا ویراں


 از : محمد سہیل ابن نعیم الدین
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
کہاں سے شروع کروں، قلب مضطر کی بے چینی کو کس طرح سپرد قرطاس کروں، کیسے اس کے اوصاف بیان کروں کہ جس کی وجہ سے آنکھیں اشک بار ہیں، دل بے قرار ہے، زبان سے قوت نطق کا مادہ ریزہ ریزہ ہوچکا ہے، ہاتھ شل سا ہوگیا ہے، دل کان کی گواہی قبول کرنے کا منکر ہے، بے چینی کے عالم میں بے ترتیبی ہی سہی، مصر کی بڑھیا کی طرح اور رنگ لگاکر شہیدوں میں نام لکھانے کے بہانہ سے کچھ جذبات کو انڈیلنا چاہتا ہوں 

‌سن 2014 کا زمانہ تھا، جب شہر ممبئی کا مشہور ومعروف مسافر خانہ پورے آب وتاب کے ساتھ اپنی پہلی صدی کی تکمیل کا جشن منارہا تھا ،اس موقع پر ایشیا کی عظیم ترین دینی درس گاہ کی رفیع الشان  محدث اپنے جلوہ بکھیرنے کے لیے عروس البلاد ممبئی کا رخ کیا، اہل ممبئی کا دل خوشی سے مچل رہاتھا،( انہیں کیا علم تھا کہ یہ مہمان یہاں سے جانے کے بعد دوبارہ  اپنی آخری منزل اور ابدی نیند کے لیے یہاں ضرور آئے گا) بندہ بھی اپنے تمام رفقاء کے ساتھ مسافر خانہ پہنچا، اچانک نظر پڑی کہ ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی جانشیں طالبان علوم نبوت کو علوم نبویہ سے روشناس کرارہا ہے، بس پھر کیا تھا، کان وہی لگ گیا، بیان کے بعد نماز ظہر کی تیاری ہونے لگی، تمام احباب وضو خانہ گئے، بندہ ابھی وضو خانہ میں بیٹھا ہی تھا کہ وقت کا محدث کبیر، ہزاروں، لاکھوں؛ بل کہ کروڑوں دلوں پر راج کرنے والا راہنما بندہ سے متصل نشست پر بیٹھ کر وضو کرنا شروع کیا، جتنی حیرانی تھی، اس سے کہیں زیادہ فرحت و شادمانی تھی، اور کیوں نہ ہوتی جس کے دیدار کے لیے کروڑوں اپنی جان قربان کرسکتے تھے، بندہ آج اسی کے بغل میں بیٹھ کر فرائض وضو ادا کررہا تھا، یوں تو کئی مرتبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا؛ لیکن حسن اتفاق تو اسی وقت ہوا، فراغت کے بعد بندہ کا ہاتھ بے اختیار حضرت والا سے مصافحہ کرنے کے لیے بڑھ گیا، جسے حضرت نے خندہ پیشانی سے قبول کیا، ایک عجیب سماں تھا، دل جھوم اٹھا تھا، ہاتھ اپنی نیک بختی کے ترانے گنگنارہا تھا اور سرور کی ایسی کیفیت طاری تھی کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
خیر!!!!! وقت گزرتا گیا اور وہ وقت بھی آگیا جب بندہ مادر علمی میں تربیت پانے کے لیے رخت سفر باندھا، اکثر وبیشتر چوتھے گھنٹے میں بخاری شریف کا درس دینے کے لیے حضرت والا کا دیدار ہوتا رہا، اور پھر وہ گھڑی بھی آگئی جب حضرت والا سے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف ملا، اور ایک سال مکمل حضرت الاستاذ کے درس سے فائدہ اٹھاتا رہا، حضرت کے درس کا کیا عالم تھا یہ ساری دنیا جانتی ہے۔

سال رواں آخری درس کے بعد معمول کے مطابق حضرت الاستاذ بغرض علاج ممبئی تشریف لے گئے، کچھ افاقہ بھی ہوا؛ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وطن کا سفر نہ ہوسکا،  العلماء ورثۃ الانبیاء کے پیش نظر ہر روز بعد نماز تروایح وعظ ونصیحت کا معمول رہا، دو چار روز پہلے تک یہ سلسلہ جاری تھا کہ طبیعت میں پھر سے اضمحلال کی سی کیفیت پیدا ہوئی، منگل کی صبح اچانک  آپ کی آخری گھڑی آ گئ ، زمین و آسماں کی آنکھوں سے لڑیاں جاری ہوگئیں، خدا نے اپنے پیارے کو اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا، ادھر اولاد، تلامذہ، محبین ومخلصین کے دلوں پر درد انگیز حالات سوگ منانے پر مجبور کیا ، اہل سنت خصوصاً دیوبندیت کا ہر شیدائی تڑپ اٹھا، ہزاروں پروانہ کی شمع بجھ گئی اور اسلام کا عظیم  محدث دیارِ جاودانی کی طرف راہی ہوا،اور آخر کار فانی دنیا سے سوئے فردوسِ بریں چل پڑا۔
إنا لله وإنا إليه راجعون، 
    شعر!
    چلی بادِ خزاں ایسی کہ گلشن ہوگیا ویراں
         ہوا رخصت گل آخرجو سب کو کرگیا حیراں

ہزاروں اقرباء، لاکھوں شاگرد، کروڑوں محبین و مخلصین کو روتا، بلکتا اور بے سہارا چھوڑ کر، اس دارفانی سے داربقاء  کی طرف کوچ کرگئے، 
حضرت الاستاذ کے درد فرقت سے کچھ پل تو ہم پر سکتہ رہا، جی چاہ رہا تھا کہ کوئی ان خبروں کی تردید کردے، آنکھوں سے آنسوں خشک ہوچکے تھے اور جی چاہ رہا تھا کہ ایک بار حلق پھاڑ کر پوری شدت کے ساتھ چلا کر کہنے کی اجازت ملے کہ " حضرت آنکھیں کھول لیجیے" جی چاہ رہا تھا کہ ان دبی دبی سسکیوں کی بجائے ایک بار زور زور سے چیخ چیخ کر رونے کا موقع ملے... دل کہہ رہا تھا کہ صبروشکر کی تلقین کرنے والے ایک بار مجھے تہذیب کا دامن چھوڑ کر پاگلوں کے جیسا رونے کی اجازت دے دے ،
 سچ ہے کوئی " عاشق جدائی سہہ نہیں سکتا" ؛ لیکن چارو ناچار اس خبر کی تصدیق کرنی پڑی،اور پھر دعائے مغفرت کے لیے رب کریم کے حضور سر بسجود ہوگئے۔

آج حضرت کی وفات کو دو روز ہوچکے ہیں؛ لیکن ابھی بھی حضرت الاستاذ کے نام کے ساتھ "رحمہ اللہ" کا لاحقہ لگاتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے، بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے، ہر پل ایک اعلان کی امید رہتی ہے کہ آج تراویح کے بعد حضرت والا کا خطاب ہوگا؛ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شورش کاشمیری کے اشعار اس موقع پر صد فی صد درست معلوم ہوتے ہیں :
عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں ہے
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انساں ،میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے ؟
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ،زباں کا زور بیاں گیا ہے 
اتر گئے منزلوں کے چہرے ، امیر کیا ؟ کارواں گیا ہے 
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !
یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہنچے 
جھکا کے ا پنے دلوں کے پرچم ، خواص پہنچے، عوام پہنچے
تری لحد پہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
اگرچہ حالات کا سفینہ اسیر گرداب ھو چکا ہے 
اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے 
اگرچہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سوچکا ہے 
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

اللّٰہ تعالیٰ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃاللہ علیہ  شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی مغفرت فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام نصیب فرمائے، ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے،ان کی عبادتوں اور دین کی راہ میں مشقتیں برداشت کرنے کو ان کے لیے نجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین ثم آمین

محمد سہیل ابن نعیم الدین
خوشہ چیں محدث پالن پوری رحمۃاللہ،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے