خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح: پچیسواں پارہ پچیسویں تراویح


خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح: پچیسواں پارہ پچیسویں تراویح
خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح: پچیسواں پارہ پچیسویں تراویح
پاره25:--

چوبیسویں پارہ کے آخر میں اللہ کے عدل کامل کا بیان تھا جس کی وجہ سے قیامت کے دن کسی پر بھی ظلم نہیں ہوگا، اب پچیسویں پارہ کے شروع میں ہے کہ قیامت کے وقوع کی تاریخ کا علم صرف اللہ ہی کو ہے، لوگ خرید و فروخت اور ذاتی دلچسپیوں میں منہمک ہوں گے کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے گی ، اس دن اللہ مشرکوں سے سوال کرے گا کہ کہاں گئے ، میرے و ہ شر یک جن کی تم عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ انتہائی ندامت کے ساتھ جواب دیں گے کہ آج ہمارے درمیان کوئی بھی ایسافرد نہیں جو تیرے لیے شریک کا اقرار کرتا ہو۔ (47)
سورة'' حم ''کے اختتام پر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اس کائنات اور خود انسان کی ذات کے اندر جو راز ہیں ان کے بارے میں انہیں مطلع فرمائے گا اور یہ راز جب کھلیں گے تو ہرکوئی جان لے گا کہ یہ کتاب برحق ہے، (53)
اللہ کا یہ وعدہ سچا تھا اور گزشتہ چودہ سو سال سے اس وعد ہ کا ایفا ہورہا ہے، کائنات اور انسان کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات ہورہے ہیں جن کا قدیم زمانے کے انسان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ، بالخصوص ہمارا زمانہ انکشافات ، ایجادات اور تحقیقات کا زمانہ ہے ، کوئی دن نہیں جاتا جب انسان اور کائنات کے بارے میں کوئی نئی تحقیق اور کوئی نیا انکشاف سامنے نہ آتا ہو ۔ بتایئے کس نے سوچا تھا کہ انسان چاند تک پہنچ جائے گا؟ اور پورے کرہ ارض کے اردگردگھوم جائے گا؟ | کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہوگی کہ مشرق میں رہنے والوں کی آواز میں ابل مغرب اور اہل مغرب کی آواز میں اہل مشرق سن سکیں گے ۔ بلکہ آج تو آواز میں ہی نہیں ان کی صورتیں اور حرکات وسکنات بھی دکھائی دے رہی ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ انسان سورج کو کائنات کی عظیم ترین چیز سمجھ کر اس کے سامنے جھکتا تھا، آج اس نے معلوم کر لیا کہ نظر آنے والا سورج تو کائنات کا ایک چھوٹا سا کمرہ ہے اور اس جیسے کئی سومیلین سورج پس پردہ موجود ہیں، انسان سمندروں اور دریاؤں کے پیٹ میں گھس گیا اور ان کے پیٹ میں جو پیچھے چھپا تھا اس نے اسےدیکھ لیا، انسان نے اپنے جسم، اس کی بناوٹ ، اس کی خصوصیات اور اس کے اسرار و رموز کے بارے میں بہت کچھ معلوم کر لیا ، انسانی نفسیات کے بارے میں بھی اس پرکئی راز منکشف ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجوداس کے اندر جرات ہے کہ وہ دعوی کر سکے کہ وہ کائنات اور انسان کے سارے رازوں سے واقف ہو گیا ہے اور علمی تحقیقی اور سائنسی ترقی ، کمال کی آخری حد کو پہنچ گئی
ہے علم و تحقیق کی اس تیز رفتاری کا کوئی بھی مذہبی کتاب قرآن کے سوا ساتھ نہیں دے سکتی ، یہی بات قرآن کو دائمی معجزہ ثابت کرتی ہے، یہ حضرت موسی علیہ السلام کی لاٹھی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہوائی تخت کی طرح مادی معجزہ نہیں ہے، یہ ایک علمی معجزہ ہے اورعلمی دور کے لیے نازل ہوا ہے، انسان کا علم جتنی ترقی کرتا جائے گا، اس پر قرآن کی صداقت اتنی ہی ملتی جائے گی ، وہ وقت آ کر رہے گا جب ہر غیر متعصب صاحب علم کی گردن قرآن کے سامنے جھک جائے
گی۔ ان شاء الله) |
سورة الشوری:-
 سوره شوری مکی سورتوں میں سے ہے، اس میں 53 آیات اور5 رکوع ہیں ۔دوسری مکی سورتوں کی طرح یہ بھی نظریاتی مسئلہ پر بحث کرتی ہے لیکن وحی اور رسالت کے مضمون کو اس میں زیادہ اہمیت دی گئی ہے، قرآن کے اعجاز کو بتلانے اور اس کی مثل لانے سے مخالفین کو عجز ظاہر کرنے کے لیے اس کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوئی ہے کہ یہی وہ حروف ہیں جنہیں جوڑ کر قرآن بنایا گیا ہے،کہ اگر قر آن واقعی انسانی کاوش ہے تو تم بھی ان حروف کی ترکیب سے قرآن جیسا کلام بناڈالو، پورا قرآن نہیں ، قرآن جیسی کوئی چھوٹی سے چھوٹی سورت ہی سہی تمہارے اس کارنامے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ (معاذ اللہ ) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے نہ پروپیگنڈا کرنا پڑے گا ، نہ مالی وسائل استعمال کرنے پڑیں گے، نہ جنگ کی آگ میں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو جھونکنا پڑے گا لیکن اس چیلنج کو نہ کل کے منکرین نے قبول کیا، نہ آج کے منکرین ہی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
حروف مقطعات سے سورت کا آغاز کرنے کے متصل بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے اسی طرح تمہاری طرف اور تم سے پہلے لوگوں کی طرف وحی کرتا ہے وہ اللہ جو کہ غالب اور رحیم ہے(3)
گویا وحی کا سرچشمہ، اولین اور آخرین کے لیے ایک ہی رہا ہے۔ درمیان میں اللہ کی عظمت و جلال بیان کرنے کے بعد پھر وحی اور قرآن ہی کا ذکر ہے اور ارشاد ہوتا ہے اور اسی طرح تمہارے پاس قرآن عربی بھیجا تا کہ تم بڑے گاؤں (یعنی مکہ ) کے رہنے والوں کو اور جو لوگ اس کے اردگردر رہتے ہیں ان کو راستہ دکھاؤ‘‘ (7)
وحی اور رسالت کے مضمون ہی کو مو کد کرنے کے لیے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک دین ایک ہی ہے، تمام انبیاء ایک ہی دین کی دعوت کے لیے دنیا میں تشریف لائے ان کی شریعتیں اگرچہ مختلف تھیں لیکن ان سب کا دین ایک ہی تھا یعنی دین اسلام - حضرت نوح، حضرت ابراہیم حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہم السلام کو اسی دین کی دعوت کے لیے دنیا میں بھیجا گیا تھا اور ان کے متبعین کو تفرقہ سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا تھا لیکن اہل کتاب محض حسد اور عناد کی بنا پر تفرقہ میں مبتلا  ہو گئے ، ان کے تفرقہ اور اختلاف ہی کو مٹانے اور قول فیصل سنانے کے لیے اللہ نے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ آپ اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ اور ان لوگوں کی خواہشات کی اتباع نہ کرو اور ان سے کہو کہ اللہ نے جو کتاب نازل کیا ہے میں اس پر ایمان لایا۔‘‘ (15)
جوں جوں یہ سورت آگے بڑھتی جاتی ہے، وحی اور رسالت کے ساتھ اس کا تعلق واضح ہوتا جاتا ہے، وحی اور رسالت کے مضمون کے علاوہ اس مادی جہان میں ایمان کے جو دلائل اور تکوینی آیات ہیں، ان کی طرف بھی ذہنوں کو متوجہ کیا گیا ہے اور ایمان والوں کی درج ذیل نمایاں صفات بیان کی گئی ہیں:-
............ وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
 ......... بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ۔
 ......... اگر غصہ آ جائے تو معاف کر دیتے ہیں۔
 ........ رب کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ 
......... نماز کی پابندی کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے کام باہمی مشورہ سے کرتے ہیں ۔ 
......... اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. اگر ان پر کوئی ظلم اور زیادتی کرے تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں۔
یہ صفات اگر آج کے مسلمان اپنے اندر پیدا کرلیں تو ان کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں ایسا انقلاب برپا ہو سکتا  ہے جو انہیں علمی اور حقیقی مسلمان بنا کر پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ سوره شوری کی آخری دو آیتوں میں وحی اور رسالت کا ذکر ہے گویا جس مضمون سے سورت کا آغاز ہوا تھا اسی پر اختتام ہورہا ہے۔
سورة الزخرف :۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورۂ زخرف مکی ہے، اس میں 89 آیات اور 7 رکوع ہیں چونکہ اس میں زخرف کا لفظ آیا ہے جو سونے اور زینت کے معنی میں آتا ہے اس لیے اس کا نام "زخرف'' رکھاگیا ۔ اس سورت کا موضوع اصول ایمان ہے، اس سورت کی ابتداءبھی دوسری ’’ حوامیم کی طرح انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی معجزہ قرآن کریم کے ذکر سے ہوتی ہے اللہ نے اس روشن اور واضح کتاب کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ ہم نے اسے عربی قرآن بنایا ہے تا کہ تم سمجھو اور یہ( قرآن ) بڑی کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں ہمارے پاس لکھی ہوئی اور بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے ۔
اس کے بعد سوره زخرف دلائل قدرت سے بحث کرتی ہے، یہ آسمان کی نیلی چھت یہ زمین کا فرش، یہ بلند و بالا پہاڑ ، یہ بہتی ہوئی نہریں ، یہ تا نظر پھیلے ہوئے سمندر، یہ آسمان سے قطره قطرہ برسنے والی بارش ، یہ سطح آب پر رواں دواں کشتیاں اور جہاز ، یہ ہرقسم کے چوپائے جو کھانےکے کام بھی آتے ہیں او نقل وحمل  کے بہترین ذرائع بھی ثابت ہوتے ہیں، یہ سب اپنے خالق اور صانع کی قدرت اور حکمت کے زندہ گواہ ہیں ، ان کی گواہی شہری بھی سن سکتا ہے اور دیہاتیبھی، ان کی زبان عالم بھی سمجھ سکتا ہے اور جاہل بھی، یہ گواہ کل بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں ۔ ضرورت صرف ان کا نوں کی ہے جو حق کی گواہی سن سکیں ، ان آنکھوں کی ہے جودیکھ سکیں، ان دلوں کی ہے جو حق کو قبول کر سکیں۔
یہ سورت زمانہ جاہلیت کی ایک اور انتہائی قابل نفرت سوچ کا تذکرہ کرتی ہے وہ یہ کہ ایک طرف ان کی نفسیات یہ تھی کہ وہ بیٹیوں سے سخت نفرت کرتے تھے ، اگر ان کے ہاں بیٹی پیدا ہو جاتی تو وہ لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے اور اسے زندہ درگور کرنے کی تدبیر میں سوچنے لگتے تھے ، دوسری طرف وہ اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے تھے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قراردیتے تھے۔ (15۔16)
سوره زخرف، ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی تذکرہ کرتی ہے جن کے بارے میں مشرکین کا دعوی تھا کہ ہم ان کی ملت اور شریعت پر ہیں، یہاں ان کے اس دعوی کی تردید کی جارہی ہے، یہ بتوں کے پجاری کس منہ سی اپنے آپ کو ان کی شریعت کا پیروکار قرار دیتے ہیں جبکہ آپ عقیدۂ توحید کے علمبر دار تھے اور یہ سر سے پاؤں تک بت پرستی کی نجاست میں ڈوبے ہوئے ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں یہی کلمہ توحید چھوڑا تھا۔ (26۔28)
اسی کلمہ کی جب حضرت خاتم انبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین کو دعوت دی تو وہ اس دعوت کو سحر اور آپ کو ساحر کہنے لگے، اللہ کے رسول کے بارے میں ان کا تصور اور ان کی سوچ 
انتہائی حماقت اور جہالت پر مبنی ہے وہ کہتے ہیں کہ  یہ قرآن دونوں بڑے شہروں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا ؟ (31)
کیا اللہ کو، نبی بنانے کے لیے ایک یتیم فقیر اور غریب آدی ہی ملا تھا، طائف اور مکہ کے سرداروں میں سے کسی سردار پرنظر انتخاب کیوں نہ پڑی؟ اس کا جو جواب دیا گیا اس کا حاصل یہ
ہے کہ ان کے درمیان گزر بسر کے ذرائع تک پرتو انہیں کوئی اختیار نہیں، وہ خود اپنے رزق کے بھی مالک نہیں، جب رزق کی تقسیم میں ان کا کوئی اختیار نہیں تو نبوت جیسے عظیم منصب کی تقسیم اور انتخاب میں انہیں کوئی اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے۔ ( 320)
اس کے بعد اس سورت میں حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو کہ مشرکین کی حماقت اور جہالت کا ایک نمونہ اور جھلک ہے، فرعون کو اپنے اقتدار سونے چاندی کے انبار اور وسیع اختیارات پر بڑا ناز تھا اور وہ اپنے آپ کو مصر کی سرزمین اور نہروں کا حقیقی مالک سمجھتا تھا اور حضرت موسی علیہ السلام کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اسے انہیں نہروں اور دریاؤں میں غرق کر دیا گیا جو اس کے خیال میں اس کی اجازت کے بغیر اپنا بہاؤ بھی جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔ (46۔56)
سورت کے اختتام پر اللہ اپنے پیغمبر کو جاہلوں سے اعراض کرنے اور صبر کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں تم ان سے منہ پھیر لو اور سلام کہہ دو، انہیں عنقریب انجام معلوم ہو جائے گا۔“ (89)
. سورة الدخان:۔۔۔۔۔۔۔ 
سوره دخان مکی ہے، اس میں 53آیات اور 3رکوع ہیں ، دخان کا معنی ہے دھواں، چونکہ اس سورہ میں اس’’دخان‘‘ کا ذکر ہے جو مشرکین کو قحط کے زمانے میں شدید بھوک کی وجہ سے دکھائی دیتا تھا اس لیے اسے سورہ دخان کہا جاتا ہے۔ اس سورت کی ابتداءمیں  بھی اللہ تعالی نے کتاب مبین یعنی واضح کتاب کی قسم کھائی ہے، یہ کتاب اعجاز کے اعتبار سے بھی واضح ہے اور احکام و مضامین کے بیان کے اعتبار سے بھی واضح ہے۔ اللہ نے قسم اسی اعتبار سے کھائی ہے کہ ہم نے اس کتاب کو مبارک رات میں نازل کیا، اس سے مراد لیلة القدر ہے جو ساری راتوں سے افضل ہے، یہ کتاب اللہ نے بندوں پر رحمت کے طور پر نازل کی ہے اور نہ وہ بندوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہے، اللہ کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بندوں کو ہدایت سے محروم نہ رکھے ۔(1۔8)
لیکن مشرکین اور کفار قرآن اور بعث بعد الموت کے بارے میں شک کرتے ہیں ۔ (9)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ان فرعونوں کو حضرت موسی علیہ السلام کی مخالفت کرنے والے فرعون کے انجام سے ڈرایا گیا ہے، اس کی ملکیت میں سونے کے انبار تھے باغات کی بہتات تھی، بیسیوں محلات تھےسونا اگلتی زمینیں تھیں ، ہزاروں خدام اور لونڈیاں تھیں، لاکھوں پرمشتمل فوج تھی مختصر یہ کہ جو کچھ مصر میں تھا وہ سب اسی کا تھا وہ ہر جاندار اور بے جان چیز کا اپنے آپ کو مالک سمجھتا تھا لیکن یہ سب کچھ اس کے کسی کام نہ آیا اور وہ اپنے ''مظلوموں‘‘ اورمحکوموں کی نظروں کے سامنے دریا کی بے رحم موجوں میں غرق ہو گیا و "آمنت آمنت‘‘ ( میں ایمان لے آیا، ایمان لے آیا کہتا ہی رہ گیا لیکن یہ چیخ و پکار اس کے کسی کام نہ آئی ، اس نے جوکچھ اپنے پیچھے چھوڑا، اس سب کا وارث اور مالک بنی اسرائیل کو بنا دیا گیا کل کے محکوم آج کے حاکم اور کل کے مملوکہ آج کے مالک بن گئے ۔ (17۔29 ) 
سورت کے اختتام پر ان ہولناک عذابوں کا ذکر ہے جن کا سا منا اللہ کے نافرمانوں کو کرنا پڑے گا اور چھوٹی سی عقل میں نہ سما سکنے والی ان نعمتوں کا ذکر ہے جن سے اللہ کے نیک بندوں کو نوازا جائے گا۔ ( 43۔57)
سورہ جاثیہ :۔۔۔۔۔۔۔۔
سوره جاثیہ مکی ہے اس میں 37 آیات اور4 رکوع ہیں، یہ بات تو اب قارئین کرام جان ہی چکے ہوں گے کہ جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ان میں سے اکثر سورتوں کی ابتداءہمارے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑا معجزہ قرآن عظیم کے ذکر سے ہوتی ہے، سورة الجاثیہ میں بھی ایسے ہی ہوا ہے' جاثیہ کا معنی ہے گھٹنوں کے بل بیٹھنا، چونکہ قیامت کے دن لوگ خوف اور ہیبت کی وجہ سے دربار الہی میں گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے اور اس سورہ میں اس خوفناک منظر کا بیان ہے اس لیے اسے سوره جاثیہ کہا جا تا ہے ۔ قرآن کریم کی عظمت کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ سورت ان تکوینی نشانیوں کو بیان کرتی ہے جن میں سے ہر ایک اللہ کی عظمت و جلال اور قدرت و وحدانیت کی زندہ گواہ ہے۔ (3۔6)
پھر ان مجرموں کے مکروہ چہرے سامنے لاتی ہے جو آیات الہیہ سننے کے باوجود انکار و استکبار کی نہیں چھوڑتے اور یوں بن جاتے ہیں گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ۔ (7۔9)
علاوہ ازیں یہ سورت ان نعمتوں کا بھی تذکرہ کرتی ہے جو اللہ نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت، نبوت، پاکیزہ روزی اور اہل جہاں پر فضیلت اور عزت کی صورت میں عطا کی تھیں، چاہیے تو یہ تھا کہ ان نعمتوں سے سرفراز ہونے کے بعد وہ عجز و اطاعت کا راستہ اختیار کرتے لیکن ہوا یہ کہ وہ بتدریج سرکشی اور معصیت کی راہ پر چل نکلے ۔ (16۔17)
ماضی کے یہ واقعات کفار مکہ بلکہ ہر زمانے کے کفار کو سمجھانے کے لیے بیان کیے جاتےہیں، کفار، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ہوں یا موجودہ زمانے کے، ان کے كفروانکار کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ( 24۔25)
جب کہ قرآن بار بار اس دن پر ایمان لانے کی تاکید کرتا ہے جس دن نیک اور بد ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدل مل کر رہے گا، قرآن کا انداز کہیں حاکمانہ اور کہیں ناصحا نہ ہوتا ہے، کہیں خبر کا اسلوب ہوتا ہے اور کہیں انشاء کا۔ کہیں سوال و جواب ہوتا ہے اور کہیں یوں منظر کشی کی جاتی ہے
گویا قرآن پڑھنے والا اس دنیا میں قیامت کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ اس سورت کے آخر میں بھی منظرکشی والا انداز اختیار کیا گیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ قیامت قائم ہو چکی ہے، حشر کا میدان ہے، لوگ خوف کے مارے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہیں ، اللہ بندوں سے مخاطب ہے، کہا جارہا ہے کہ تم نے قیامت کو بھلا دیا تھا۔ آج تمہیں بھلا دیا گیا ہے، تم آیات الہی کا مذاق اڑایا کرتے تھے، آج تم خودمذاق بن کر رہ گئے ہو۔ (27۔35)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے