خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : آٹھواں پارہ آٹھویں تراویح

خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : آٹھواں پارہ آٹھویں تراویح

حضرت مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمة الله علیہ  
پارہ 8 
حسی معجزہ:  ساتویں پارہ کے آخر میں مشرکین کا یہ مطالبہ ذکر کیا گیا تھا کہ اگر ہمیں کوئی حسی معجزہ دکھایا جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے 
معجزات طلب کرنے والے جھوٹے ہیں : آٹھویں پارہ کے شروع میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اگر ان کو حسی معجزات بھی دکھادیا جائے یہاں تک کہ قبروں سے مردے زندہ ہو کر ان سے باتیں کریں تو یہ ایمان لانے والے نہیں 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی : اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مخالفت استہزاء اور انکار سے پریشان نہ ہوں  ہر نبی کے ساتھ انسی اور جنسی شیاطین  نے ہمیشہ یہی رویہ اختیار کیا ہے باقی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات کے   لیے ان کے مطلوبہ معجزات کی کوئی ضرورت نہیں 
سب سے بڑا معجزہ قرآن : اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد معجزات سے نوازا ہے جن میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے لہذا یہ اس معجزہ کو دیکھنے اور سننے کے باوجود انکار کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان نہ ہوں کیونکہ زمین پر بسنے والے اکثر  لوگوں کا یہی حال  ہے کہ وہ ہدایت کو چھوڑتے ہیں اور گمراہی کی طرف مائل ہوتے ہیں- فرمایا: اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر لوگوں کی بات مانیں گے جو دنیا میں ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی راہ سے دور کردیں گے 116
مغربی جمہوریت رد کر دی جائے گی : اس آیت کریمہ سے مغربی جمہوریت کی نفی ہوتی ہے کیونکہ مغربی جمہوریت میں اکثر کی رائے کا اعتبار ہے خواہ وہ کتاب وسنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو جب کہ مسلمان کا یہ اجتماعی عقیدہ ہے کی اگر پوری دنیا کے انسان کسی ایسی بات پر متفق ہوجائیں جو کتاب و سنت کے واضح حکم کے خلاف ہو تو انکے اتفاق کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا اور اسے رد کر دیا جائے گا 
(اس کے بعد جو اہم مضامین اس صورت میں مذکور ہیں وہ درج ذیل ہیں)
(1)مومن کی مثال : رکوع نمبر 2 کے آغاز میں فرمایاگیا کہ مومن کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو زندہ ہے اور اسے ہم نے نور عطا کیا ہے 
کافر کی مثال : اور کافر کی مثال اس شخص جیسی ہے جو مردہ ہے اور تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہے  122
(2)ایمان اور ہدایت : ایمان اور ہدایت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے اسے نوازتا ہے 
(3)اعمال کی جزا یا سزا : ہدایت یافتہ اور گمراہ فریقوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا کہ  اللہ ان سب کو قیامت کے دن جمع کرے  گا پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے  گا 128 129 
(5)مشرکین کی حماقتیں : 
اللہ اور شرکاء کا حصہ : مشرکین کی مختلف حما قتوں میں سے ایک حماقت یہ ذکر کی گئی ہے کی وہ زمین سے حاصل ہونے والے غلے اور چوپاؤں میں اللہ کا حصہ الگ کر لیتے تھے اور اپنے شرکاء کا حصہ الگ کرلیتے تھے پھر جو ان کے شرکاء کا حصہ ہوتا تھا اسے تو اللہ کے حصے میں نہیں ملنے دیتے تھے لیکن جو اللہ کا حصہ ہوتا تھا وہ اگر شرکاء کے حصے میں مل جاتا تو اسے برا نہیں سمجھتے تھے  136 
بیٹیوں کا قتل : ان کی دوسری حماقت یہ تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو فقر یا عار کی وجہ سے قتل کر دیتے تھے 137 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عورت پر احسان عورت پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان و عمل سے یہ سمجھایا کہ بیٹی کا وجود نہ تو  باعث ننگ ہے اور نہ ہی  فقر و غربت میں    اضافے کا سبب 
چوپاؤں میں نام نہاد تقسیم : مشرکین کی تیسری حماقت قرآن نے یہ بتلائی کہ انہوں نے چوپاوں کو مختلف قسموں میں تقسیم کر رکھا تھا بعض وہ تھے  جو کاہنوں اور مذہبی پیشواؤں کے لیے مخصوص تھے بعض وہ تھے کہ جن پر سوار ہونا اور ان سے کسی بھی طرح فائدہ اٹھانا جائز نہیں سمجھتے تھے اور بعض وہ تھے جنہیں  ذبح کرتے وقت اللہ کے بجائے  بتوں کے نام ذکر کرتے  تھے 138 
مرد و عورت کے لیے الگ الگ حلال حرام : ایک چو تھی حماقت یہ بتلائی گئی ہے  کہ چوپائے کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوتا تھا۔
 اگر وہ زندہ ہوتا تو اسے مردوں کے لیے حلال سمجھتے تھے مگر عورت کے لئے حرام ۔اور اگر  وہ مردہ پیدا ہوتا تو اسے مرد اور عورت دونوں کے لیے حلال سمجھتے تھے 139
حلال حرام کا اختیار : مشرکین کی یہ حماقتیں بتانے کے بعد انہیں اللہ کی نعمتیں یاد دلائی گئی کہ وہی اللہ ہے جس نے باغات زیتون اور انار جیسے مختلف پھل پیدا کئے ہیں وہی اللہ ہے جس نے بار برادری گوشت اور دودھ کے حصول کے لیے  چھوٹے اور بڑے جانور پیدا کیے ۔ ان جانوروں اور کھانے پینے کی دوسری اشیاء میں تحلیل و تحریم  کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے وہ جس چیز کو چاہتا ہے حلال کرتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے حرام کرتا ہے 
دس وصیتیں : مشرکین کے عقائد اور دعووں کی تردید کے بعد وہ مشہور آیات میں جن میں اللہ نے ایسی  دس وصیتیں  بیان فرمائی ہیں جن پر سارے آسمانی شریعتیں متفق ہیں یہ تمام ادیان  ان پر عمل کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ ان پر عمل کرنے سے انسانی سعادت کی حفاظت ہوتی ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عزت و کرامت کی وہ زندگی حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالی انسان کو دینا چاہتا ہے 
پہلی وصیت یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے
 دوسری یہ کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور انہیں اپنی زبان و عمل سے تکلیف نہ دی جائے 
تیسرے یہ کہ اولاد کو فقر  کے ڈر سے یا ننگ و عار  کے خوف سے قتل نہ کیا جائے 
چوتھے یہ کہ ہر قسم کے فواحش اور برائیوں سے بچا جائے خواہ وہ خفیہ ہو یا علانیہ  ۔
پانچویں یہ کہ انسان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے یہ بدترین گناہ ہے 
چھٹی یہ کہ یتیم کے مال میں ناجائز تصرف نہ رکھا جائے

 ساتویں یہ کہ ناپ تول کو پورا کیا جائے
آٹھویں یہ کہ سارے انسان کے درمیان عدل کو ملحوظ رکھا جائے خواہ کوئی اپنا  قریبی ہو یا دشمن
 نو يں یہ کہ اللہ کی عہد کو پورا کیا جائے 
دسویں یہ کہ صراط مستقیم ہی  کی اتباع کی جائے اور مختلف  راستوں پر چلنے سے احتراز کیا جائے  
تمام افعال و اعمال میں اخلاص : یہ وصیتیں بیان کرنے کے بعد اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علی الاعلان  کہہ دیجئے کی اللہ نے دین حق کی ہدایت دے  دی ہے  یہی ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا اور یہ کی میری نماز اور عبادت سارے افعال و اعمال خالص اللہ کے لئے ہیں   میں ان اعمال  سے صرف اللہ کی رضا چاہتا ہوں سورۃ کا اختتام اس بات پر ہوا کہ یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے یہ ابتلا  اور آزمائش کی لئے ہے تاکہ مومن و کافر اور  نیک و بد میں فرق ہو جائے 
سورہ الاعراف : 
مکی سورت: یہ مکی سورت ہے دوسری مکی سورت کی طرح اس میں بھی تینوں بنیادی عقائد کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے 
آیات : اس میں 206 آیات اور 24 رکوع ہیں 
وجہ تسمیہ :  چونکہ اس صورت میں اعراف کا ذکر ہے جو کہ جنت اور جہنم کے درمیان ہے اسی نسبت سے اس سورہ کو اعراف کہا جاتا ہے،۔ ملاحظہ ہو آیات 46تا49
دائمی معجزہ قرآن:   اس سورت کی ابتدا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی معجزہ یعنی قرآن کا ذکر ہے جو کی سارے انسانوں کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے 
انسانیت میں بھائی بھائی: اس صورت میں انسان کو اللہ کی اس نعمت کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ اس نے سب انسانوں کو ایک ہی باپ سے پیدا کیا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اس بات کو یاد رکھیں کی وہ انسانیت میں بھائی بھائی ہیں 
انسان کی تکریم : اسی طرح اس صورت میں انسان کو اللہ نے جو تکریم  بخشی اس کا بھی ذکر ہے وہ یہ ہے  کہ اللہ نے پہلے انسان کو اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا پھر اس میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو اس کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا 
شیطان کے مکر وفریب سے بچنے کی تلقین : اس قصے کے ضمن میں شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کی بھی تلقین کی گئی ہے کیونکہ وہ ایسا مکار دشمن ہے جو کہ انسان کی راہ کھوٹی کرنے کے لئے ہر راستے پر بیٹھا ہوا ہے اور انسان کے ساتھ ٹکراؤ کی جو ابتدا  ابلیس کے انکار سجدہ سے ہوئی تھی اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور خیروشر اور حق وباطل کے درمیان کشمکش کسی نہ کسی انداز میں باقی رہے گی
چار بار یا بنی آدم کی صیغہ سے خطاب : سورہ اعراف کی ایک قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس صورت میں اللہ تعالی نے مسلسل چار بار انسانوں کو یا بنی آدم کے صیغہ  سے خطاب فرمایا ہے یہ چار  ندائیں سورہ اعراف کے علاوہ کسی اور صورت میں نہیں ہیں 
پہلی ندا : دسویں رکوع میں ہے جس میں اللہ  نے لباس کی نعمت کا ذکر کیا ہے آیت نمبر 26 میں فرمایا گیا ہے اے اولاد آدم ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا ہے جو تمہارے ستر کو بھی چھپاتا ہے اور زینت کا بھی باعث ہے اور تقوی کا لباس سب سے بہتر ہے 
دو سری ندا : دسویں رکوع کی آیت نمبر 27 میں ہے جس میں اللہ تعالی ابلیس کے فتنے سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے :''اے اولاد آدم ! کہیں شیطان تم کو بہکا نہ دے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، ان کے لباس اتروادیے تا کہ انہیں ان کا ستر دکھادے ۔
تیسری ندا دسویں رکوع کی آیت نمبر31 میں ہے جس میں فرمایا گیا اے اولاد آدم ! ہر نماز کے وقت اپنی زینت ( کا لباس ) لے لو  اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
چو تھی ندا : گیارہویں رکوع کی آیت نمبر 35 میں ہے جس میں فرمایا گیا اے اولاد آدم ! اگر تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول آئیں جو تم کو میری آیات سنائیں تو جو تقوی اختیار کر لیں گے اور اپنی اصلاح کر لیں گے تو ایسوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اولاد آدم کو یہ بار بار خطاب انہیں شیطان کے وساوس اور مکاریوں سے بچانے کے لیے ہے تا کہ انسان ملمع ساز باتیں سن کر دھوکہ نہ کھا جائے۔ کیونکہ وہ ایسا چالاک دشن ہے جو بظاہر دوست کا لباس پہن کر آتا ہے اور ایک مکار لومڑی ہے جو اپنے آپ کو خیر خواہ کے روپ میں پیش کرتی ہے، اسے حق کو باطل اور باطل کو حق ، شر کو خیر اور خیر کو شر بنا کر پیش کرنے کا فن آتا ہے۔ دنیا میں جو لوگ بھی یہ کام کر رہے ہیں وہ حقیقت میں شیطان کے ایجنٹ ہیں ۔
 یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ پہلی تین ندائیں لباس کے بارے میں ہیں ۔ ان میں سے دوسری ندا میں یہ بتایا گیا کہ ابلیس لعین نے حضرت آدم اور حضرت حوا علیہا السلام کے لباس اتروادیئے تھے اور ان کے ستر کھلوا دیئے تھے، گویا ابلیس کا ایک بڑا ہدف یہ ہے کہ اولاد آدم کو شرم وحیا کے لباس سے محروم کر دے اور انہیں فحاشی اور عریانیت کی راہ پر لگا دے۔ ستر کے تقاضے پورے کرنے والا لباس انسان کو حیوان سے ممتاز کرتا ہے ۔
حیوان ننگا پیدا ہوتا ہے اور زندی بھر ننگا رہتا ہے جبکہ انسان کو الله تعالی نے لباس کے ساتھ عزت اور فضیلت بخشی ہے۔
آج جب ہم مغربی میڈیا کے زریعے بے حیائی کے امڈتے ہوئے سیلاب اور عورت کی آزادی کے نام پر حیا باختگی کی فضا دیکھتے ہیں تو پھر یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ قرآن نے لباس کے بارے میں تا کید اور تکرار کا اسلوب کیوں اختیار کیا ہے،
( ان نداؤں  کے علا وہ سورہ اعراف کے اہم مضامین درج ذیل ہیں): ۔
مشرکین بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے اور اپنے اس قبیح عمل اور اس جیسے دوسرے اعمال کے بارے میں حجت یہ پیش کرتے تھے کہ ہمارے آبا و اجداد بھی یوں ہی کیا کرتے تھے اور بعض اوقات بھی کہہ دیتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالی نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، 
ان کے اس دعوی کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : اللہ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا،لہذا تمہارا یہ دعوی جھوٹ اور افتراء کے سوا کچھ نہیں ،
 اسلام زندگی کے تمام جائز مطالبات پورا کرنے والا دین ہے لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لباس پہننے سے اور پاکیزہ چیزوں کے استعمال سے منع کرے،
 اس سے ان لوگوں کی بھی تردید ہو جاتی ہے جو رہبانیت کے قائل ہیں اور حلال اور پاک چیزوں سے اجتناب کو اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ جسم اور روح دین اور دنیا دونوں کے جائز مطالبات اور تقاضے پورے کرنے والا ہی حقیقت میں کامل مسلمان ہے ۔
 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو جب پتہ چلا کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ دن کو مسلسل روزے رکھتے ہیں اور رات کو قیام کرتے ہیں ، عبادت میں یہ مشغولیت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اہلیہ تک کے حقوق ادا نہیں کرتے تو آپ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: تمہارے اوپر رب کا بھی حق ہے، تمہارے نفس کا بھی حق ہے ، تمہارے گھر والوں کا بھی حق ہے، لہذا ہر حق والے کو اس کا حق دو حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے ان کی اس نصیحت کا ذکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے  سامنے کیا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” سلمان نے سچ کہا ہے۔
آٹھویں پارہ کے گیارہویں اور بارہویں رکوع میں ایسے دو گروہوں کا ذکر ہے جو فکر ونظر اور عقیدہ و عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں ، ایک گروہ ضد اور عناد، کفر اور استکبار کی راہ اپنانے والوں کا ہے جن کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کچھ نہیں ، دوسرا گروہ تسلیم و انقیاد اور ایمان اور اطاعت کی راہ پر چلنے والوں کا ہے جو بفضلہ تعالی جنت کے حقدار ہوں گے، یہ دونوں گروہ جب اپنے اپنے ٹھکانے پر جائیں گے تو قرآن بتاتا ہے کہ ان کے درمیان مکالمہ ہوگا، اہل جنت دوزخیوں سے سوال کریں گے کہ کیا تمہیں آج اللہ کے وعدوں کے سچ ہونے کا یقین آ یایانہیں؟ وہ جواب میں اقرار کریں گے کہ ہاں ہم نے وعدوں کو سچا اور بر حق پایا ۔ دوزخی جب جہنم کی ہولناک گرمی اور بھوک پیاس سے پریشان ہو جائیں گے تو جنتیوں کے سامنے دست سوال دراز کریں گے کہ ہمیں کچھ کھانے اور پینے کو دو لیکن ظاہر ہے کہ ان کا یہ سوال رائیگاں جائے گا، یہ مکالمہ اس پارہ کے بارہویں اور تیرہویں رکوع میں مذکور ہے۔
ایک تیسرا گروہ بھی ہے جسے قرآن نے اصحاب اعراف‘‘ کا نام دیا ہے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو مومن تھےلیکن اعمال صالحہ میں دوسرے جنتیوں سے پیچھے رہ گئے ہوں گے ، انہیں نہ تو جنت میں داخل کیا جائے گا اور نہ ہی دوزخ میں بلکہ ان کا فیصلہ موخر کر دیا جائے گا لیکن بالآ خر اللہ تعالی ان کو بھی جنّت میں داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرمادیں گے، ان اصحاب اعراف اور دوزخیوں کے درمیان بھی مکالمہ ہو گا جو کہ تیرہویں رکوع میں مذکور ہے۔
 ان مکالمات کے بعد اللہ کی قدرت اور توحید کے تین اہم دلائل :
تھ بہ تھ سات آسمان جن میں سے ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے ہے جیساقبہ ہوتا ہے، یہ ساتوں آسمان وسعت اور عظمت کے با وجودکسی ستون کے بغیر کھڑے ہیں۔
رحمٰن کا عرش جس کی وسعت کا یہ حال ہے کہ سارے آسمان اور ساری زمینیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتے اور کسی کا خیال اس کی عظمت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ عرش کے مقابلے میں کرسی ایسی ہے جیسے کوئی حلقہ جو کہ وسیع و عریض صحراء میں پڑا ہو، کرسی کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ وہ ارض وسما میں نہیں سما سکتی تو عرش کی وسعت کیا ہوگی ، عرش اور کرسی ان حقیقتوں میں سے ہیں جن پر ہم ایمان تو رکھتے ہیں مگر ان کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔ 
تسری دلیل جو یہاں بیان کی گئی ہے وہ سورج چاند اور ستاروں کی تخلیق ہے یہ سب چیز یں اللہ کی مشیت اور غلبہ کے تحت ہیں ، یہ ایسی  فضا میں تیر رہے ہیں ، جس کی وسعتوں کا کسی کو بھی اندازه نہیں ، نہ تو یہ آپس میں ٹکراتے ہیں اور نہ ہی اپنے مدار سے باہر نکلتے ہیں ۔
یہ دلائل اور آخر میں چھ انبیاء کرام یعنی حضرت نوح ، حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت لوط ، حضرت شعیب اور حضرت موسی علیہم السلام کے قصے اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے پہلا قصہ شيخ الانبیاء حضرت نوح علیہ السلام کا ہے اور آخری قصہ حضرت شعیب علیہ السلام کا ہے، ان قصوں میں جو مختلف حکمتیں اور عبرتیں پوشیدہ ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں 
 رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کومخالفین کی ایذاؤں پر تسلی دینا۔

 متکبروں کا انجام بد اور نیکو کاروں کا اچھا انجام بتانا .. اس بات پر تنبیہ کرنا کہ اللہ کے ہاں دیر تو ہے اندھیر  نہیں، بالآ خر ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا مل کر رہتی ہے۔ . ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی کی دلیل پیش کرنا کہ امی ہونے کے با وجود آپ تاریخ کے گمشدہ اوراق ، حقائق کے مطابق پیش فرماتے تھے۔ انسانوں کے لیے عبرت ونصیحت کا سامان پیش کرنا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے