ہاں میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہوں!


ہاں میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہوں!
ہاں میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ ہوں۔۔۔! 
نازش ہما قاسمی  
جی انقلاب آفریں شخصیت کا حامل، عظیم المرتبت، امام العارفین، زبدۃ السالکین، محبوب الاولیاء، رئیس الاصفیاء، زاہدِ کبیر، عابد شب بیدار، سالکِ اعظم، ولی کامل، متقی وپرہیزگار، ولی اللہ، عظیم صوفی، عظیم مبلغ، ذاکرِخدا، عاشقِ رسولﷺ،  باکرامت بزرگ، مشہور مذہبی رہنما، علم وعمل کا حسین سنگم، حامل قرآن وسنت، حافظ دین وایماں، پیکر ِعلم وعرفاں،  عالم باعمل، وارثِ انبیاء، بہترین واعظ، مکارم اخلاق  اور محاسن اخلاق کا بہترین مجموعہ، شریعت و طریقت کا نیرِ تاباں، اسوہ رسولﷺ پر عمل پیرا، سلوک ویقیں کی منازل طے کرانے والا، سلطان الاولیاء،سلطان الہند،دلوں کا حکمراں، مرجع الخلائق،  پوری زندگی نفاذ شریعت کےلیے کوشاں، سرزمین ہند پر نظریہ توحید پیش کرکے چھوت چھات کی رسم ختم کرنے والا، غریب پرور، شفقت ومحبت سے پیش آنے والا، سخی و داتا، فیاض، منکسرالمزاج، صاحب دل، درد مند انسان، جذبہ انسانیت سے معمور، انسانوں کو اس کے خدا سے متعارف کرانے کی جستجو کرنے والا، سلسلہ چشتیہ کا ہند میں بانی، خواجہ غریب نواز سید معین الدین اجمیری ؒ بن غیاث الدین ؒ بن کمال الدینؒ بن احمد حسین ؒبن نجم الدین طاہرؒ بن عبدالعزیز ؒبن ابراہیم ؒبن علی رضاؒ بن موسیٰ کاظمؒ بن جعفر صادقؒ بن محمد باقرؒ بن علی زین العابدینؒ بن سیدناحضرت حسینؓ بن علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔

ولادت باسعادت ۵۳۷ ہجری میں ایران کے شہر سیستان کے قصبہ سنجر میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وتربیت والد محترم سید غیاث الدین حسن سے حاصل کی جو وقت کے کبار علماء میں سے ایک تھے، میں ذہین اتنا تھا کہ عمر کی دہائی کو پہنچنے سے قبل قرآن پاک حفظ کرچکا تھا، خداداد صلاحیت  اور ذہانت وفطانت ، غیر معمولی فہم وفراست اور قوت یادداشت کی وجہ سے جلد ہی علوم حدیث، فقہ اور علوم تفسیر میں دسترس حاصل کرلی، عمر کی پندرہویں سیڑھی پر قدم رکھا تو والد محترم کا سایہ عاطفت سر سے اُٹھ گیا، والدہ محترمہ بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید دائود ؒ نے بڑے ناز ونعم سے پالا پوسا اور تربیت کی، والد کے انتقال کے بعد وراثت میں ملی جائیداد کو ذریعہ معاش بنایا لیکن شیخ ابراہیم قندوزی کی خصوصی توجہ سے دنیاوی محبت سے بے زار ہوکر کنارہ کشی اختیار کرلی اور والد محترم کی جائیداد کو غرباء و مساکین میں تقسیم کرکے طالب حق بن کر سمرقند و بخارا کی طرف کوچ کیا جہاں مولانا حسام الدین بخاری ؒ اور مولانا شرف الدین ؒ صاحب شرع الاسلام جیسے کبار علماء کی صحبت میں حاضر ہوا اور پورے ذوق وشوق سے حصول علم میں مصروف ہوگیا۔ علوم شریعت کی تکمیل کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے رخت سفر باندھا، عراق اور حجاز مقدس میں ٹھہرتے اور استفادہ کرتے ہوئے نیشا پور کے قصبہ ہارون پہنچا اور وہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلوک و یقیں کی منازل طے کرکے مرتبہ قطبیت پر فائز ہوا۔ خواجہ عثمان ہارونی سے خلافت واجازت کے بعد رخصت ہوا اور دنیا کی سیاحت کا آغاز کیا، سنجان میں حضرت شیخ نجم الدین اکبرؒ اور جیلان میں شیخ المشائخ سیدنا عبدالقادر جیلانی اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت وولایت کا علم حاصل کیا، بغداد کے بعد اصفہان پہنچا ، وہاں شیخ  محمود اصفہانی سے ملاقات کی ، اصفہان سے ۵۸۳ ہجری میں مکہ پہنچا اور زیارت وطواف خانہ کعبہ سے سرفراز ہوا۔ 
حج کے بعد مدینۃ النبی ﷺمیں حاضری دی اور حضورﷺ کے روضہ اقدس کی زیارت کی، یہاں کچھ دن قیام کیا اور اپنے وقت کو عبادت و ریاضت میں صرف کیا، ایک دن بارگاہ نبیﷺ سے مجھے ہندوستان جانے کی بشارت ملی ’’اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا۔ ‘‘ (سیر الاقطاب ص ۱۲۴)  ۵۸۷ ہجری  میں افغانستان کے راستے لاہور پہنچا، وہاں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزار پر مراقبہ کیا، پھر وہاں سے ملتان ہوتے ہوئے پرتھوی راج چوہان کے  زمانے میں اجمیر پہنچا اور یہاں اپنی خانقاہ بنائی اور علوم ومعرفت کا افتتاح کیا، یہاں میری شیریں گفتگو، اعلیٰ اخلاق، باطل شکن کرامتوں نے لوگوں کو متوجہ کرلیا، اہل اجمیر نے جب میری روحانی عظمتوں کامشاہدہ کیا تو جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے اور اجمیر جو کفر وشرک کا گہوارہ تھا وہ باب الاسلام میں تبدیل ہوگیا۔ یہاں سے پورے برصغیر ہند میں اسلام کی شمعیں جلنی شروع ہوگئیں، بڑے بڑےبادشاہ قدم  بوسی کو حاضر ہوئے، میری صحبت بابرکت سے فیض یاب ہوکر کوئی قطب الدین بختیار کاکی ؒبنا، کوئی نظام الدین اولیاء ؒبنا،  کوئی صابر کلیریؒ بنا، کوئی سلطان شمس الدین التمشؒ بنا، کوئی سلطان شہاب الدین غوری ؒ بنا، کوئی ابوالحسن یمین الدین خسروؒ بنا، کوئی ضیاء الدین بلخی ؒبنا۔
۵۴ سال ہندوستان میں دکھی انسانیت کی خدمت کی، انسانوں سے بدتر زندگی گزارنے والے شودروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے مساوات کا عظیم پیغام دیا ، ۶؍ رجب ۶۳۳ ہجری میں خدا کے  بلاوے پر سلطان شمس الدین التمشؒ کے عہدزریں میں فانی دنیا سے اپنی پیشانی پر ’ حبیب اللہ مات فی حب اللہ‘ کا نقش لیے ہوئے ہمیشہ کےلیے آسودہ خواب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ہاں میں وہی معین الدین چشتی ہوں جو زندگی  بھر تو مرجع الخلائق تھا ہی؛ لیکن بعد از مرگ بھی مرجع الخلائق ہوں، مزار مبارک پر پوری دنیا کے لوگ حاضری دیتے ہیں جس میں ہندو بھی ہیں مسلم بھی، سکھ بھی ہیں عیسائی، یہودی بھی ہیں ، مجوسی بھی۔ ہاں میں وہی معین الدین  اجمیری ہوں جس کے مزار کی ۱۹۰۲ میں زیارت کرتے ہوئے لارڈکرزن وائسرائے ہند نے کہا تھا کہ ’’میں نے ایک قبر کو ہندوستان میں حکومت کرتے دیکھا ہے‘‘۔ مجھے اس دنیا سے گئے ہوئے صدیاں گزر گئیں؛ لیکن مجھ سے لوگوں کو جو والہانہ محبت ہے اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی، بارہا نفرت کے پجاریوں نے اس محبت کو کم کرنے کی کوشش کی ، کبھی مزار کے احاطے میں بم دھماکہ کرایا گیا،کبھی  گنگا جمنی  تہذیب کے امین شہر اجمیر میں فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی اور کبھی میری شان میں گستاخی کی گئی؛ لیکن ہمیشہ محبت کے پیامبروں نے بشمول ہندو، مسلم، سکھ عیسائی کھڑے ہوگئے اور نفرت کے پجاریوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ گزشتہ روز بھی ایک دریدہ دہن گودی میڈیا کا پیروکار نفرت کے پجاری نے مجھے برے القاب سے نوازا، مجھے ’لٹیرا‘ کہا؛ لیکن جب دیکھا کہ ماحول جو بنانا تھا اس کے علاوہ ہوگیا تو فوراً آباء و اجداد کی روش اپناتے ہوئے معافی پر اتر آیا؛ لیکن میرے چاہنے والے اڑے ہوئے ہیں اور کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں حکومت وقت کو بھی چاہئے کہ وہ بزرگوں کی اہانت سے  باز آجائے اور اس طرح کی حرکت کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دے؛ ورنہ اللہ بزرگوں کی اہانت کے جرم میں جلد ہی تازیانہ عبرت بناسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جو میرے محبوب کا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے۔ جو میرے محبوب کو تکلیف دے گا میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں۔یہ کچھ ایسی ہی صورتحال ہے، چند نام نہاد،عصبیت سے بھرے ہوئے لوگ میری عزت پامال کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن میری عزت کا نگہبان میرا خدا ہے اور وہی خالق و مالک ہے۔ ہاں میں وہی خواجہ اجمیری ہوں جس کے عرس پر فرقہ پرست پارٹی کے لیڈران بھی سیاسی فوائد کے لیے چادریں پیش کرتے ہیں اب میں اپنی درگاہ کے مجاوروں کو دیکھ رہاہوں کہ وہ چادر انھیں کب واپس کرتے ہیں جن کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی  میں فرقہ پرستی نے اکثریت کے ذہن کو نفرت انگیز کردیاہے۔ یہ جو ادھر ادھر سے نفرت کی چنگاری نکلتی ہے آخر اسے دھواں کون دیتاہے۔ مجھے وہ صوفی کانفرنس والے بھی یاد آرہے ہیں جنھوں نے کانفرنس کا آغاز پورے جاہ وحشم کے ساتھ نفرت کے سوداگروں کے میرکارواں سے کرایاتھا، ان کی زبانیں کب کھلتی ہیں، ان کے اظہار یکجہتی پر مجھے افسوس ہورہاہے۔ زبان و بیان اور قول و عمل کا تضاد تو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ دنیا کو صوفی ازم کا سبق یاد دلانے والے، لوگوں کو صوفیت سے جوڑنے کی کوشش کرنے والے اور خود کو صوفی رشی کا پیروکار کہنے والے کے دور میں یہ سب ہورہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور کب ایسے انسانیت دشمن افراد کو سزا ملے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے