چانداور سورج گہن کے موقع پرہمیں کیا کرنا چاہئے؟

چانداور سورج گہن کے موقع پرہمیں کیا کرنا چاہئے؟
چاند اور سورج گہن کے موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟
 شکیل منصور القاسمی

نقص وکمی کو عربی زبان میں “خسف” کہتے ہیں (الصحاح للجوہری ج4ص 1350 )
سورج اور چاند کی روشنی میں بشکل گہن جو کمی ہوجاتی ہے اسے “خسوف “  اور “کسوف “ کہتے ہیں ۔
بخاری شریف کی روایت (عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلا لِحَيَاتِهِ ، وَلَكِنَّهُمَا آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا "صحيح البخاري .(رقم 3202 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسوف و خسوف اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں ،اس سے مقصود بندوں کو خوف دلانا ہے ، پس جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو) میں خسوف کا اطلاق سورج اور چاند دونوں کے گہن پر ہوا ہے ، لیکن ائمہ لغت نے عموماً سورج گہن کے لئے “کسوف “ اور چاند گہن کے لئے”خسوف “ کے استعمال کو ترجیح دی ہے ، (الصحاح للجوہری (ج4ص 1350)
قرآن کریم کی ایک آیت میں چاند گہن کے لئے خسوف کا لفظ  استعمال ہوا ہے 
ارشاد باری ہے : 
 فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ * وَخَسَفَ الْقَمَرُ * وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ * يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ * كَلَّا لَا وَزَرَ * إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ * يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ (سورة القيامة 7-13.)

 کسوف و خسوف کی حکمت


علامہ سیوطی کے بقول دنیا میں بہت سے لوگ کواکب و نجوم کی پرستش کرتے ہیں ، اس لئے حق تعالی شانہ نے سورج و چاند جیسے دو بڑے نورانی اجسام پہ کسوف و خسوف طاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ اپنی قدرت کاملہ دکھلا کر ان کی پوجا کرنے والی اقوام کی غلطی ظاہر کرے (اوجز المسالک 274/2 ۔انعام الباری شرح بخاری ) 

نیز تاکہ اللہ تعالی صاحب ایمان بندوں کو اپنی بے پناہ قدرت و طاقت دکھائیں  اور مخلوقات کے عجز ودرماندگی کو عالم آشکار کریں  تاکہ مومنین  قیامت کے اس ہولناک مناظر کو یاد کرکے قادر مطلق کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں جن کی منظر کشی قرآن نے کچھ یوں کی ہے :
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْO
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا۔ (التکوير، 81: 1)
سنُريهم آيَاتِنَا في الافاق وفِي أنفسهم حتى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب (آپ کی حقانیت کی تصدیق کے لئے) کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔
(حٰم السَّجْدَة، 41: 53)

آیت کریمہ میں جن نشانیوں کے دکھلانے کی بات کی گئی ہے ان ہی میں  سورج گرہن اور چاند گرہن بھی ہے ۔

 توہم پرستی سے حقیقت پسندی کی طرف 
عربوں میں مشہور تھا کہ سوچ گرہن اور چاند گرہن تب لگتا ہے جب زمین پر کوئی بہت بڑا ظلم ہو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو وہم قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اﷲِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوہَا فَصَلُّوا.
سورج اور چاند کو کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔
(بخاري، 1: 353، رقم: 995، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة)
(مسلم، 2: 630، رقم: 914، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي)
اور حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اﷲِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا.

سورج اور چاند کو کسی کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب ایسا دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔ (بخاري، 1: 359، رقم: 1008)

سورج وچاندگہن کی عقلی  وجہ اور اس موقع سے شرعی تعلیمات 

ماہرین فلکیات کے مطابق اگر سورج وچاند  دونوں کے درمیان میں  زمین آ جائے تو چاند گرہن ہوتا ہے اور اگر سورج اور زمین کے درمیان میں چاند آ جائے تو سورج گرہن ہوتا ہے، جو کہ انسان کیلیے  قیامت کے دن کا معمولی سا منظر پیش کرتا ہے کہ کس طرح سورج کی بے پناہ روشنی کو اللہ تعالی یک لخت میں ہی گل فرما سکتا ہے۔

مذہب اسلام میں ایسے موقع سے توہمات وخرافات کے شکار ہونے یا تماشہ بینی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے بلکہ اس عظیم نشانی کو غفلت سے آنکھیں کھولنے اور بارگاہ رب العالمین میں عجز ونیاز اور توبہ واستغفار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے  
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ایک بار سورج گرہن ہوا تو اتفاق سے اسی دن آپ ﷺ کے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی  جس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ آج ابراہیم کی موت پر سورج گرہن ہوا ہے ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا.
ترجمہ: سورج اور چاند کسی کے فوت ہونے پر گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو اللہ تعالی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔( صحیح  بخاری: 1041)

حَدَّثَنَا مُوسَى أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ خُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ قَالَ جَابِرٌ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ إِذَا خُسِفَا أَوْ أَحَدُهُمَا فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ خُسُوفُ أَيِّهِمَا خُسِفَ . (مسند أحمد برقم : 14348)
ترجمہ: ابوزبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سورج گرہن کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ چاند اور سورج گرہن کو گہن لگ جاتا ہے جب تم ایسی چیز دیکھا کرو تو اس وقت تک نماز پڑھتے رہا کرو جب تک گہن ختم نہ ہوجائے۔ (مسند احمد :14348)

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گرہن کے وقت خود بھی نماز ادا فرمائی اور کائنات میں اس تبدیلی کے وقت امت کو یہ تعلیم بھی دی :
عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَزِعًا یَخْشَی أَنْ تَکُونَ السَّاعَةُ فَأَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلَّی بِأَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَیْتُهُ قَطُّ یَفْعَلُہُ وَقَالَ هَذِہِ الْآیَاتُ الَّتِي یُرْسِلُ اﷲُ لَا تَکُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنْ {یُخَوِّفُ اﷲُ بِهِ عِبَادَهُ} فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذَلِکَ فَافْزَعُوا إِلَی ذِکْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ.

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سورج کو گرہن لگا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسے قیامت آ گئی ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور نماز پڑھی، بہت ہی لمبے قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ۔ میں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ جب تم ایسی کوئی بات دیکھو تو اللہ کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف دوڑا کرو۔
(بخاري، الصحیح، 1: 360، رقم: 1010مسلم، الصحیح، 2: 628، رقم: 912)

 سورج اور چاند گہن کی نماز کی شرعی حیثیت 

سورج گہن کی نماز تقریبا تمام ہی ائمہ مجتہدین کے نزدیک سنت موکدہ ہے (بعض مشائخ حنفیہ کے مرجوح قول کے مطابق واجب ہے )
 چاند گہن کے بارے میں احناف وموالک استحباب کے قائل ہیں ۔ان کے ہاں کسوف کی طرح یہ نماز مسنون نہیں!  جبکہ شوافع  وحنابلہ اسے بھی مسنون کہتے ہیں ۔(الموسوعہ الفقھیہ 252/27 )

  کسوف وخسوف میں طریقہ نماز و تعداد رکعات 

سورج گرہن کے وقت کم از کم دو رکعت نماز باجماعت ادا کرنا مسنون ہے،  جس میں اذان ہوگی،  اقامت اور  نہ ہی خطبہ، ہاں لوگوں کو جمع کرنے کے  لئے اعلان کرنے کی گنجائش ہے 
دو سے زیادہ رکعات بھی پڑھی جا سکتی ہیں اور اگر جماعت کا موقع نہ ہو تو اکیلے اکیلے بھی پڑھ سکتے ہیں:
یصلی بالناس من یملک إقامة الجمعة بیان للمستحب (درمختار) أی قوله یصلی بالناس بیان للمستحب وهو فعلها بالجماعة: أی إذا وجد إمام الجمعة وإلا فلا تستحب الجماعة بل تصلی فرادیٰ (شامی بیروت62/3)
بلا أذان ولا إقامة الخ۔ وینادیٰ الصلاۃ جامعة ليجتمعوا (شامی بیروت62/3)
سورج گرہن شروع ہونے سے لیکر گرہن کا اثر باقی رہنے تک طویل نماز پڑھنی چاہئے 
لیکن درمیان میں زوال کا یا دیگر مکروہ وقت آجائے تو نماز کے بجائے دعاء واستغفار میں مشغول ہونا چاہئے 
اوقات مکروہہ میں نوافل نہیں ہیں : 
فی غیر وقت مکروہ لأن النوافل لا تصلیٰ فی الأوقات المنهی عن الصلاۃ فیها وهذه  نافلة الخ، عن الملتقط إذا انکسفت بعد العصر أو نصف النهار دعوا ولم یصلو (شامی بیروت62/3)

صاحب مذہب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں سورج گہن کی نماز میں قرات آہستہ کی جائے گی جبکہ حنفیہ میں امام ابو یوسف جہری قرات کے قائل ہیں 
چونکہ کسوف میں رکوع وسجود اور لمبی قرات کرنا افضل وبہتر ہے اس لئے لوگوں کو اکتاہٹ سے بچانے کے لئے امام ابو یوسف کے قول پر عمل کرلے تو مضائقہ نہیں :
ولاجهر ، وقال ابو یوسفؒ:يجهر  وعن محمدؒ روایتان.ویطیل فیها الرکوع والسجود والقراء ۃ والأدعیۃ والأذکار۔ (درمختار) فیقرأ أي فی الرکعتین مثل البقرۃ واٰل عمران کما فی التحفة، والإطلاق دال علی أنه  یقرأ ما أحب فی سائر الصلاۃ کما فی المحيط (شامی بیروت62/3)
وبائی متعدی مرض کورونا کی وجہ سے رکوع وسجود یا تطویل قرات کی کوئی قانونی دشواری ہو تو حفظان صحت کے اصولوں پہ عمل در آمد کرتے ہوئے ترک تطویل بھی کرسکتا ہے 
کیونکہ تطویل قرات محض افضل وبہتر ہے 
جبکہ حفظان صحت کے اصولوں کا لحاظ آج کے حالات میں نسبۃً زیادہ ضروری ہے
۔ 
البتہ  چاند گرہن کی نماز میں دو رکعت ہے مگر اس میں جماعت نہیں ہے بلکہ ہر آدمی الگ الگ یہ نماز پڑھے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں میں جماعت اور خطبہ ہے۔
احناف کے نزدیک کم از کم دو رکعت ہے  اور چار پڑھنا بھی درست ہے،  چاند گہن کی نماز عام نماز کے طریقہ کار  کے مطابق ایک رکعت میں ایک ہی رکوع کے ساتھ اداء کی جائے گی لیکن اِنفرادی طور پر گھروں میں پڑھیں گے، جماعت سے پڑھنا ہمارے یہاں  مشروع نہیں ،
(بدائع 1/282)

اِمام مالک کے نزدیک نماز خسوف کی دو رکعتیں مسنون ہیں، اور یہ عام نمازوں کی طرح پڑھی جائے گی ،یعنی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع اور دو سجدے کیے جائیں گے، اور اس میں جہرا قراءت کی جائے گی۔

جبکہ شوافع کے نزدیک ہر رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کئے جائیں گے  ۔
خسوف کی دو گانہ جو عام نوافل کی طرح بغیر جماعت کے ایک رکوع اور ہر رکعت میں دو سجدے کے ساتھ جو پڑھی جائے گی تو اس کی دلیل ذیل کی احادیث ہیں : 

عن أبي بكرة أنه قال : كسفت الشمس على عهد رسول الله - صلي الله علية وسلم - ، فخرج رسول الله - صلي الله علية وسلم - يجر ردائه حتى دخل المسجد ، فدخلنا فصلى بنا ركعتين حتى انجلت الشمس ، وذلك حين مات ولده إبراهيم ثم قال : "إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله – تعالى – وإنهما لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته فإذا رأيتموها فصلوا وادعوا حتى يكشف ما بكم "( الحديث عن أبي بكرة – رضي الله عنه ( في البخاري 2/42 ، 43) (كتاب الصلاة باب الصلاة في كسوف القمر النبي - r - يخوف الله عباده بالكسوف) وانظر : سنن النسائي 1/214 (كتاب الكسوف ، باب الأمر بالصلاة عند الكسوف حتى تنجلي ) 
  
     اس حدیث میں نماز کسوف کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں بتایا گیا بلکہ عام طریقہ کے مطابق ہی یہ نماز ادا کی گئی تھی جو دلیل ہے کہ اس کا کوئی مخصوص طریقہ متعین ولازم نہیں ۔بعض مخصوص پس منظر میں حضور نے دو رکوع کئے تھے ۔اس میں تعمیم نہیں ہے ۔
اس کیفیت نماز کو   ایک دوسری روایت میں "نحو صلوة أحدكم "  اور "كهيئة صلاتنا "  کے ذریعہ  مزید واضح کردیا گیا : 
     وفي رواية : عن أبي بكر ، أن رسول الله - صلي الله علية وسلم - صلى ركعتين نحو صلاة أحدكم .
      وروى الجصاص عن علي والنعمان بن بشير وعبد الله بن عمرو وسمرة بن جندب والمغيرة بن شعبة رضي الله عنهم ، أن النبي - صلي الله علية وسلم - صلى في الكسوف ركعتين كهيئة صلاتنا (سنن النسائي ، حديث رقم 1489 ، 3/145 ، وحديث رقم 1492 ، 3/146 ، وذكره الجصاص في مختصر اختلاف الفقهاء 1/381 .)
 تیز آندھی آئے یا دن میں اند ھیرا چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار بہت زیادہ بارش ہو یا آسمان لال ہو جائے یا بجلیاں گریں یا کثرت سے تارے ٹوٹیں یا کوئی وبا وغیرہ پھیل جائے یا زلزلہ آئے یا دشمن کا خوف ہو یا اور کوئی  دہشت ناک بات پائی جائے تو اِن سب صورتوں میں دو رکعت نماز پڑ ھنا بھی  مستحب ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے : 
الصَّلَاةُ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ.
(وَمِمَّا يَتَّصِلُ بِذَلِكَ الصَّلَاةُ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ) يُصَلُّونَ رَكْعَتَيْنِ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ وُحْدَانًا، هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ، وَكَذَلِكَ إذَا اشْتَدَّتْ الْأَهْوَالُ وَالْأَفْزَاعُ كَالرِّيحِ إذَا اشْتَدَّتْ وَالسَّمَاءُ إذَا دَامَتْ مَطَرًا أَوْ ثَلْجًا أَوْ احْمَرَّتْ وَالنَّهَارُ إذَا أَظْلَمَ وَكَذَا إذَا عَمَّ الْمَرَضُ، كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ.
وَكَذَا فِي الزَّلَازِلِ وَالصَّوَاعِقِ وَانْتِثَارِ (1) الْكَوَاكِبِ وَالضَّوْءِ الْهَائِلِ بِاللَّيْلِ وَالْخَوْفِ الْغَالِبِ مِنْ الْعَدُوِّ وَنَحْوِ ذَلِكَ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَذَكَرَ فِي الْبَدَائِعِ أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ فِي مَنَازِلِهِمْ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.(ج1 ص 153  )

 اس صدی کا سب سے بڑا چاند گہن 

نئی دہلی 14 جولائی (ایجنسیز)اس مہینہ کی27 اور28 تاریخ کوایک گھنٹہ 43 منٹ طویل مکمل چاند گہن ہوگا۔ ایک گھنٹہ 43 منٹ تک قائم رہنے والا یہ مکمل چاند گرہن موجودہ صدی (2001 سے لے کر 2100) کا سب سے طویل مکمل چاند گرہن ہوگا۔ ہندستان کے تمام علاقوں سے اس مکمل چاند گہن کا نظارہ کیاجاسکے گا۔(روزنامہ منصف)

 اوہام وخرافات
جیساکہ اوپر کی سطروں میں واضح کردیا گیا کہ چاند گہن خدا کی نشانی ہے ۔مومنوں کو اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرنا چاہئے ۔اس کے لئے باضابطہ نماز مشروع و مستحب ہوئی  ہے 
خدا ئے مالک وخالق کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہئے 
ایسے موقع سے حاملہ خواتین کو گھروں میں بند کردینا یا چاقو وچھری وغیرہ کے استعمال سے انہیں نقصان پہونچنے کا عقیدہ رکھنا شرکیہ وباطل عقیدہ ہے ۔چاند گہن کو کسی کے حمل میں تاثیر ڈالنے یا نقصان پہونچا نے کی کوئی قدرت نہیں ۔ واللہ اعلم 
26 جولائی 2018

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے