دنیا ایک نابغہ روزگار شخصیت سے محروم ہوگئی!


دنیا ایک نابغہ روزگار شخصیت سے محروم ہوگئی!!
دنیا ایک نابغہ روزگار شخصیت سے محروم ہوگئی

ازقلم:انوار الحق قاسمی،جینگڑیا،روتہٹ،نیپال

 ۲۵/رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹/مئی ۲۰۲۰ء کوبوقت چاشت،اس روئے زمین پر کارفرمائے فطرت کی طرف سے ایک اندوہناک، بہت ہی بڑا حادثہ رونما ہوا، جس  کی بناء پرہرہشاش وبشاش چہرے پر پزمردگی واداسی رونما ہونے لگی، پرسکون ماحول کلمح البصر بے چینی واضطراب میں بدل گیا،آہ و بکا وگریہ زاری اور نالہ وشیون سے یہ سطح زمین گونج گئی ، عربی اردو اور انگریزی اخباروں سے رونے، چیخنے ،اور سسکیوں کاسلسلہ، ہر بڑے چھوٹے کی جانب سے تعزیتی کلمات کا دور شروع ہوگیا ،یہ سب کچھ صرف؛ اس لئے ہوا کہ دنیا ایک بے مثال عالم دین، رئیس المفسرین، فخر المحدثین،فقیہ النفس ،امام المتکلمین، استاذالاساتذہ، ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کے اس دنیائے آب و گل سے رحلت اور انتقال فرمانے کی وجہ سے عظیم سلف  کے ایک عظیم خلف  سے دائمی محروم ہوگئی ۔
   حضرت  میانہ قد کے تھے، یعنی نہ ہی زیادہ طویل القامت اور نہ ہی زیادہ قصیر وپستہ ،درمیانی جسم تھا ، نہ ہی  زیادہ موٹا اور نہ ہی فربہ،لحیم وشحیم، اور نہ ہی زیادہ نحیف ولاغر ،گندمی رنگ ،نہ ہی زیادہ ابیض وسفید ،اور نہ ہی  زیادہ اسود وسیاہ اور کالاتھے ،قدرے بڑا سرتھا ،کشادہ پیشانی تھی ، سادہ مزاج اورسادگی پسند ،بھیڑ بھاڑ سے طبعی اورازلی نفرت تھی (  اسی تناظر میں حضرت مفتی صاحب کا یہ قول  قابل ذکر ہے :حضرت مرحوم ایک دفعہ دوران درس فرمائے تھے کہ، مجھے بھیڑ بھاڑ سے بے حد نفرت ہے،غایت محبت کی وجہ سے مجھے، دارالعلوم دیوبند کے سابق اورہردلعزیز مہتمم حضرت  مولانا محمد مرغوب الرحمن صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے، کافی  صدمہ ہوا، اور ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آیا؛مگر لوگوں کی کثرت وازدحام اور بھیڑ بھاڑ کی وجہ  سے نماز جنازہ سے قبل ہی واپس ہو گیا) ریاضات و مجاہدات کے عادی،  کتب بینی سے فطری محبت، بےانتہا متواضع و خلیق، متقی و پارسا، زاہد ورند ،بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت و محبت کرنے والے، کئی  نسلوں کے معلم و مربی ، فرق باطلہ اور ضالہ  کے خلاف سدسکندری تھے ۔

 ولادت باسعادت اورتعلیمی دور: اس دنیائے  رنگ وبو میں حضرت مفتی صاحب اپنے آبائی وطن "کالیڑہ "شمالی گجرات پالن پور  میں  سن ۱۳۶۰ ھ مطابق 1940 میں اپنی آنکھیں کھولیں اور عدم سے وجود میں آئے ،اس وقت آپ گھرانہ کوئی علمی گھرانہ نہیں تھا؛البتہ دین دار گھرانہ ضرور تھا،مرحوم ومغفور جب علوم حاصل کرنے کے قابل ہوگئے ،تو آپ کے والد ماجد نےکسب علوم دینیہ کے لیے عام روش کے مطابق وموافق اپنے گاؤ ں ہی کے مکتب میں  داخل کردیا ،اور جب آپ بالکل ابتدائی تعلیم یعنی قرآن کریم ناظرہ وغیرہ سے فراغت حاصل کرچکے ،توعربی وفارسی کی تعلیم کے حصول کے لیے چھاپی گجرات بمسمی دارالعلوم میں داخل کردیا،خوش قسمتی اور بلند اقبالی سے، اس ادارہ  کےجید  اور باصلاحیت اساتذہ کرام میں  سے من جملہ ہر فن مولا ،ماہر استاذ آپ کے ماموں حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب بھی  تھے ،جن سے آپ نے عربی و فارسی کی کتابیں پڑھیں، بعد ازاں پالنپوری ہی  کے شہر میں واقع عربی مدرسہ میں داخل ہو گئے ،یہاں آپ نے علم  کے درخشندہ و تابندہ، مختلف علوم و فنون میں ماہر ،اور بے مثال اساتذہ  سے "شرح جامی" تک تعلیم حاصل کیا ، علوم  متوسطہ کے حصول کی خاطر جامعہ عربیہ مظاہرعلوم سہارنپور میں داخل ہوگئے، اور یہاں آپ نے چوٹی کے علماء کرام اور ہر فن میں کامل  دسترس رکھنے والے ،قابل و محبوب اساتذہ کرام سے، مختلف فنون میں، کئی کتابیں پڑھیں، اورپھر  علوم عالیہ کے کسب و حصول  کے لیےسن ۱۳۸۰ ھ میں ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ،مرکزی ادارہ ازہر ہند دارالعلوم /دیوبند میں  داخل ہوئے،  اور یہاں آپ نے علم و فضل کے آفتاب و ماہتاب، بحرالعلوم، جبل العلوم اور شمس العلوم ،علوم عقلیہ  اور نقلیہ کے ماہرین مندرجہ ذیل اساتذہ کرام: حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی ،حضرت مولانا محمد قاری طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد اسلام الحق صاحب اعظمی ، حضرت مولانا سید حسن دیوبندی صاحب، حضرت مولانا فخر الدین صاحب مراد آبادی ،حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب کیرانوی ،حضرت مولانامفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہانپوری، اور شیخ محمود عبدالوہاب صاحب مصری رحمہم اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اور سن ۱۳۸۲ھ میں "دورہ حدیث شریف "میں پہلی پوزیشن سے کامیابی و کامرانی حاصل کی، دورہ حدیث سے فراغت  کے بعد مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیے ،دارالعلوم دیوبند ہی کے ایک مقبول و محبوب ترین شعبہ "تکمیل افتاء "کے لیے، آپ نے شوال المکرم سن ۱۳۸۲ ھ میں  درخواست دی، اوریکم ذی قعد ہ سن ۱۳۸۲ ھ کو"دارالافتاء" دارالعلوم/ دیوبند میں داخلہ ہوگیا ،اور حضرت مفتی مہدی حسن صاحب شاہجہاں پوری کی نگرانی میں کتب فتاوی کا مطالعہ اور فتوی نویسی ومشق وتمرین  کا آغاز فرمایا،اور خوب  عرق ریزی اور کافی لگن و شوق کے ساتھ "افتاء"  کیا، اس میں بھی آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کے مقابلے میں، سب سے ممتاز اور اعلی نمبرات سے فوزوفلاح حاصل کیا۔

    تدریسی دور :دارالعلوم دیوبند سے "تکمیل افتاء " سے فراغت کےمعااور متصلا ہی حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی کے توسط سے استاذ علیا  کے لئے "دارالعلوم اشرفیہ راندیر "میں سن ۱۳۸۶ ھ  میں آپ کا تقرر عمل میں آیا، چناں چہ اسی وقت سے ،آپ نے مدرسہ اشرفیہ کے خوشہ چینوں کو اپنے بحر بیکراں علوم ِ سےسن  ۱۳۹۳ھ  تک مستفید اور سیراب کرتے رہے، نو سال کے عرصے میں دارالعلوم اشرفیہ میں ،مفتی صاحب نے مندرجہ ذیل ذکر کردہ کتابیں :ترجمہ قرآن، جلالین شریف، الفوز الکبیر، شرح عقائد نسفی، ہدایہ آخرین ،مشکاۃشریف، ابوداودشریف، ترمذی  شریف،  شمائل  ترمذی، نسائی شریف، ابن ماجہ شریف، اور مؤالطین پڑھائی ہیں ۔

  دارالعلوم دیوبند میں آپ کاتقرر:سن ۱۳۹۳ ھ کے ماہ شعبان المعظم میں، جب مجلس شوریٰ کا انعقاد عمل میں آیا، اور درجات عربی لیے ایک مدرس کے تقرر کا تذکرہ آیا، تو حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی قدس سرہ نے موصوف کا نام پیش کیا، اور اسی مجلس ہی  میں ،موصوف کا تقرر  ہوگیا ،مفتی صاحب کوشعبان المعظم ہی میں اس کی اطلاع اور خبر دے دی گئی، اور آپ  "رمضان المبارک" کے بعد دارالعلوم/ دیوبند تشریف لے آئے، اور اسی وقت سے اب تک یعنی تادمِ زیست و حیات آپ نےعلوم دینیہ کے پیاسوں کو اپنےعلوم سے فیضیاب اور سیراب کرتے رہے۔
    حضرت کی قبولیت درس کی ایک جھلک: مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں ایک مدت مدید اور عرصہ دراز تک ترمذی شریف (جلد اول) حضرت سےمتعلق رہی ہے،اور سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد صاحب کی وفات اور انتقال کے بعد سے اب تک بخاری شریف" جلد اول" متعلق رہی ہے،دونوں ہی کتابوں میں سے ہر ایک کتاب کے درس کاوقت ہوتے ہی،ہر بیدار،سویا ہواطالب علم ؛گرچہ وہ بیمار ہی کیوں نہ ہو،دارالحدیث کا  رخ ضرور کرتا، اس طرح حضرت کی آمد سے قبل ہی پورا دارالحدیث علوم نبویہ کے شیدائیوں سے کھچا کھچ بھر جاتا، اور پھر جب حضرت شیخ الحدیث تشریف لاتے، تو طلبہ کے اذہان  و قلوب پر خالق مطلق کی عطا کردہ افہام و تفہیم کے ملکہ سے زبردست حکمرانی کرتے، انداز درس بے مثال تھا، حضرت درس دیتے جاتے اور طلبہ کے اذہان  میں حرف بہ حرف پیوست اورجاگزیں کرتے جاتے، حضرت کے درس سے ہر طالب علم فرحاں و شاداں خوش و خرم اپنی علمی تشنگی بجھا کر"دارالحدیث "سے نکلتا تھا، اسی وجہ سے اگر کوئی طالب علم حضرت کے درس میں حاضری نہیں دے پاتا ،توبعد میں، وہ اپنےدل و دماغ کو بہت ہی زیادہ کوفت اور ملامت کرتا، اور اس صفحہ ہستی  پر خودی کو سب سے بڑابدقسمت اورمحروم القسمت خیال کرتا،اور اپنی غیر حاضری پرخوب روتاتھا۔
  تصنیفی خدمات: حضرت الاستاذ ایک طرف باکمال اور زبردست افہام وتفہیم کے حامل مدرس تھے ،تو دوسری طرف بے مثال انشاءپرداز اور عظیم مصنف بھی تھے ،حضرت بیک وقت مختلف علوم و فنون میں یکساں دسترس رکھتے تھے،  حضرت  ایک ہی وقت میں،  مفسر قرآن ،شارح حدیث ،محقق دوراں،  فقیہ زمن،رئیس  المتکلمین، امام  النحو والصرف تھے، حضرت جس فن میں بھی  کسی کتاب کی تشریح کے لیے قلم اٹھاتے،  تو وہ کتاب ہر عام خاص کی نظروں میں مقبول ومحبوب ہوجاتی ،اور علوم کے شیدائی اور رسیا اسے ہاتھوں ہاتھ لےلیتے، بخاری شریف اور ترمذی شریف کی بہت سی اردو شرح برصغیر میں لکھی گئی ہیں؛ لیکن اس سلسلے میں ان کی کاوش کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے ،وہ کم ہی کسی دوسرے مصنف کو حاصل ہوئی ،مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "حجۃ اللہ البالغہ"اپنے موضوع پرایک بے نظیر ؛مگر دقیق کتاب سمجھی گئی، آپ نے بہت اسلوبی کے ساتھ اس کی شرح فرمائی ہیں ،جس نے اس سے استفادے کو آسان کر دیا ہے، انہوں نے "ہدایت القرآن" کے نام سے قرآن مجید کی ایک ایسی تفسیر لکھی ہے، جو اساتذہ وطلباء اور عام اصحابِ ذوق کے لئے فہم قرآن کی بہترین کلید ہے، الغرض  حضرت کی اکثر تصنیف مقبول عوام وخواص ہوئی،  اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی بے حد مفید ثابت ہوں گی۔
  دوران درس کی چند یادیں : ختم بخاری کے موقعے سے، حضرت الاستاذ فارغین طلبہ سے مخلصانہ وہمدردانہ  (مستقبل کے پیش نظر) یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے، کہ منتہی اور فارغین طلبہ کی تین قسمیں ہیں: نمبرایک  کے وہ طلبہ ہیں،جو ذہانت و فطانت کے اعلی معیار پر فائز ہیں( حضرت اس قسم کے طلبہ کو" تار"کے درخت سے تشبیہ دیتے تھے) انہیں بلاتردد چاہیے کہ وہ  کسی ادارے سے منسلک ہوکر درس نظامی کی کتابیں پڑھائیں، اور ابتدائی اور انتہائی ساری کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد( سب سے غبی  اورکند ذہن طلبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے )درس دیا کریں،مثلا اگر کسی سےفن نحو کی سب سے ابتدائی کتاب "نحومیر" متعلق  ہے،  تو اسے چاہیے ،کہ وہ نحومیر، ہدایةالنحو، کافیہ، اور شرح جامی تک کی کتابوں کا غائرانہ مطالعہ کرنے کے بعد ہی درس دیں، نمبر دو م کےوہ طلباء ہیں، جو اوسط  درجے کے ذہین وفطین ہیں ، یعنی اعلی وادنی کےبین بین ہیں (مفتی صاحب ا نہیں  "امرود" کے درخت سے تشبیہ دیتے تھے) ان کے حق میں حضرت یہ نصیحت کرتے تھے، کہ  انہیں چاہیے کہ فراغت کے بعد تکمیلات کے کسی شعبہ میں داخلہ لے لیں، اور پھر جو خامیاں اور کمزوریاں رہ گئی  ہیں،  انہیں دوراور ختم کرنے کی پوری جدوجہد اور سعی بلیغ کریں،پھر کسی ادارے سے منسلک اور مربوط ہوکر خوب محنت و جانفشانی کے ساتھ پڑھائیں،  نمبر تین کے وہ طلباء ہیں جو کند ذہن،غبی اور کمزور ہیں(انہیں حضرت" مرچائی"سے تشبیہ دیتے تھے) حضرت فرمارہے تھے :کہ میں اس قسم کے طلبہ کوپہلے "جماعت "میں سال لگانے اور تبلیغی مشن  سے دن کی خدمت کرنے  کی نصیحت اور تلقین کرتا تھا، اس کی بڑی وجہ یہ ہے، کہ تبلیغ میں جو جتنا بڑا جاہل ہوتا ہے، وہ اتنا ہی بڑا پیر بھی ہوتا ہے، اور تم سے بڑا کوئی جاہل ہے  نہیں ؛اس لیےتم تبلیغ میں جاؤ؛ مگر اب چند سالوں سے، انہیں تبلیغ میں بھی جانےکی  نصیحت نہیں کرتا؛کیوں کہ اب تبلیغ میں بھی طرح طرح بدعات وخرافات پیدا ہونے لگی ہیں۔
  محاضرات علمیہ کےآخری اور انعامی جلسہ میں، حضرت کاطلبہ سے خصوصی خطاب ہوتا تھا، جس  میں حضرت الاستاذ  فرمایا کرتے تھے کہ جو طالب علم جس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں،  وہ اپنے علاقے میں شیربن  کر ر ہیں، یعنی ہرباطلہ ،ضالہ اور گمراہ جماعت کی رد اور تردید میں وسیع مطالعہ کریں، اور پھر اسے ذہن و دماغ میں محفوظ و مستحکم بھی رکھیں، تاکہ گیدڑوں  کو سراٹھانے اور بولنے کا موقع ہی نہ ملے۔
  درخشندہ اورتابندہ علماء کرام کے تعزیتی کلمات : حضرت الاستاذ کے وفات پر ملال پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی (اطال  اللہ عمرہ) نےشیخ الحدیث مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا: کہ مولانا کی وفات پوری ملت اسلامیہ بالخصوص  دارالعلوم/ دیوبند کےلیے عظیم خسارہ ہے،ان کی وفات سے پوری علمی دنیا ایک تناور شجردار سے محروم ہو گئی ہے، نیز یہ بھی کہا کہ ادارہ میں ان کی زریں  اور بیش قیمت علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،  خداوندعالم دارالعلوم /دیوبند کوان کانعم البدل عطا فرمائے، اور مرحوم کو اعلی علیین  میں شامل فرمائے اور جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
   دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی نے مفتی صاحب کی وفات پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کہ آج ہمارے درمیان سے وہ آفتاب عالم بھی رخصت ہوگیا، جس نے مسلسل پچاس سالوں تک علم و تحقیق کی شمع روشن رکھی، اور حدیث وتفسیر میں اپنے علمی کمالات کے جوہر دکھائے ،اور بانی دارالعلوم /دیوبند قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و علوم  کو زبانی اسلوب عطاکیا، مولانا نے مفتی صاحب کے انتقال کو زبردست علمی  خسارہ سے تعبیر کرتے ہوئے، جملہ پسماندگان سے اظہار تعزیت کیا اور دعائے مغفرت کی۔
   جمیعت علمائے ہند کے صدر اور دارالعلوم /دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے کہا :کہ مفتی صاحب دارالعلوم/ دیوبند کے ابنائے قدیم میں سے تھے، بچپن ہی سے نہایت ذہین و فطین، کتب بینی اور محنت کے عادی تھے ،اپنی ذہانت اور ذکاوت کی وجہ سے مختلف علوم و فنون اور خاص طور پر فقہ و  حدیث میں ممتاز جانے جاتے تھے، اگر یہ کہہ دیا جائے کہ دارالعلوم دیوبند کےمسند حدیث کے امتیاز کو انہوں نے ہی قائم کر رکھا تھا ،تو اس میں ایک حرف بھی   مبالغہ نہ ہوگا ،بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ باری تعالی ان کی بال بال مغفرت فرمائے، اور دارالعلوم کو حضرت کا نعم  البدل عطا فرمائے، اور مولانا  مرحوم کی علمی وصلبی  اولاد کی نگہبانی فرمائے ۔
   جمیعت علمائے نیپال کے جنرل سکریٹری اور دارالتعلیم والتربیت کے مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد خالد صدیقی صاحب نے حضرت الاستاذ کی رحلت پر کہا :کہ قحط الرجال کے دور میں، ایسی عظیم شخصیت سے دارالعلوم دیوبند؛ بل۔کہ  پوری امت کا محروم ہو جانا، دارالعلوم کے خسارہ کے ساتھ، پوری امت کا نقصان ہے ؛اس لیے جمعیت علمائے نیپال حضرت علیہ الرحمہ کی وفات پر دارالعلوم اورپوری  امت کے ساتھ اظہار تعزیت کرتی ہے، اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی حضرت کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے اور امت کو حضرت کا جانشیں ونعم  البدل عطا فرمائے۔
  
 جمیعت علمائے نیپال کے مرکزی ممبر اور معہد ام حبیبہ للبنات کے بانی وناظم حضرت مولانا محمد عزرائیل صاحب مظاہری نے حضرت الاستاذ کی رحلت پر شدید صدمے کا اظہار کرتے ہوئے ،پس ماندگان سے اظہار تعزیت کیا اور کہا :کہ مولانا کی وفات علمی دنیا کا ناقابل تلافی نقصان ہے، مولانا مرحوم نے دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کے جو گہرے نقوش چھوڑے ہیں وہ تاریخ دارالعلوم/ دیوبند میں عہد زریں  کے طور پر یاد کیے جائیں گے، رب قدیر ان کی تمام خدمات کو قبول فرماکر حضرت مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے۔
   افسوس کی ایسے نازک اور تشویشناک حالات میں، حضرت الاستاذ کی وفات ورحلت ممبئ کے سنجیونی ہوسپٹل میں ہوئی ،کہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا زمانہ چل رہا تھا، مجبورا پندرہ  لوگوں کی موجودگی ہی میں،  حضرت شیخ الحدیث کو جوگیشوری کے" اوشیورہ مسلم قبرستان " میں سپردخاک کردیاگیا، حضرت الا ستاذ کی آخری دیدار، نماز جنازہ، تربت پر مٹی ڈالنے سے محرومی کا قلق و رنج تازیست باقی رہے گا، خدائےلم یزل  حضرت مرحوم  کی بال بال مغفرت فرمائے، اوران کے خوشہ چینوں ،صلبی  اولادوں کو صبر جمیل عطا فرمائے،آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے