ہوتا ہے کوہ ودشت میں پیدا کبھی کبھی

 
ہوتا ہے کوہ ودشت میں پیدا کبھی کبھی

 بیاد: استاذ الاساتذہ حضرت الحاج حافظ محمد نسیم صاحب رحمہ اللہ تعالی

 ولادت :١٩٢٩ء /١٣٤٧ھ،  وفات :  ٢٠٢٠ء /١٤٤١ھ

 عبید اللہ شمیم قاسمی استاذ جامعہ اسلامیہ مظفر پور، اعظم گڑھ 

گذشتہ١٩/ذی الحجہ ١٤٤١ھ مطابق ۹/اگست ٢٠٢٠ء بروز اتوار کو اچانک ایک ایسے حادثہ فاجعہ کی اطلاع ملی جس کا اس سے پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، یعنی مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی کے شعبہ حفظ کے روح رواں ہزاروں حفاظ کے استاذ، استاذ الاساتذہ حضرت الحاج حافظ محمد نسیم صاحب(جو بڑے حافظ جی کے لقب سے معروف ومشہور تھے) کا سانحہ ارتحال پیش آیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اگرچہ بڑے حافظ جی عمر کے اس مرحلے سے گذر رہے تھے کہ اس حادثہ کا وقوع کسی بھی وقت ممکن تھا، لیکن پھر بھی انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی شخصیت جس کے فیض سے لوگ مستفیض ہورہے ہوں اس کی زندگی اور طویل ہو۔ مگر جب موت کا وقت آجاتا ہے تو اس میں کسی طرح کا تقدم وتاخر نہیں ہوسکتا، ارشاد باری تعالی ہے: (إذا جاء أجلہم فلا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون) (سورۃ یونس:٤٩)۔
یہ دنیا چند روزہ ہے، اس کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے، انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ بھی اس دنیا میں اپنی حیات مستعار کے چند روز گذار کر رب کریم کی بارگاہ میں واپس چلا جاتا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: (کل نفس ذائقۃ الموت ثم إلینا ترجعون) (العنکبوت: ٥٧)۔
اور موت زندوں اور مردوں کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کردیتی ہے، جس سے ان کے مابین زندگی میں موجود سارے روابط ٹوٹ جاتے ہیں، موت وحیات کا یہ فلسفہ اسی لیے ہے تاکہ نیکو کاروں کو ان کا اجر دیا جائے،اور نیک وبد میں فرق کیا جائے، ارشاد باری تعالی ہے: (الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملا) (الملک: ۲)۔
اس لیے اس دنیامیں جن شخصیتوں سے کسی بھی نوعیت کا رابطہ ہوتا ہے، یا ان کی بہت زیادہ خدمات ہوتی ہیں، ان کے یہاں سے رخصت ہو کر دار آخرت کی طرف روانہ ہونے پر غم کا ہونا ایک فطری امر ہے، جس کا اظہار آنسوؤں اور جانے والے کے اوصاف وکمالات کی یادوں سے ہوتا ہے،لیکن بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ وقتی طور پر اس کا بہت اثر ہوتا ہے اور بہت دیر تک اثر باقی رہتا ہے۔
اور قیس بن عاصم التمیمی کی وفات پرکہا گیا مشہور عرب شاعر عبدۃ بن الطبیب کا یہ شعر اس پرصادق آتا ہے۔

 وما کان قیس ہُلکُہ ہُلک واحد
  ولکنہ بنیان قوم تہدّما 

کسی اردو شاعر نےکا خوب کہا
 بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
 اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا 

بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: 《إن اللہ لا یَقبِضُ العِلمَ انتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء، حتی إذا لم یبقَ عالماً اتخذ الناسُ رؤسا جُہَّالا، فسُءِلُوا فأفتوا بغیر عِلمٍ، فضَلُّوا وأضَلُّوا(صحیح البخاری، باب کیف یقبض العلم، حدیث نمبر:١٠٠) اللہ تعالی علم کو واپس نہیں لے گا کہ لوگوں کے ہاتھ سے قبض کرے بلکہ علماء کو وفات دے کر علم کو واپس لے گا، اس حدیث کا ظہور آج کل کثرت وشدت سے ہورہا ہے، اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی، ادھر چند ماہ میں علمائے حق جس تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر چل چلاؤ کایہ سلسلہ اسی طرح اگر جاری رہا تو علمی مجلسیں سونی ہوجائیں گی۔
گذشتہ رمضان المبارک ١٤٤١ھ میں دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث وصدر المدرسین حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کا انتقال ہوا، ان کی وفات کا غم تازہ ہی تھا کہ مظاہر علوم سہارن پور کے ناظم اعلی وروح رواں حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب بھی١٨/جولائی ٢٠٢٠ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے، غرضیکہ بہت سے بڑے بڑے علماء چند مہینوں کے دوران اس دار فانی سے رخصت ہوئے، اللہ تعالی تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
اس مختصر مضمون میں بڑے حافظ جی کی زندگی کے کچھ گوشوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، آپ کی زندگی آئینہ کی طرح بالکل صاف شفاف تھی، اور اس مادی دور میں بھی ایک نمونہ تھی، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کی زندگی سے سبق حاصل کیا جائے اور ان تعلیمات کو مشعل راہ بنایا جائے۔

 پیدائش اور ابتدائی تعلیم وتربیت:

بڑے حافظ جی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے مشہور قصبہ سرائے میر سے ۵/ کلومیٹر جانب مغرب موضع بکھرا میں ١٩٢٩ء/١٣٤٧ھ میں ہوئی، جو ہمیشہ سے اہل علم اور اہل اللہ کا مرکز رہا ہے، یہ گاؤں مشہور عالم حضرت مولانا عبد القیوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مولد ومسکن رہا ہے، جنہوں نے مدرسہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر میں ٦٤/ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں، ان کے والدحضرت مولانا عبد الرحمن صاحب شیخ الہندحضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کے شاگرد اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، اسی طرح ان کے دادا حافظ رمضان صاحب رحمۃ اللہ علیہ سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ کے مجاز بیعت تھے اور بہت ہی بافیض حافظ اور عبادت گزار عابد زاہد تھے۔
آپ کے والد صاحب کا نام محمد خواجہ تھا، جواصلاً بنارس کے رہنے والے تھے، ان کی سسرال بکھرا میں تھی، اور اسی کو آپ نے مسکن بنالیا تھا، سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے ہی میں والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، اس کے بعد آپ کی والدہ نے آپ کی پرورش کی جو نہایت صالحہ، زاہدہ اورعبادت گزار خاتون تھیں، ان کی نیکی وتقوی کا پورے گاؤں میں چرچہ تھا، یہی وجہ تھی کہ محلے کے چھوٹے بچے اور بچیاں قرآن پاک اور ابتدائی اردو پڑھنے آپ کے پاس آیا کرتے تھے، اور یہ خدمت آپ للہ فی اللہ انجام دیتی تھیں، آپ نے بھی اپنی والدہ سے قرآن پاک اور کچھ اردو وغیرہ پڑھی، اس کے بعد مکتب میں داخل ہوئے، اور پھر قرآن کریم حفظ کیا، آپ کے اساتذہ میں حافظ احمد صاحب کا تذکرہ ملتا ہے، جو بکھرا ہی کے رہنے والے تھے،اور سرائے میر میں رہتے تھے، ان سے آپ نے حفظ کی تعلیم حاصل کی،ان کے علاوہ دو اور بزرگ شخصیتوں کا تذکرہ ملتا ہے جن سے آپ نے تعلیم حاصل کی، ایک حافظ عبد الرب صاحب رحمۃ اللہ علیہ چھتے پور کے رہنے والے تھے، جو مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی کے استاذ حضرت مولانا جمیل احمد صاحب دامت برکاتہم کے والد اور مرشد الامت حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ تھے،دوسرے حافظ محمد نعیم صاحب تھے، رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ۔
اسی طرح آپ نے عربی کی ابتدائی تعلیم شروع کی تھی، اور غالبا نور الایضاح تک پہنچے تھے کہ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا، آپ نے فارسی حضرت مولانا محمدسعید صاحب ہمئی پوری سے پڑھی تھی، جوکہ فارسی کے زبردست استاذ تھے، مدرسہ بیت العلوم کے نائب ناظم تھے، ان کے شاگردوں کی بہت طویل فہرست ہے، جن میں بہت سے باکمال علماء ہوئے۔
اسی طرح آپ کے خالہ زاد بھائی محمد شریف صاحب جو سونگر کے رہنے والے تھے، اور عمر میں آپ سے بڑے تھے، انہوں نے بھی آپ کی تعلیم پر توجہ دی، مگر ان کے انتقال کے بعد جب گھریلو ذمہ داریاں آپ کے سر آن پڑیں تو تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔

تدریسی خدمات: 

آپ کی تعلیم وتربیت ایسے نیک اور صالح معاشرہ میں ہوئی تھی جس کا اثر بچپن ہی سے آپ پر نمایاں تھا، اور حدیث پاک   رجلٌ نشأ فی عبادۃ اللہ (ایسا شخص جس کی اللہ کی عبادت میں نشو ونما ہوئی ہو) کے مصداق تھے،یہی وجہ تھی کہ صرف ٢٠/ سال کی عمر میں ہی آپ علاقے کی مشہور دینی درس گاہ مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم سرائے میر میں حفظ کے استاذ ہوگئے، مدرسہ کا یہ بہت ہی زریں دور تھا، اس وقت حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری نور اللہ مرقدہ خلیفہ اجل حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بقید حیات تھے، اور اکثر قیام بھی مدرسہ پر ہوتا تھا، اور ان کے ساتھ متوسلین ومریدین کی تعداد بھی ہوتی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے ساتھ آپ کے تعلقات تھے خصوصا حضرت مولانا حکیم اختر صاحب سے آپ کو بہت زیادہ انس ولگاؤ تھا۔
آپ نے مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں ١٠/سال تک تدریسی خدمت انجام دی، اس دوران بہت سے طلبہ آپ سے حفظ کلام اللہ کی دولت سے مالا مال ہوئے، جو آگے چل کر اپنے اپنے علاقے کے نامور حفاظ میں شمار ہوئے۔
آپ کا کچھ دن کلکتہ اور لکھنؤ میں بھی قیام رہا، ایک سال آپ نے آنوک (اعظم گڑھ) میں بھی پڑھایا، اس کے بعد مرشد الامت حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب نور اللہ مرقدہ بانی مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی (پیدائش ١٩٠٩ء وفات ٢٧/ اپریل ١٩٩٩ء، آپ کی خدمات تقریبا پون صدی پر محیط ہیں،مظاہر علوم سہارن پور سے فراغت اور اپنے علاقے میں چند سال خدمات انجام دینے کے بعد ١٩٣٥ء میں مانی کلاں تشریف لائے، اور ١٩٧٣ء تک مدرسہ ضیاء العلوم کی آبیاری کی، اس کے بعد ١٩٧٣ء میں گورینی میں مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کے نام سے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جو آج نہ صرف مشرقی یوپی بلکہ ہندوستان کے اہم اداروں میں شمار ہوتا ہے، اللہ تعالی مدرسے کی شرور وفتن سے حفاظت فرمائے اور دن دونی رات چوگنی ترقیات سے نوازے) کی نظر انتخاب نے اس گراں مایہ جو ہر کو چن لیا،اوراپنے یہاں تعلیم کے لیے لائے، یہ ١٩٥٨ء کا سال تھا، اس وقت مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی کی بنا نہیں ہوئی تھی، مدرسہ ضیاء العلوم مانی کلاں ہی اس وقت آپ کی خدمات کا مرکز ومحور تھا۔مانی کلاں میں آپ تقریبا ١٥/سال تک پڑھاتے رہے اور اس کے بعد جب ١٩٧٣ء میں مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کی سنگ بنیاد پڑی اور حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ اپنے تمام رفقاء کے ساتھ گورینی منتقل ہوگئے تو آپ بھی یہاں آگئے اور تاعمر اسی مدرسہ میں تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رکھا، اور کئی نسلوں نے آپ سے حفظ قرآن مکمل کیا، اس طرح تقریبا ٦٢/ سال تک مسلسل آپ  کے علم کا فیضان جاری رہا، کل تدریسی مدت تقریبا ٧٢/ سال ہوتی ہے، اتنی عمر تک اللہ کے کچھ ہی محبوب اور نیک بندوں کو خدمت کا موقع ملتا ہے، ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔

 بڑے حافظ جی سے پہلی ملاقات:

فروری  ١٩٩٨ء مطابق شوال ١٤١٨ھ میں یہ ناچیز مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی داخلہ کے لیے حاضر ہوا، داخلہ کی کاروائی کے بعد جب تعلیمی سلسلہ شروع ہوا تو ایک نورانی چہرہ اذان سے پہلے ہی مسجد میں نظر آتا تھا، اور جماعت کے وقت صفوں کو درست کرتے دیکھتا تھا، معلوم ہوا کہ یہ یہاں کے سب سے قدیم اور موقر استاذ حافظ محمد نسیم صاحب ہیں جنہیں ادب سے سبھی لوگ بڑے حافظ جی کہتے ہیں، چنانچہ کچھ ہی دنوں بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام وتعارف کے بعد آنے کا مقصد بیان کیا کہ آپ کو قرآن کریم کا دور سنانا چاہتا ہوں۔(واضح رہے کہ بڑے حافظ جی ہمارے گاؤں آنوک میں کسی زمانے میں پڑھا چکے تھے، اور میرے والد صاحب نور اللہ مرقدہ کے استاذ تھے)۔
چنانچہ اس سال عربی سوم میں ظہر کی نماز کے بعد پورے سال پابندی سے آپ کو دور سنانے کی سعادت ملی، ظہر کے بعد انگریزی کا گھنٹہ ہوتا تھا اور استاذ محترم منشی عبد القدوس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابتدائی انگریزی پڑھاتے تھے، ان کی خدمت میں حاضر ہوکر انگریزی کا امتحان دیا اور ابتدائی انگریزی سے واقفیت تھی اس وجہ سے انہوں نے بھی اجازت دیدی تھی۔
دوسرے سال عربی چہارم میں کوئی گھنٹہ خالی نہیں تھا تو حافظ جی کی خدمت میں حاضر ہوکر دور سنانے کے بارے میں کہا تو آپ نے فجر کی اذان کا وقت مقرر کیا لیکن یہ ناکارہ اپنی سستی کی وجہ سے اکثر لیٹ ہوجاتا، اس لیے آپ نے فرمایا: سال کے آخر میں جب اسباق مکمل ہوجائیں اس وقت آکر سنالینا، چنانچہ اس سال اور اُس کے اگلے سال امتحان سالانہ کے موقع سے آپ کو دور سنایا، جسے میں اپنے لیے بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں اور پوری عمربڑے حافظ جی کا یہ احسان میرے اوپر رہے گا، اللہ تعالی ہی اس کا بہترین بدل آپ کو عنایت فرمائے گا۔

اصلاحی تعلق:

بڑے حافظ جی کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، آپ بھی بزرگوں کے طریق پر گامزن تھے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے، اور مرشد الامت حضرت مولانا شاہ عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اکثر الہ آباد حاضری بھی ہوتی تھی، لیکن جب١٩٦٧؁ء میں حضرت شاہ صاحب کا دوران سفر حج انتقال ہوگیا تو آپ کو اپنی اصلاح کی فکر دامن گیر ہوئی تو آپ بھی بڑے مولانا (حضرت مولانا عبد الحلیم صاحبؒ) کے ساتھ سہارن پور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ سے بیعت ہوئے، آپ معمولات کے بہت پابند تھے، آپ کی زندگی میں بہت اخفاء تھا، آپ مستجاب الدعوات بھی تھے مگر اس صفت کو کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا، ایک مشہور مقولہ ہے: للدعاء جناحان، أکل الحلال وصدق المقال، دعا کے دو بازو ہیں، ایک اکل حلال اور دوسرے صدق مقال، آپ کی زندگی ان دونوں اوصاف سے متصف تھی۔
آپ نے زندگی میں بہت سے بزرگوں کی زیارت کی اور ان سے فیضیاب بھی ہوئے، چونکہ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب نور اللہ مرقدہ جو مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، ان کے انتقال کے بعد اپنے استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے اور وہاں سے بھی اجازت وخلافت سے سرفراز ہوئے، ان سے ملنے کے لیے اکثر بزرگوں کی آمد رہا کرتی تھی، یہی وجہ تھی کہ حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ، حضرت مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی، حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کاندھلویؒ اور دیگر بزرگوں کی آمد بھی ہوئی۔آپ بڑے مولانا کی عصر کے بعد کی مجلس میں ہمیشہ حاضر ہوتے تھے، اور ان کے ملفوظات سے فائدہ اٹھاتے تھے،نیز کبھی کبھی بڑے مولانا آپ کو بھی اپنے ساتھ علاقے کے دعوتی وتبلیغی دورے پر لے جایا کرتے تھے۔

 خصوصیات: 

بڑے حافظ جی بہت سی خصوصیات کے حامل تھے، علم وفضل، زہد وتقوی، اخلاص وللہیت، تواضع وانکساری کے مجسم نمونہ تھے، ان خصوصیات کووہی شخص بیان کرسکتا ہے جس نے آپ کے روز وشب کو بہت قریب سے دیکھا ہو، تاہم چند خصوصیات کی طرف اشارہ کررہا ہوں۔

نظام الاوقات کی پابندی:

وقت انسان کی بہترین پونجی اور گرانمایہ سرمایہ ہے، آپ کی پوری زندگی نظام الاوقات کی پابند تھی، تاریخ میں جتنی علمی شخصیات گزری ہیں، جنہوں نے عظیم تصنیفی کارنامے انجام دیئے ہیں،ان کی پابندیئ نظام الاوقات ضرب المثل ہے اور یہی ان کے کارناموں کا بنیادی راز بھی ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد اپنی مشہور کتاب”نیرنگ خیال“ میں ”وقت“ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
”وقت ایک پیرہن کہن سال کی تصویر ہے، اس کے بازوؤں میں پریوں کی طرح پر پرواز لگے ہیں کہ گویا ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے،ایک ہاتھ میں شیشہئ ساعت ہے کہ جس سے اہل عالم کو اپنے گزرنے کا انداز دکھاتا جاتا ہے اور ایک میں درانتی ہے کہ لوگوں کی کشت امید یا رشتہئ عمر کو کاٹا جاتا ہے یا ظالم خونریز ہے کہ جودانا ہیں اسے پکڑ کر قابو میں کرلیتے ہیں، لیکن اوروں کی چوٹیاں پیچھے ہوتی ہیں اس کی چوٹی آگے رکھی ہے، اس میں نکتہ یہ ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ قابو میں نہیں آسکتا، ہاں جو پیش بین ہو وہ پہلے ہی سے روک لے“۔(نیرنگ خیال صفحہ۱۱)۔
بڑے حافظ جی بھی وقت کے بہت پابند تھے جس زمانے میں آپ کی اہلیہ مرحومہ بیمار تھیں، روزانہ مانی کلاں سے بکھرا جاتے اور فجر کی اذان سے پہلے وہاں سے مدرسہ کے لیے روانہ ہوجاتے اور وقت پر حاضر ہوگر گھنٹہ لگواتے، مسلسل دو ہفتہ سے زائدیہی معمول رہا، اس میں کبھی تاخیر نہیں ہوئی، کبھی بھی آپ کو کسی نے لا یعنی کام یا کسی کے یہاں وقت گزاری کے لیے حاضر ہوتے نہیں دیکھا۔

 اخلاق وعادات:

آپ بہت ہی بلند اخلاق کے حامل تھے،آپ کے مزاج میں نرمی اور حد درجہ سادگی تھی، حدیث شریف میں اللہ کے رسول ﷺ کے اخلاق کے سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کان خُلقہ القرآن، اسی طرح آپ کی زندگی بھی سنت نبوی کا نمونہ تھی، طلبہ کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے، کبھی کسی طالب علم کو آپ سے شکایت نہ رہی۔

 لذت بیداری شب: 

آپ کا دن جہاں طلبہ کے قرآن پاک سننے میں صرف ہوتا وہیں آپ کی راتیں عبادت اور”آہ سحر گاہی“ سے معمور تھیں،بندگی کا وہ درجہ آپ کو بھی نصیب تھا جہاں بیداریئ شب کی لذت اور آہ سحرگاہی کے سامنے دنیا کی تمام لذتیں انسان کو ہیچ محسوس ہوتی ہیں،جس کی تعبیر علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی ہے ؎

 واقف ہو اگر لذت بیداری ئ شب سے 
 اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار 
اور ؎
 عطار ہو رومی ہورازی ہو غزالی ہو 
 کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی 

قرآن کریم میں عبادت گزار بندوں کا تذکرہ اللہ رب العزت نے یوں فرمایا ہے:(تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفاً وطمعاً)(سورۃ السجدۃ: ١٦)،ان کے پہلو راتوں کو خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں، اور وہ پروردگار کو امید وخوف کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اسی طرح متقیوں کا تذکرہ کرتے  ہوئے اللہ رب العزت نے ایک جگہ ارشاد فرمایا: (کانوا قلیلا من اللیل ما یھجعون، وبالأسحار ہم یستغفرون) (سورۃ  الذاریات: ۷۱، ۸۱)یہ لوگ راتوں میں بہت کم سوتے ہیں اور صبح کے وقت یہ لوگ استغفار کرتے ہیں۔ بڑے حافظ جی کی پوری زندگی ان آیات کریمہ کا نمونہ تھی، آپ ہمیشہ فجر کی اذان سے گھنٹوں پہلے اٹھ جاتے اور تہجد اور اپنے معمولات سے فارغ ہوجاتے۔ اور پھر اذان سے پہلے موذن کو بیدار کرتے اور پھر طلبہ کو نماز کے لیے جگاتے یہ ہمیشہ سے آپ کا معمول رہا ہے۔

 رجل قلبہ معلق بالمساجد:

آپ کا معمول تھا کہ ہمیشہ اذان سے پہلے مسجد پہنچ جاتے تھے، اس معمول میں کبھی بھی تخلف نہیں ہوتا تھا، خواہ سردی ہو، برسات یا گرمی، ہمیشہ اذان سے پہلے مسجد حاضر ہوتے، اس طرح مشہور روایت جس میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب نفسی نفسی کا عالم ہوگا اور دھوپ کی شدت سے لوگ پریشان حال ہوں گے، سورج بالکل سرپر ہوگا تو ایسے میں اللہ تعالی جن خوش نصیب بندوں کو اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا، ان میں سات طرح کے لوگ ہوں گے، انہیں میں ایک وہ شخص بھی ہوگا جس کا دل ہمیشہ مسجد سے لگا رہے، بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ راوی ہیں، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”سبعۃ یظلہم اللہ فی ظلہ یوم لا ظل إلا ظلہ: الإمام العادل، وشابٌّ نشأ فی عبادۃ ربہ، ورجل قلبہ معلق فی المساجد، ورجلان تحابّا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ، ورجل طلبتہ امرأۃ ذات منصب وجمال، قال: إنی أخاف اللہ، ورجل تصدق،أخفی حتی لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ، ورجل ذکر اللہ خالیا ففاضت عیناہ،“ (صحیح البخاری، کتاب الأذان، ٦٦٠) مختلف جگہوں پر امام بخاری نے اس کو روایت کیا ہے، کہیں الفاظ میں کچھ زیاتی وغیرہ بھی ہے۔
شراح حدیث فرماتے ہیں کہ دل کا مسجد سے لگے رہنے کا مطلب ہے کہ نماز کے اوقات کی حفاظت کرے اور اس کو وقت پر ادا کرے، علامہ عینی لکھتے ہیں: شدید الملازمۃ للجماعۃ، جماعت کی بہت زیادہ پابندی کرنے والا ہو۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس شخص کو تم مسجد میں بار بار آ تے جاتے دیکھو اس کے ایمان کی گواہی دو، کیوں کہ یہ لوگ مسجدوں کو آباد کرنے والے، اللہ اوریوم آخرت پر ایمان لانے والے ہیں، امام ترمذی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: 《إذا رأیتم الرجل یتعاہد المساجد فاشہدوا لہ بالإیمان،فإن اللہ تعالی یقول:(إنما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الآخر وأقام الصلاۃ وآتی الزکاۃ)》، (سنن الترمذی، أبواب الإیمان، باب ما جاء فی حرمۃ الصلاۃ: ٢٦١٧)۔

 متقی ہونے کی دلیل:

آپ کی پوری زندگی سنت نبویہ کی نمونہ تھی، اخلاق وعادات وکردار اور عبادات زندگی کے ہر گوشے میں آپ سنت پر عمل کرتے، آپ اللہ رب العزت کے مقرب بندوں میں تھے، روایت میں آتا ہے، حدیث قدسی ہے:  وما یزل عبدی یتقرب إلی بالنوافل، بندہ برابر نوافل کے ذریعہ میرا کا قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ میرا محبوب ہوجاتا ہے، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں۔
بڑے حافظ جی مدرسہ ریاض العلوم کے مقبول ترین اساتذہ میں سے تھے، اور ہر خاص وعام میں مقبول بھی تھے، اگرچہ آپ زیادہ تر گوشہ نشین ہی رہتے تھے،نہایت کم گو تھے، مگر یہ مقبولیت اللہ تعالی کی طرف سے تھی، بخاری شریف کی روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: إذا أحبّ اللہ عبداً نادی جبریل: إن اللہ یحب فلانا فأحببہ، فیحبہ جبریل، فینادی جبریل فی أھل السماء:إنّ اللہ یُحِبُّ فلانا فأحبّوہ، فیحبہ أھل السماء، ثم یوضع لہ القبول فی الأرض(صحیح البخاری، حدیث نمبر: ٣٢٠٩) جب اللہ رب العزت کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت حضرت جبریل علیہ السلام آسمان میں ندا لگاتے ہیں: اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس کے لیے زمین پر قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ اس مقبولیت کا اندازہ آپ کے جنازے میں موجود بھیڑ دیکھ کر ہوا، جبکہ موجودہ بیماری کی وجہ سے لاک ڈاون چل رہا ہے، لوگوں کی آمد ورفت پر ہر طرح کی پابندی ہے، اس دن بھی پابندی تھی مگر اس کے باوجود ایک بڑا مجمع جس میں قرب وجوار کے بہت سے لوگ تھے، آپ کے جنازے میں شریک ہوا۔

 سخاوت ومہمان نوازی : 

اسی طرح آپ بہت ہی غریب پرور اور سخی واقع ہوئے تھے، بہت سے نادارطلبہ اور دوسرے ضرورتمند آپ کے یہاں آتے آپ ان کی ہر طرح مدد کرتے، اسی طرح سنت کے مطابق مہمان نوازی بھی کرتے،جب کبھی بھی ریاض العلوم گورینی حاضری کی سعادت ملی ہمیشہ آپ نے چائے اور دیگر لوازمات سے ضیافت فرمائی، اکثر دکانداروں کا سامان آپ ان کی دلجوئی کے لیے خرید لیتے تاکہ انہیں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ 

بچوں سے شفقت وپیار:

آپ بچوں سے بہت ہی شفقت وپیار کا معاملہ کرتے تھے، اس کا نمونہ کئی مرتبہ خو د اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اکثر آپ کے پوتے آپ کا کھانا لے کر آتے تو اس وقت چاکلیٹ یا دوسری طرح کی مٹھا ئیاں آپ ان کو دیتے اوریہی وجہ تھی کہ آپ کے سبھی پوتے اور دوسرے بچے آپ سے بہت زیادہ مانوس رہتے تھے۔
مسلم شریف کی روایت ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی، اللہ کی قسم کبھی آپ نے مجھے اف تک نہ کہا، اور نہ کسی چیز کے بارے میں یہ کہا کہ ایساکیوں کیا، اور اس طرح کیوں نہیں کیا۔
عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ  قال: خدمت رسول اللہ ﷺ عشر سنین، واللہ ما قال لی: أفاً  قطّ،ولا قال لی لشیئ:لم فعلت کذا؟ وہلّا فعلت کذا؟(صحیح مسلم حدیث نمبر:٢٣٩٠)۔
اسی طرح آپ اپنے خدام کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کا معاملہ فرماتے تھے، حافظ احمد اللہ صاحب استاذ مدرسہ ریاض العلوم گورینی جو ١٤/ سال تک خادم خاص رہے، ان کا بیان ہے کہ اس پوری مدت میں کبھی انہیں اف تک نہیں کہا۔

 قابل رشک زندگی: 

آپ نے اپنی پوری زندگی قرآن کریم کی خدمت میں گذار دی، اور چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے قرآن کریم کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا، بخاری شریف کی بہت مشہور روایت ہے عن عثمان رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال: ”خیرکم من تعلم القرآن وعلّمہ“(صحیح البخاری، حدیث نمبر:٢٧٥٠)اس حدیث شریف میں قرآن کریم کی تعلیم دینے والے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اسی طرح ترمذی شریف کی روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: 《یقول الرب تبارک وتعالی: من شغلہ القرآن عن ذکری ومسألتی أعطیتہ أفضل ما أعطی السائلین》(سنن الترمذی،حدیث نمبر: ٢٩٦٢) اللہ رب  العزت فرماتا ہے: جس شخص کو قرآن کی مشغولیت کی وجہ سے میرا ذکر کرنے اور مجھ سے سوال کرنے کا وقت نہ مل سکے تو میں اس شخص کو اس سے افضل عطا کرتا ہوں جو سوال کرنے والوں کو دیتا ہوں، لیکن ان تمام تر مشغولیت کے باوجود بڑے حافظ جی نوافل کے پابند تھے اور شب بیدار بندوں میں شامل تھے۔ ہر نماز میں اذان سے پہلے مسجد حاضری کا معمول ہمیشہ سے رہا ہے، اذان کے بعد آپ سنت پڑھتے اور نہایت خشوع وخضوع کے ارکان کی ادائیگی کرتے ہوئے بہت ہی کم لوگوں کو میں نے ایسی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اس کے بعد تلاوت میں مشغول ہوجاتے، آپ روزانہ طلبہ کا دور وغیرہ سننے کے بعد کتنی تلاوت کرتے تھے اس کی معلومات تو نہیں ہے، لیکن سنا ہے کہ آپ کا روزانہ دس پارہ تلاوت کا معمول تھا، اور آپ کے اوقات کے انضباط کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن بھی ہے۔

 صدقہ جاریہ:

حدیث شریف میں آتا ہے: إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلا من ثلاثۃ:  إلا من صدقۃ جاریۃ، أو علم ینتفع بہ، أو ولد صالح یدعو لہ》 (صحیح مسلم:٣١٦١) آپ کے ہزاروں شاگرد جو مختلف علاقوں میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ان تمام کا ثواب آپ کو قیامت تک پہنچتا رہے گا، نیز آپ کی اولاد بھی آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی کی بنا سے لے کر وفات تک آپ نے مدرسہ کی خدمت کی، اور ابتدا میں جن دشواریوں کا سامنابانیئ مدرسہ کو کرنا پڑا، ان کے ساتھ آپ بھی شریک رہے، جب بھی مدرسہ کی تاریخ مرتب ہوگی تو آپ کے تذکرے کے بغیر ادھوری سمجھی جائے گی، مدرسہ کے مہتمم حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب دامت برکاتہم جو آپ کے شاگرد ہیں، انہیں خصوصیات کی بنا پر آپ کا حد درجہ اکرام کرتے تھے، آخر عمر میں بڑے حافظ جی نے عمر کی زیادتی کی وجہ سے مدرسہ سے سبکدوش ہونے کا ارادہ کرلیا تھا مگر ناظم صاحب مدظلہ کے اصرار پر کہ آپ کا قیام مدرسہ کے لیے باعث خیروبرکت ہے، آپ نے اردہ ملتوی کردیا اور مدرسہ ہی میں مقیم رہے۔

 اولاد واحفاد: 

بڑے حافظ جی کی اہلیہ کا جوانی ہی میں انتقال ہوگیا تھا، آپ اس وقت مانی کلاں میں پڑھاتے تھے، مدرسہ کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اہلیہ کی تیمارداری کے لیے روزانہ مانی کلاں سے بکھرا جاتے، اور اہلیہ کی دوا علاج اور دیکھ بھال کے ساتھ بچوں کی بھی اس زمانے میں تربیت کرتے جب کہ سارے بچے ابھی چھوٹے تھے، ١٩٥٩ء میں آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا، اس کے بعد آپ نے ساری زندگی نکاح ثانی نہیں کیا، اگر کبھی لوگوں کا اصرار بڑھا تو آپ نے بچوں کی تربیت کا حوالہ دے کربات ختم کردی، آپ کے ۳/ لڑکے اور ایک صاحب زادی تھیں، بڑے لڑکے حضرت مولانا قاری شمیم احمد صاحب مدظلہ العالی جن کی پیدائش ۱٩٥٩ء کی ہے، جو ۸/سال کے تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا، اس ناچیز کے بہت ہی شفیق استاذ ہیں، آپ سے مقدمۃ الجزریہ، تحفۃ الاطفال اور خلاصۃ البیان پڑھنے کی سعادت ملی، اس کے بعد دوسرے صاحبزادے قاری نعیم احمد تھے، جن کا ڈھائی سال قبل انتقال ہوگیا ہے، اور تیسرے حاجی کلیم احمد ہیں، جو مکۃ المکرمہ (زادھا اللہ شرفا ومکانۃ) میں فیملی کے ساتھ مقیم ہیں، ان کے علاوہ ایک صاحبزادی جن کی سسرال رانی مئو ہے، بقید حیات ہیں، اللہ تعالی نے قرآن کریم سے شغف کی برکت سے تمام بچوں کو قاری بنایا، قاری نعیم احمد اور حاجی کلیم احمد باضابطہ تو عالم نہیں ہیں لیکن قرآن بہت اچھا پڑھتے ہیں، اسی طرح قاری شمیم احمد صاحب مدظلہ کے چاروں صاحب زادے ماشاء اللہ حافظ وقاری ہیں، ان میں بعض عالم بھی ہیں، اللہ تعالی ان تمام کو صحت وعافیت کے ساتھ رکھے اور حافظ جی کی برکات سے مالا مال فرمائے۔

وفات حسرت آیات: 

ہر شخص کے لیے موت کا وقت مقرر ہے، بڑے حافظ جی بھی اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے تھے، سن عیسوی کے اعتبار سے ٩١/سال اورہجری سن کے اعتبار سے عمر٩٤/ سال سے متجاوز ہوچکی تھی، ادہر تقریبا 4/ مہینے سے مستقل بیمار رہتے تھے،اور آخر میں کھانا وغیرہ بھی چھوٹ گیا تھا، کبھی افاقہ ہوتا اور کبھی طبیعت زیادہ خراب ہوتی، آخر میں شہر جون پور کے عیسی ہاسپٹل میں بھرتی کرایا گیا تھا اور افاقہ نظر آرہا تھا مگرتدبیر پر تقدیر غالب آگئی، بالآخر ۹/ اگست کو آپ کا وقت موعود آپہنچا، اور اس طرح وہ روشن ستارہ جوپون صدی سے زائد عرصہ سے افق عالم پر  جگمگارہا تھا ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، اس تمام عرصہ میں آپ کے لائق پوتے مکرمی مولانا محمد اسجد صاحب ہر وقت آپ کی تیمارداری اور دوسری خدمات انجام دے رہے تھے، اللہ تعالی انہیں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کی خدمات کو قبول فرمائے، اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، اور آپ کے پسماندگان اور متوسلین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے