اسلامی تہذیب کی بیخ کنی میں مغربی میڈیا کا کردارقسط اول

 
اسلامی تہذیب کی بیخ کنی میں مغربی میڈیا کا کردارقسط اول


 گفتگو اور بات کرنے کا سلیقہ انسان کی شخصیت اور حیثیت کو طے کر تا ہے، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ متکلم کا مبلغ علم کیا ہے، نیز خرمن ادب وتھذیب سے اس نے کس قدر خوشہ چینی کی ہے، اگر متکلم اپنی گفتگو سے لوگوں کو مطمئن کرنے کا ہنر جانتا ہے تو یقین مانیے کامیابی کی کلید پر اس کا قبضہ تام ہے، یہی وہ صلاحیت ہے جس کا ظہور ہمارے دور میں میڈیا کے توسط سے ہورہا ہے، حالانکہ آگر اس کا استعمال صالح اور بلند مقاصد کے لئے ہو تو اس کی نافعیت اور سودمندی میں ذرہ برابر کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے لیکن  اس کے ذریعے حقائق کو چھپاکر اور حق وباطل کو ملتبس کر کے یا باطل کو حق اور حق پر باطل کا خول چڑھا کر بہر صورت اپنے لیے مفید بنانا ، کوئی اچھی بات ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ایسا جرم ہے جس کی سزا پوری نسل انسانی کو ایک نہ ایک دن مل کر رہتی ہے،  مگر موجودہ دور میں مغربی میڈیا ہو یا ہندی میڈیا حقائق سے دانستہ چشم پوشی ان کا شعار بن گیا ہے، بے گناہ کو گناہ گار اور مجرم کو معصوم بنا کر پیش کرنے میں انہیں کوئی عار نہیں، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا اسلام کی شبیہ کو بگاڑنا اور شعائر اسلام اور احکام پر انگشت نمائی ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں ذرائع ابلاغ پر یہود کا مکمل قبضہ ہے اور انہیں اسلام سے اپنی طبعی کجروی کی بنا پر ابتدا سے ہی بیر ہے۔
  
سالہا سال کی ذلت وخواری کے بعد یہودیوں نے جب پوری دنیا پر حکمرانی اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے ان کے سازشی دماغوں نے ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کرنے کا پلان بنایا اور 1897ءمیں سوئزر لینڈ میں تین سو یہودی دانشوروں کی ایک میٹنگ ہوئی، جس میں ایک منصوبہ تیار کیا گیا جسے یہود کا دستاویز بھی کہا جاتا ہے اس میں یہ طے کیا گیا کہ تمام دنیا پر حکومت کرنے کے لیے جہاں سونے کے ذخائر پر قبضہ ضروری ہے وہیں  ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہوکر لگام کو اپنے قبضے میں رکھیں گے اور اپنے دشمنوں کے  قبضے میں کوئی موثر اور طاقت ور اخبار تک بھی نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو مؤثر انداز میں پیش کرسکیں، ہم ایسا انتظام کریں گے کہ ہماری اجازت کے بغیر کوئی خبر بھی سماج تک نہ پہنچ سکے، ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے کنٹرول کریں گے، اب وہ اپنے پلان میں سو فیصد کامیاب ہو چکے ہیں، شدہ شدہ تمام ذرائع ابلاغ اور خبر رساں ایجنسیاں حسب اسکیم کامل طور پر یہودیوں کے قبضے میں جاچکی ہیں، اسے بروئے کار لا کر پوری دنیا میں یہودیت کی نشرواشاعت جاری ہے، یہودی پوری دنیا کی ذہن سازی کا اس سے کام لے رہے ہیں، ان کی پسند پوری دنیا کی پسند اور انکا ذوق پورے عالم کا ذوق ہے، وہ جس طرف چاہتے ہیں رائے عامہ کا رخ پھیر دیتے ہیں، ان کے دماغوں سے نکلے ہوئے افکار وخیالات خواہ ان کا تعلق تہذیب وتمدن سے ہو یا سیاسیات واقتصادیات یا فیشن اور ملبوسات کے تراش وخراش اور رنگ وبو سے پوری دنیا دیوانہ وار اس کے پیچھے دوڑ پڑتی ہے، اور جو ان کے سامنے جبیں سائی سے انکار کر دیتا ہے اسے بے نام ونشان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ایسا اسی لیے ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ اور اقتصادیات جیسے دو اہم ستونوں پر ان کے وجود کی عمارت کھڑی ہوئی ہے، نیز ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے توسط سے عالم گیریت اور گلوبلائزیشن کے پردے میں اہل اسلام کو ارتداد کے دلدل میں ڈھکیلنے کا گھناؤنا کھیل بھی جاری ہے۔
  ایک طرف تعلیم کے تیزاب میں مسلمانوں کی خودی کو ڈال کر پگھلا دیا گیا ہے تو دوسری طرف ایسی فلمیں ان پر مسلط کی جا رہی ہیں جن سے حیا وشرافت کے ساتھ ایمان ویقین کا جنازہ بھی نکل جائے، معمولی سے معمولی واقعہ ہو اگر اس سے اسلامی افکار ونظریات پر حرف آتا ہے تو مغربی میڈیا اسے منظر عام پر لانے میں چند ساعت کی تاخیر بھی گوارا نہیں کرتا، انہیں کی مہربانیوں سے کہیں مہدی موعود تو کہیں مسیح موعود اور کہیں نبوت کے دعویدار برساتی مینڈکوں کی طرح آتے ہیں اور اپنی ٹر ٹر  سے زمین کو فتنہ وفساد کی آماج گاہ بنا دیتے ہیں۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر  پر حملے کی سوچی سمجھی سازش جو تیار کی گئی تھی اس کے پس پردہ بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ہی جذبہ کار فرما تھا، چنانچہ حملے سے بائیس برس قبل ہی یہودی دانشوروں مفکروں شاعروں اور فلم سازوں کے ذریعے اسلام کو میڈیا کے ذریعے بدنام کرنے کی پوری اسکرپٹ تیار کی جاچکی تھی، سقوط رشیا (روس) کے بعد خوب زور وشور سے یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ آئندہ صدی اسلام کی ہوگی اور اسلام پوری دنیا پر چھا جائے گا، اگر اس کا مقابلہ ہوگا بھی تو مغربی تہذیب سے ہوگا پھر تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کرکے  زرخرید لونڈیوں یعنی میڈیا کے حوالے کردیا گیا اور میڈیا نے فلموں ڈراموں ناولوں افسانوں  خبروں اور تجزیاتی مقالوں کے ذریعہ اہل مغرب کے دلوں میں یہ بات ثبت کر دی کہ تمھارا دشمن صرف اور صرف اسلام ہے اور اس طرح کمیونزم کے خاتمے کے بعد مغربی دنیا کی دشمنی کا رخ تبدیل ہوکر اسلام کی طرف مڑ گیا۔

اسلامی تہذیب کی بیخ کنی میں مغربی میڈیا کا کردارقسط اول


1990ء میں امریکی خارجہ پالیسی کے ایک یہودی دانشور "ہنری کیسنجر" نے بین الاقوامی  تجارتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: "اب ہمارا سامنا جس دشمن سے ہے وہ اسلام ہے"۔
 اس کا دوسرا بیان 2001ء میں اس طرح آیا کہ اسلامی تشدد اور دھشت گردی کے خلاف کل کے بجائے آج سے ہی جنگ شروع کردینا چاہیے، پہر اس کے بعد ہی روزنامہ سنڈے ٹیلی گراف نے ایک مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا: کیا اسلام ہم کو دفن کر دے گا۔ 
 15ستمبر2001کو سنڈے ٹائمز لندن نے اپنے افتتاحیہ میں مغرب کو متنبہ کر تے ہوئے لکھا کہ  شمالی افریقہ میں بحر ابیض متوسط کے ساحل سے لے کر وسطی ایشیا کے چینی حدود تک اسلامی فنڈامنٹلزم پھیل گیا ہے، پہر اس کے بعد مسلسل ڈیلٹا فورس، انتقام، ذلت سے پہلے موت، اسمان کی چوری وغیرہ جیسی فلمیں بنائی گئیں، جس میں عرب بدووں کو قتل وخون ریزی اور مار کاٹ کر تا ہوا دکھا کر اسلام کے تئیں شدید نفرت کینہ بغض و عداوت کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا حتیٰ کہ تجارتی اشتہارات کو بھی مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، چنانچہ c n n  جو صابن کی ایک مشہور کمپنی ہے اس کے اناؤنسر نے صابن کی تشہیر کرتے ہوئے اس طرح کہا کہ یہ صابن ہر چیز کو صاف کر سکتا ہے حتیٰ کہ گندے عربوں کو بھی۔  بلجیم میں یہودی دوکانوں پر سامان کی پیکنگ کے کاغذات پر قرآنی آیات تحریر کروائی گئیں، لندن میں مشہور یہودی کمپنی کی طرف سے  مرد اور عورت کے زیر جامہ کے مخصوص جگہ پر کلمہ طیبہ لکھوایا گیا۔ 
 امریکی ہوٹلوں میں ٹوائلٹ پیپر پر ایک زمانے تک علماء دین کی تصویریں چھپتی رہیں۔ اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے، جس کا مشاہدہ آ ئے دن ہم کرتے ہی رہتے ہیں، پہلے مقدس ہستیوں اور کتابوں کی دانستہ توہین کی جاتی ہے پہر جب مسلمان اپنے غم وغصے کا اظہار کر نے نکلتے ہیں تو سوچی سمجھی سازش کے تحت ان پر گولیاں برسا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور زندہ بچ جانے والوں پر خطرناک دفعات کے تحت کارروائی کر زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔
  مغربی میڈیا کی ہی دین ہے کہ آج اہل عرب سے فکر اسلامی کو چھین کر فرنگی تخیلات کا بیج بو دیاگیا ہے، جس کے نتیجے میں فحاشی اور عریانی کے مھیب شعلوں نے حجاز مقدس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، حرمین شریفین کے نام نہاد خدام یہود کے اشاروں پر نہ صرف ناچتے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی کو عافیت کی ضمانت بھی سمجھتے ہیں، گویا کہ
 حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے  
 ہندوستانی میڈیا بھی کم وبیش ہندوستان میں یہی   روش اختیار کر کے ہندی مسلمانوں کو دنیا کی نظروں میں ذلیل وخوار کرنے کی سعی مذموم میں مصروف ہے۔
 بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے لیے نفرت کی فضا بنانے میں اس کا اہم کردار رہا ہے علماء کرام کے تئیں عدم اعتماد مکاتب ومدارس کو قوم مسلم کی نظر میں ہلکا اور غیروں کی نظر میں دھشت گردی کا اڈہ بناکر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی،  چند نام نہاد مسلم اسکالرز کو ڈیبیٹ میں بٹھا کر  اسلام کی توہین اور تخفیف کا سلسلہ عروج پر ہے۔
 کرونا وائرس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ کر ہندستانی عوام کی نظروں میں معتوب ٹھرا نے کے ایسے ایسے ھتگنڈے اس نے اختیار کیے کہ الامان و الحفیظ  نتیجتاً نفرت کا ایسا ماحول بنا کہ ڈاکٹرس مسلمانوں کا علاج کرنے سے کترانے لگے فیک اور جھوٹی خبروں کے نشر کرنے کا انجام یہ ہوا کہ سبزی فروشوں سے مذھب پوچھ کر سبزیاں خریدی جانے لگیں اور بعض علاقوں میں وائرس پھیلا نے کے الزام میں مسلمانوں کو ھجومی تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔
 اسلا م، پیغمبر اسلام اور بزرگوں کی شان میں گستاخی ان کے لئے معمولی بات ہے، اور اگر حکومت کے خلاف کوئی فیس بک پر تنقیدی پوسٹ مل جائے تو انھیں گویا کہ ہفت اقلیم ہا تھ آگیا ہو، ٹی آر پی کی خاطر ہفتوں وہ شور وغل اور طوفان بدتمیزی کہ سمع خراشی سے طبیعت اکتا جاتی ہے۔ ڈیبیٹ کی طوفان بدتمیزی سے کسی حساس شریک کا ہارٹ اٹیک سے موت ہوجائے میڈیا کو گوارا ہے، مگر گریبان میں جھانک کر اپنی اصلاح ہرگز ہرگز گوارا نہیں، پیسوں کی خاطر اصولوں کی پامالی کی اس سے بدترین مثال چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ مگر افسوس مغربی میڈیا کا مقابلہ تو بہت دور اس موضوع کو امت مسلمہ نے سنجیدگی سے کبھی نہیں لیا، اگر یہی حال رہا تو ہم بہت جلد اسلامی تہذیب وتمدن سے   محروم ہو جائیں گے۔
  
 حوالہ جات: تعمیر حیات،   ماہنامہ افکار، سہ روزہ دعوت، مغربی میڈیا اور اس کے اثرات۔ 

  محمد ساجد سدھارتھ نگری سابق رکن مدنی دارالمطالعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے