شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن دیوبندی ؒ اور انگریز دشمنی

شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن دیوبندی ؒ اور انگریز دشمنی



متحدہ ہندوستان کے متفقہ قائد اعظم،تاج العلماء سراج الفقہاء زبدة الکاملین قدوة العارفین، عالم جلیل،محدث کبیر،مجاہد آزادی، شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن دیوبندی رحمہ اللہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں آپ بذاتِ خود ایک انجمن تھے، گوناگوں خصائل اور محیرالعقول شمائل و کمالات سے مزین تھے،آپ کے بلند عزائم، جلیل القدر علمی ،ملی وتحریکی کارنامے، وطن عزیز ہندوستان کے تئیں آپ کی بے مثال قربانیاں اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا تذکرہ کرنا اور ان کا کماحقہ احاطہ کرنا نہایت ہی مشکل اور دشوار امر ہے تاہم مشت نمونہ از خروارے کے طور پر آپ کی انگریز دشمنی کے تعلق سے چند باتیں پیش خدمت ہیں:

 درس وتدریس کے ساتھ انگریزوں کی ریشہ دوانیوں پر مکمل نظر

حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ علم و عمل کی مسند سجانے اور شیخ العرب و العجم حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، خاتم المحدثین امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، مفتی اعظم حضرت مولانا کفایت اللہ دہلویؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علیؒ، صدر المدرسین علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ، شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، شیخ الحدیث حضرت علامہ سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ،  مولانا عبیداللہ سندھیؒ، اور بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا الیاس احمد کاندہلویؒ جیسے کئی جلیل القدر تلامذہ (جن کے علمی،ملی، تحریکی، تبلیغی و تصنیفی کارہائے نمایاں جگ ظاہر ہیں) کو تعلیم و تربیت سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ احوالِ عالم بطورِ خاص انگریزوں کی شاطرانہ و عیارانہ چالوں سے  پوری طرح باخبر رہتے تھے چنانچہ مولانا سلمان منصور پوری صاحب لکھتے ہیں:"شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ احوالِ زمانہ سے بھی کبھی غافل نہیں رہے بلکہ انہوں نے دیوبند کی چٹائیوں پر بیٹھ کر پورے عالم کے حالات پر نظر رکھی؛ لوگوں کو شبہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ زاہد فی الدنیا بزرگ، جس کی ظاہری زندگی مسجد اور مدرسہ تک محدود ہے اور جس کا منحنی سا وجود علومِ نبوت کے لعل و جواہر ڈھونڈنے میں ہمہ وقت مشغول ہے؛ کیا وہ کسی بین الاقوامی تحریک کی قیادت بھی کر سکتا ہے؟ اور کیا وہ ایسی حکومت کی بنیادیں ہلا نے کی بھی طاقت رکھتا ہے؟جس کی حکومت میں اس دور میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، یہ بات شاید کسی کے وہم و خیال میں بھی نہ گزرتی ہوگی، مگر آگے جا کر وقت نے بتا دیا کہ یہی مجاہد استاد کا مجاہد شاگر "محمود حسن" تھا جو دسیوں سال دیوبند میں بیٹھ کر خلافتِ عثمانیہ کے خلاف انگریزی ریشہ دوانیوں؛ بلقان و طرابلس کی خوں چکاں داستانوں؛ اور عالم عرب پر انگریزی چیرہ دستیوں پر کرب کی حالت میں راتوں کو کروٹیں بدلتا رہا اور جس نے بالآخر بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق کا مظاہرہ کرتے ہوئے، عالم اسلام کو انگریز سے نجات دلانے کےلئے ایک تحریک کا منصوبہ بنایا جسے بعد میں "تحریک شیخ الہند" یا "تحریک ریشمی رومال" کے نام سے جانا گیا"۔

(ہفت روزہ الجمعیۃ نئی دہلی تحریک ریشمی رومال نمبر صفحہ نمبر 31)

اپنوں کی سازشوں سے انگریزوں کے خلاف یہ تحریک اگر چہ پورے طور پہ کامیاب نہ ہو سکی۔ لیکن اس نے ہند و پاک کے مسلمانوں میں بیداری اور انگریز دشمنی کی نئی روح پھونک دی۔

 انگریزوں سے شدید مخالفانہ جذبات 

انگریزوں سے شدید نفرت اور مخالفانہ جذبات کا یہ حال تھا کہ جب آپ کے سامنے ترک موالات کا استفتاء پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے تین شاگردوں: مفتی محمد کفایت اللہؒ، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کو جمع کرکے فرمایا کہ :یہ فتویٰ آپ لوگ ہی لکھیں ان حضرات نے یہ کہا کہ آپ کی موجودگی میں ہم کیا لکھیں؟ تو فرمایا کہ: میرے اندر انگریزوں سے نفرت کا جذبہ اتنی شدت لیے ہوئے ہے کہ مجھے اپنے نفس پر اطمینان نہیں ہے کہ حدود کی رعایت ہوسکے گی اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: (ولایجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا) اس لیے آپ لوگ ہی لکھیں۔

 انگریزوں کے متعلق شیخ الہندؒ کے شدید جذبات کا اندازہ خود انگریزوں کو بھی تھا چنانچہ سرجیمز مسٹن گورنر یوپی نے ایک موقع پر  کہا تھا کہ: "اگر اس شخص کو جلا کر راکھ کر دیا جائے تو وہ بھی اس کوچہ سے نہیں اڑے گی جس میں کوئی انگریز ہوگا" اسی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ "اگر اس شخص کی بوٹی بوٹی کر دی جائے تو ہر بوٹی سے انگریزوں کی عداوت ٹپکے گی".

(شیخ الہند مولانا محمود حسن حیات اور علمی کارنامے صفحہ نمبر 239)

 حضرتؒ کا مشہور مقولہ 

حضراتِ اساتذہ کے حلقے میں حضرت شیخ الہند ؒ کا یہ مقولہ بہت مشہور تھا: "فرنگی سے نفرت جزو ایمان ہے"

(تحریک آزادی صفحہ 25)

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

 چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی

 حضرتؒ کی انگریز دشمنی مفکرِ اسلام کی زبانی 

مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:

"دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ جو بعد میں شیخ الہند کے نام سے مشہور ہوئے ہندوستان کی جنگ آزادی انگریزی حکومت کے خلاف صف آرائی اور ایک آزاد منصفانہ اور دستوری حکومت کے قیام کے لئے ایثار و قربانی دینے والوں میں پیش پیش تھے سلطان ٹیپوؒ کو مستثنیٰ کرکے انگریز دشمنی میں کوئی دوسرا ان کا سہیم و شریک نظر نہیں آتا وہ خلافتِ عثمانیہ کے جو اس وقت   عالمِ اسلام کی قیادت کر رہی تھی اور خلافت کا جھنڈا بلند کئے تھی پر زور حامی اور بڑے مؤید تھے"۔

(تذکرہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صفحہ نمبر 55)

سیاہ فام محبوب مگر سفید فام مبغوض

شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے صدرِ وسیع میں ہر ایک کیلئے گنجائش تھی مسلمانوں کی طرح وہ ہندوؤں کے بھی دوست تھے وہ نہ صرف سر زمین ہند بلکہ پوری ایشیا کے ہر گلشن اور ہر خیابان کو سرسبز و شاداب دیکھناچاہتے تھے مگر کیا وجہ ہے کہ یورپ کی طرف سے ان کا ذہن تنگ تھا افریقہ کا سیاہ فام موٹے ہونٹوں الجھے ہوئے بالوں نیلی آنکھوں والا حبشی ان کو محبوب تھا مگر کیا بات ہے کہ یورپ کے سفید فاموں سے ان کو نفرت تھی اِن کے بزرگوں میں وہ بھی تھے کہ اگر کسی یورپین سے ان کا ہاتھ لگ جاتا تھا تو وہ اس کو اس وقت تک ناپاک سمجھتے تھے جب تک اس کو پوری طرح دھو نہ لیتے تھے تھے۔

(تحریک شیخ الہند صفحہ نمبر 1)

 مالٹا کی جیل میں حضرت ؒکی ثابت قدمی 

حضرت شیخ الہند کی تدفین کے بعد ان کے مجسم ایثار اور سراپا فدئیت شاگردشیخ الاسلام حضرت مدنی علیہ الرحمہ سے دریافت کیا گیا کی حضرت کو غسل دیتے وقت کمر کے اوپر عجیب طرح کے نشانات دیکھنے میں آئے ایسا لگتا تھا کہ پشت کو آگ سے داغ گیا ہوں یہ سن کر حضرت مدنی آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا کہ یہ میرے حضرت کا راز تھا حضرت نے مجھے تاکید کی تھی کہ میری زندگی میں یہ راز کسی کو مت بتانا میں نے اس عہد کی پابندی کی لیکن اب عرض کرتا ہوں کہ اسارتِ مالٹا کے دوران ایک موقع پر جب انگریزوں کی طرف سے بے حد اصرار بڑھا کہ تم اپنا موقف بدل دو اور ہماری حمایت کا اعلان کر دو، مگر شیخ الہندؒ نے پوری قوت سے منع کردیا اور اپنے موقف پر بہرصورت ثابت قدم رہنے کا اعلان کر دیا، انگریزوں نے آگ جلوائی، انگارے گرم کرائے حضرتؒ کو انگاروں پر لٹا دیا گیا پوری پشت جھلس گئی یہ سزا جھیلنے کے بعد (بھی انگریز کی حمایت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے بلکہ زبان حال و قال سے یہی کہتے رہے کہ

تم پھول کو چٹکی سے مسل سکتے ہو لیکن

خوشبو کو بکھرنے سے نہیں روک سکو گے)

جب حضرتؒ کمرے میں آئے تو تکلیف اتنی شدید تھی کہ سونا مشکل تھا مستقل کراہ رہے تھے ناقابل بیان کیفیت تھی ہم سے حضرتؒ کی یہ حالت برداشت نہیں ہو رہی تھی ہم نے آپ سے عرض کیا حضرت شریعت میں جان بچانے کے لیے حیلہ کی تو اجازت ہے انگریزوں کے سامنے کوئی ذو معنیٰ مبہم بات کہہ دیں تو کیا حرج ہے یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ حسین احمد! تم مجھے کیا سمجھتے ہو میں روحانی بیٹھا ہوں حضرت بلال کا، یہ لوگ میرے جسم سے جان تو نکال سکتے ہیں مگر میرے دل سے ایمان نہیں نکال سکتے۔

(حضرت شیخ الہندؒ شخصیت خدمات و امتیازات صفحہ نمبر 22)

حضرت شیخ الہندؒ کی مالٹا سے واپسی اور انگریز کے خلاف نئی حکمت عملی 

 15 مارچ 1920ء کو ساڑھے تین سال کے بعد حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی مالٹا جیل سے رہائی کا حکم جاری ہوا اور 28 جون 1920ء کو آپ ہندوستان پہنچے۔
ہندوستان واپسی کے وقت اگرچہ آپ کی صحت حد درجہ گر چکی تھی لیکن مشاغل کا انہماک آپ کو چین  نہ لینے دیتا تھا جسم و جان کو ہلا دینے والی اذیت ناک قید کے بعد آپ کی سوچ اور جذبہ عمل کیا تھا اس بابت مولانا حسین احمد مدنی نقش حیات میں تحریر کرتے ہیں :"حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اس لمبی مدت قید کی مشقتیں برداشت کر کے ہندوستان آئے تو ان کے جذبہ حریت میں کوئی کمزوری یا کمی نہ تھی.
بلکہ ہندوستانی مارشل لاء
 رولٹ ایکٹ مجریہ( جس کے ذریعے ہندوستانیوں کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی گئی تھی۔ تمام ملک میں مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا ) 19مارچ 1919 کے کالے قانون کے خلاف 13 اپریل 1919ء کو جلیانوالہ باغ امرتسر میں ایک جلسہ ہوا جس پر انگریز نے گولی چلائی اور چار سو کے قریب لوگ شہید ہوئے یہ اور اس جیسے اور واقعات اور ترکی مملکت کی تقسیم اور معاہدہ سیورے اور ترکوں  کے ساتھ انتہائی بے انصافیوں نے اس آگ کو اور بھی بڑھکادیا تھا۔ ممبئی میں اترتے ہی مولانا شوکت علی مرحوم رحمۃاللہ علیہ اور خلافت کمیٹی کے ممبروں وغیرہ سے حضرت شیخ الہند کی ملاقات ہوئی مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ لکھنؤ سے اور مہاتما گاندھی احمد آباد سے حضرت شیخ الہندؒ کے استقبال کے لیے تشریف لائے ان سے نیز دوسرے لیڈروں سے خلوت اور جلوت میں حالات حاضرہ پر بات ہوئی اس موقع پر آپ نے عدم تشدد کا پروگرام ہندوستان کے آزاد کرانے کے لئے ضروری قرار دیا".

(نقش حیات صفحہ 667)

انگریز سے نفرت کی ایک عجیب مثال 
انگریزوں سے جذباتی نفرت پر ایک اور مثال سے روشنی پڑتی ہے پروفیسر اکبرآبادی صاحب لکھتے ہیں:"سیوہارہ ضلع بجنور میں ایک بزرگ ہیں جو فتوی پوچھے بغیر لقمہ بھی نہیں توڑتے تھے انہوں نے ایک مرتبہ خط کے ذریعہ حضرت شیخ الہند سے دریافت کیا کہ گاندھی ٹوپی اوڑھنا مذہبا کیسا ہے آپ نے جواب لکھ بھیجا کہ گاندھی ٹوپی چوں کہ ایسی جماعت کا شعار ہے جو حریت طلب اور انگریزی حکومت کی شدید مخالف ہے اور اسی وجہ سے انگریز بھی اس کو دیکھ کر آگ بگولا ہو جاتا ہے اس بنا پر بندہ کے نزدیک گاندھی ٹوپی کا استعمال نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے لیے جائز بلکہ باعث ثواب اور مستحسن ہے".

(شیخ الہند مولانا محمود حسن حیات اور علمی کارنامے 242)

حضرت شیخ الہند کے اس جواب سے انگریزوں کے متعلق ان کے جذبات کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔

 آخری ایام تک انگریز دشمنی میں پیش پیش 

حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ زندگی کے آخری ایام تک انگریز دشمنی میں پیش پیش رہے چنانچہ وفات سے کچھ ایام قبل 16 صفر 1339ھ میں آزاد نیشنل یونیورسٹی کے لیے ایک جلسہ   کا انعقاد کیا گیا جس میں اہل الرائے کو دعوت دی گئی اور منتظمین نے حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو صدر بنانا چاہا  حضرت اس وقت سخت بیمار تھے چلنا پھرنا ممکن نہ تھا اسی بیماری کو دیکھتے ہوئے آپ کے خدام نے اس سفر کو خطرناک اور نہایت تکلیف دہ ظاہر کیا دوسری طرف دعوت دینے والوں کا اصرار تھا کہ ہماری جدوجہد کی کامیابی کا مدار اس پر ہے کہ حضرت صدارت فرمائیں دیر تک فریقین کی گفتگو سننے کے بعد حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا جواب حسب ذیل تھا:

 "اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی تو اس جلسہ میں ضرور شریک ہوں گا".

(نقش حیات جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 676)

 بیماری کے دنوں میں حضرتؒ کا عزم :

زندگی کے آخری چند مہینوں میں جب مرض کافی مرض کافی شدت اختیار کرچکا تھا اس حالت میں بھی آپ نے متعدد سفر کئے اور بعض جلسوں میں انتہائی کمزوری اور بیماری کے باوجود شرکت فرمائی ایام مرض میں بار بار فرمایا کرتے تھے کہ "بیماری سے اچھے ہوتے ہی سارے ہندوستان کا دورہ کروں گا اور ہندوستان کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو آزادی کی مکمل جدوجہد کے لئے آمادہ کروں گا"۔
 (شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی حیات و کارنامے صفحہ 373)

کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گزر گئے

دل چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلوں

 لیکن عمر  نے وفا نہ کی اور یہ مرض مرض الوفات ثابت  ہوا۔

 حضرت شیخ الہندؒ  کا واضح ہدف* 

مولانا محمود الحسن رحمت اللہ علیہ حریت کاملہ اسلامی شوکت و عظمت کی بحالی اور برصغیر میں مسلم اقتدار کے احیاء کے اہداف کے لئے پیش بندی میں مصروف تھے مولانا ؒ بظاہر ایک سادہ لوح عالم دین تھے مگر مسلمانوں کی سیاسی قوت کے خاتمے سے مسلم امہ کے نقصانات کا انہیں مکمل ادراک تھا وہ اپنے مرحوم استاد بانی دارالعلوم کی عملی تحریک کے پردے میں چھپی حقیقی راہ پر گامزن تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ انگریزی کلچر سے  بہت متنفر تھے اور انگریز سرکار کے باغی تھے انگریز کے تسلط سے نجات شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا واضح ہدف تھا

 وفات :

30 نومبر 1920ء مطابق 18 ربیع الاول 1339ھ بروز منگل صبح 9 بجے
 بوقتِ چاشت علم و ہنر فضل و کمال عبقریت و نابغیت کا یہ آفتاب و ماہتاب عازم ملک بقا ہوا اور یہ آرزو لے کر رخصت ہوا کہ "افسوس میں بستر پر مر رہا ہوں حسرث تو یہ تھی کہ میدان جہاد میں ہوتا اور اعلائے کلمۃ الحق کے جرم میں میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے" اس شوق شہادت کے ساتھ آپ اپنے رب سے جاملے.

انا للہ وانا الیہ راجعون

(حضرت شیخ الہندؒ شخصیت خدمات و امتیازات صفحہ 35)

مٹی میں کیا سمجھ کے چھپاتے ہو دوستو!

گنجینہ     علوم      ہے   یہ گنج ِ زر   نہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے