مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اورموبائل کا صحیح استعمال: قسط : ( ٦ )


مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اورموبائل کا صحیح استعمال


مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اورموبائل کا صحیح استعمال

 قسط : ( ٦ )

     ادھر چند سالوں سے ان کے موبائل نے چلتے پھرتے دفتر اور کتب خانہ کی شکل اختیار کرلی تھی ، ضروری کاغذات کے فوٹو ، حساب و کتاب کا اندراج ، رقومات کی منتقلی ، پیغامات کی ترسیل سب  کی سب موبائل کے ذریعہ ھی ھوا کرتی تھی ، فقھی سیمینار سے متعلق تو تقریبا تمام چیزیں ان کے موبائل میں دستیاب رھتیں حتی کہ ای میل کے ذریعے آنے والے تمام مقالات کو بھی الگ فائل بناکر محفوظ کرلیا کرتے تھے ، اس کے علاوہ ان کا موبائل قیمتی کتابوں ، نفع بخش پروگراموں اور مفید معلومات کا ایک  ذخیرہ تھا ، اھم ترین کتابیں پی ڈی ایف کی شکل میں ان کے پاس محفوظ رھا کرتی تھیں ، پرانی کتابوں کے ساتھ منظر عام پر آنے والی ھر نئی اور اھم کتاب کی پی ڈی ایف حاصل کرکے اسے محفوظ کرنے کے وہ شوقین تھے ، ان کے اس شوق سے دوسروں کو بھی بہت فائدہ ھوا ، واٹسپ کے مختلف علمی گروپس میں وہ شامل تھے ، گروپ ممبران میں سے کوئی  کسی خاص کتاب کا متلاشی ھوتا تو بھائی معزالدین اپنے محفوظات کے ذریعہ اس کی علمی پیاس بجھا دیا کرتے تھے ، خاص بات یہ تھی کہ وہ علمی افادہ کے سلسلہ میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے ، جو طالب صادق ان سے کسی موضوع پر رھنمائی چاھتا وہ آخر درجہ تک اس کو مطمئن کرنے کی کوشش میں لگ جاتے تھے ۔ 

ملٹی میڈیا موبائل تو بہت سے لوگ استعمال کرتے ھیں لیکن علمی کاموں میں سہولت پیدا کرنے کے لئے اس کا صحیح استعمال بھائی معزالدین سے سیکھا جا سکتا تھا ۔


 حالات زمانہ سے با خبر


   ایسا نہیں تھا کہ وہ کتابوں کے مطالعہ یا علمی کاموں میں مشغول ھونے کی وجہ سے اپنی دنیا ھی میں مگن رھتے ھوں اور ملکی و عالمی حالات سے بے خبر ھوں ، ان کے پاس قومی اور بین الاقوامی طور پر پیش آنے والے ھر اھم معاملہ سے متعلق خواہ وہ سیاسی ھو یا غیر سیاسی نئی سے نئی اپڈیٹ رھا کرتی تھیں ، وہ اسٹیج اور  بیان و تقریر کے آدمی تو نہیں تھے لیکن مجلس میں کسی موضوع پر ان کی بے لاگ ، مدلل اور عقل میں آنے والی گفتگو اچھے سے اچھے بولنے والوں کو خاموش یا اپنا قائل کرادیا کرتی تھی ، کسی مجلس میں وہ کھلتے تھے تو دیر تک اپنے مطالعہ کی روشنی میں بات کرتے رھتے تھے ، ان کے تجزئے و تبصرے سٹیک اور بڑی گہرائی لئے ھوئے ھوتے تھے ، مشورہ چاھنے والوں کے لئے وہ بہت اچھے مشیر بھی تھے ، وہ حالات کو پڑھ لیا کرتے تھے اور اس کے تناظر میں مستقبل کے اندیشوں اور خطرات کا بڑے وثوق و اعتماد کے ساتھ ذکر کرتے تھے اور عام طور پر نتیجہ ان کی رائے کا ساتھ دیتا ھوا دکھائی دیتا تھا ۔


 کسی بھی معاملہ میں ان کا اپنا ایک موقف اور ایک مستقل رائے ھوتی تھی جس کو وہ دیانة صحیح سمجھتے تھے لیکن کسی پر اسے تھوپتے نہیں تھے ؛ البتہ اس کے اثبات کے لئے ان کے پاس مضبوط  و مسکت دلائل ھوا کرتے تھے ، کسی کے دباؤ میں یا احترام میں نہ وہ کوئی موقف اختیار کرتے تھے اور نہ ھی اختیار کردہ موقف کو ترک کرتے تھے ۔


مرعوبیت سےدوری اورخودداری


اکابر و اساتذہ اور بڑوں کے پورے احترام کے ساتھ یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ سب کی رائے سے متفق بھی ھوں ، کسی کی رائے کے خلاف بھی اپنی رائے کے اظھار میں ان کے لئے کوئی چیز مانع نہیں تھی ، وہ جو کہتے تھے ڈنکے کی چوٹ پر اور برملا کہتے تھے ، کسی کو اچھا لگے یا برا ان کو اس کی ذرہ برابر کبھی پرواہ نہیں رھی ، کسی بڑی سے بڑی شخصیت سے مرعوب ھوجانا ان کے مزاج کے بالکل خلاف تھا ، اس لئے کہ کسی سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں رھتا تھا وہ اپنی دنیا خود آباد کرنے والے لوگوں میں سے تھے ، اپنے سارے کام خود کرتے تھے ، سفارش کرنا یا کروانا ان کی سمجھ ھی میں نہیں آتا تھا ، کہا کرتے تھے :


 خود اپنی لیاقت سے اپنا جو مقام بنا سکتے ھو بناؤ ، کسی کے احسان مند ھوکر اس کے سھارے مقام حاصل کیا تو کیا ؟


        اپنے قریبی لوگوں کی کوئی بات بھی ان کو نا مناسب لگتی فورا نکیر کرتے اور صحیح بات کی جانب رھنمائی کیا کرتے ۔


     خود داری کا تو یہ عالم تھا کہ تینتیس چونتیس سال دھلی میں گزار دئے ، بڑے بڑے لوگوں سے شناسائی اور ھر طرح کے مواقع مہیا ھونے کے باوجود اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے کچھ کہا ھو سننے میں نہیں آیا ، دفتر جمعیت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں پوری زندگی بتاگئے ، شھر میں مکان تو مکان ایک ذاتی کمرہ بھی اپنے لئے نہ بنایا ، شروع شروع میں رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں کئی سال تک دھلی میں ایک بڑے صاحب خیر جناب ڈاکٹر سید فاروق صاحب ( ھمالیہ ڈرگس کمپنی) کے بنگلے پر قرآن پاک سنانے کا معمول رھا ، بعد تراویح کچھ دیر تفسیر بھی کیا کرتے تھے ، تراویح و بیان میں خاصے اصحاب ثروت  اور ذمےدار لوگ شریک ھوتے تھے  لیکن کبھی اس اللہ کے بندے نے اپنی شان استغنائی ، بے نیازی اور خودداری پر حرف نہ آنے دیا ، اپنی مرضی سے جب تک چاھا ان کے یہاں سنایا اور جب فیصلہ کرلیا نہ سنانے کا تو لاکھ کوشش کے باوجود تیار نہ ھوئے ، حق بات کہنے میں کبھی ان کو توقف نہ ھوا ، کسی کو خوش کرنے کے لئے اپنے رویہ میں جھوٹی تبدیلی لانا ان کی طبیعت اور مزاج سے قطعا ھم آہنگ نہیں تھا ، وہ جیسا سوچتے تھے ویسا ھی کہتے تھے ، بعض مواقع پر ان کی یہ صاف گوئی کسی کے لئے ناگواری کا باعث بھی بن جاتی تھی ، لیکن ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی ، ڈاکٹر فاروق صاحب اخیر تک ان کی بے نیازی اور استغناء کی اس شان سے بڑے متاثر رھے ، کئی سالوں تک تو ایسا بھی رھا کہ ڈاکٹر صاحب زکوٰۃ کی بھاری رقومات بھائی معزالدین کے حوالے کردیا کرتے تھے پھر وہ اپنی صوابدید سے مدارس میں اس کو تقسیم کردیا کرتے تھے ۔


           (جاری---)


محمد عفان منصورپوری

۲ / صفر المظفر ۱٤٤٢ھ

۲۰/ستمبر ۲۰۲۰ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے