مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اوردیانت و امانت: قسط : ( ۷ )


مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اوردیانت و امانت

 مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اوردیانت و امانت

قسط : ( ۷ )

دیانتداری اور معاملات کی صفائی تو ان کا خاص وصف تھا ، جس سے بھی ان کا معاملہ تھا آئینہ کی طرح صاف تھا ، ذریعہ معاش کے طور پر بغیر کسی اشتہار کے مناسب داموں پر وہ کتابوں کی طباعت کرایا کرتے تھے جس میں بڑی برکت تھی اور چھپوانے والوں کے لئے بڑی سہولت ، بس بھائی معزالدین کو طے شدہ معاملہ کے مطابق کتابوں کا آرڈر دے دیا جاتا تھا اور وقت مقررہ پر کتابیں پہنچ جایا کرتی تھیں ، دلی کے چکر لگانے اور پریس والوں کے پاس آنے جانے سے سب کو فرصت مل جاتی تھی ، یہ سارے کام وہ فون پر کرلیا کرتے تھے کہیں ضرورت ھوتی تھی تو چلے بھی جایا کرتے تھے اور واقعہ یہ تھا کہ اگر خود کوئی کتابیں چھپواتا تو اس کو مہنگی بھی پڑتیں اور محنت بھی خوب کرنی پڑتی ؛  لیکن متعلقہ افراد سے ان کے روابط ایسے ھوگئے تھے کہ مناسب داموں میں معیاری طباعت کرالینا ان کے لئے بہت آسان ھو گیا تھا پھر لوگوں کے ساتھ برتاؤ ان کا ایسا تھا کہ پریس والے ھوں یا بائنڈنگ والے ، کاغذی ھوں یا طباعت کروانے والے  سب متفقہ طور پر ان کے حسن معاملے کے معترف دکھائی دیتے تھے ، کسی کے پیسے وہ کبھی روکتے نہیں تھے ، وعدہ کے پکے تھے اور کہا کرتے تھے : 

" جو پیسے دینے ھیں اس میں تاخیر کرنے سے کیا فائدہ ، وقت پر دئے جائیں تاکہ ھم وقت پر اپنے کام کا مطالبہ بھی کرسکیں "۔

     طباعت کے سلسلہ میں کاغذ کا لین دین شروع سے وہ پرانی دلی کے ایک غیر مسلم مہاجن سے کیا کرتے تھے ، ھم بھی کئی مرتبہ ان کے ساتھ اس کی دوکان پر گئے ھیں ، ان کی وفات کے بعد جمعیت کے دفتر میں ھم نے اس غیر مسلم بھائی اور اس کے بیٹے کو آنسوؤں سے روتا ھوا دیکھا ھے جو رندھی ھوئی آواز میں یہ کہے چلا جارھا تھا کہ : " مولانا صاحب ! ھم نے اپنی لائف میں ایسا کھرا ، زبان کا پکا اور معاملات کا صاف ستھرا انسان نہیں دیکھا ، ھمارا تو بہت لوس ( نقصان) ھوگیا"۔

     بھائی معزالدین کی دیانتداری اور احتیاط کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ھے کہ جب انہیں اس بات کا علم  ھوا کہ جمعیت کے ملازمین کی تنخواہوں میں بوقت ضرورت زکوٰۃ کی مد میں آئی ھوئی رقم کو حیلہ تملیک کے بعد استعمال کیا جاتا ھے تو انہوں نے اپنا وظیفہ لینا موقوف کردیا اور ذمے داران کی خدمت میں یہ شرط رکھی کہ اگر عطیات کی مد سے میرے مشاھرے کا نظم کیا جائے تو ٹھیک ھے میں لوں گا ورنہ نہیں ، چنانچہ جنوری ۲۰۱۱ء سے ان کا مشاھرہ موقوف رھا تا آنکہ مجلس نے ان کے حق میں یہ تجویز پاس کردی کہ عطیات کی مد سے ھی ان کے لئے مشاھرے کا نظم کیا جائے ، اس پر انہیں اطمینان ھوا اور مشاھرہ لینے پر رضامند ھوئے ، پھر وقفہ وقفہ سے ادائیگی کا عمل جاری ھوگیا ، ان کی وفات تک کل واجب الأداء رقم کے تقریبا نصف حصے کی ادائیگی ھوچکی تھی مابقیہ رقم ورثاء کے حوالے کردی جائیگی انشاء اللہ ۔


     حساب و کتاب کے معاملے میں کسی طرح کا کوئی جھول ان کی زندگی میں نہیں پایا جاتا تھا ، چنانچہ امارت شرعیہ ھند سے متعلق جملہ حساب کو اپنی وفات سے پہلے تک وہ اتنی تفصیل کے ساتھ لکھ کر گئے ھیں کہ بعد میں اس میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں رھا ۔

روپئے پیسوں سے ان کو کبھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رھی ، ادھر پیسے آتے تھے ادھر خرچ ھوجایا کرتے تھے ، جذبہ سخاوت بھی خوب تھا اپنے سوا سب پر خرچ کرکے خوش ھوتے تھے ۔ 

           صلہ رحمی

والدین ، بھائی ، بہن ، اھل خانہ رشتہ دار اور متعلقین کے ساتھ ان کا رویہ اور برتاؤ ایسا مثالی تھا کہ گھر کے ھر فرد کے دل میں ( خواہ وہ چھوٹا ھو یا بڑا ، بچہ ھو یا بوڑھا ) وہ بستے تھے ، وہ رھتے تو دلی میں تھے لیکن فکر و خبر ان کو دتلوپور ، ناگپور ، کانپور ، ترکیسر ، حیدرآباد ، علی گڑھ ، دیوبند ، مرادآباد اور امروھہ سب جگہ کی رھتی تھی ، ضعيف العمر والدین کی تمام تر ضروریات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا رویہ بھائی بہنوں اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک شفیق باپ کا سا تھا ، جو معاملہ ان کا اپنے بچوں کے ساتھ ھوتا تھا وھی معاملہ بھائی بہنوں کے بچوں کے ساتھ کیا کرتے تھے ، گھر کے ھر معاملہ میں ان کی رائے حرف آخر ھوتی ، کسی بھی طرح کی کوئی چھوٹی بڑی تقریب ھوتی بھائی معزالدین پوری ذمے داری کے ساتھ اس میں شریک ھوتے اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام تک پہنچانے میں پوری طرح معاون ھوتے ، وہ دوسروں کی فکروں کو بانٹنے کا ھنر جانتے تھے اور دوسروں کے کاموں کو اپنے ذمہ لے کر ان کا بوجھ ھلکا کرکے خوش ھوتے تھے ، اپنی ذات پر وہ بہت کم خرچ کرتے تھے جبکہ دوسروں کی راحت رسانی کے لئے وہ ھر دم تیار رھا کرتے تھے اور کمال کی بات یہ ھے کہ کسی کے پر بڑے سے بڑا احسان کرنے کے بعد وہ کبھی اس کو اپنی زبان پر نہیں لاتے تھے ، یہ محسوس ھی نہیں ھوتا کہ کس کے ساتھ انہوں نے کیا تعاون کیا ھے  ان کی وفات ایک دو گھروں کے لئے نہیں بلکہ دسیوں گھروں کے لئے آزمائش کی ایک گھڑی ھے ۔

           سادگی

سادگی ان کے مزاج کا اھم عنصر تھا ، تصنع ، بناوٹ اور تکلفات سے پاک زندگی گزارنے کے وہ عادی تھے ، طلب شھرت ، رونمائی اور اپنے لئے کسی امتیازی مقام کے وہ کبھی خواھاں نہ رھے حتی کہ جن پروگراموں کے سروے سروا اور روح رواں وھی ھوا کرتے تھے اس میں بھی اپنی نمائش کا خیال ان کے دل سے نہیں گزرتا تھا ۔

خود تو سادہ تھے ھی اور پسند بھی ایسے ھی لوگوں کو کیا کرتے تھے ، عام طور پر اصحاب ثروت اور تکلفانہ زندگی گزارنے والے حضرات سے وہ گریزاں رھتے تھے ، ایسے لوگ کم ھی تھے جن سے ان کا مزاج میل کھاتا تھا اور جن سے گفتگو میں وہ کھلا کرتے تھے یہی وجہ ھے کہ تعلقات و روابط ان کے بہت زیادہ وسیع نہیں تھے اور تعلقات میں وسعت کے وہ قائل بھی نہیں تھے ، کہا کرتے تھے :

 "تعلقات بنانا آسان ھے لیکن اس کو نبھاتے رھنا مشکل ھے ؛ اسلئے انسان کے تعلقات اتنے ھی اور ایسے ھی لوگوں سے ھونے چاھئیں جن کو وہ نبھاسکے"

     اس اصول پر خود ان کی زندگی میں بھرپور عمل تھا جس سے بھی تعلقات تھے آخر دم تک اس کو نبھاتے چلے گئے ، ان کا کمرہ سادہ اور چھوٹا ھونے کے باوجود بڑے بڑے لوگوں کا مسکن اور آماجگاہ بنا رھتا تھا ، اکابر و اصاغر میں خاصی تعداد میں ایسے حضرات تھے جن کے لئے دفتر جمعیت میں بھائی معزالدین کی شخصیت ایسی پرکشش تھی کہ سب سے پہلے انہی کے کمرے میں جانا ھوتا ، وہ چائے ، ناشتے یا کھانے سے حسب موقعہ ضیافت کرتے ساتھ ھی اپنی علمی اور بےلاگ گفتگو یا حالات حاضرہ پر تبصرے سے سب کو لطف اندوز کرتے ۔

            (جاری---)

محمد عفان منصورپوری

۳ / صفر المظفر ۱٤٤٢ھ

۲۱ / ستمبر ۲۰۲۰ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے