مولانا معزالدین رحمۃ اللہ علیہ اورمدرسہ حسین بخش میں تدریس : قسط : ( ۵ )


مولانا معزالدین رحمۃ اللہ علیہ اورمدرسہ حسین بخش میں تدریس

     حضرت فدائے ملت رحمہ اللہ کی دعوت پر بھائی معزالدین دہلی تو آگئے تھے لیکن اساتذہ کرام کی نصیحت اور خود ان کی بھی خواھش یہ تھی کہ تدریس سے ناطہ کسی طرح بھی جڑا رھے اس لئے دہلی آنے کے تین چار سال بعد ۱٤١٠ھ مطابق ۱۹۹۰ء سے " مدرسة العلوم مدرسہ حسین بخش " ، مٹیا محل ، دھلی میں تدریسی سلسلہ کا آغاز کیا اور تین سال ( ۱٤١٣ھ مطابق ۱۹۹٣ء ) تک مسلسل بلا تنخواہ رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیں ، اس دوران " تفسیر جلالین " " اصول الشاشی " ، " الفوز الکبیر " اور " نور الانوار " جیسی اھم کتابوں کے اسباق آپ سے متعلق رھے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک باقی نہ رہ سکا ، دفتری مصروفیات اور دوسرے کاموں کی وجہ سے سلسلہ تدریس کو موقوف کرنا پڑا اس کے بعد تو آپ صرف اور صرف جمعیت علماء ھند کے ھوکر رہ گئے ۔

مطالعہ کتب سے اشتغال

تدریسی سلسلہ اگرچہ موقوف ھوگیا لیکن تقریبا تمام فنون سے متعلق نادر و غیر نادر کتابوں کا ذخیرہ کرنا اور ان کے مطالعہ میں وقت صرف کرنا بھائی معزالدین کا اخیر تک پسندیدہ مشغلہ رھا ، ان کے چھوٹے سے کمرے میں ھر مرتبہ جاتے وقت اگر کسی نئی چیز کا اضافہ محسوس ھوتا تو وہ کتابیں تھیں ، جوں جوں کتابیں بڑھتی گئیں ویسے ھی کمرے کی دیواروں پر چاروں طرف لکڑی کی الماریاں بھی نصب ھوتی چلی گئیں اور اخیر میں تو ھر طرف کتابوں کا چٹا ھی دکھائی دینے لگا تھا ، اس ذخیرہ میں علوم شرعیہ ، سیر و سوانح ، تاریخ ، ادبیات ، کلیات شعراء اور متفرق موضوعات پر قیمتی کتابوں کے ساتھ مختلف مجلات و رسائل کی فائلیں بھی موجود تھیں ، عجیب بات یہ تھی کہ ھزاروں کتابوں پر مشتمل اس کتب خانہ کی کوئی فہرست نہیں تھی پھر بھی بھائی معزالدین کو یہ معلوم رھتا تھا کہ کون سی کتاب ان کے پاس ھے اور کون سی نہیں اور اگر ھے تو وہ کس طرف رکھی ھے ۔

   ایک موقع پر حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ ان کے کمرے پر تشریف لائے ، کتابوں کی کثرت کو دیکھ کر مزاحا ارشاد فرمایا : معزالدین تو کتابوں کا قارون ھو رھا ھے۔

     تاریخ و سوانح ان کا خاص موضوع تھا بالخصوص دیوبند و جمعیت سے تعلق رکھنے والے حضرات اکابر کی زندگی پر ان کی گہری نظر تھی ، نقش حیات و مکتوبات شیخ الاسلام کے مشمولات تو گویا ان کو ازبر تھے ؛ بلکہ جن شخصیات کے تذکرے ان کتابوں میں مذکور ھیں ان کے حالات و تعارف سے بھی وہ واقف تھے ۔

      حضرت فدائے ملت رحمہ اللہ کے استقلال و عزیمت ، جرأت و ھمت ، فہم و دانش اور دور اندیشی کے وہ بہت قائل تھے بالخصوص اکابر کے ورثہ کی حفاظت ، حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کی فکر و مشن کو پروان چڑھانے اور ان کے حلقہ ارادت و اثر کو وسیع تر کرنے کے سلسلہ میں ان کی جدوجہد اور قربانیوں کے حوالے سے بڑے مداح تھے ۔

      حضرت شیخ الہند رح ، حضرت شیخ الاسلام رح اور علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے اجلہ تلامذہ کا تعارف اور اکثر کے حالات زندگی کے سلسلے میں ان کے پاس خاصی معلومات تھیں اور اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے وہ بہترین رھنما تھے ۔

     جمعیت علماء ھند کی تاریخ ، اس کے اجلاس ھائے عام ، مجالس عاملہ میں پاس کردہ تجاویز کی تفصیلات اور جمعیت کے آئین و دستور کی دفعات کے استحضار اور شقوں کی تشریح کے سلسلہ میں وہ اپنا ایک الگ مقام رکھتے تھے جس میں ان کا کوئی سھیم ابھی دور تک دکھائی نہیں دیتا ۔

ادبی اور شعری ذوق

یہ بات کم ھی لوگوں کے علم میں ھوگی کہ ان کا شعری اور ادبی ذوق بھی اونچے معیار کا تھا ، مختلف شعراء کی کلیات کا اچھا ذخیرہ ان کے کتب خانہ کی زینت تھا ، فرصت کے اوقات میں " صوفی عبد الرب رح " اور " کلیم عاجز رح " وغیرہ کے اشعار اکثر  گنگناتے ان کو سنا جاتا تھا ، اشعار ان کو یاد بھی رھتے تھے ، کوئی حمد و نعت یا منقبت دل کو لگتی تو وجد میں آکر مجلس میں موجود لوگوں کو خفیف ترنم کےساتھ سناتے بھی تھے ۔

      ھمارے نکاح کے موقع پر " جذبات مسرت " کے نام سے ایک منظوم کلام انہوں نے کہا بھی تھا جس کا ایک شعر بہ طور نمونہ پیش ھے : 

قلوب اس جشن جانفزا میں وفور عشرت سے کامراں ھیں خدائے قدوس کی ثنا میں عزیز و احباب تر زباں ھیں ۔

 (جاری---)

محمد عفان منصورپوری

یکم صفر المظفر ۱٤٤٢ھ

١٩/ستمبر ۲۰۲۰ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے