حضرت مولانا مبارک حسین ندوی ایک دل آویز شخصیت


حضرت مولانا مبارک حسین ندوی  ایک دل آویز شخصیت


بر صغیر کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ اخیر کی صدیوں میں یہاں علماء حق کا وہ قابل فخر سلسلہ ہمیشہ موجود رہا ہے جس نے کفر و شرک اور الحاد و لادینیت کے طوفان بلاخیز اور مسموم تھپیڑوں کے سامنے پوری جرأت سے سد سکندری بن کر امت مسلمہ کےایمانی جوہر اور  دینی متاع کی لگاتار حفاظت و صیانت کا قابل قدر فریضہ سر انجام دیا ۔  انہوں نے کتاب اللہ کے روشن احکام اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ترویج و اشاعت میں پوری زندگی صرف کر دی، اسلامی تہذیب و ثقافت کی آب و تاب کو قائم رکھنے کی حتی المقدور کوششیں کیں، اسلام کے نام پر در آنے والے اسلامی مزاج سے متصادم رسوم و رواج کی بیخ کنی کی ، کفر و شرک کے مراکز میں دعوت و تبلیغ کا مقدس فریضہ سر انجام دیا، مادیت سے بھی ٹکرائے ، ''کلمہ حق عند سلطان جائر''  کا نظارہ بھی پیش کیا،  نیز وہ نسل  بھی تیار کرتے رہے جو بلا خوف لومة لائم اس مقدس فریضے کو پوری جرات سے انجام دیتی رہے ۔ حضرت مجدد الف ثانی سے لیکر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سے لے کر حضرت شیخ الہند ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا الیاس کاندھلوی، اور حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمھم اللہ  وغیرہ کی بے مثال شخصیتیں اس پر شاہد عدل ہیں ۔ 

بلاشبہ آسمان رشد و ہدایت کے یہ وہ آفتاب و ماہتاب ہیں جو کفر و شرک کی عمیق تاریکیوں میں افق ہند پر اپنی  تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے اور اپنی ایمانی تمازت اور علم و تقوی کے نور سے  برصغیر ہی نہیں ایک عالم کو منور کیا ، ان کی برکات سے ان گنت لوگ ضلالت کی تاریک وادیوں سے نکل کر صراط مستقیم پر گامزن ہوئے ۔ ان انفاس قدسیہ کے سوز دروں،  للہی تڑپ، اعلاء کلمةاللہ اور ترویج سنت و شریعت کے عزم محکم کے نتیجے میں ان کے فیض یافتہ فضلاء کی وہ جماعت ہر دور میں معرض وجود میں آتی رہی جس نے اپنے ان اکابر کے مقدس مشن کو اپنا مقصد حیات بناکر احیاء اسلام کے لئے اپنا تن من دھن قربان کر دیا ۔ پوری زندگی اس عظیم مقصد کو حرز جاں بنائے رکھا ، اور اس مقصد کو سینے سے لگائے راہی عدم بھی ہوئے ۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

 اکابر علماء حق کی تربیت یافتہ اسی مخلص و مقدس جماعت کے ایک ممتاز رکن حضرت مولانا مبارک حسین قاسمی و ندوی رحمةاللہ علیہ بھی تھے ۔ آپ کی شخصیت بڑی دلآویز تھی ، خلاق عالم نے آپ کو گوناگوں صفات و کمالات سے نوازا تھا ، برصغیر کے ممتاز ترین دینی ادارے  دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوة العلماء کے فیض یافتہ تھے، تفسیر و حدیث، فقہ و فتاوی اور تصوف و سلوک سمیت مختلف علوم و فنون میں کامل مہارت تھی، زہد و تقوی سے آپ کا قلب معمور تھا ، طبیعت میں قناعت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ،تواضع و سادگی وہ امتیازی صفت تھی جس کے دوست دشمن سبھی قائل تھے ، نہایت خوش طبع اور خلیق و ملنسار تھے ، مہمان نوازی اور داد و دہش ان کی گھٹی میں پڑی تھی ، حلم و بردباری اعلی درجے کی تھی،  دعوت دین اور ترویج سنت و شریعت کا جذبہ درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا ۔ چنانچہ یہی وہ مبارک جذبہ تھا جس نے نیپال کے دور افتادہے علاقے ''نول پراسی'' کی ایک چھوٹی سی بستی ''مدھولیا '' میں ایک دینی ادارے  ''نورالعلوم'' کی بنیاد رکھ کر تمام تر نا مساعد حالات اور وسائل کے فقدان کے باوجود پروان چڑھا کر ایک ممتاز دینی ادارے کی شکل عطا کی ، جس سے تشنگان علوم نبوت کی ایک معتدبہ اور قابل قدر تعداد سیراب ہو کر اعلی تعلیم کے لئے دارالعلوم ندوة العلماء پہنچی ۔ آپ نے اس ادارے کو مرکز بناکر اطراف و جوانب میں موجود نسل نو کو جہاں دینی علوم و فنون سے آراستہ کر کے مستقبل کے لئے تیار کیا ، وہیں اس ظلمت کدہ کفر و شرک میں اپنی تقریر و تحریر اور مسلسل اصلاحی کوششوں سے اہل ایمان کو شرکیہ رسوم و رواج کے دلدل سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کیا ، آپ کی متواتر ''ادخلوا فی السلم کافة ''  کی صدائے پر درد پر بے شمار لوگ راہ راست پر آئے ۔ غیر مسلموں کو بھی حکمت و موعظت سے حتی المقدور اسلام کی حقانیت سے روشناس کرایا، انہیں اسلام کی خوبیاں بتائیں اور ایمان کی دعوت دیتے رہے ۔

مساجد کی تعمیر سے آپ کو خصوصی شغف  تھا، مختلف مقامات پر درجنوں مساجد آپ نے اپنی دلچسپی سے تعمیر کرائیں اور متعدد مساجد کی تکمیل و تزئین میں معین و مددگار بنے ۔

  اسلامی علوم و فنون میں مہارت کے ساتھ ساتھ آپ کو مختلف زبانوں میں بھی درک حاصل تھا ۔ چنانچہ اردو ، ہندی ، اور نیپالی کے ساتھ ساتھ عربی،  فارسی،  اور انگلش میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے ۔ متعدد زبانوں میں اپنی اس مہارت کو آپ نے اسلام کی دعوت و تبلیغ اور ملت کے اصلاح احوال کا موثر آلہ بناکر سینکڑوں ہزاروں بندگان خدا کو معرفت خداوندی سے فیض یاب کیا ، مساجد کے منبر و محراب اور جلسوں اور کانفرنسوں کے اسٹیج سے لے کر ذاتی مجالس تک الوہی معارف اور اسلامی محاسن سے عوام الناس کو روشناس کراتے رہے ۔ اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریر کی طویل افادیت کے پیش نظر اس مقصد کے لئے متعدد زبانوں میں گراں قدر کتابیں بھی تصنیف فرمائیں ۔ : 

(1)   چنانچہ آپ کی مصنفات میں نیپالی زبان میں ایک اہم تصنیف ''اسلام اور مسلمان''  ہے ۔ اس کتاب کے ذریعے جہاں اسلام کی اصل روشن اور مقدس شبیہ دکھا کر اہل اسلام کو بے جا رسوم و رواج ترک کر کے حقیقی معنوں میں مسلمان بننے کی دعوت دینی ہے  ، وہیں اس خطہ کفر و شرک کے تیرہ و تار فضا میں برادران وطن کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کرانے کی ایک بلیغ کوشش بھی ہے ۔

 (2) فضلاء دیوبند و ندوہ کو حدیث سے جو خصوصی شغف ہوتا ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے ۔ چنانچہ مولانا موصوف کو بھی محسن انسانیت،  فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات سے نسبت رکھنے والے اس مبارک فن سے خصوصی لگاؤ تھا ، اسی لئے بطور تبرک آپ نے فن حدیث میں '' نور الحدیث '' کے نام سے چالیس احادیث کا ایک کتابچہ تیار کیا ، اور اس کے اوراق کو جامع تعبیر و تشریح سے مزین فرماکر عوام الناس کےلئے اس سے  استفادہ نہایت آسان بنادیا ۔

(3)     ایک مسلمان کی زندگی میں قرآن و حدیث سے مستنبط ذخیرہ فقہ کی جو اہمیت ہے اس سے ہر ذی ہوش واقف ہے کیوں کہ عقائد و عبادات سے لے کر معاملاتِ و معاشرت تک ، اور مہد سے لے کر لحد تک  قدم قدم پر اس کی ضرورت پڑتی ہے ۔ چنانچہ اسی اہمیت کے پیش نظر مولانا موصوف نے '' نور الفقہ '' کے نام سے ایک جامع کتاب مرتب فرمائی ،جو آپ کے قائم کردہ مدرسہ '' نورالعلوم '' کے شعبہ نشر و اشاعت سے طبع ہوکر عوام خواص کے درمیان مقبول ہوئی ۔

(4)      امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول مسنون دعاؤں کی جو خاص تاثیر اور ظاہری و معنوی برکات ظہور پذیر ہوتی ہیں وہ اہل دانش پر مخفی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ علماء و مشائخ نے ان مسنون دعاؤں کو اپنے یومیہ معمولات میں شامل رکھا اور پوری پابندی سے اس پر عمل پیرا رہے ۔اسی اہمیت کے پیش نظر مولانا نے '' نور الدعاء '' کے نام سے ادعیہ مسنونہ کو مرتب فرمایا اور زیور طبع سے آراستہ کرکے امت کے سامنے پیش کیا ، تاکہ وہ ان مسنون دعاؤں کو اپنے معمولات حیات کا ایک حصہ بنا کر اس کی برکتیں سمیٹ سکے ۔

       مذکورہ بالا کتب کے علاوہ متعدد مضامین و مقالات سپرد قرطاس  کرکے آپ نے احیاء اسلام کے مقدس مشن کو آگے بڑھانے کی مبارک سعی فرمائی ۔ انشاءاللہ آپ کی یہ ہمہ جہت دینی خدمات ، مخلصانہ جدوجہد اور اصلاحی کوششیں آپ کی لئے صدقات جاریہ اور اصاغر و اخلاف کے لئے نمونہ عمل بنیں گی ۔

مولانا مرحوم کا مبارک ذکر پہلی مرتبہ 1996 ء میں کانوں میں اس وقت پڑا جب برادر محترم مولانا شفیق الرحمان ندوی اور مولانا عنایت اللہ ندوی مہراج گنجی مقیمان حال سعودی عرب اپنے دور طالب علمی میں آپ کے یہاں حصول علم کے لئے گئے،  اور بہت قریب سے آپ کے شب و روز کا مشاہدہ کیا ۔ وہ آپ کی مجاہدانہ زندگی ، داعیانہ جذبہ،  تواضع و سادگی،  تقوی و طہارت، اور اکابر علماء بالخصوص حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے خصوصی تعلق سے بہت متاثر بلکہ مرعوب تھے ۔ یہ دونوں عزیز بڑی  عقیدت و محبت سے آپ کے تذکرے کرتے اور ہم بھی پوری عقیدت سے سراپا گوش بن کر یہ تذکرے سنا کرتے ، اور زیارت کا جذبہ صادق قلب میں انگڑائیاں لیتا ، لیکن  طلب علم کی مشغولیات کی وجہ سے کبھی بالمشافہ زیارت کا موقع نصیب نہیں ہوسکا ۔ پھر اللہ تعالی کے فضل سے 2008 ء میں شرف زیارت کا وہ مبارک موقعہ میسر آیا جب ضلع مہراج گنج میں مدرسہ فاطمةالکبری للبنات کے جلسہ میں آپ تشریف لائے، حضرت  مولانا عبیداللہ الاسعدی صاحب  شیخ الحدیث باندہ اور آپ ایک ساتھ تشریف فرما تھے ۔ احقر نے آپ  کی دید سے اپنی آنکھوں کو شرف بخشا ، اور اس طرح برسوں کی خواہش پوری ہوئی ۔ اس پہلی ملاقات میں مولانا کی تواضع و سادگی، اصاغر نوازی، شیریں گفتاری اور اخلاق فاضلہ سے راقم سطور بہت متاثر ہوا ۔ مولانا کے مشفقانہ رویے سے ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ آپ سے یہ پہلی ملاقات ہے ۔ 

   افسوس آپ بہت جلد ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے، آپ کا خلاء  ہمیشہ محسوس ہوتا رہے گا، اور آپ کی مبارک یادیں اور بے لوث  محبتیں ہمیشہ یاد رہیں گی ۔

        دعاء ہے کہ اللہ تعالی آپ کی تمام تر دینی و علمی خدمات قبول فرماکر اسے آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ، اور جنت الفردوس میں آپ کو اپنے اساتذہ اور مشائخ کے ساتھ اعلی مقام عطا فرمائے ۔ نیز تمام نسبی و روحانی پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرماکر ان کے نقش قدم پر چل کر احیاء اسلام کی عظیم تحریک کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے