مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اور جمعیت علماء ھند کے لئے جدوجہد : قسط : ( ۸ )


مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اور جمعیت علماء ھند کے لئے جدوجہد :  قسط : ( ۸ )

مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اور جمعیت علماء ھند کے لئے جدوجہد

 قسط : ( ۸ )

ان سے متعلق شعبے اگرچہ امارت شرعیہ اور مباحث فقھیہ تھے جس میں ان کی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع تھا ؛ لیکن جمعیت علماء ھند کی دیگر سرگرمیوں میں بھی پوری دلچسپی کے ساتھ وہ شریک رھا کرتے تھے ، جمعیت کی مجالس عاملہ یا منتظمہ ھوں یا اجلاسہائے عام کی تیاریاں ، جمعیت یوتھ کلب کی میٹنگیں ھوں یا کوئی اور پروگرام بھائی معزالدین کی رائے اس میں محترم اور باوزن مانی جاتی تھی ، وہ ایک اچھے منصوبہ ساز بھی تھے ، دماغ بھی ان کا کمپیوٹر کی طرح کام کرتا تھا ، کتنے لوگوں کے کھانے پر کتنا خرچ آئیگا ؟ اور کتنی جگہ میں کتنے لوگ بیٹھ پائیں گے  ؟ یہ سارے حسابات منٹوں میں وہ لگاکر پیش کردیا کرتے تھے ، ان کے مشورے مخلصانہ اور حقیقت پسندی پر مبنی ھوا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ذمےداران بالخصوص حضرت صدر محترم دامت برکاتہم اور حضرت ناظم عمومی حفظہ اللہ کا خاص اعتماد ان کو حاصل تھا ، حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی مدظلہ العالی اکثر امور میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے اور ان کی رائے کو بہت اھمیت دیتے تھے ۔

     جمعیت علماء ھند کی تاسیس وقیام  پر سو سال مکمل ھونے کی مناسبت سے " صدسالہ تقریبات " منانے کا جو اعلان کیا گیا تھا اس میں اکابر جمعیت کی حیات و خدمات پر سیمینار کے انعقاد کی تجویز  بھائی معزالدین ھی کی طرف سے آئی تھی جس کو بہت پذیرائی ملی اور جس پر عمل آوری کے نتیجہ میں متعدد مشاھیر پر سیمینار ھوچکے ھیں اور ان سے متعلق دستاویزی حیثیت رکھنے والا مواد کتابی شکل میں شائع ھوکر منظر عام پر بھی آگیا ھے ، دیگر حضرات پر بھی سیمینار کی تیاری چل رھی ھے ، حالات کے سازگار ھونے کے بعد انشاءاللہ ان پروگراموں کا انعقاد ھوگا ۔

     سیمینار سے متعلق تمام منصوبوں کی روح اور خاکہ ساز شخصیت  بھائی معزالدین ھی کی تھی ، جو قدم قدم پر کنوینر حضرات کی رھنمائی کرتے تھے اور ان کو ضروری معلومات مہیا کرانے کی کوشش کرتے تھے ، باری تعالی ان تمام خدمات کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائیں ۔

     زیارت حرمین شریفین

حرم مکی اور حرم مدنی کی حاضری کے سلسلہ میں وہ بہت مشتاق رھا کرتے تھے ، ادھر سالہا سال سے رمضان کا مبارک مہینہ حجاز مقدس میں گزارنے کا معمول تھا ، آخری عشرے میں مسجد نبوی ( علی صاحبہ الصلاۃ والسلام ) کے قدیم حصے میں معتکف رھا کرتے تھے ، مکہ مکرمہ میں بھی بیشتر وقت ان کا حرم ھی میں گذرتا تھا ، نماز ظہر کے لئے آتے تو پھر عشاء پڑھ کر ھی قیام گاہ واپس ھوا کرتے تھے ، اس دوران اکثر وقت حرمین میں ان کا تلاوت کلام پاک میں گزرتا تھا ، ڈیڑھ دو دن میں وہ بآسانی قرآن پاک مکمل کرلیا کرتے تھے ۔

     عشق نبوی میں ڈوب کر علامہ اقبال رح  کے درج ذیل فارسی نعتیہ اشعار بھی ان کی زبان پر رھتے تھے جس میں یہ التجا کی گئی ھے کہ باری تعالی مجھے میرے محبوب کے سامنے شرمندہ نہ کیجئے گا : 

تو غنی از ھر دو عالم من فقیر 

روز محشر عذرھائے من پذیر 

یا اگر بینی حسابم ناگزیر 

از نگاہ مصطفی پنہا بگیر 

ترجمہ : اے خداوند قدوس تو تو دونوں جہاں سے بے نیاز ھے اور میں فقیر و محتاج ھوں ، تیری بے نیازی کا تقاضہ تو یہ ھے کہ محشر کے دن میرے عذر قبول فرما اور اگر میرا حساب لینا ضروری ھے تو میرے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے پوشیدہ لینا ؛ تاکہ میرے محبوب کے سامنے مجھے شرمندہ نہ ھونا پڑے ۔

بہت مختصر سا سامان لے کر وہ اس مبارک سفر پر جاتے اور کھجور و زمزم کا تحفہ لے کر واپس ھوتے ، پانچ سال پہلے ۲۰۱۵ء میں سفر حج کے موقعہ پر ۱۰ / ذوالحجہ کو منی میں  پیش آنے والے بھگدڑ کے سانحہ کا شکار ھوکر وہ بھیڑ کی زد میں آکر گرگئے تھے اور اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے تھے ، حفاظتی عملہ ان کو عرفات اسپتال لے گیا جہاں تقریبا ۲۰ گھنٹے کے بعد ان کو ھوش آیا اور پھر دو دن کے بعد ( ۱۲ / ذوالحجہ) ان کو اسپتال سے چھٹی ملی تب جاکر ساتھیوں سے ان کی ملاقات ھو پائی ، اس دوران حضرت مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری مد ظلہ العالی ، حضرت مفتی وحید الدین صاحب اور دیگر احباب ان کو تلاش کرتے کرتے تھک چکے تھے اور ان کی  زندگی سے تقریبا مایوس ھوگئے تھے ، لیکن اللہ کو زندہ رکھنا تھا اس  لئے بحفاظت قیام گاہ پہنچادیا ؛ البتہ اس حادثہ کے بعد وہ بہت کمزور ھوگئے تھے جس کا اثر اخیر تک محسوس کیا جاتا رھا ۔

     اس سال بھی ۲۹ / مارچ ۲۰۲۰ء کو وہ عمرے کے سفر پر اپنے بچوں کے ساتھ جانے والے تھے ، تمام تیاریاں مکمل تھیں ؛ لیکن کووڈ ۱۹ کی وجہ سے عالمی حالات میں ایسا تغیر ھوا کہ سب پروازیں معطل ھوگئیں نتیجتا انہیں اپنا سفر بھی منسوخ کرنا پڑا ، کیا معلوم تھا کہ اب باری تعالی کی جانب سے ھمیشہ ھمیش کے لئے ان کو  اپنے جوار میں بلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ھے ۔

            سفر آخرت

شوگر کے تو بھائی معزالدین پرانے مریض تھے ، انسولین بھی لیا کرتے تھے دن بدن کمزور بھی ھوتے چلے جارھے تھے ، اواخر اگست سے کمزوری میں اضافہ اور ھلکے بخار کی شکایت شروع ھوئی پھر پیٹ بھی خراب ھو گیا جس کی وجہ سے کھانا پینا کم ھونے لگا اور کمزوری بڑھتی چلی گئی پھر شوگر بھی بڑھ کر ٦٠٠ تک پہنچ گئی اس کے  بعد سانس لینے میں بھی دقت ھونے لگی تو ڈاکٹروں کے مشورے سے کمرے ھی پر آکسیزن لگا دیا گیا جس سے وقتی طور پر کچھ افاقہ محسوس ھوا لیکن پھر طبیعت اتنی متاثر ھوئی کہ اسپتال میں داخل کرکے علاج کرانا ضروری ھوگیا ، چنانچہ ۲ / ستمبر ۲۰۲۰ء رات بارہ بجے کے قریب دھلی کے مشھور اسپتال " میکس " ( ساکیت )  میں داخل کیا گیا ، اگلے روز طبیعت کی بحالی کی کچھ اطلاع ملی اور یہ بھی پتہ چلا کہ جانچ میں کووڈ ۱۹ کی رپورٹ پوزیٹیو آئی ھے اس لئے اب ان کووڈ وارڈ میں شفٹ کردیا جائیگا ، اسی دوران ھارٹ اٹیک بھی ھوا جس کی وجہ سے طبیعت مزید تشویشناک ھوگئی ، بہر حال " مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی " یہانتک کہ ٢٤ / محرم الحرام ۱٤٤٢ھ مطابق ۱۳ / ستمبر ۲۰۲۰ء بہ روز اتوار صبح تقریبا ساڑھے آٹھ بجے بھائی معزالدین نے آخری سانس لی اور ۵۹ / برس کی عمر میں اپنی مثالی زندگی کے یادگار نقوش چھوڑ کر اللہ کو پیارے ھوگئے انا لله وانا اليه راجعون  .

     ان کے والد محترم ، بیٹی اور گھر کے کچھ اور لوگ چونکہ وطن مالوف  " دتلوپور ، بلرام پور " سے دھلی کے لئے روانہ ھوچکے تھے اس لئے ان کا انتظار کرنا ضروری تھا چنانچہ اگلے دن تقریبا آٹھ بجے ان کا جسد خاکی اسپتال سے دفتر جمعیت لایا گیا پھر وھیں سنت کے مطابق غسل دیکر تجھیز و تکفین ھوئی اس کے بعد امیر الہند حضرت اقدس مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ ، صدر جمعیت علماء ھند و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں عوام و خواص پر مشتمل کئی سو افراد نےشرکت کی ، اس کے بعد دفتر جمعیت علماء کے عقب میں واقع اسی " دلی گیٹ قبرستان " میں ان کو سپرد خاک کردیا گیا جہاں سید الملت ، مؤرخ اسلام حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب علیہ الرحمہ پہلے سے آسودہ خواب ھیں ۔

     کورونا کے اس دور میں جبکہ میت کو اپنے قبضہ میں لے کر سنت کے مطابق تجھیز و تکفین اور تدفین مشکل ھوگئی ھے بھائی معزالدین کے لئے اللہ پاک نے رکاوٹوں کو دور کردیا اور سب کام الحمد للہ بآسانی سنت کے مطابق انجام پذیر ھوئے ۔

     باری تعالی اسی طرح بعد کے مراحل کو بھی ان کے لئے آسان فرمائیں ، اپنے وطن سے دور غربت کی حالت میں دنیا سے چلے جانے کو ان کے لئے عفو و درگزر اور رفع درجات کا ذریعہ بنائیں ، ان کی قبر کو نور سے منور فرمائیں ، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائیں ، پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل نصیب فرمائیں اور بچوں کی بہتر سے بہتر کفالت کا نظم فرمائیں ( آمین )

محمد عفان منصورپوری

٤ / صفر المظفر ۱٤٤٢ھ

۲۲ / ستمبر ۲۰۲۰ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے