تحفظِ شریعت اور ہماری ذمہ داریاں


تحفظِ شریعت اور ہماری ذمہ داریاں


ابوعاصم الاعظمی 

 "تمہید" : دین وشریعت میں مداخلت یا اس میں ترمیم وتنسیخ کی ناپاک کوششوں کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، اس قسم کی مذموم کوششوں کا پہلا واقعہ تب پیش آیا، جب نبی رحمتﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے، اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر خلافت کا بار ڈالا گیا، چنانچہ بعض جدید الایمان قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ نبی کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد زکوٰۃکی فرضیت ختم ہوگئی، ان قبیلوں کا یہ طرزِ عمل دوسرے معنی میں شریعت میں مداخلت ہی کی ایک شکل تھی، گویا وہ بزبان حال کہہ رہے تھے کہ، ارکانِ اسلام میں سے زکوٰۃ کے فریضہ کو ساقط کردیا جائے، وہ ہمیں نامنظور ہے، شریعت میں مداخلت یا ترمیم کے اس فتنہ کی سر کوبی کے لئے "صدیق اکبر" (رضی اللہ عنہ) کمر بستہ ہوگئے اور برملا اعلان کیا کہ جو نمازاور زکوٰۃ میں فرق کرے گا، میں اس کے ساتھ جہادکروں گا، پھرحضرت صدیق اکبر کا و ہ جملہ تاریخ اسلام میں سنہرے حروف میں لکھا گیا، جو در اصل آپ کی غیرت ایمانی اور حمیتِ اسلامی کا آئینہ دار ہے،انھوں نے فرمایا: ’’أ یُنقَص الدین وأنا حيٌّ‘‘ میرے جیتے جی دین میں کمی ہوجائے یہ کیسے ممکن ہے؟صدیق اکبرؓ نے پوری قوت کے ساتھ اس فتنہ کا مقابلہ کیا، الغرض ہمارے دور میں ہونے والی شریعت سے چھیڑ چھاڑ کوئی نئی نہیں ہے، اس جیسی ناہنجار کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر اسلام کے جانبازوں نے ان کے قلع قمع کرنے میں کوئی داغ نہیں چھوڑا، زیرِ نظر مضمون میں باطل کی انہیں ناہنجار کوششوں اور انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے طریقوں کو بڑے ہی مختصر انداز میں بیان کیا جائے گا، "وما توفیقی إلا باللہ"

شریعتِ مطہرہ اور دورِ حاضر پر ایک اچکتی نظر

اس وقت ہندوستانی مسلمان جن کٹھن اور صبر آزما حالات سے گزر رہے ہیں، وہ کسی بھی حساس اورباشعور  انسان سے بالکل مخفی نہیں، ایک طرف فرقہ پرست طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹانے کے لیے صف آراء ہوگئی ہیں،  دوسری طرف تختہ اقتدار پر براجمان مرکزی حکومت شریعتِ اسلامیہ میں مداخلت اور اس کے احکام میں ترمیم و تنسیخ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، ہر آنے والا دن مسلمانوں کے لیے کوئی نئی مصیبت لے کر آتا ہے، ہر طلوع ہونے والا سورج اپنے دامنِ شفق میں مسلمانوں کے خون کی سرخی لے کر صفحہ افق پر نمودار ہوتا ہے، کہیں گاؤ رکھشکوں کی طرف سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، کہیں مسلم نوجوانوں کو نہایت بے دردی سے زدو کوب کیا جارہا ہے، کبھی اذان، کبھی طلاق، کبھی قربانی، جیسے اہم اسلامی احکام میں تبدیلی کرکے ہماری زندگیوں کو اجیرن کیا جارہا ہے،  کیا کیا شمار کروں، اور کہاں تک شمار کروں، آپ حضرات خود ہی آئے دن نت نئے ناپاک فتنے کا مشاہدہ کررہے ہوں گے، ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ  الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے اسٹیج سے ہمہ وقت اسلامی اصول و قوانین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، یہی نہیں بلکہ زعفرانی جماعتوں کی طرف سے مسلمانوں میں منظم طور پر خوف وہراس پیدا کیا جارہا ہے، الغرض یہ رستہ خیز حالات تسبیح کے دانوں کے گرنے کے مانند تسلسل اور تیز گامی سے مسلمانوں پر آرہے ہیں اور مسلمانوں کے عقل ودماغ کو ماؤف کررہے ہیں ۔

 ان حالات میں ہم مسلمان کیا کریں؟

ایسے پر آشوب اور روح فرسا صورت حال میں مسلمانوں کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟ اور حالات حاضرہ کے تناظر میں ہم پر بحیثیت مسلمان کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ ایسے شکیب ربا اور مہیب دور میں شریعت مطہرہ سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے؟  ان باتوں کو سنجیدگی سے سوچنا اور ان کے لیے عملی اقدامات کو یقینی بنانا مسلمانوں کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،

 (١): سب سے پہلے تو بحیثیت مسلمان ہم یہ ذہن نشیں کرلیں کہ آسمانی فیصلے ہمیشہ انسان کے اعمال کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اگر انسان کے اعمال اچھے اور نیک ہوں، تو آسمان سے اچھے فیصلے اترتے ہیں اور اگر انسان کے اعمال خراب اور فاسد ہوتے ہیں، تو برے فیصلے آسمان سے اترتے ہیں، خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :"بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدل دیتا، جب تک وہ لوگ خود اپنے میں تبدیلی نہیں کرلیتے، (الرعد/ ١١)مشہور صاحب طرز ادیب حضرت مولانا عبد الماجد صاحب دریابادی (رحمہ اللہ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :" یہاں یہ قانون بیان کیا ہے کہ حق تعالیٰ تو عدل مطلق ہیں، ان کی طرف سے کسی ظلم وزیادتی کا امکان ہی نہیں، وہ جب بھی کسی قوم کو گرفت میں لے گا، تو اس قوم کی مسلسل نافرمانیوں کے پاداش ہی میں لے گا، کاش مسلمان قوم ایسی صریح آیتوں پر غور کرے اور اپنی حالت کو سوچے،

اس آیت کے تناظر میں صاف واضح ہورہا ہے کہ ان پیش آمدہ حالات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان فسق وفجور اور بد عملی میں مبتلا ہوگئے ہیں، دین وشریعت سے ان کا رشتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتا جارہا ہے، خالقِ کائنات سے تعلق وارتباط اور دائمی وابستگی بتدریج ڈھیلی پڑتی جارہی ہے، مسلمانانِ ہند خواہشات نفس کے اسیر، عیش وتنعم کے فریفتہ، دنیاوی لذت کے حریص اور معاد وآخرت سے لاپرواہ ہوتے جارہے ہیں، ہمارا مسلم سماج ہر طرح کے مفاسد اور خرابیوں کی مجسم تصویر بن چکا ہے، دینی، سماجی اور معاشرتی برائیاں ایک ایک کر کے مسلم معاشرے کی پہچان بنتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے مسلمان ہر چہار سو اللہ کے عتاب کا شکار ہورہے ہیں، اس لیے ہم مسلمانوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، کہ ہم اپنے اعمال واخلاق کی اصلاح کی فکر کریں، اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی شمع اپنے دلوں میں فروزاں کریں،سیرتِ طیبہ کی جان نواز خوشبو سے اپنی زندگی کے بام ودر کو معطر کریں، اپنے معاملات میں دین وشریعت کو حاکم اور فیصل بنائیں اور قرآنی تعلیمات و ہدایات کو اپنی زندگی میں نافذ کریں۔

 (٢): مسلمانوں پر ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کے مقابلے ہم شیشہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، ذات پات، مسلک ومشرب اور دوسرے فروعی مسائل میں الجھ کر ہم منتشر ہو گیے ہیں،ا س انتشار نے ہمیں انتہائی کمزور کر دیا ہے، اس خول سے باہر آکر کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کو فروغ دینا چاہیے، اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ، کفر الحاد کے تیر چلانے سے گریز کرنا چاہیے، بعض فرقے واضح طور پر اسلام سے الگ ہیں، جیسے قادیانی، اس سے ہمارا اختلاف اساسی اور ختم نبوت کے اسلامی عقیدہ پر مبنی ہے، لیکن جن فرقوں سے اختلافات فروعی ہیں، ان سے چھیڑ چھاڑ اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا جس سے فرقہ بندی کو فروغ ہو ، اسلام کے شایان شان نہیں۔

 (٣): مسلم ملت کا زوال مال و دولت کی کمی سے نہیں بلکہ تعلیم کی کمی اور اخلاقی گراوٹ سے آیا ہے،دور اول کے مسلمان اگرچہ بہت زیادہ کتابی علم نہیں رکھتے تھے مگر وہ مکتب نبوی کے سند یافتہ تھے،وہ وہم و گمان کے درمیان یقین کی شمع تھے،مسلمانوں کے نزدیک تعلیم محض حروف شناسی یا ہندسہ شناسی کا نام نہیں ہے بلکہ خود شناسی و خدا شناسی کا نام تعلیم ہے۔ہماے پاس مدارس،اسکول،کالج،مساجد خاطر خواہ تعداد میں ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکول اور کالج میں خدا شناسی کے علم کواور مکاتب و مدارس میں خودشناسی کے علم  شامل کریں۔

 (٤): آزادی کے بعد سب سے زیادہ نقصان ہمیں سیاسی میدان میں ہوا ہے، اس کے باوجود بھی ملک میں سینکڑوں نگر پالیکاؤں اور ہزاروں گرام پنچایتوں کے مکھیا آج بھی مسلمان ہیں، مگر وہ بھی یا تو بھرشٹا چار کے شکار ہیں، یا دولت اکٹھا کرنے کے چکر میں ترقی وخوش حالی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کررہے ہیں، ہمیں اسمبلی اور پارلیمنٹ کے لیے اپنی قیادت کو کھڑا کرنے اور مظبوط کرنے کی ضرورت ہے، ہماری سیاسی لیڈر شپ کو بھی جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ انھوں نے ملت کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کیا کام کیے ہیں ۔

 "حرفِ آخر" الغرض ان ساری باتوں سے واضح ہوا کہ اسلامی شریعت کا تحفظ ہماری اولین ذمہ داری ہے، ہم اسلام کو صرف اور صرف عبادات تک ہی منحصر نہ سمجھیں، بلکہ ان تمام راہوں کو مسدود کردیں ،جو نظامِ اسلام سے کھلواڑ کریں، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کی بالادستی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں، تبھی جاکر ہماری آنے والی نسلیں نیا ہندوستان دیکھیں گی ،ورنہ یقین مانیے انھیں آج کے میانمار اور کل کے ہندوستان میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت ہونے کے ناطے ہر موڑ پر ہماری مدد فرمائے، آمین یا رب العالمین.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے