اور اب سیکولر ازم کا لبادہ بھی اتر گیا


اور اب سیکولر ازم کا لبادہ بھی اتر گیا 
                       
 محمد سعید اللہ مہراج گنجی
 5 / اگست 2020 ء

تاریخ عالم کی انتہائی شاندار اور طویل سلطنتوں میں سے ایک سلطنت مغلیہ ، جس کے اولوالعزم، باصلاحیت اور جرات مند حکمرانوں نے اپنی ہمہ جہت ، متنوع اور طویل جدوجہد کے ذریعہ مختلف رجواڑوں میں تقسیم بھارت کو جہاں اکھنڈ بھارت کا شرف عطا کیا،  وہیں قابل فخر رواداری قائم کرکے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھا کر بھارت کو سونے کی چڑیا بنایا، اور تاج محل، لال قلعہ اور جامع مسجد جیسی درجنوں شہرہ آفاق عمارتیں بنواکر پوری دنیا میں بھارت کا وقار بلند کیا ۔ الحاصل انہوں نے بھارت کو ترقی کے اس اوج ثریا پر پہنچایا جس پر بھارت نہ اس سے پہلے پہنچا تھا اور نہ اس کے بعد آج تک پہنچ سکا ۔ مگر برا ہو تنگ نظر فرقہ پرست طاقتوں کا کہ وہ اسلام دشمنی میں بھارت کے ایسے قابل فخر حکمرانوں کو حملہ آور، لٹیرا اور اس طرح کے دوسرے غیر واقعی، قبیح تر اور انتہائی نامناسب گستاخانہ الفاظ سے نوازتے رہتے ہیں ، جس سے ان حکمرانوں کے روشن کارنامے تو مندمل نہیں ہوتے، ہاں ان فرقہ پرستوں کی قابل نفریں زہر آلود ذہنیت کا مظاہرہ ضرور ہوتا رہتا ہے ۔

اسی عظیم مغلیہ سلطنت کے اولوالعزم  بانی ظہیر الدین محمد بابر کے ایک سپہ سالار میرباقی نے 1528ء میں ایودھیا کی سرزمین پر بابری مسجد کے نام سے ایک خانہ خدا تعمیر کیا تھا، جو فن تعمیر کا ایک شاہکار تھا اور اپنی گوناں گوں خصوصیات اور ظاہری و باطنی حسن و جمال سے  دیکھنے والوں کو مسحور کر دیا کرتا تھا ۔ اللہ کا یہ مقدس گھر اپنی ابتداء تعمیر سے ہی نیک بندوں کے سجدوں سے ہمیشہ آباد رہا ۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی جب انگریز اپنی عیاری کی وجہ سے تدریجا اقتدار پر مکمل قابض ہو گئے تو '' ڈیوائڈ اینڈ رول '' کی بدنام زمانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے انہوں نے یہاں کے باشندوں کو آپس میں لڑانے اور ذہنی طور پر ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے جو مختلف منصوبے بنائے اس میں بدقسمتی سےغیر متنازع  بابری مسجد بھی تھی، جس پر اب تک تنازع کا کوئی ادنی سا شائبہ تک نہیں تھا ۔ لیکن اب دانستہ وہاں ایک تنازع کھڑا کیا گیا ۔ اس منصوبے میں برادران وطن کا ایک طبقہ انگریزوں کا ہمنوا بن گیا ۔ چنانچہ 1850ء  سے مصنوعی تنازع کا یہ سلسلہ محدود پیمانے پر  چلتا رہا،  یہاں تک کہ 1947 میں ملک عزیز تقسیم ہو گیا،  اور پاکستان معرض وجود میں آیا، جس کی وجہ سے  بھارت میں مسلمانوں کی طاقت عدم کے درجے میں ہو کر رہ گئی ۔ پھر تو فرقہ پرستوں سمیت سیکولر ازم کے علمبرداروں تک نے اپنی تنگ ذہنی اور مسلم دشمنی کا  خفیہ و علانیہ مظاہرہ شروع کردیا ۔ وہ بابری مسجد جو 1850ء  سے متنازع بنانے کی مذموم کوششؤں کے باوجود   بحمد اللہ اب تلک آباد تھی اور اس میں نماز پنجگانہ سمیت ذکر و تلاوت اور اعتکاف جیسی عبادتیں پورے اہتمام سے جاری تھیں ، اور جنونی  فرقہ پرست طاقتوں  کو اب تک کسی گستاخانہ اقدام  کا حوصلہ نہ ہو سکا تھا ،    مگر افسوس کہ ابھی تقسیم کے قضیہ کو صرف دو سال چند مہینے ہی گزرے تھے کہ منظم پلاننگ کے تحت 22 - 23 دسمبر 1949ء کی شب   محافظوں کی موجودگی میں ہندو مہا سبھا کے غنڈوں نے  عین محراب کے حصے میں  ناپاک مورتیاں رکھ کر مسجد کے تقدس کو پامال کر دیا ۔ ڈیوٹی پر موجود محافظوں اور مقامی مسلمانوں کی شکایت پر بھی یہ مورتیاں نہیں ہٹائی گئیں ۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے دباؤ پر موجودہ وزیر اعظم پنڈت نہرو نے یوپی کے وزیر اعلی  مسٹر گوبند بلبھ پنت کو ایک خط لکھ کر مورتی ہٹائے جانے  کا حکم دیا ۔ مگر فیض آباد کے اس وقت کے ڈسٹرکٹ جج ''کےکے نائر'' کی طاقت شاید وزیر اعلی اور وزیر اعظم کی طاقت پر غالب تھی،  مورتیاں کیا ہٹائی جاتیں ؟ مسجد کو ہی تالا لگا کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے لیے بند کر دیا گیا ۔ 

مسلمانوں کے ساتھ علانیہ یہ ناانصافی اس وقت ہوئی جب مرکز میں مولانا آزاد جیسے قد آور لیڈر باضابطہ حکومت کا حصہ تھے ، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، اور جنرل شاہنواز خان جیسے قابل فخر اور قدآور مجاہدین آزادی کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔ پنڈت نہرو اور ان کے رفقاء کو نہ انصاف سے کوئی سروکار تھا اور نہ ہی جنگ آزادی میں ان کے شانہ بشانہ شریک رہ کر عدیم المثال قربانیاں دینے والے ان عظیم مجاہدین آزادی کا کوئی پاس و لحاظ ۔ 

بابری مسجد کے اندرونی حصے میں مورتیاں موجود رہیں اورگیٹ پرتالا لٹکتا رہا، اورساتھ ہی ساتھ عدالت کی غلام گردشوں میں انصاف کی تلاش بھی جاری رہی ، تاآنکہ ایک بار پھر  مسلمانوں کے زخم پر نمک چھڑکتے ہوئے پنڈت نہرو کے نواسے راجیو گاندھی کی ایماء پر 9 نومبر 1985ء کو پہلے بابری مسجد کا تالا کھول کر عام ہندووں کو پوجا پاٹ کی اجازت دی گئی ، بعد ازاں  مندر کا شیلا نیاس کراکے ایک کھلا پیغام دے دیا گیا کہ اب یہاں خدائے وحدہ لا شریک کی بندگی نہیں کی جاسکتی ہے ۔ بھولا بھالا مسلمان پھر بھی پرامید رہا کہ  شاید یہ اہل سیاست کا  فقط ایک سیاسی کھیل ہو۔ یقینا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئےعدالت سے اسے انصاف مل ہی جائے گا۔

پھر 6 دسمبر 1992 کی وہ منحوس گھڑی بھی آئی جب لاکھوں غنڈوں نے آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر دن کے اجالے میں بابری مسجد کو شہید کردیا اور نرسمہا راو حکومت خاموش تماشائی بنی رہی، اور عدالت عظمی کے لیے بھی یہ کوئی بڑا سانحہ نہیں تھا ۔ مسجد بھی مسلمانوں کی شہید ہوئی،  اور اس کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں جانوں کا اتلاف اور اربوں کی جائیداد کی بربادی بھی مسلمانوں کا مقدر ٹھہری ۔  تاہم نہ مرکزی حکومت کی بےحسی ختم ہوئی اور نہ ہی عدالت عظمی انصاف کے پاسبان کے طور پر سامنے آئی ۔ مسلمان پھر بھی انصاف کی آس لگائے پوری تیاری سے عدالت کی کنڈیاں کھٹکھٹاتا رہا ! ہائی کورٹ، پھر سپریم کورٹ ۔ اور وقتا فوقتا عدالت پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کرتا رہا ۔ مگر مشہور مثل ،، ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ،، کی صداقت ایک بار پھر نظروں کے سامنے آنی تھی ۔ چنانچہ عدالت عظمی نے  9 نومبر 2019 کو اپنے حتمی فیصلے میں درج ذیل حقائق  کو تسلیم کیا ! 

(1)  فرقہ پرست طاقتوں کے دعوی کے برعکس بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔ 

( 2) 1949 تک اس میں باضابطہ نماز ہوتی رہی ۔
 اور مقفل ہونے کے بعد بھی شہادت تک اس کی مسجد کی حیثیت برقرار تھی۔   

(3) رات کے اندھیرے میں مورتی رکھنا ایک مجرمانہ عمل تھا ۔        

(4) 6 دسمبر 1992 کو اس کو شہید کرنا بھی  سنگین جرم تھا ۔

لیکن ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود عدالت نے شہید بابری مسجد کی مقدس جگہ بھی شہادت کے مجرموں کے حوالے کردی ۔ اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے یا نام نہاد انصاف کا بیلنس کسی قدر متوازن رکھنے کیلئے مسجد بنانے کے لئے پانچ ایکڑ زمین کی خیرات مسلمانوں کو دینے کا حکم دیا ۔


عدالت عظمی کا یہ وہ افسوسناک سیاہ فیصلہ تھا جس نے عدلیہ کے وقار کو پامال کرکے اس کے تئیں انصاف کے یقین کو کمزور کیا ۔ اور ساری دنیا میں یہاں کے نظام انصاف کو لے کر  ایک غلط پیغام گیا۔

پھر اگر کچھ باقی بھی رہا تھا تو اسے 5 اگست 2020 ء کو وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں لئے گئےاپنے حلف کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے اور سیکولر آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے رام مندر کی بھومی پوجن میں شامل ہوکر اور اس کا سنگ بنیاد رکھ کر پورا کردیا ۔

اوراس طرح کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے بعد سے  بھارت جو اپنے سیکولر ہونے کے دعووں کے باوجود  غیر اعلانیہ طور پر عملا ایک ہندو راشٹر تھا ۔ اب سیکولر ازم کا چولا اتار کر کھلم کھلا اور اعلانیہ ہندو راشٹر بن گیا ہے ۔

مسلمان پہلے بھی زمینی سطح پر دوسرے درجے کا شہری تھا، اس کی وفاداری مشکوک سمجھی جاتی تھی ، اور 14 فیصد سے زائد ہونے کے باوجود اقتدار کے گلیاروں میں حصہ داری تو کجا کسی موثر آواز تک سے محروم تھا ۔ آزادی کے بعد سے ہی اس کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا گیا ۔ کبھی کبھی ناز برداری کے پروپیگنڈے بھی ہوتے تھے مگر تاریخ شاہد ہے کہ اس قوم کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ ہزاروں کی تعداد میں منظم فسادات سے لے کر دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کرکے پندرہ پندرہ سال بیس بیس سال تک زنداں کی زینت بنائے جانے تک ۔ دفعہ 370 اور 35 A کے خاتمے سے لیکر موب لنچنگ اور  سی اے اے تک مسلم دشمنی کی پوری ایک تاریخ ہے ۔

ہاں اب شاید مسلمان شہریت کے دوسرے پائدان سے اتر کر تیسرے پائدان تک پہنچ جائیں ، کیونکہ دوسرا پائدان اب دلتوں کے لئے مخصوص ہوتا نظر آرہا ہے ۔

ہمیں اب یہ یقین کر لینا چاہیئے کہ مستقبل حال سے بھی زیادہ پر خطر ہے ۔ لہذا نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے کسی بھی قسم کی امید رکھنا فضول ہے ۔ہمیں حالات کا مقابلہ خود کرنا ہے ۔ اگر سیکولر پارٹیاں اور سیکولر افراد اخلاص کے ساتھ سامنے آتے ہیں، تو خوشدلی سے ان کا استقبال کرنا ہے ، مگر بھروسہ  اپنے ہی بازوؤں پر کرنا ہے ، ہمیں اپنے ہی پاؤں پر چلنا سیکھنا ہوگا ۔ حالات چاہے جتنے بھی پر خطر ہوں مگر 1857ء سے زیادہ نہیں ہیں ۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں طویل منصوبہ بندی کرنی ہوگی ، اور بے لوث جدوجہد کرتے ہوئے اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا، خواہ اس کے لئے ہمیں کتنی ہی قربانیاں دینی پڑیں ۔ ہماری قیادت اسلاف کی سی بصیرت اور عزم و حوصلہ  پیدا کرکے متحد ہوکر  پوری جرات سے سامنے آئے ،اور پوری توانائی کے ساتھ قوم کو آواز دے ، انشاءاللہ قوم پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ سی اے اے کے خلاف منظم احتجاجات نے قوم کی صلاحیتوں کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے ۔ ضرورت ہے کہ قائدین بھی عزم صدیقی اور فراست فاروقی کے ساتھ منظم ہوکر سامنے آئیں، اور قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے ہر ممکنہ گوشے کو اپنا ٹارگیٹ بنائیں ۔ ہماری پوری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے ،ہم قید وبند سے مطلقا نہ گھبرائیں کیونکہ اس مقدس رستے میں یہ ناگزیر ہے ۔

اگر ہم  حالات سے مقابلے کے لئے کوئی جامع اور ٹھوس پلاننگ کرکے فی الفور اس پر عمل پیرا نہ ہو ئے تو خدشہ ہے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے، اور بحیثیت ملت ہمیں بھارت میں ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچ جائے ۔ اللہ تعالٰی پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور تمام شرور و فتن سے حفاظت فرمائے ۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے