کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

آخر اتنی تیزی سے عرب ممالک کیوں اسرائیل سے مصالحت کر رہے ہیں؟

آخر امریکہ اسرائیل کے لیے کیوں بچھا جا رہا ہے، اس کا اس قدر استحکام کیوں چاہتا ہے؟

✍ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
 پہلے دنیا نے دیکھا کہ عرب اسرائیل خفیہ تعلقات و تعاون کی بابت کچھ دیوانے مستقل لکھتے اور بولتے رہتے ہیں لیکن ان کی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے ان کی تضحیک کی جاتی ہے، پھر بالآخر سب نے دیکھ لیا کہ متحدہ عرب امارات نے زندگی کے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون اور دو طرفہ سفارتی تعلقات کا اعلان کیا، بلکہ اس معاہدہ کی اطلاع ٹرمپ نے پہلے دی، پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ اسرائیلی جہاز حرم کی فضائوں سے اڑتا ہوا جب ابو ظبی کے ائیرپورٹ پر اترا تو ’’ذہنی غلام‘‘ سرخ قالینوں پر اسرائیلی وفد کو سلامی دینے کے لیے کھڑے نظر آئے، گویا مسلمانوں کے قاتلوں کا یہاں استقبال پھولوں کی سیج پر کیا گیا، ہم نے بھی کہا تھا اوربہت سے تجزیہ نگاروں نے لکھا تھا کہ جلدی ہی اور بھی اطلاعات آئیں گی جو آگئیں، بلکہ آج کی تازہ خبر کے مطابق ۶؍ مسلم ممالک مزید اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے، ٹرمپ کا یہ بیان بڑے پیمانہ پر نشر ہوا ہے، جبکہ مصر اور اردن پہلے ہی اسے تسلیم کرچکے ہیں، ۱۱؍ ستمبر کو ہم نے دیکھا تھا کہ بحرین اسرائیل مصالحتی معاہدہ کا اعلان پھر ٹرمپ نے ہی کہا، ابھی کہاں؟ ابھی تو حیلوں کی جانب سے اعلان ہورہا ہے، ابھی ’’گروجی‘‘ کا اعلان باقی ہے، واقعہ یہ ہے کہ یہ سارے اعلانات سعودیہ کی رضامندی سے ہورہے ہیں، سعودیہ کی منشا کیا ہے اور وہ ان اقدامات سے کس قدر راضی ہے یہ سب کچھ عبدالرحمن السدیس کے خطبہ سے ظاہر ہوگیا، جنھوں نے دنیا کے سب سے بڑے ظالم و غاصب اور خونخوار دہشت گردوں سے حسنِ سلوک کی تلقین کی جو سر تا سر ولاو براء کے صریح قرآنی بیانات اورسیرت نبوی کے خلاف ہے، لیکن بہرحال ان کو حکم یہی ہے کہ وہ فضاساز گار بنائیں تو حکم کی تعمیل ان کی مجبوری ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کے لیے منبر حرم استعمال ہو رہا ہے، جیسے نیک نامی اور سیاسی بالادستی کے لیے حج کا سیاسی استحصال ہوتا ہے، جبکہ سعودیہ کا دعویٰ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ حرمین اور حج کو ہر طرح کی سیاست سے دور رکھا جائے، سعودیہ جو سنچری ڈیل میں غیرت و حمیت کا سودا کرچکا اس کے تمام تر تعلقات غیر رسمی طور پر بحال ہیں بس اعلان باقی ہے، ابھی تو وہ اپنے چھوٹے بھائیوں سے اعلان کرا رہا ہے، خود ابھی اس کے اعلان نہ کرنے کی وجہ دونوں ہاتھ میں لڈو رکھنا ہے، اسے مسلم دنیا کو فریب بھی دینا ہے، ان کا گرو بن کر ان کا سودا بھی کرنا ہے، اعلان سے نفاق کے بادل چھٹ جائیں گے اور مشکلات بڑھ جائیں گی کیونکہ عوام میں ابھی رمق باقی ہے اور غیرت زندہ ہے، پھر ان کا آقا امریکہ بھی نہیں چاہے گا کہ سعودیہ کا راز ابھی فاش ہو جس سے اس کی سیاست امریکہ کے حریف روس اور سعودیہ کے حریف ایران اور اس اتحاد میں شامل ترکی کے مقابلہ کمزور ہو۔
 جس تیزی سے عرب ممالک اسرائیل کے استحکام کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کے ظہور کا دور قریب تر ہے، اس پہلو سے قطع نظر تیسری جنگ عظیم کے امکانات بھی بڑھتے جارہے ہیں، کیونکہ یہود کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جب بھی طاقت ور ہوئے ہیں انھوں نے زمین میں فساد و خونریزی کی داستان رقم کی ہے، عربوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ پوری طرح امریکہ کے غلام ہیں، خلافت عثمانیہ کو توڑ کر اس پورے خطہ کو چھوٹی چھوٹی جاگیروں میں تقسیم ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ عربوں کی طاقت کبھی مجتمع نہ ہوسکے اور پھر کبھی وہ ماضی کی عظمت و قیادت کا خیال دل میں نہ لاسکیں، چنانچہ یہی ہوا کہ یہ جاگیردار آپس میں منتشر، خدا کے عطا کردہ وسائل کا مالک ان کا آقا امریکہ، یہ ضروریات زندگی میں بھی اس کے محتاج، اپنے وجود و بقا اور اپنی سیکورٹی و سلامتی کے لیے ان کو امریکہ کی ضرورت، جب امریکہ ساری ضرورتیں پوری کرے گا اور تحفظ فراہم کرے گا تو قیمت بھی وصول کرے گا، یہی ہو رہا ہے، تعلیم و ٹکنالوجی اور صنعت و خود مختار معیشت کے نتیجہ میں ہی آزادی و خود مختاری حاصل ہوتی ہے، قرآن کی عظمت پر قربان جائیے، اس نے اسی لیے تو ’’اعداد و قوت‘‘ کی تلقین کی تھی، لفظ قوت کے استعمال میں ایسی وسعت ہے کہ اس نے تمام وسائل کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے جو دشمن خدا کی مرعوبیت کا سبب بنیں، مگر اس سے غافل اور ان تمام عناصر سے عاری عرب ممالک اپنی اصل طاقت ’’ایمان‘‘ سے بھی محروم ہوگئے ترجون من اللہ مالا یرجون کی حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی، پھر جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مناجات تو مقرر ہے ہی، غور کیجئے ایک طرف امریکہ ۱۸؍ سال بعد افغانستان سے نکلنے کی راہیں ڈھونڈ رہا ہے، اس وقت بھی دوحہ میں مذاکرات (بین افغان) جاری ہیں، جو افغانستان میں امن قائم کرنے کا دعویٰ لے کر آیا تھا وہ اس پر راضی ہے کہ اب تم لوگ خود طے کرلو کہ افغانستان میں نظام حکومت کیسا ہوگا، دوسری طرف مادی و ایمانی وسائل سے عاری عرب امریکہ کی چوکھٹ پر جبہ سائی کے لیے خود مجبور ہیں، خود ہی اپنی جاگیریں اس کے دامن میں ڈال کر اسے مضبوط کر رہے ہیں اور سنچری ڈیل کی تکمیل کا سبب بن رہے ہیں، جب ہم کہتے ہیں کہ یہ ایمان سے عاری منافق ہیں تو لوگوں کو برا لگتا ہے حالانکہ قرآن مجید کے الفاظ صریح ہیں، اس نے منافقین کے جو کردار بیان کیے ہیں وہ جب بھی کسی میں پایا جائے گا تو وہ عملاً منافق ہی قرار پائے گا، دشمنان خدا یہود سے (جن کو قرآن نے مغضوب علیہم قرار دیا ہے) دوستی کرنا منافقین کا ہی کردار ہے ولو کانوا یؤمنون باللہ والنبی وما انزل إلیہ مااتخذوہم اولیاء و لکن کثیرا منہم فاسقون (مائدہ ۸۱) ’’اگر یہ لوگ اللہ اور نبی پر ایمان رکھتے اور جو نبی پر اتارا گیا اس پر ایمان رکھتے تو یہ کافروں سے تعلق نہ قائم کرتے ان کو اپنا قریبی دوست نہ بناتے لیکن ان میں اکثر نافرمان ہیں‘‘، ان ہی دل کے مریضوں اور بے ایمانوں کے بہانے بازی کی بابت فرمایا گیا۔ فتری الذین فی قلوبہم مرض یسارعون فیہم یقولون نخشی أن تصیبنا دائرۃ (مائدہ ۵۲) 
 ’’آپ دیکھیں گے ان دل کے روگی منافقین کو کہ یہ ساری دوڑ دھوپ ان ہی کی خاطرکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہیں ہم زد میں نہ آجائیں‘‘ نخشیٰ أن تصیبنا دائرہ کی نفسیات ہی آج ایک غاصب اور لاکھوں فلسطینیوں کا خون اپنی گردن پر رکھنے والی قوم سے دوستیاں رچانے پر مجبورکر رہی ہے۔
 یہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل مغرب کی جنی ہوئی ایک ناجائز اولاد ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ بیسویں صدی کی سپرپاور اور امکانیات و وسائل سے معمور امریکی طاقت آخر اسرائیل کو اس قدر کیوں مستحکم کرنا چاہتی ہے؟ جبکہ مذہبی، لسانی، تاریخی اور جغرافیائی ہر اعتبار سے دونوں کا اختلاف  بہت نمایاں ہے پھر بھی کیا وجہ ہے کہ اسرائیل کے استحکام و تحفظ کے لیے امریکہ ’’ویٹو پاور‘‘ کا بھی استعمال کرتا رہا ہے، اس کی خاطر وہ اپنے حلیفوں کو بھی ناراض کرتا رہا ہے، یہ بھی واضح ہے کہ عرف عام کے مطابق امریکہ استعماری طاقت بھی نہیں ہے، بلکہ بظاہر امریکہ کا فروغ استعمار کو ختم کرنے اور حریت کو مستحکم کرنے کے لیے ہوا تھا، لیکن وہ اس ریاست کے استحکام کے لیے اپنے تمام وسائل نچھاور کرنے پر آمادہ ہے جو کہ استعمار کی تاریخ میں سب سے بدترین استعمار ریاست ہے، اسرائیل اب اس پوزیشن میں ہے کہ فلسطینیوں سے ان کی بقیہ زمین بھی خالی کرالے اور ان کو وہاں سے مکمل طور پر بے دخل کردے، ماضی کی تاریخ اور موجودہ صورت حال سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ اسرائیل کو اس کے تمام پڑوسی ممالک پر نہ صرف مسلط کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کی اراضی بھی اس کے قبضہ میں دینا چاہتا ہے، سوال یہ ہے کہ امریکہ جیسی بڑی طاقت جو سائنس و ٹکنالوجی، صنعت و معیشت ہر اعتبار سے فائق ہے اور جس سے دوستی و محبت کا اس خطہ کی تمام ریاستیں دم بھرتی ہیں وہ آخر اسرائیل نوازی میں اس قدر کیوں دیوانہ ہے، بقول ایک لبنانی سیاست داں کے ’’امریکہ نے اپنا سب کچھ اسرائیل کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے گویا اسرائیل منصوبہ تیار کرتا ہے اور امریکہ اس کے نفاذ کی تگ و دو کرتا ہے‘‘۔
 حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اس جانب توجہ کیوں نہیں دیتے اور کیوں نہیں دیکھتے بالخصوص عرب توجہ کیوں نہیں دیتے کہ امریکہ ہمیشہ صہیونیوں کا معاون رہتا ہے ان ہی کی طرف مائل رہتا ہے، ان کے ہر ظلم کی تائید کرتا ہے، مسلمانوں کے ہر آئیڈیل اور کامیاب نمونے کو ختم کرنے پر آمادہ رہتا ہے، افسوس تو اس پر ہے کہ مسلمان سبق کیا سیکھتے اب تو ہماری مسلم کہی جانے والی حکومتیں اس کے اس عمل میں شریک ہیں، ترکی کے ناکام فوجی انقلاب سے لے کر تا حال کی کارروائیاں اس پر شاہد عدل ہیں، امریکہ ساری کارروائیاں کر رہا ہے اور مسلمانوں کے دہشت گردی کے ایک ماکرانہ جال میں اس طرح پھنسا دیا ہے کہ وہ آج تک اسی کی ادھیڑ بن میں لگے ہیں مگر ابھی تک اس سے نکل نہ سکے ہیں۔ 
 واقعہ یہ ہے کہ امریکہ نے شروع سے ہی اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے، اس سے متعلق معاہدات و قرار دادوں کی ہمیشہ موافقت کی ہے، اس کی یہی تاریخ رہی ہے، یہ الگ بات کہ عربوں کو خلافت عثمانیہ سے کٹنے کے بعد یہ حسن ظن رہا کہ امریکہ عدل و مساوات اور حریت کا حامی و علمبردار ہے، ظاہر ہے کہ امریکی لیڈران و رئوساء بالخصوص جیفرسن، لنکن اور ولسن جیسے لوگ بڑی چرب زبانی کے ساتھ ان پر فریب نعروں کی یقین دہانی بھی کراتے تھے، افسوس تو اس پر ہے کہ عربوں نے اس کے دوغلے رویے سے کبھی سبق نہیں حاصل کیا، انھیں کبھی حقیقت نظر نہیں آسکی، وہ اس کے جال میں پھنستے ہی چلے گئے، ۱۹۱۷ء میں معاہدہ بالفور کی امریکہ نے تائید کی، ۱۹۲۲ء میں برطانیہ نے جب فلسطین سے متعلق قرار داد پاس کی تو امریکی کانگریس نے اس کی تائیدکی، اس کے بعد امریکہ نے عملاً فسلطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کی حوصلہ افزائی کی، ۱۹۴۲ء میں جب عالمی صہیونی کانفرنس نے یہ قرار داد پاس کی کہ فلسطین کو یہودی ریاست قرار دیا جائے اور وہاں کے اصل عرب باشندوں کو جلاوطن کیا جائے تو اس وقت کے امریکی صدر فرنکلن روزولٹ نے اس کی تائیدکی، یہی نہیں بلکہ ۱۹۴۴ء کے انتخابات میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں ہی پارٹیوں نے اس صہیونی قرار داد کی نہ صرف تائید کا اعلان کیا بلکہ الیکشن میں کامیابی پر اس کی تطبیق و نفاذ کا وعدہ بھی کیا، چنانچہ فرنکلن روزولٹ نے انتخابات میں کامیابی کے بعد ملک عبدالعزیز سے ۱۹۴۵ء کی اپنی ملاقات میں یہ مطالبہ بھی کیا وہ مدینہ سے متصل اراضی بالخصوص خیبر میں یہود کو بسنے کی اجازت دے دیں، کیونکہ اسلام سے قبل یہ لوگ وہیں بستے تھے، یہ بھی کہا کہ اس کے بدلہ میںیہودی انھیں ۲۰؍ ملین جنیہ سونا دیں گے لیکن اس وقت ملک سعود نے اس مطالبہ کو مسترد کردیا تھا، ۱۹۴۵ء میں اس امریکی صدر کی موت کے بعد اس کے نائب ہیری ٹیرومن نے عہدۂ صدارت سنبھالا تو یہود کے تعاون کے لیے امریکی سیاست میں مزید شدت آگئی، اس نے برطانوی وزیر اعظم کو خط لکھا کہ یکبارگی ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں داخل کردیا جائے، اس طرح بلاقید و شرط یہودیوں کی فلسطین ہجرت اور یہودی ریاست کی راہ ہموار کی جائے۔
 ۱۹۴۷ء میں جب اقوام متحدہ میں تقسیم فلسطین کی قرار داد پیش کی گئی تو جنرل اسمبلی سے پاس کرانے میں امریکہ کی جان توڑ کوششیں شامل رہیں، بلکہ تقسیم کا جو خاکہ پیش کیا گیا تھا، امریکہ اس سے زیادہ اراضی اسرائیل کو دینے پر مُصر رہا، قیام اسرائیل کے بعد جب یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں اور لڑائی چھڑی تو امریکہ نے ہر سطح پر اسرائیل کی مدد کی، میڈیا کے ذریعہ حمایت کی، مالی امداد کی، دنیا کو فریب دے کر بلکہ آنکھوں میں دھول جھونک کر ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور اسلحے فراہم کیے، ہیری ٹیرومن کا حال یہ تھا کہ ۱۹۴۸ء میں جیسے ہی قیام اسرائیل کا اعلان ہوا ویسے ہی چند منٹوں میں اس نے اس کی ریاستی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا، امریکی یہودیوں کا ایک وفد سب سے بڑے ربی کی سربراہی میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کا شکریہ ادا کیا اور اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے کہا: ’’آپ کو آپ کی ماں کی رحم میں اللہ نے رکھا ہی اس لیے تاکہ آپ جنم لیں اور پھر آپ کے ہاتھوں دو ہزار سال بعد دوبارہ اسرائیلی ریاست قائم ہو‘‘۔
 یہ تو محض چند جھلکیاں ہیں ورنہ امریکی تاریخ میںاسرائیل کی تائید و حمایت اور طاقت رسانی میں سال بہ سال اضافہ ہی ہوتا رہا ہے، امریکہ نے اسرائیل کی نہ صرف سیاسی طور پر پشت پناہی کی بلکہ اس کو اقتصادی، تجارتی فائدے پہنچائے، ہتھیار فراہمی کے سب رکارڈ توڑ دیے، ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی پلاننگ میں امریکہ شریک تھا جس کے نتیجہ میں اسرائیل گولان کی پہاڑیوں اور سینا کے حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، لبنان کے بعض خطہ پر۱۹۸۲ء میں جب اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کیا اور ہزاروں لوگوں کی جانیں لیں تو اس کو نہ صرف امریکہ کی حمایت حاصل تھی بلکہ امریکہ نے اسے خطرناک ترین بم سپلائی کیے تھے، واقعہ یہ ہے کہ امریکہ نے جس طرح اسرائیل کو راضی کرنے، صہیونیوں کو خوش کرنے کے لیے نوازشات کی بارش کی ہے وہ نہ صرف بے مثال ہے بلکہ لائق تعجب ہے، لیکن افسوس اس پر ہے کہ امریکہ کا دم بھرنے والے عربوں نے کبھی اس جانب توجہ نہ کی، مغربی سیاست کا سب سے اہم ہتھیار ’’درپردہ مقاصد‘‘ کا حصول ہے، عراق پر امریکی حملہ اور تسلط اسرائیل کے تحفظ کے لیے تھا، اسرائیل اور اس کی کمپنیوں نے ہی اس جنگ میں امریکہ کو بھرپور تعاون دیا یا پھر سعودیہ شانہ بشانہ کھڑا رہا، درپردہ مقصد عراقی پٹرولیم پر قبضہ تھا جو صد فیصد مکمل ہوا۔
 سوال یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے یہ ایک طرفہ نوازش کیوں؟ امریکہ آخر کیوں اتنی بھیانک سیاسی غلطی کرتا جارہا ہے، بے حد وحساب اور بلا قید و شرط آخر وہ کیوں صہیونی ریاست کو استحکام بخشنے کی تگ و دو میں مصروف ہے؟ تجزیہ نگاروں نے اس کا جواب اپنے اپنے طور پر دیا ہے، ہم یہاں دارالقلم دمشق کے بانی مشہور مولف اور اسرائیلی سیاست کے تجزیہ کار مرحوم محمد علی دولہ کا جواب نقل کرتے ہیں جو انھوں نے تجزیہ نگاروں کے حوالے سے دیا ہے:
 بنیادی طور پر اسرائیل کے لیے امریکی سیاست کے اس جھکائو اور اس کی مطلق تائید و حمایت کی وجوہات کچھ اس طرح ہیں:
 (۱) امریکہ میں موجود یہودی لابی کا دبائو۔
 (۲) امریکہ کا اسرائیلی ریاست کو امریکی جمہوریت اور مغربی تہذیب کے امتدار کے طور پر دیکھنا۔
 (۳) مشرق وسطیٰ سے وابستہ وہ امریکی مصالح جن کے حصول کی خاطر اسرائیل کا وجود ضروری ہے۔
 جہاں تک امریکہ میں موجود صہیونی لابی کا تعلق ہے تو سب جانتے ہیں کہ امریکی سیاست پر اس کا کنٹرول ہے، صہیونی ریاست کی بے قید و شرط تائید کے لیے اس لابی کا وجود سب سے اہم ہے، کیونکہ امریکی انتخابات میںیہودی ووٹ کا حصول اسی لابی کی رضامندی پر منحصر ہے، پھر یہ یہودی لابی امریکہ میں سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے، پورے امریکی میڈیا پر اسی لابی کا قبضہ ہے، یہی لابی وہاں کی پروپیگنڈہ مہم کو کنٹرول کرتی ہے، ایک اہم بات یہ ہے کہ اس لابی کے پاس امیدواروں کی خفیہ فائلیں ہوتی ہیں، البتہ اس پریشر میں یہودی ووٹ کی فی الحقیقت کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ امریکی آبادی میں آٹے میں نمک کی طرح ہیں، جہاں تک ان کے سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کا مسئلہ ہے تو بایں اعتبار کہ براہ راست وہ نہ بڑے بینکوں کے مالک ہیں نہ بڑی کمپنیوں کے لیکن ہر جگہ ان کی شراکت داری نے ان کو اہم اور بڑی اقتصادی طاقت بنا دیا ہے، اس شراکت داری کی بڑی تعداد کے سبب وہ ایک بلاک اور ایک اتحاد کی طرح حاوی رہتے ہیں، اسی وجہ سے مقابل کو اقتصادی ریس میں ڈرانے دھمکانے کا دہشت گردانہ رویہ بھی اپناتے ہیں، البتہ میڈیا پر اس کا لابی مکمل تسلط ہے، اس لابی کا یہی سب سے مضبوط ہتھیار ہے، اخبار، ریڈیو، ٹی وی، ویب سائٹس پر اس کا قبضہ ہے، صحافیوں کی خرید و فروخت اس کا مشغلہ ہے، میڈیا کے ذریعہ یہ لابی جیسے چاہتی ہے امریکی سماج کو چلاتی ہے، برین واش کرتی ہے، رائے عامہ ہموار کرتی ہے، کسی بات کو اس قدر پھیلاتی اور دوہراتی ہے کہ انسان صحیح و غلط کی تحقیق سے بے پروا ہو کر اوندھے منہ اس پر گر پڑتا ہے، اس لابی کے پاس اشتہار بازی کی ایسی طاقت ہے کہ ہر چینل اور اخبار اس کا محتاج ہے، کیونکہ صحافت دراصل آج اسی اشتہار سے پیسہ کماتی ہے، چنانچہ میڈیائی پروپیگنڈہ اور ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضہ کی وجہ سے وہ ہر شخص کا ایسا پرسنل ڈاٹا جمع کرکے رکھتی ہے جسے عوام کے سامنے رکھنے سے کسی بھی شخصیت کا سارا سیاسی وجود بکھر کر سکنڈوں میں رہ جائے، اس کے پاس امیدواروں کا رکارڈ ہوتا ہے کہ کس نے ٹیکس چوری کی ہے، کس کے معاشقے رہے ہیں، کس نے تجارت میں دھوکہ دھڑی کی ہے، کس کے اخلاقی اور سماجی معاملات صحیح نہیں رہے ہیں، چنانچہ ان دونوں کامیاب حربوں سے یہ لابی امریکی سیاستدانوں کو ہر حال میں کنٹرول کر ہی لیتی ہے، اگر کوئی انحراف کرتا ہے تو اس کی پروپیگنڈہ مہم اس کو بالاخر اس کی رعایت کرنے اور اسرائیل نوازی کے لیے مجبور کردیتی ہے، ماضی میں اس کی کئی مثالیں دیکھی گئی ہیں لیکن یہاں مزید تفصیل کا موقع نہیں۔
 جہاں تک دوسرے سبب کا تعلق ہے کہ امریکہ اسرائیل کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ گویا وہ امریکی جمہوریت اور مغربی تہذیب کا امتداد ہے، ایک پچھڑے ہوئے معاشرے میں حریت کی علمبردار اور ترقی پسند ریاست ہے، بہت سی امریکی شخصیات ان ہی الفاظ کے ساتھ غاصب صہیونی ریاست کو متصف کرتی رہی ہیں، مثلاً اسرائیل آزادی کی مہم کا نتیجہ ہے، وہ جمہوریت کا گڑھ ہے، وہ فاشسٹ طاقتوں کے درمیان آزادی کا استعارہ ہے، قومیت عربیہ کی متشدد تحریک اور کمیونزم کے خلاف وہ ایک مضبوط قلعہ ہے، وہ ایک آزاد جمہوری ملک ہے، وغیرہ وغیرہ… حقیقت یہ ہے کہ ان خوبصورت عناوین کے ذریعہ صہیونی ریاست اور بالخصوص امریکہ نے مغرب کو بلکہ دنیا کو ہمیشہ فریب دیا ہے، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا ہے، اسرائیلی ریاست صرف طاقت اور ہتھیار کے بل پر قائم ہے، اس کی حکومت بندوق کے زور سے چلتی ہے، وہاں جمہوریت کے بنیادی اصولوں تک کا فقدان ہے، فلسطینیوں کو بندوق کی نوک پر چلانا، بچوں کو قتل کرنا، بے قصور خواتین کو جیل میں ڈالنا، فلسطینیوں کو جلاوطن کرنا آخر جمہویت کے کس اصول کے تحت جائز ہے۔
 اسرائیل کے لیے امریکی تائید و حمایت کا ایک سبب تجزیہ نگاروں نے ’’مشترک مصالح‘‘ ذکر کیا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ یہی سب سے اہم سبب ہے جس کی خاطر امریکہ تمام تر تگ و دوکرتا ہے، مشرق و سطیٰ میں اپنے استبداد کو مضبوط کرنے کے لیے امریکہ اسرائیل کو مستحکم کرتا ہے، کیونکہ اسرائیل کا استحکام ہی مشرق وسطیٰ میںامریکی وجود کا ضامن ہے، امریکہ کو یہ قطعی گوارہ نہیں کہ اس کا حریف کمیونزم مشرق وسطیٰ میںمضبوط ہو اور اسے چیلنج کرسکے، یہی وجہ ہے کہ وہ عرب ریاستوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے اب اسرائیل کو اس طرح مستحکم کر دینا چاہتا ہے کہ پھر مشرق وسطیٰ پر اس کا قبضہ بہر اعتبار مکمل ہوجائے، کیونکہ صہیونیت کو وطن اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کی ضرورت ہے اور امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے وسائل کی، امریکہ کو یہ بھی علم ہے کہ عرب ریاستوں میںکمیونزم کبھی بھی مقبول نہیں رہا، سودیت یونین سے کبھی بات نہیں بنی، جس کا فائدہ امریکہ کو ملا اور اس فائدے کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ نے اسرائیل کو مستحکم کر کے مسلط کرنے کا راستہ اپنایا، حالانکہ امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ خود اپنے لیے بھی درست نہیں کر رہا ہے، کیونکہ یہودی قوم ایک ایسی قوم ہے جس کی پوری تاریخ سرکشی سے بھری پڑی ہے، اللہ نے اسے دھتکارا ہے اور ’’مغضوب علیہم‘‘ قرار دیا ہے، تاریخ نے اسے ہر دور میں دھتکارا ہے، یہ ایک ایسی سرکش قوم اور ریاست ہے کہ شامی سیاست داں فارس خوری نے کہا تھا کہ ’’صہیونی ریاست سے مصالحت و سفارتی تعلقات گویا پوری امت کی قربانی ہے، اس کے نتیجہ میں مصالحت کرنے والوں کو بڑی مدت تک ذلت ہی ذلت اٹھانی پڑے گی‘‘۔
 مذکورہ بالا اسباب و عوامل اور مشترک مصالح کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ آخر ایک سپر پاور طاقت ایک چھوٹی سی ریاست اور چھوٹی سی لابی کے سامنے کیسے اس قدر ذلیل و بے حیثیت اور مجبور ہوسکتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو بالکل اس کے تابع بنادے اور ہر آن اسی کے لیے مصروف عمل ہوجائے، واقعہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے دین مسیح کا مذہبی عنصر کار فرما ہے، قیام اسرائیل عیسائیوں کے لیے ان کا مذہبی فریضہ بلکہ ارادۂ الٰہی کی تنفیذ ہے، یہی وہ عنصر ہے جس نے مسیحیوں کو قیام اسرائیل اور پھر اس کے استحکام کے لیے سرگرم عمل رکھا، انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ’’یہودیوں کی فلسطین واپسی کا خیال ہمیشہ دیندار نصاریٰ کے ذہنوں میں موجود رہا، بالخصوص برطانوی عیسائیوں میں تو یہ خیال خود یہودیوں سے زیادہ قوی رہا، تھیورڈ ہرزل کے افکار کے کے وارث اور صہیونی سیاست دان کیم و یزمن نے پروٹسٹنٹ مسیحی لورڈ بالفور کے متعلق کہا تھا ’’کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ بالفور نے ہماری محبت میںہم سے فلسطین کو ہمارا وطن بنانے کا وعدہ کیا تھا؟ ہرگز نہیں! دراصل اس شخص نے ’’عہد عتیق‘‘ کی تعلیمات کے مطابق اپنی مذہبی فکر کے جواب میںیہ وعدہ کیا تھا‘‘، یہ بات معلوم ہے کہ نصاریٰ عہد عتیق (جس میں کیمتھولک کے یہاں ۳۹ اور پروٹسٹنٹ کے یہاں ۴۶؍ کتب شامل ہیں،) پر ایمان رکھتے ہیں اور عہد جدید کو اس کا تتمہ مانتے ہیں، مسیحی یوں بھی کتب مقدسہ کی یہود کے برخلاف تقدیس و احترام کرتے رہے ہیں، تو رات پر ان کے ایمان اور ان کی عقیدت کی بنیاد کی طرف قرآن نے اس مکالمہ میں اشارہ کیا ہے جو اللہ کے سامنے انبیاء علیہم السلام) کی پیشی کے وقت حضرت عیسیٰ سے ہوگا، وإذ علمتک الکتٰب والحکمۃ والتوراۃ والإنجیل (مائدہ ۱۱۰)۔
 واقعہ یہ ہے کہ مسیحی ہمیشہ دھوکہ کھاتے رہے ہیں، یہود نے انھیں ہمیشہ دھوکہ دیا ہے ان پر مظالم بھی کیے اور جب موقع ملا تو ان کے قریب ہو کر ان سے فائدے بھی حاصل کیے، ایک وقت وہ آیا جب مسیحی پوپ نے یہودیوں کی عام معافی کا اعلان کیا، تب سے دونوں کی قربت بڑھ گئی،اور مسیحی تورات کی تقدیس کے سبب اس کی پیش گوئی اور بشارتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اسرائیل کے قیام و استحکام کے لیے جی جان سے کوشش کرنے لگے، اس میں شک نہیں کہ یہودی اپنی سرشت اور تاریخ کے اعتبار سے آج بھی وہی رویہ رکھتے ہیں جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیاہے وقالت الیہود لیست النصاریٰ علی شئ لیکن مسیحی ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی بلکہ اس وقت اسلام دشمنی میں مزید دھوکہ کھارہے ہیں ، ۱۹۴۵ء میں امریکی مسیحی پادریوں نے جو کانفرنس منعقد کی تھی اس میں ۵؍ ہزار پادریوں نے امریکی صدر ٹرومان کو یہ میمورنڈم دیا تھا کہ فلسطین کے دروازے یہودیوں کے لیے بلاقید و شرط کھول دیے جائیں، حقیقت یہ ہے کہ اس بابت مسیحی پادریوں، متدینین اور سیاست دانوں کے بیانات بڑے حیران کن ہیں، جنھیں پڑھ کر آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں، میری نظر سے جو تحریریں گذریں وہ گویا ان کے دل کی آواز ہیں، ان سے ان کے جذبات، مذہبی احساسات اور دوستانہ تعلق صاحب ظاہر ہے، ظاہر ہے کہ یہاں ان کے نقل کرنے کا موقع نہیں، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہی مذہبی اعتقاد، دینی جذبہ، تورات کی پیشین گوئیوں اور حکایتوں سے آخری درجہ کا تاثر دونوں کے اتنے عجیب و غریب اور مضبوط تعلقات کا باعث ہے۔
 لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی تائید و حمایت اور اس کے لیے امریکہ کو جواز فراہم کرنے والے ان سب اسباب و عوامل کے باوجود کیا واقعی فلسطین پر یہودیوں کا مذہب کی رو سے کوئی حق ہے، جیسا کہ یہودی دعویٰ کرتے ہیں اور مسیحی بالخصوص پروٹسٹنٹ نہ صرف ان کے دعوے کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کی تائید کرتے ہیں، خود بھی وہ اس کا اعتراف و اعلان کرتے ہیں، کیونکہ تمام مذہبی لوگ اور بیشتر سیاست داں کہتے ہیں کہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ فلسطین ان کا وہ وطن ہے جس کے لیے ہزاروں سال قبل اللہ نے ان سے وعدہ کیا تھا، اس بابت وہ تورات کی متعدد عبارتیں نقل کرتے ہیں، جن کا حوالہ مسیحی بھی دیتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ تورات کی ہی عبارتیں اس پر شاہد ہیں کہ یہ وعدہ باقی نہیں رہا بلکہ وہ ساقط ہوگیا، کیونکہ یہود نے نقص عہد کیا، شرطیں پوری ہی نہیں کیں، انبیاء کو قتل کیا، ان کی تکذیب کی، کتاب الٰہی میں تحریف کی، جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ وعدہ ساقط ہوگیا بلکہ ان پر لعنتیں برسائی گئیں، ان کو مختلف مراحل متعدد عذابوں کا مزہ چکھایا گیا، قیامت تک کے ان کو ملعون و مردود قرار دیا گیا، جس کی تصدیق قرآن مجید نے مغضوب علیہم کے ذریعہ کر دی، بقول مولانا علی میاں کہ صرف مغضوب علیہم اور نصاریٰ کے لیے ضالین پر غور کیا جائے تو یہ دو لفظ ہی قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی دلیل کے طور پر کافی ہیں کیونکہ دونوں ہی اقوام کی تاریخ ان دونوں لفظ کی کھلی ہوئی تفسیر ہے، قصہ مختصر یہود و نصاری عہد قدیم و عہد جدید سے استناد کرتے ہوئے فلسطین پر یہودیوں کے مذہبی حق ثابت کرنے کے لیے جو بھی دلائل دیتے ہیں وہ سب تحریف پر مبنی ہیں اور باطل ہیں کیونکہ ان کا استحقاق ختم کرنے والے انبیاء بنی اسرائیل کے بیانات خود اسی میں موجود ہیں، بالخصوص انجیل متیٰ میں بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت مسیح کے واضح بیانات درج ہیں، اس بابت مزید بحث موجب تفصیل ہوگی جس کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں۔
 ان حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد بھی یہ واضح ہے کہ امریکہ کے ذریعہ ایک ظالم و غاصب ریاست کی تائید و حمایت کا موقف کسی طرح بھی درست نہیں خواہ اس کے جواز کے لیے کتنے ہی وجوہات کیوں نہ ہوں، اس لیے کہ قوم یہود کی تاریخ میںلفظ ’’وفا‘‘ کا وجود ہے ہی نہیں، اس کی پوری تاریخ عہد شکنی، ظلم و جبر، غدر و فساد پر مشتمل ہے، خیانت رگ و پے میں سرایت ہے، اگر مسیحی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ یہود کے دلوں میں امریکہ اور مسیحیوں کی محبت ہے تو انھیں ویزمین کا بیان یاد رکھنا چاہیے (جو سطور بالا میں آیا) اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ من حیث القوم جس نے خدا کی محبت کو دل سے نکال دیا وہ کسی قوم کی محبت کو کیا خاک باقی رکھ سکے گی، چنانچہ ایک کیتھولک پادری روبرٹ پیرس نے اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا: ’’دوستو میں کہتا ہوں کہ قیام اسرائیل کے لیے مغرب کا کردار انتہائی افسوسناک اور کھلی ہوئی غلطی پر مبنی ہے، یہ موقف باعث افسوس اور خطرناک ہے، اس نے جس شر کو جنم دیا ہے آج ہم اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں، ہمیں اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم نہ اللہ کو دھوکہ دے سکتے ہیں نہ اسے غفلت میں رکھ سکتے ہیں، انسان وہی کاٹتا ہے جو بوتا ہے، کسی قوم کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی کی زمین غصب کرکے اپنا وطن بنائے اور وہاں کے باشندوں کو جلاوطن کر دے اور خود اطمینان سے رہے، اقوام متحدہ کو قطعاً اس کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کا وطن چھین کر کسی اور کو دے دے، … اگر ووٹوں کی سیاست کے لیے امریکی مسیحیوں نے ایسا کیا اور شیطان نے یہودی ووٹ کا سنہرا خواب انھیں دکھایا تو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ووٹوں کی وجہ سے نہ حقائق مٹائے جاسکتے ہیں اور نہ دنیا کو خاک و خون میں نہلانے کا جواز فراہم ہوتا ہے، دراصل اس پورے فساد کی وجہ وہ صہیونیت ہے جس نے پورے ملک میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں اور اسی کی حکمرانی ہے، میڈیا اور تشہیری اداروں پر اسی کا قبضہ ہے، میں ایسے اہل قلم کو جانتا ہوں جو میری کہی ہوئی ہر بات پر ایمان رکھتے ہیں، اس کے مؤید ہیں، مگر صہیونیت اور اس کی دہشت ناک تباہ کاریوں کے خوف سے وہ اس کی صراحت کے ساتھ تائید نہیں کرسکتے، جبکہ ہمارا یہ مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم اپنے قائدین کو پوری صراحت سے متنبہ کریں اور ان سے کہیں کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بربادی کو دعوت مت دو، پارٹی اور ووٹ کی سیاست سے اوپر اٹھ کر حق بولو، سچ کا ساتھ دو اور مکارم اخلاق اختیار کرو‘‘۔
 اس خطرے کو امریکی تاریخ میںسب سے زیادہ شدت کے ساتھ ایک امریکی سیاست داں بنیامین فرنکلن نے محسوس کیا تھا، اس نے امریکی کانگریس کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہود ہیں، اگر ان کی ہجرت پر قد غن نہ لگائی گئی تو ایک دن امریکہ یہود کی گود میں کھیلے گا اور آج یہی ہو رہا ہے، اس نے کہا تھا کہ اگر ان پر پابندی نہ لگی اور یہ آئندہ اسی کثرت سے امریکہ میں آ کر بستے رہے تو ان ہی کی حکمرانی ہوگی، یہ ہمیں اپنے اشاروں پر نچائیں گے، اس نے کہا تھا کہ یہ اخلاق سے عاری قوم ہے، اس کے معاملات کی تاریخ ظلم و فساد اور فریب سے بھری پڑی ہے، اگر یہ امریکہ میں رہ گئے تو دو سو سال کے اندر یہ منظر ہوگا کہ تمہارے بچے یہودیوں کے غلام ہوں گے، ان کے کھیتوں میںکام کریں گے اور یہودی محلوں میں داد عیش دیں گے، ان ہی کا پورے امریکی سماج پر تسلط ہوگا۔
 خلاصۂ کلام یہ ہے کہاگر آج امریکہ مذکورہ بالا اسباب کی وجہ سے صہیونی ریاست کی اندھا دھند تائید کر رہا ہے، دنیا بھر میں اپنے مفادات کو دائو پر لگا رہا ہے، مشرق و سطی کو اسرائیل کے ہاتھوں فروخت کر رہا ہے، تو اسے اس کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہودی قوم اس کی بھی نہیںہوگی، اسرائیل صرف خلیجی ریاستوں کے لیے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ وہ مسیحی دنیا کے لیے بھی سب سے بڑا خطرہ ہے، امریکی مسیحیت نے کمیونزم کی بیخ کنی کے بعد کیپٹلزم کو گلے لگایا اور اسلام کو اپنا حریف قرار دیا، پھر اسلام کو ویس نکالا دینے کے لیے اس نے خلیج میں پنجے گاڑے، اور اس کے لیے اس نے اسرائیل کو مستحکم کیا بلکہ اب تو بہت تیزی سے کر رہا ہے، لیکن وہ اندھیرے میں ہے اور اسے اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے کہ خلیجی ریاستوں سے معاہدہ امن و مصالحت Normalisation) کی تکمیل کے بعد اسرائیل پوری دنیا کے لیے خطرہ ہوگا، امریکہ بلکہ پورے مغرب کو اسرائیل کے سلسلہ میںاپنے موقف پر نظر ثانی کرنا چاہیے، کیونکہ امریکہ جس راہ پر چل رہا ہے اور خلیجی غلاموں کو چلا رہا ہے اس سفر کی تکمیل کے بعد دنیا کی واحد طاقت بننے کے لیے اسرائیل خود اپنے حلیف و معاونین کو ایٹمی جنگ میں جھونک دے گا، ایک عیسائی پادری نے کہا تھا جس کو صرف اس مسئلہ کی حساسیت کے پیش نظر یہاں نقل کیا جارہا ہے، ورنہ اس کی تعبیر دینی، فکری اور شرعی اعتبار سے مسلمانوں کے یہاں درست ہی نہیںہوسکتی لیکن اس کی اس تعبیر سے مسئلہ کی سنگینی اور حساسیت واضح ہے، اس نے کہا تھا: ’’اسرائیل کے قیام سے خدا نادم ہے مگر مغرب کب شرمندہ ہوگا؟‘‘ اسرائیل کے لیے امریکی تائید و حمایت کے اسباب پر غور کیجئے تو تعجب بھی ہوگا اور افسوس بھی، جنھیں ہم بے دین، دین بیزار بلکہ دہریہ اور مذہب و عقیدے سے آزاد قرار دیتے ہیں ان کے بیانات سے ان کے احساسات کا اندازہ ہوتا ہے، آج بھی اپنے دین کے تئیں ان کا تعصب اور اس سے وابستگی اور کتاب مقدس کی بشارتوں پر ان کے یقین کا اظہار ہوتا ہے، جس کے حصول کے لیے وہ کئی مسلم ممالک تا راج کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ جو کتاب و سنت کا داعی بلکہ علمبردار ہے، جس کے پاس لافانی پیغام اور ابدی شریعت ہے، جس کو مستقبل کے فتنوں سے پہلے ہی آگاہ کردیا گیا وہ آج ان ہی دشمنوں کی زلفوں کا اسیر ہے، جن سے جزیرۃ العرب پاک کر دیا گیا تھا، وہی آج پھر ان کو اپنی جاگیریں اور اپنی دولتیں دے رہا ہے، ایک طرف ان کی حساسیت ان کی وابستگی اور ان کی دیوانگی ہے، دوسری طرف آخری پیغمبر اور آخری کتاب کے علمبرداروں کی بے حسی ہے، بیزاری ہے، غفلت ہے، قرآنی و نبوت محمدی کے ازلی دشمنوں سے دوستی ہے، اس دوستی کانتیجہ ظاہر ہے، فتربصوا حتی یأتی اللہ بأمرہ…۔ 
_______
 نوٹ نمبر ۱ - تورات میں خدا کی ندامت کا مسئلہ زیر بحث آیا ہے جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو سراسر یہودی علماء کی تحریف و کذب بیانی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی کسی بھی نسبت سے پاک و مبرأ ہے، اس کی طرف ایسی کوئی بھی نسبت کرنا درست ہی نہیں۔
نوٹ نمبر ۲- اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتب سے خاص طور پر استفادہ کیا گیا ہے، بین القوسین درج بیانات ان ہی کتب سے منقول ہیں: محمد علی دولہ کی کتاب : کلام فی الیہود، لماذا ھٰذا الدعم الامریکی لإسرائیل، الیہودیۃ العالمیۃ و حربہا المستمرۃ علی المسیحیۃ لایلیا ابوالروس، الموأمرۃ و معرکۃ المصیر سعدجمعۃ۔
٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے