مقام صديقيت اور شان صديقيت


مقام صديقيت اور شان صديقيت

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

خليفہ اول حضرت ابو بكر صديق رضی اللہ عنہ كو الله تعالی نے  بہت بلند مرتبہ عطا فرمايا تھا، اس كا اندازه ہميں حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ كے اس قول سے ہوتا ہے: "لقد قُمْنَا بعد رسول الله ﷺ مقاماً، كنا نهلك فيه  لو لا أن الله منَّ علينا بأبي بكر" هم سب رسول الله ﷺ كي وفات كے بعد ايسے حالات ميں گھر گئے تھے كہ  اگر الله نے ابو بكر كے ذريعہ ہم پر احسان نہ كيا ہوتا تو ہلاک ہو جاتے۔

    آپ كا نام عبد الله، كنيت ابو بكر اور لقب عتيق اور صديق تھا، صديق لقب ہونے كی صحيح وجہ يہ ہے كہ شب معراج ميں الله كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جبريل امين  سے پوچھا كہ ميری قوم ميں ميرے اس واقعہ كی تصديق كون كرے گا تو انہوں نے جواب ديا: "ابو بكر" آپ كی تصديق كريں گے وه صديق ہيں۔ 
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِجِبْرِيلَ: يَا جِبْرِيلُ إِنَّ قَوْمِي لا يُصَدِّقُونَنِي. قَالَ: يُصَدِّقُكَ أَبُو بَكْرٍ وَهُوَ الصِّدِّيقُ. (طبقات ابن سعد: ج1ص67)۔

 مقامِ صدیقیت کے جو عناصر ترکیبی ہیں وہ سورۃ اللیل کی اِن تین آیتوں میں بیان ہوئے ہیں:   ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى (7)﴾ [الليل: 5 - 7] جس صاحب ایمان شخص کی سیرت و کردار میں یہ اجزائے ثلاثہ ’’اِعطاء، تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ‘‘ جمع ہو جائیں اس کے لیے مقامِ صدیقیت کی راہ کشادہ اور آسان ہو جاتی ہے۔ آخری آیات میں سب سے زیادہ اعطاء کے وصف کو نمایاں کیا گیا:  ﴿الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى﴾ [الليل: 18] ایک طرف اِعطاء ہو، جود و سخا ہو، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر انسان تڑپ اٹھے، اس کی تکلیف دور کرنا اگر اس کے بس میں ہو تو اسے دُور کرے، کسی کو احتیاج میں دیکھ کر اس کا اپنا آرام حرام ہو جائے، اور اس پر یہ دھن سوار ہو کہ کسی طرح اس کی احتیاج کے دُور کرنے میں اس کا تعاون شامل ہو جائے، مقام صدیقیت کا یہ سب سے اعلیٰ وصف ہے۔

حضرت ابو بكر صديق رضی اللہ عنہ نے ابتدائے اسلام ميں بہت سے غلاموں اور كنيزوں كو خريد كر آزاد فرمايا، اور مظلوموں كی جان بچائی، جن ميں حضرت بلال، ابو فكيهہ ، عامر بن فهيره، زنيره، نهديہ اور نهديہ كی بيٹی اور لبينہ وغيره ان سب كو ابو بكر صديق رضی اللہ عنہ ہی نے خريد كر آزاد كيا۔

صديق اكبر كے والد ابو قحافہ جو اس وقت تک مشرف باسلام نہ ہوئے تھے، ايک روز ابو بكر سے كہنے لگے كہ ميں ديكھتا ہوں كہ تم چن چن كر ضعيفوں اور ناتوانوں كو خريد كر آزاد كرتے ہو اگر قوی اور جوانوں كو خريد كر آزاد كرو تو تمهارے كام آويں، ابو بكر نے كہا جس ليے ميں ان كو آزاد كرتا ہوں وه غرض ميرے دل ميں ہے، اس پر الله جل شانہ نے مذكوره بالا آيت نازل فرمائی۔

دوسرا وصف ہے تقویٰ طبیعت میں نیکی کا مادہ، خیر کا جذبہ، نیکی کا فطری میلان، برائی اور بدی سے طبعی کراہت اور نفرت، برائی سے بچنے کا ذاتی رجحان اور کوشش، گویا خدا خوفی اور خدا ترسی کی ایک کیفیت اور تیسرا وصف جو مقامِ صدیقیت کی تکمیل کرتا ہے، اور جس سے کسی کی صدیقیت پر مہر ثبت ہوجاتی ہے وہ ہے ﴿وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى﴾ [الليل: 6]یعنی جو بھی اچھی بات سامنے آئے اس کی فوراً تصدیق کرے۔ انانیت نہ ہو، تکبر نہ ہو کہ میں اگر دوسرے کی بات مان لوں گا تو میں چھوٹا ہو جاؤں گا اور وہ بڑا ہو جائے گا۔

  حقیقت یہ ہے کہ کسی کی بات کو مان لینا اور تسلیم کر لینا آسان کام نہیں، جس شخص میں یہ وصف ہو کہ چاہے دشمن بھی ایسی کوئی بات کہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو تو اسے فوراً تسلیم کرے، بلاشبہ وہ صاحب کردار شمار ہوگا، اس طرزِ عمل کا نام ہے تصدیق بالحسنیٰ یہ تینوں اوصاف اِعطاء، تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ جس صاحب ایمان میں جمع ہو جائیں، وہ شخص صدیق کہلائے گا۔

  چنانچہ سب سے زیادہ اور سب سے نمایاں طور پر یہ اوصافِ ثلاثہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں جمع ہوئے، اسی لیے وہ صدیق اکبر ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’’صدیق‘‘ صرف وہی ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدیقین کی جماعت میں حضرت ابوبکرؓ دراصل ’’صدیق اکبر‘‘ کے مقام پر فائز ہیں، وہ صدیقین کی جماعت کے سرخیل اور گل سرسبد ہیں۔ خود قرآن كريم ميں الله رب العزت نے جمع كا صيغہ استعمال فرمايا ہے: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴾ [النساء: 69]. جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیقین کی جماعت ہے۔

اسی طرح سورۃ الحدید میں صاحب احتیاج لوگوں کی حاجت روائی اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مال صرف کرنے والوں سے اجر کریم کے وعدے کے بعد فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ﴾ [الحديد: 19]) ’’اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، وہی صدیقین اور شہداء میں سے ہیں، ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے‘‘۔ یعنی جن لوگوں میں اِعطاء کا وصف موجود ہے، جو بخیل نہیں، جود و سخا سے متصف ہیں، جو غرباء، یتامیٰ، مساکین اور دوسرے صاحب احتیاج لوگوں کی خبرگیری اور حاجت روائی، نیز اللہ کے دین کے غلبے اور نشرو اشاعت کے لیے اپنا مال صرف کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے کشتِ قلوب میں ایمان کی تخم ریزی ہوتی ہے تو وہ پورے طو رپربارآور ہوتا ہے اور خوب برگ و بار لاتا ہے۔

  اسلام كے ابتدائی دور ميں جب كفار مكہ نے آپ ﷺ اور آپ كے ساتھ ايمان لانے والوں كو طرح طرح كی اذيتيں دينی شروع كيں تو ان ميں صرف كمزور لوگ نہيں تھے بلكہ  بعض قريش كے شريف اور معزز قبائل سے بھی تعلق ركھنے والے افراد شامل تھے، اور انہيں ميں حضرت ابو بكر صديق رضی اللہ عنہ بھی تھے باوجوديكہ آپ قريش كے ايک معزز قبيلہ (بنوتيم) سے تعلق ركھتے تھے، جن كے انصار واعوان بھی تھے، يہاں تک كہ آپ بھی ہجرت كرنے پر مجبور ہوئے تاكہ اپنے بھائيوں كے ساتھ حبشہ پہنچ جائيں، اور اس اراده سے مقام "برك الغماد" تک پہنچ گئے تھے كہ وہاں پر ابن الدغنہ سے ملاقات ہوگئی، جو كہ قبيلہ "قاره" كا سردار تھا، اس نے كها: ابو بكر كہاں كا اراده هے؟ تو آپ نے كہا: ميری قوم نے مجھے نكال ديا ہے، ميں چاہتا ہوں كہ زمين كی سير كروں اور اپنے پرور دگار كی عبادت كروں، تو ابن الدغنہ نے كہا: آپ جيسا شريف شخص نہ نكلتا ہے اور نہ نكالا جاسكتا ہے، كيونكہ آپ تو غريبوں كے ليے كمائي كرتے ہيں، اور صلہ رحمی كرتے ہيں، اور غريبوں كا بوجھ اٹھاتے ہيں، اور مہمان نوازی كرتے ہيں، اور حق كى راه ميں پريشان حال لوگوں كی مدد كرتے ہيں، ميں آپ كو پناه دينے والا بنوں گا، آپ واپس چليں اور اپنے شہر ميں اپنے پرور دگار كی عبادت كريں۔

اس كے بعد آپ واپس آئے اور گھر ہی پرعبادت كرتے رہے،  نماز اور قرآن پڑھتے رهے، كچھ دنوں بعد آپ نے اپنے گھر كے صحن ميں مسجد بنائی اور  نماز اور قرآن پڑھنے لگے جس كی وجہ سے مشركين كی عورتيں اور بچے بھيڑ لگانے لگے، حضرت ابو بكر رضی اللہ عنہ بہت ہی رقيق القلب تھے، جب قرآن كريم پڑھتے تو آنسوؤں پر قادر نہيں ہوتے اور بے اختيار رونے لگتے ، اس كی وجہ سے كفار كو انديشہ ہوا كہ كہيں ہماری عورتيں اور بچے بھی ان سے متاثر هوكر اسلام نہ قبول كرليں، چنانچہ وه لوگ ابن الدغنہ كے پاس جاكر ان كی شكايت كی، ابن الدغنہ نے اس سلسلے ميں آپ سے بات كی، آپ نے كہا: تم اپنی امان واپس لے لو، ميں الله اور اس كے رسول كي پناه (جوار) پر راضی هوں، يہ تمام تفصيلات سيرت كی كتابوں ميں مذكور ہيں۔

  آنحضور ﷺ نے اپنے مرض وفات ميں جب تک طاقت رہی آپ برابر مسجد تشريف لاتے رهے، اور نماز پڑھاتے رهے، سب سے آخری نماز جو آپ نے پڑھائی وه پنج شنبہ كو مغرب كی نماز تھی، جب عشاء كا وقت آيا تو دريافت فرمايا كہ كيا لوگ نماز پڑھ چكے ہيں، عرض كيا گيا كہ يا رسول الله لوگ آپ كے منتظر ہيں، آپ نے كئی بار اٹھنے كا قصد فرمايا، مگر شدت مرض كی وجہ سے بيہوش هو جاتے تھے، أخير ميں فرمايا كہ أبو بكر كو ميری طرف سے حكم دو كہ وه نماز پڑھائيں۔ حضرت عائشہ صديقہ رضی اللہ عنہا نے عرض كيا كہ يارسول الله أبو بكر بہت رقيق القلب ہيں،  جب آپ كی جگہ كھڑے ہوں گے تو ان پر ايسی رقت طاری ہوگی كہ لوگوں كو نماز نہيں پڑھا سكيں گے اور گريہ وزاری كی وجہ سے لوگوں كو اپنی قراءت نہيں سنا سكيں گے، لہذا آپ عمر كو نماز پڑھانے كے ليے كہ ديں، صحيح بخاری ميں ہے كہ آنحضرت ﷺ كے حكم دينے كے بعد عائشہ صديقہ نے تين بار انكار كيا مگر آپ ﷺ نے ہر بار تاكيد اور اصرار كے ساتھ فرمايا كہ ابو بكر كو حكم دو كہ وہی نماز پڑھائيں، چنانچہ حضرت أبو بكر اس كے بعد سے نماز پڑھانے لگے۔

امام غزالی نے احياء العلوم ميں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا كا كلام نقل كيا ہے كہ وه كيوں اپنے جليل القدر باپ كی امامت كو ناپسند كرتی تھيں: "حضرت عائشہ صديقہ كہتی ہيں كہ ميں اپنے باپ كی امامت سے اس ليے انكار كرتی تھی كہ ميرا باپ دنيا سے بالكل علاحده رہے، اس ليے  كہ عز وجاه خطره سے خالی نہيں ہوتی، اس ميں ہلاكت كا انديشہ ہے، مگر جس كو الله صحيح وسالم ركھے وہی دنيا كے فتنہ سے بچ سكتا ہے، نيز يہ بھی انديشہ تھا كہ جو شخص آنحضرت ﷺ كی حيات ميں آپ كی جگہ پر كھڑا هوگا تو اس پر حسد كريں گے اور عجب نہيں كہ حسد كی بنا پر اس پر زيادتی بھی كريں" الخ۔

 شان صديقيت: 

  سبحان الله يہ ہے صديقہ بنت  صديق كی فهہم وفراست كہ وه اس امامت ونيابت كو آئنده خلافت اور امامت كا پيش خيمہ سمجھے ہوئے ہيں اور دل وجان سے اس كوشش ميں ہيں كہ ميرا باپ نہ امام بنے اور نہ امير، يہ امامت صغری  اورامامت كبری ميرے باپ سے ہٹ كر كسی اور كے پاس چلی جائے تاكہ ميرا باپ دين ودنيا كے فتنہ سے بالكليہ محفوظ رهے، يہ تو بيٹی كا حال تھا اور باپ يعنی حضرت أبو بكر كا كيا حال تھا وه حالت بيعت كے وقت خطبہ سے معلوم كيا جا سكتا ہے۔

   صديق اور صديقہ كی يہی شان ہوتی ہے كہ ان كا دل مال وجاه كی طمع سے بالكل پاک اور منزه ہوتا ہے، مگر يہ سمجھ لينا چاهيے كہ الله كا نبی اور اس كا رسول جس كے امام بنانے پر مصر ہو تو وه بالیقين امام المتقين هوگا اور اس كا ظاہر وباطن امارت اور خلافت كی طمع سے بالكل منزه هوگا اور كسی فتنہ كی مجاز نہ هوگی كہ آئنده اس كی طرف نظر اٹھا كر بھی ديكھ سكے۔

  الله كے رسول نے جس شخص كو اپنی جگہ پر كھڑا كرديا سمجھ ليں كہ جو عنايات ربانی اور تائيد آسمانی نبی كے ساتھ تھيں وه اس كے قائم مقام كی بھی ضرور معين اور دستگير ہوں گی، اس ليے كہ الله كا رسول بدون حكم خداوندی اپنا نائب اور قائم مقام نہيں مقرر كرسكتا۔

اسی طرح امام المتقين كا كسی كو اپنے مصلی پر امامت كے ليے كھڑا كردينا يہ اس كے مرادف ہے كہ يہ شخص الله كے رسول كا ولی عہد اور اس كا جانشين ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے