ھدیہ محرم الحرام قسط: ششم



ھدیہ محرم الحرام

ھدیہ محرم الحرام


از:  محمد ساجد سدھارتھ نگری
جامعہ فیض ھدایت رام پور یوپی
 Mob. 9286195398 
Email mdsajidqasmi869@gmail.com

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت حسین کی اطلاع:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حسین کی شہادت کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس سے مطلع فرما دیا تھا۔ حضرت ابن عباس رض سے روایت ہے کہ: کان الحسین جالسا فی حجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال جبریل علیہ السلام اتحبہ فقال وکیف لا احبہ وھو ثمرة فؤادی فقال اما  ان امتک ستقتلہ الا اریک من موضع قبرہ فقبض قبضہ فاذا تر بہ حمراء۔ (کشف الاستار، قال الہیثمی رواہ البزار ورجالہ ثقات) ترجمہ حضرت حسین رضہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سوال کیا کہ کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ حسین تو میرے دل کا ٹکڑا ہے پھر  میں ان سے کیسے نہ محبت کروں تو حضرت جبرئیل نے فرمایا کہ آپ کی امت عنقریب انھیں قتل کر دیے گی۔ کیا میں ان کی قبر کی جگہ نہ دکھلا دوں؟ پھر جبرئیل علیہ السلام نے ایک مٹھی بھری تو وہ سرخ تھی۔اور حضرت ام سلمہ رض سے روایت ہے کہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لقد دخل علی البیت ملک لم یدخل قبلھا فقال لی ان ابنک ھذا حسین مقتول وان شئت اریتک من تر بة الارض التی یقتل بھا قال فاخرج تربة حمراء۔ (مسند احمد 26544 حدیث حسن وقا ل البانی اسناد صحیح علی شرط الشیخین۔) ترجمہ: حضرت ام سلمہؓ یا حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیاجو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا پھر اس فرشتہ نے مجھ سے کہا کہ آپ کے بیٹے حسین کو قتل کر دیا جائے گا اور اگر آپ چاہیں تو آپ کو اس زمین کی مٹی دکھا سکتا ہوں جس میں ان کو قتل کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے مجھے اس جگہ کی مٹی دکھلائی تو وہ سرخ تھی۔ ایک طویل حدیث میں ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بیٹے کو مت رلاؤ پھر فرمایا کہ میری امت اس بچے کو قتل کر دیے گی۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا قتل کر نے والے مومن ہونگے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر انھیں آپ نے اس جگہ کی مٹی دکھلائی۔ (طبرانی حدیث نمبر 8096 رجالہ موثقون مجمع الزوائد۔ رجالہ حسن۔ سیر اعلام النبلا ج3 ص 289) اور بھی بہت ساری حدیثیں اس مضمون کی کتب احادیث میں موجود ہیں ۔ فن رجال کے ماہرین میں سے بعض نے صحت اور بعض نے ضعف کا حکم لگایا ہے، مجموعی طور پر انھیں حسن کا درجہ حاصل ہونے میں کوئی کلام نہیں۔

مقام شھادت:

شریعتِ اسلامیہ میں شھادت کو مقام عظمی حاصل ہے ۔ خدا کے خاص فضل وکرم سے ہی اس مقام تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ شہیدوں کے لہو سےجو زمیں سیراب ہوتی ہے، بڑی زرخیز ہوتی ہے، بہت شاداب ہو تی ہے۔ قرآن پاک میں شھادت کے مقام بلند کو ذکر کرتے ہوئے حضرت حق جل مجدہ نے ارشاد فرمایا: ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لکن لا تشعرون۔ (البقرہ) ترجمہ: اور جو اللہ کے راستے میں قتل کیے گئے انھیں مردہ مت کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں ؛ لیکن تمہیں اس کی خبر نہیں۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے: ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون۔ ترجمہ:اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل کیے گئے انھیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور ان کے رب کے پاس سے انہیں روزی دی جاتی ہے۔ ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لودت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی ثم اقتل ثم احیی ثم اقتل۔ یعنی میری تمنا ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شھید کیا جاؤں، پھر زندگی عطا ہو، پھر شہید کیا جاؤں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اللھم ارزق شھادة فی سبیلک یعنی اے اللہ شھادت کی موت نصیب فرما
      شریعت اسلامی میں باقاعدہ شھادت کی آرزو کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب زخم کھا کر زمین پر گرے تو فرمایا: فزت ورب الکعبہ۔ رب کعبہ کی قسم میں کا میاب ہوگیا ؛ کیونکہ    شھادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔ نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کا سینہ شوق شہادت سے سرشار رہا ہے، سرفراز ی نے قدم چوما ہے اور ملت اسلامیہ کی نظر توجہ اس سے ہٹی تو وہ لوگ بھی جن میں نگا ہ ملانے کی بھی جرآت اور ہمت نہ تھی وہ بھی  شیر بن بیٹھے اور مسلمانوں کو مٹانے کا خواب دیکھنے لگے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق کیلئے سر کا سودا کرکے حق کی حفاظت کا ڈگر بتلا کر مسلمانوں کے لیے عزت کی زندگی کے معنی ومفہوم کو اُجاگر کر گئے۔
دور حیات آیے گا قاتل قضا کے بعد
 ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
 اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
جامعہ فیض ھدایت رام پور یو پی
سابق رکن مدنی دارالمطالعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے