قحط سالى كے زمانے ميں حضرت عمر رضى الله عنہ كا قائدانہ كردار قسط ٢

قحط سالى كے زمانے ميں حضرت عمر رضى الله عنہ كا قائدانہ كردار      قسط (٢)


 عبید اللہ شمیم قاسمی 

بلاشبہ'رمادۃ' ایک بڑی آزمائش تھی۔ اس کے ظاہری اسباب کو موضوعِ سخن بنانے کی بجائے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مناسب سمجھا کہ اپنے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور قوم کو بھی اس طرف متوجہ کیا جائے۔ اولیاء اللّٰہ کا طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ آزمائش کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں کسی لغزش کے نتیجے میں تو یہ مصیبت نازل نہیں ہوئی؟
ابن سعد، سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں:
خطب عمر بن الخطّاب الناس عام الرمادة فقال: أيّها النّاس اتّقوا الله في أنفسكم وفيما غاب عن الناس من أمركم، فقد ابتُليت بكم وابتُليتُم بي. فما أدري ألسُّخْطةُ عليّ دونكم أو عليكم دوني؟ أو قد عمّتْني وعمّتكم، فهلمّوا فلندْعُ الله يُصْلِحْ قلوبنا وأن يرحمنا وأن يرفع عنّا المحل، قال فرُئي عمر يومئذٍ رافعًا يديه يدعو الله، ودعا الناس وبكىٰ وبكى الناس مَليًّا، ثمّ نزل. (الطبقات الكبرى: 3/ 245).
''رماد ۃ کے زمانے میں سیدنا عمر بن خطاب نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگوں اپنے ربّ سے ڈرو، اپنے نفس کے بارے میں اور اپنے ان اعمال کے بارے میں جو لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔ یقیناً تمہاری وجہ سے میری اور میری وجہ سے تمہاری آزمائش ہو رہی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللّٰہ کی ناراضگی صرف میرے اوپر ہے یا صرف تمہارے اوپر اور یا عمومی طور پر میرے اوپر ہے اور تمہارے اوپر بھی۔ آئیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کی اصلاح فرمائے، ہم پر رحم فرمائے اور ہم سے قحط وخشک سالی کو اُٹھا لے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر کو اس روز بارگاہِ الٰہی میں دونوں ہاتھ اُٹھائے ہوئے دعا مانگتے دیکھا گیا اور لوگوں نے بھی دعا مانگی۔ سیدنا عمر کافی دیر تک خود بھی روئے اور لوگ بھی رو دیے۔ پھر منبر سے اُترے۔''

 توجہ الیٰ اللّٰہ 


خود احتسابی کے ساتھ ساتھ امیر المؤمنین حضرت عمر نے معمول سے بڑھ کر توجہ الیٰ اللّٰہ کا اہتمام فرمایا۔ عبد اللّٰہ بن ساعدہ کہتے ہیں کہ
رأيت عمر إذا صلّى المغرب نادى: "أيها الناس استغفروا ربكم ثم توبوا إليه وسلوه من فضله واستسقوا سقيا رحمة لا سقيا عذاب." فلم يزل كذلك حتى فرج الله ذلك. (الطبقات الكبرى: 3/ 243). '' میں نے دیکھا کہ حضرت عمر جب مغرب کی نماز پڑھ لیتے تو لوگوں کو مخاطب کرتے، فرماتے: لوگو اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، اس کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ یہی آپ کی عادت رہی حتیٰ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مصیبت دور فرما دی۔''
حضرت عبد اللّٰہ بن عمر فرماتے ہیں : كان عمر بن الخطاب أحدث في عام الرمادة أمرًا ما كان يفعله ... وإني لأسمعه ليلة في السحر وهو يقول: "اللهم لا تجعل هلاك أمة محمد علىٰ يدي" (الطبقات الكبرى: 3/ 237).''حضرت عمر نے 'رمادۃ' کے زمانے میں ایسا طریقہ اپنایا جو وہ اس سے پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر مسجد سے نکل کر اپنے گھر تشریف لاتے اور مسلسل نماز پڑھتے۔ پھر رات کے آخری پہر نکلتے، گلیوں کا چکر لگاتے۔ میں نے بارہا رات کو سحر کے وقت اُن کو کہتے ہوئے سنا: الٰہی! امتِ محمد کو میرے ہاتھوں ہلاک نہ ہونے دے۔''

 شبینہ گشت 


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عادتوں میں سے ایک عادت یہ تھی کہ رعیت کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے رات کے وقت خود چل کر جائزہ لیا کرتے تھے اور جس کسی کو امداد کا مستحق خیال کرتے، رات کی تاریکی میں ہی ضرور مدد فراہم کر دیتے۔ یہ عادت رماده کے زمانے میں بھی جاری رہی؛ بلکہ رمادہ کے زمانے میں وہ معاشرتی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھ رہے تھے اور ان کا تجزیہ بھی کیا کرتے۔
 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال اُنہوں نے رات کے وقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کیا تو کسی کو ہنستے نہیں پایا، نہ ہی لوگوں کو اپنے گھروں میں حسبِ عادت گفتگو کرتے سنا اور نہ کسی مانگنے والے کو مانگتے دیکھا۔ یہ صورت حال چونکہ خلافِ معمول تھی اس لیے اُنہوں نے فوراً محسوس کیا، چنانچہ اس کے سبب کے بارے میں دریافت کیا۔ اُنہیں بتایا گیا کہ اے امیر المؤمنین! سوال کرنے والے سوال کرتے رہے لیکن اُنہیں کچھ نہیں دیا گیا، اس لیے اُنہوں نے مانگنا اور سوال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ لوگ پریشانی اور تنگ دستی کا شکار ہیں، اس لیے نہ توحسبِ معمول گپ شپ لگاتے ہیں اور نہ ہی ہنستے ہنساتے ہیں۔ ایسے حالات میں آپ صرف سرکاری رپورٹوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ رات کے اندھیرے میں خود جا کر حالات معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔

 مدینہ میں ریاستی دسترخوان 


مدینہ منورہ میں جو لوگ پہلے سے رہائش پذیر تھے اور جو پناہ گزیں بن کے آئے، ان میں مرد وخواتین بوڑھے اور بچے کمزور بیمار ہر قسم اور ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ ہر ایک کے پاس نہ تو پکانے کا سامان تھا، نہ ہی ہر شخص پکانے کے قابل تھا۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں بیت المال کی طرف سے خلافتی دسترخوان کی روایت قائم کی۔ آواز لگانے والا لوگوں کو بلاتا کہ " من أحب أن يحضر طعامًا فيأكل فليفعل ومن أحبّ أن يأخذ ما يكفيه وأهله فليأت فليأخذه ". (الطبقات الكبرى: 3/ 236).
''جو شخص چاہے کہ حاضر ہو کر کھانے میں شریک ہو تو آ جائے اور جو کوئی چاہتا ہو کہ اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے ساتھ لے جائے تو وہ ساتھ لے جائے۔''
پھر جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے جب امدادی سامان بھیجا تو دسترخوان خلافت پر ہر روز بیس اونٹ ذبح ہوتے۔
ایک مرتبہ جب لوگ عشاء کا کھانا کھا چکے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جن لوگوں نے ہمارے دسترخوان پر کھانا کھایا، اُنہیں شمار کیا جائے۔ اگلے دن گنتی کی گئی تو وہ سات ہزار پائے گئے۔ پھر اُنہوں نے حکم دیا کہ جو لوگ حاضر نہیں ہو سکتے مثلاً خواتین مریض اور بچے وغیرہ ان کی گنتی کی جائے، گنتی ہوئی تو وہ چالیس ہزار نکلے، کچھ دن گزرے تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی اُنہوں نے پھر گنتی کا حکم دیا۔ تو معلوم ہوا کہ خود حاضر ہو کر کھانا کھانے والوں کی تعداد دس ہزار اور دوسروں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی۔ بارش ہونے تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ اتنی بڑی تعداد کو کھانا کھلانا وسائل کے اعتبار سے تو خیر مشکل ہی ہے۔ البتہ انتظامی لحاظ سے بھی بڑا مشکل کام ہے کہ پچاس ہزار اَفراد کو مسلسل نو ماہ تک صبح شام پکا پکایا کھانا ایک محدود علاقے کے اندر فراہم ہوتا رہے۔

 نمازِ استسقاء اور بارانِ رحمت کا نزول 


رزم ہو یا بزم، بھوک ہو یا بیماری، ہر حالت میں باب رحمت کی کشادگی کے لیے مسلمانوں کی نظریں نبی کریم ﷺ کی طرف ہی اٹھتی تھیں، استشفاء اور استسقاء کے لیے مسلمانوں نے ہمیشہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں التجا کی۔ بلکہ عہدِ نبوی میں جب ایک مرتبہ خشک سالی ہوئی تو کفار نے بھی بارگاہِ نبوت میں دعا کے لیے درخواست کی۔

رمادہ کا دورِ ابتلا نو مہینے جاری رہا۔ مسلمانوں نے صابر ہونے کاثبوت دیا ، اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی۔ بقول حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ گھروں تک پہنچنے سے بھی پہلے ایسی بارش ہوئی کہ وادیاں بہہ نکلیں۔ سورۃ الشوریٰ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَهُوَ الَّذى يُنَزِّلُ الغَيثَ مِن بَعدِ ما قَنَطوا وَيَنشُرُ‌ رَ‌حمَتَهُ ۚ وَهُوَ الوَلِىُّ الحَميدُ ﴿٢٨﴾ [سورة الشورىٰ: 28]''وہی تو ہے جولوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد بارانِ رحمت برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ وہی کارساز اور قابل ستائش ہے۔''
نو ماہ کے ابتلا و آزمائش کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور صلوٰۃ استسقا کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی گئی، یہ سب کچھ خواب کے ذریعے ہوا۔ البتہ واقعات مختلف ہیں، مؤرخین نے اس سلسلے میں خواب کے دو واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔

قارئین کرام ! حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کی سیاست کو دیکھیں جو اس قحط کے زمانے میں جس سے اُنہیں اور ان کی قوم کو سابقہ پڑا ، ان کی خدمات سے ظاہر ہوئی ہے۔ اس سے ہماری مراد استعجاب واحترام کے ان جذبات کا احترام نہیں ہے جو ان خدمات کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دل میں پیدا ہوئے ہیں بلکہ ہم ان خدمات کے آئینے میں حکومت کی اس تصویر کو اجمالی خطوط دیکھنا چاہتے ہیں جو رسول اللّٰہ ﷺ کے تربیت یافتہ اس مسلم حکمران کے ذہن میں مرتسم تھی۔ جسے اللّٰہ جل جلالہ کی حکمتِ بالغہ نے اس مقصد کے لیے مخصوص فرمایا تھا کہ وہ اسلامی معاشرے میں نظام حکومت کو تفصیلی رنگ دینے کا آغاز کرے۔ ان خدمات واعمال میں جو چیز سب سے زیادہ نظر کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذمہ داریاں قبول کرنا اور اپنی جان کو موردِ ستم بنانا ہے۔ اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے روگرداں ہونے کے لیے اپنے اوپر یہ بوجھ نہیں لادا تھا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ وہ اس لیے کرتے تھے کہ ان کا شعور غریبوں، کمزوروں اور محتاجوں کے شعور سے ہم آہنگ ہو جائے۔ فرماتے: ''جب تک میں خود لوگوں کی مصیبت میں شریک نہ ہوں گا مجھے ان کی تکلیف کا کیسے اندازہ ہو گا؟ ''
اس لیے وہ اپنے آپ کو ان محتاجوں کی سطح پر لے آئے تھے جنہیں زندگی برقرار رکھنے کے لیے صرف انہی کا دستر خوان میسر آتا تھا جس پر وہ دوسرے ہزاروں بھوکوں کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے ہمراہ کھانا کھاتے تھے اور اپنے گھر میں کھانا کھانے پر رضا مند نہ ہوتے تھے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اپنے لیے ایسی چیز پسند کرتے ہیں جو ان کی قوم کے فاقہ زدوں کو میسر نہیں۔ اپنے اس عمل سے ان کے دو اہم مقصد تھے: ایک تو یہ کہ انہیں لوگوں کے دکھ درد کا احساس ہو جائے تاکہ وہ ان سے ہمدردی اور ان کی تکلیفیں دور کرنے کے سلسلے میں سعی وعمل کی رفتار تیز کر دیں اور دوسرا یہ کہ عوام کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ امیر المؤمنین مصائب وشدائد میں ہمارے برابر کے شریک ہیں، اور ان کے جذبات مشتعل نہ ہوں بلکہ وہ ہر تکلیف واذیت پر راضی بہ رضا رہیں کہ خلافت کا سب سے بڑا آدمی اس ابتلا میں ان کا ساتھ دے رہا ہے اور ان دونوں مقاصد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اتنے کامیاب رہے کہ کسی قوم کا کوئی فرمانروا اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔
یہ ہے اسلام کی عظمت کہ چودہ سو برس قبل بھی خلافت راشدہ نے ایسی شاندار روایات قائم کیں کہ آج تک دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خدا خوفی اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ مسلم حکمران اپنی رعایا کی فلاح کا بھرپور خیال رکھا کرتے۔ آج بھی ملتِ اسلامیہ کا اصل مسئلہ مال ودولت، قدرتی وسائل اور سائنس وٹیکنالوجی سے بڑھ کر، اپنی رعایا کی فلاح کی فکر، احساسِ ذمہ داری، خدا خوفی، للہیت اور دیانت وامانت ہے، اور اس کے لیے مغرب کی طرف دیکھنے کی بجائے ، اپنی تاریخ سے سنہری مثالیں نکال کر اُنہیں اپنانا ہوگا۔ اور جب بھی مسلمانوں کا کوئی طبقہ، ان اوصاف کا خوگر ہو جائے گا، چاہے وہ سیاسی قیادت ہو یا دینی قیادت، ملتِ اسلامیہ کا زوال پلٹ جائے گا۔ آج کا دور ایسے ہی ذمہ دار اور خدا ترس مسلم قیادت کی راہ تک رہا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے