صحابہ کرام کا مقام عظمت قسط٢


صحابہ کرام کا مقام عظمت قسط٢

محمد سعيد اللہ مہراج گنجی 

صحابہ کا مقام قرآن میں 

 ( ١)   محمّد رسول الله والذين معه أشدّاء على الكفار رحماء بينھم تراھم ركّعاً سجّداً يبتغون فضلاً من الله ورضواناً، سيماھم في وجوههم من أثر السجود ذلك مثلهم في التوراة و مثلهم في الانجيل كزرع أخرج شطئه فآزره فاستغلظ فستوى على سوقه يعجب الزرّاع ليغيظ بهم الكفار  وعد الله الذين آمنوا وعملواالصالحات فمنهم مغفرة و أجراً عظيماً.                              سورة الفتح آیت٢٩             

 محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت اور آپس میں نرم دل ہیں، تم ان کو رکوع و سجدے میں دیکھوگے، وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے خواہاں ہیں، ان کی (عبدیت)کے آثار سجدہ کی تاثیر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں،ان کے یہ اوصاف توریت میں ہیں۔اور انجیل میں ان کا وصف یہ ہے جیسے کھیتی اس نے پہلے زمین سے اپنی سوئی نکالی ،پھر اس نے اس سوئی کو قوی کیا،پھر وہ اور موٹی ہوئی پھر اپنے تنا پر سیدھی کھڑی ہوگئی کہ (اپنے ہرے بھرے ہونے کی وجہ سے) کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی (اسی طرح صحابہ کرام میں اول ضعف تھا پھر روزانہ قوت بڑھتی گئی اور انہیں یہ ترقی اس لئے دی گئی) تاکہ ان کی اس حالت سے کافروں کو جلن ہو،اور اللہ تعالی نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔

   اس آیت میں صحابہ کرام کا سب سے پہلا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں سخت اور آپس میں مہربان ہیں، کفار کے مقابلہ میں سخت ہونا ان کا ہر موقعے پر ثابت ہوتا رہا ہےکہ نسبی رشتے ناطے سب اسلام پر قربان کردیئے اور حدیبیہ کے موقع پر خصوصیت سے اس کا اظہار ہوا۔ اور آپس میں مہربان ہونا بطور خاص اس وقت ظاہر ہوا جب مہاجرین وانصار میں مواخات ہوئی ، اور انصار نے اپنی سب چیزوں میں مہاجرین کو شرکت کی دعوت دی۔ الغرض یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی دوستی و دشمنی، محبت یا عداوت کوئی چیز اپنے لئے نہیں ہوتی، بلکہ سب اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لئے ہوتی ہے۔ اور یہی وہ چیز ہےجو ایمان کامل کا اعلی مقام ہے۔بخاری شریف کی روایت ہے ،،من أحب لله وأبغض لله فقد استكمل  إيمانه،، یعنی جو شخص اپنی محبت اور بغض و عداوت دونوں کو اللہ کی مرضی کے تابع کردے تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔
    دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ رکوع و سجدہ اور نماز میں مشغول رہتے ہیں، ان کو دیکھنے والے اکثر ان کو اسی کام میں مشغول پاتے ہیں ۔ پہلا وصف کمال ایمان کی علامت ہے اور دوسرا وصف کمال عمل کا بیان ہے، کیونکہ اعمال میں سب سے افضل نماز ہے
   سيماهم...... یعنی نماز ان کا ایسا وظیفہُ زندگی بن گیا ہے کہ نماز اور سجدے کے مخصوص آثار ان کے چہروں سے نمایاں ہیں ۔ ان آثار سے مراد وہ انوار ہیں جو عبدیت اور خشوع وخضوع کی وجہ سے ہر مومن متقی کے چہرے پر مشاہدہ کئے جاتے ہیں ۔ معارف القرآن ملخصاًص٩٢ ٩٣ ج ٨  

ذلك مثلهم...موجودہ توریت میں متعدد تحریفات و تصرفات کے بعد بھی یہ الفاظ باقی رہ گئے ہیں: فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا،دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا ۔  استثناص٢٣ ج ٢ 

 فاران مکہ معظمہ ہی کی ایک پہاڑی کا نام ہے اور فتح مکہ کے وقت دس ہزار اصحاب آپ کے جلو میں تھے ۔  اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لئے تھی ۔(ایضاً) یہ اشدّاء علی الکفار کا نمونہ ہے۔

  ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے (ایضاً)  یہ رحماءُ بینہم کی تفسیر ہے۔

  اس کے سارے مقدس تیر ے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں، اور تیری باتوں کو مانیں گے۔ قرآن کی عبارت اوپر مذکور ہے: ركعاً سجداً يبتغون فضلاً من الله ورضواناً.
  ومثلهم في الانجيل..... موجودہ محرف و مسخ شدہ انجیل میں بھی یہ عبارتیں موجود ہیں: آسمان کی بادشاہتیں اس رائی کے دانے کے مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بودیا ۔وہ سب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے مگر جب بڑھ جاتا ہے تو سب ترکاری سے بڑا ہوتا ہے اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آکر اس کی ڈلیوں میں بسیرا کر لیتے ہیں ۔         متی (٣٢-٣١-:١٣)                          
پھر اس نے کہا کہ ہم خدا کی بادشاہت کو کس سے تشبیہ دیں اور کس تمثیل میں اسے بیان کریں؟ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہے تو زمین کے سب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے،مگر جب بودیا گیاتو اُگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہوجاتا ہے،اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کے سائے میں بسیرا کرسکتے ہیں ۔                               مرقس (٣٠- ٣٢ : ٤) نیز لوقا (١٩- ١٨: ١٣)    بحوالہ تفسیر ماجدی (٤٣٢- ٦ )        


    مذکورہ آیت کے اس ٹکڑے میں اسلام کے ضعف آغاز اور پھر اس کے قوت و تقویت کا جس شاندار طریقے پر نقشہ کھینچا گیا ہے حقیقتا یہ قرآن ہی کا حصہ ہے۔                                       
 ليغيظ بهم الكفار... یہ قرآن کا اعجاز بیانی ہے کہ اس نے اپنے اس مختصر سے لفظ کے ذریعے صحابہ کرام کی بڑی جامع اور بلیغ انداز میں مدح کی ہے، یہ شاتمینِ صحابہ کے خلاف ایک مظبوط حجت اور قطعی دلیل ہے۔                                           
 وعدالله الذين آمنوا...منهم   من اس جگہ باتفاق مفسرین بیانیہ ہے اور سب صحابہ اس میں داخل ہیں۔ ( تفسیر ماجدی)  اور معنی یہ ہے کہ یہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں، اللہ تعالی نے ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ سب صحابہ ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں، دوسرے یہ کہ ان سب سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ بھی ہے ۔ (معارف القرآن ) حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمةاللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ وعدہ دیا ان کو جو ایمان والے ہیں اور بھلے کام کرتے ہیں، حضرت کے سب اصحاب ایسے ہی تھے مگر خاتمہ کا اندیشہ رکھا، حق تعالی بندوں کو ایسی صاف خوش خبری نہیں دیتا کہ نڈر ہوجائیں،اس مالک سے اتنی شاباش بھی کافی ہے۔  بحوالہ تفسیر عثمانی  ص٦٨٤  

   ( ٢)    وكذلك جعلنكم امةً وسطاً لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيداً. البقرة١٤٣      

اسی طرح ہم نے تم کو نہایت معتدل امت بنایا تاکہ تم ( آخرت میں) لوگوں کے بارے میں گواہی دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بارے میں گواہی دیں۔                     
    یعنی جیسے تمہارا قبلہ کعبہ نہایت صحیح، معتدل اور تمام قبلوں سے افضل ہے اسی طرح تم (صحابہ کرام اور ان کے متبعین) بھی نہایت معتدل اور افضل امت ہو،اور اسی فضیلت وکمال ہی کی وجہ سے تم آخرت میں دوسری امتوں کے بارے میں گواہ مقبول الشھادت قرار دیئے جاؤگے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری عدالت و صداقت کی گواہی دیں گے۔ وسط کے معنی بالکل بیچ کا راستہ ہیں جو سب سے سیدھا اور معتدل ہوتا ہے، یہ لفظ عربی زبان میں انتہا کی تعریف اور مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے،اس آیت میں صحابہ کرام اور ان کے متبعین کے بڑے شرف اور عظمت کا ذکر ہے۔  معارف القرآن ج ٨ ص ٥٤٤                         

 ( ٣)  فالذين آمنوابه وعزّروه ونصروه واتّبعوا النور الذي أنزل معه، أولئك هُم المفلحون. الأعراف ١٥٧                                              
 سو جو لوگ ان( نبی صلی اللہ علیہ وسلم)پر ایمان لائے، اور ان کی تعظیم کی اور ان کی مدد کی،اور اس نور(قرآن و سنت) کی اتباع کی جو ان کے ساتھ اترا ہے، ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔   
   اس آیت میں کامیابی کو جن چار شرطوں کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے وہ بحمداللہ صحابہ کرام میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ صرف آپ پر ایمان لائے، بلکہ انہوں نے آپ کی محبت و تعظیم، امداد و اعانت اور اتباع کامل کا ایسا بے مثال نمونہ پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ کے اوراق قاصر ہیں۔                                                                     
 ( ٤)     والسابقون الأوّلون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم و رضوا عنه وأعد لهم جنت تجري تحتها الأنهار خلدين فيها أبداً ذلك الفوز العظيم.                                                   
اور جو مہاجرین وانصار ایمان لانے میں سب سے سابق اور مقدم ہیں، اور بقیہ امت میں جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ تعالی نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان باغات میں ہمیشہ رہیں گے، یہ عظیم کامیابی ہے۔                          
  
 اس آیت میں ان صحابہ کرام کا ذکر ہے جو اولین ایمان لانے والے ہیں، خواہ وہ مدینہ طیبہ کے رہنے والے انصار ہوں یا باہر سے آنے والے مہاجرین ہوں، پھر یہ بھی مذکور ہے کہ اس فضیلت میں بعد میں ایمان لانے والے صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل ایمان بھی شریک ہیں ۔ معارف الحدیث ص٥٤٦           

علامہ شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: یہ ان اعیان مومنین کا ذکر ہے جنہوں نے ہجرت میں سبقت کی اور اوّلیت کا شرف حاصل کیا ،اور جن انصار نے نصرت واعانت میں پہل کی۔ غرض جن لوگوں نے قبول حق اور خدمت اسلام میں جس قدر آگے آگے بڑھ بڑھ کر حصے لئے، پھر جو لوگ نکو کاری اور حسن نیت سے ان پیش روانِ اسلام کی پیروی کرتے رہے،ان سب کو درجہ بہ درجہ خدا کی خوشنودی اور حقیقی کامیابی حاصل ہو چکی، جیسے انہوں نے پوری خوش دلی اور انشراح قلب کے ساتھ حق تعالی کے احکام تشریعی اور قضاء تکوینی کے سامنے گردنیں جھکادیں، اسی طرح خدا نے ان کو اپنی رضاء اور خوشنودی کا پروانہ دے کر غیر محدود انعام و اکرام سے سرفراز فرمایا۔ تفسیر عثمانی ٢٦٨               

علامہ ابن کثیر اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: يا ويل من أبغضهم او سبهم أو سب بعضهم....... فأين هؤلاء من الإيمان بالقرآن إذ يسبون من رضي الله عنهم.  ابن كثير                            
 ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے جو صحابہ کرام یا ان میں سے بعض سے بغض رکھیں ، ان کو برا کہیں، ان لوگوں کا ایمان بالقرآن سے کیا واسطہ جو ایسے لوگوں کو برا کہتے ہیں، جن سے رضامندی کا خود اللہ تعالی نے اعلان فرمایا ہے۔         
    
علامہ ابن عبد البر مقدمہُ استیعاب میں یہی آیت  نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ومن رضي الله عنه لم يسخط عليه ابداً انشاء الله تعالى.  اللہ تعالی جس سے راضی ہوگیا پھر انشاءاللہ اس سے کبھی ناراض نہیں ہوگا ۔ مناقب صحابہ ص١٨              
    
     محمد بن کعب قرظی سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ سب کے سب جنت میں ہیں اگرچہ وہ لوگ ہوں جن سے دنیا میں غلطیاں اور گناہ بھی ہوئے ہوں، اس شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ یہ بات آپ نے کہاں سے کہی ہے؟انہوں نے فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیت پڑھو: السابقون الاوّلون... اس میں تمام صحابہ کے متعلق بلا کسی شرط کے رضي الله عنهم ورضوا عنه  ارشاد فرمایا ہے، البتہ تابعین کے معاملہ میں اتباع باحسان کی شرط لگائی گئی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام بلا کسی قید و شرط کے سب کے سب بلا استثناء رضوان الہی سے سرفراز ہیں۔ معارف القرآن ص٤٥٠ ج٤

      ( ٥ ) لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح و قاتل أولئك أعظم درجةً من الذين أنفقوا من بعد و قاتلوا وكلاً وعد الله الحُسنى.                                      
     تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے(فی سبیل اللہ) خرچ کر چکے اور لڑ چکے برابر نہیں ۔ وہ لوگ درجہ میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد میں خرچ کیا اور لڑے اور (ویسے تو) اللہ تعالی نے بھلائی (یعنی جنت) کا وعدہ سب سے کر رکھا ہے ۔

  اس آیت میں پوری صراحت کے ساتھ یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ صحابہ کرام اوّلین ہوں یا آخرین، سب سے اللہ تعالی نے حُسنی یعنی جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا تمس النار مسلماً رآني أو رأى من رآني. کہ جہنم کی آگ اس مسلمان کو نہیں چھوسکتی جس نے مجھے دیکھا ہے یا میرے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھنے والے یعنی کسی صحابی کو دیکھا ، وہ جنت میں جائے گا بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان و اسلام پر ہوا ہو۔            


 ( ٦)   لكن الرسول والذين آمنوا معه جاهدوا بأموالهم وأنفسهم و أولئك لهم الخيرات وأولئك هم المفلحون، أعد الله لهم جنت تجري من تحتها الأنهار خلدين فيها ذلك الفوز العظيم. سورة التوبة ٨٩           
    
     لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور جو لوگ ایمان لائے، ان کے ساتھ انہوں نے اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد کیا،اور انہیں کے لئے ساری خوبیاں ہیں، اور وہی ہیں کامیاب ہونے والے ، اللہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، یہ لوگ ہمیشہ ان باغات میں رہنے والے ہیں، اور یہی ہے بڑی کامیابی ۔                                       
   اس آیت میں بھی صحابہ کرام کی مدح کی گئی ہےکہ وہ اپنے جان ومال کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ،جس کا اجر و ثواب یہ ہے کہ دنیا وآخرت کی کامیابیاں اور کامرانياں انہیں کے لئے ہیں۔                                      
     (٧)  رجال لا تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله و إقام الصلوة و إيتاء الزكوة، تخافون يوماً تتقلّب فيه القلوب والأبصار . النور ٣٧   

    وہ ایسے لوگ ہیں جو لین دین اور خریدوفروخت کرنے میں اللہ تعالی کی یاد ، نماز قائم کرنے، اور زکوة دینے سے غافل نہیں ہوتے ،اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس دن آنکھیں اور دل پھر جائیں گے ۔

    صحابہ کرام کی پوری زندگی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ اپنی تجارت و معاش میں لگ کر کبھی یاد الہی سے غافل نہیں ہوئے، اور نہ ہی دنیا کی زیب و زینت اور اس کی بہاریں انہیں کبھی یاد خداوندی سے غافل رکھ سکیں، وہ جہاں کہیں بھی ہوئے جس حال میں ہوئے ان کے قلوب ہمیشہ اللہ کی طرف متوجہ رہے ۔                                                        
   ( ٨)  لا تجد قوماً يؤمنون بالله واليوم الآخر يُوادّون من حادّ الله و رسوله ولو كانوا آبائهم أو أبنائهم أو إخوانهم أو عشيرتهم أولئك كتب في قلوبهم الإيمان وأيّدهم بروح منه و يدخلهم جنت تجري من تحتها الأنهار خلدين فيها، رضي الله عنهم و رضوا عنه أولئك حزب الله ألا إن حزب الله هم المفلحون .                                                              
  جو لوگ اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہیں، خواہ ان کے باپ بیٹے یا بھائی اور کنبہ ہی کیوں نہ ہوں، ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان ثبت کردیا ہے،اور ان ( کے دلوں) کو اپنے فیض سے قوت دی، اور ان کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالی ان سے راضی ہو گا اور وہ اللہ تعالی سے راضی ہوں گے، یہی لوگ اللہ تعالی کا گروہ ہیں اور خوب سن لو کہ اللہ تعالی ہی کا گروہ فلاح پانے والا ہے ۔                                     
  اس آیت میں صحابہُ کرام کی تعریف کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ وہ حبّ فی اللہ اور بغض فی اللہ کی عملی تصویر تھے۔                                                    
  ( ٩ )  كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر و تومنون بالله . سورة آل عمران ١١
       
     تم لوگ بہترین امت ہو جو لوگوں (کے نفع و ہدایت) کے لئے بھیجی گئی ہے، تم لوگوں کو نیک کام بتاتے اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور خود بھی اللہ تعالی پر ایمان لاتے ہو ۔                                  
    تمام مفسرین و محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت کے اصل مخاطب اور مصداق اول حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں ۔               

  (١٠)  هو اجتباكم وماجعل عليكم في الدين من حرج ملة أبيكم إبراهيم هو سمّاكم المسلمين من قبل وفي هذا ليكون الرسول عليكم شهيداً و تكونوا شهداء على الناس الخ .                                              
      اللہ تعالی نے تم کو چن لیا اور اس نے تمہارے لئے دین میں کوئی تنگی نہیں پیدا کی(اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین(پسند کیا ) انہوں نے تمہارا نام مسلمان پہلے سے رکھا اور یہ نام اس قرآن میں بھی ہے تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ ہوں اور تم لوگوں پو گواہ بنو ۔     
    
    قرآن کریم کی یہ آیت اس بات میں بالکل صریح ہے کہ صحابہ کرام کو اللہ تعالی نے چنا تھا، چنانچہ حضرت عویمر بن ساعدہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے لئے رفقاء اور ساتھی بھی منتخب فرمائے، اور پھر ان رفقاء میں سے کچھ کو میرا وزیر، کچھ کو میرا مددگار، اور کچھ کو میرا رشتہ دار بنایا۔ پس جس شخص نے ان کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت، اور تمام لوگوں کی لعنت، اللہ تعالی نہ تو اس کی توبہ قبول کرے گا اور نہ اس کا فدیہ، یا یہ کہ نہ نفل اس کا مقبول ہوگا اور نہ فرض ۔ طبرانی ، حاکم                   

  مشہور محدث حافظ ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے: إ ن الله نظر في قلوب العباد فاختار محمداً صلى الله عليه وسلم فبعثه برسالته، وانتخبه بعلمه، ثم نظر في قلوب الناس بعده فاختار له أصحاباً،  فجعلهم أنصار دينه ، و وزراء نبيه صلى الله عليه وسلم  حياة الصحابة ص٤٦         
   کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے قلوب پر نظر ڈالی، اور ان سب میں اپنے علم کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب فرمایا اور اپنی رسالت کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا، پھر آپ کے بعد لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی، تو کچھ لوگوں کو آپ کے اصحاب اور اپنے دین کے ناصر و مددگار اور آپ کےوزراء اور نائبین کےطور پر منتخب فرمایا۔      

 انہیں حافظ ابو نعیم نے حضرت عبداللہ بن عمر کا یہ قول بھی نقل کیا ہے: أولئك أصحاب محمد كانوا خير هذه الأمة أبرّها قلوباً، وأعمقها علماً، وأقلها تكلفاً، قوم اختارهم الله لصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم و نقل دينه. یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب اس امت کے بہترین لوگ ہیں، ان کے قلوب سب سے زیادہ نیک و صالح، اور ان کا علم سب سے زیادہ عمیق ہے، یہ پوری امت میں سب سے کم تکلف کرنے والے ہیں ، اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اپنے دین کی تبلیغ کے لئے ان کا انتخاب فرمایا ہے۔                                 
 اندازہ لگائیے کہ جو نفوس قدسیہ اللہ کے مجتبی ہوں، جن کو اللہ تعالی نے اپنے دین کے لئے خود چنا ہو، ان کا مقام خدا کے یہاں کس درجہ بلند ہوگا؟         

 ( ١١ )  لكن الله حبّب إليكم الإ يمان وزيّنه في قلوبكم و كرّه إليكم الكفر والفسوق والعصيان أولئك هم الرّاشدون ،فضلاً من الله و نعمةً.    الحجرات             

لیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اسے تمہارے دلوں میں مرغوب کر دیا،اور کفر اور فسق اور عصیان سے تمہیں نفرت دے دی، ایسے ہی لوگ تو راہ راست پر ہیں اللہ کے فضل اور انعام سے۔         

 یہ پوری آیت مدح صحابہ میں ہے ، اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ایمان کے اعلی درجہ پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ کفر و فسق اور عصیان سے بھی ایماناً وعقلاً مکمل طور پر بیزار تھے۔ تفسیر کبیر میں ہے: كرّه إليكم، وهو أنّ الأمر الأعظم، كما قال تعالى: إنّ الشرك لظلم عظيم، ثم قال تعالى: والفسوق، ما يظهر لسانكم ايضاً،ثم قال: و العصيان، وهو دون الكل ولم يترك عليكم الأمر الأدنى وهوالعصيان، وقال بعض الناس: الكفرظاهر والفسوق هو الكبيرة والعصيان هو الصغيرة . تفسير كبير             

 یعنی تمہارے لئے کفر کو مکروہ بنادیا اور کفر سب سے بڑا گناہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا شرک ظلم عظیم ہے، پھر اللہ تعالی نے لفظ فسوق ذکر کیا، اس سے مراد وہ گناہ ہے جو زبان سے ظاہر ہو، پھر عصیان کا لفظ استعمال فرمایا، وہ کفر اور فسوق سے کمتر درجہ ہے، یعنی سب سے کم درجہ کی جو چیز تھی اللہ تعالی نے تمہارے دل میں اس کی بھی نفرت پیدا کردی۔ اور بعض نے کہا ہے کہ کفر کا مطلب توظاہر ہے، اور فسوق سے مراد گناہ صغیرہ ہے، اور عصیان سے مراد  گناہ کبیرہ ہے۔                     

خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کے دل میں  ظاہری و باطنی قولی و عملی سمیت ہر طرح  کے چھوٹے بڑے گناہ کا تصور تک  ناپسندیدہ بنادیا تھا ۔         

صحابہ کے فضائل سے تعلق رکھنے والی چند آیات قرآنی پیش کرنے کے بعد اب رخ کرتے ہیں احادیث مبارکہ کی طرف، اور ،،مشت نمونہ از خروارے،، کے طور پر ان میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے