صحابہ کرام کا مقام عظمت قسط١

  


صحابہ کرام کا مقام عظمت قسط١

 
  محمد سعید اللہ مہراج گنجی 

   مؤرّخین کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے بعد اس روئے زمین پر سب سے مقدس، سب سے پاکیزہ اور نوع انسانی کے لئے باعث صد افتخار حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طبقہ ہے ۔ یہ وہ بر گزیدہ ہستیاں ہیں جن کے اندر پیغمبر کے تزکیہ وتربیت کی بدولت متضاد کمالات اس طرح جمع ہوگئے تھےکہ اگر تاریخ شہادت نہ دیتی، اور تواتر سے یہ بات منقول ہوتی نہ چلی آتی تو اس پر یقین کرنا بھی دشوار ہوتا ۔

     قابل غور ہے کہ ایک وہ دور تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل اقوام عالم میں ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہ تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد صورتِ حال یہ ہوگئی کہ تمام تر کمالات انہیں پر ختم ہونے لگے ۔ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو صدقِ دل سے قبول کر کے بتمام وکمال اس پر اس   طرح جم گئےکہ بڑے سے بڑا طوفان ان کو اپنی جگہ سے ہلا نہ سکا، خوفناک زلزلے آئے، مصائب و حوادث کا طوفانِ تند و تیز آیا، دوست دشمن ہوگئے، موافق مخالف بن گئے، حتی کہ اپنے پیارے وطن کی مقدس سرزمین نہ صرف ان پر تنگ کردی گئی، بلکہ ان کے خون کی پیاسی بھی نظر آنے لگی۔ لیکن یہ تمام حوادث واقعات بھی ان کے عزم وثبات میں ذرہ برابر تزلزل پیدا نہ کر سکے، وہ لوگ حق و صداقت کے لئے اپنا تن من دھن قربان کرنے کا عزم مصمم کرکے میدان عمل میں آئے، اور جتنی بھی قربانیوں کی ضرورت پیش آئی بصد مسرت دی، مگر جادہُ استقامت سے بال برابر بھی نہ ہٹے ۔تاریخ ان کے خلوص و للّہیت، عزم واستقلال ،تقوی و طہارت ، جانثاری و جاں سپاری، اعلاء کلمةاللہ اور اسلام کی نشرو اشاعت کے لئے ان کی عدیم المثال قربانیوں کا صداقت پر مبنی جو محیر العقول نقشہ پیش کرتی ہے، اس کو دیکھ کر عقیدت کیش اور وفا شعار ہی نہیں بلکہ اعداء بھی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ: یہ انہیں اولواالعزم حضرات کا حصہ تھا ۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء .
اسی لئے اہل سنت والجماعت کے تمام سلف و خلف کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت کرنا، اور ان کا ظاہری و باطنی طور پر عملاً احترام کرنا،صحابہ سے بغض رکھنے والوں سے بغض و عداوت رکھنا، صحابہ کے باہمی ظاہری اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا، اور ہر قسم کی منفی رائے دہی سے اجتناب کرنا، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ تمام صحابہ مجتہد ہیں، اور اللہ کے یہاں انتہائی معزز اور اجروثواب والے ہیں، اور ان کی سیرت و کردار کو زبانی و عملی طور پر اپنانا ہر مسلمان پر فرض واجب ہے۔  امام حرم ڈاکٹراسامہ بن عبدالعزیز                                          
  امام ابو بکر الآجری نے حضرت حسن بصری رحمةاللہ علیہ سے نقل کیا ہےکہ انہوں نے فرمایا: وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے، وہ اس امت کے سب سے زیادہ نیک دل تھے، سب سے گہرا علم رکھنے والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے وہ ایسے لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کو سرفراز کرنے اور اپنے نبی کی صحبت کےلئے منتخب کیا، ان کے اخلاق و اطوار کو اختیار کرو، رب کعبہ کی قسم وہ صراط مستقیم پر تھے۔  کتاب الشریعہ ص ١٦٨٦ج١

  جماعت صحابہ میں سے کسی ایک کی بھی تنقیص وتحقیر پوری جماعت کی تنقیص و تحقیر ہے،کیونکہ یہ صحبت نبوت کی تنقیص و تحقیر ہے، اسی بنا پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،ان کو میرے بعد ہدف ملامت نہ بنالینا،پس جسنے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھے سے بغض کی وجہ سے بغض رکھا ۔  الحدیث                      
امام المفسرین علامہ قرطبی تفسیر قرطبی ص ٣٢٢ ج١ پر رقم طراز ہیں: یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے، اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا،اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی دی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں، اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات میں کفّ لسان کریں ، اور ہمیشہ انکا ذکر بہتر طریقہ پر کریں،کیونکہ صحابیت بڑی حرمت وعظمت کی چیز ہے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے، اور خبر دی ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں معاف کر رکھا ہے، اور ان سے راضی ہے۔   بحوالہ معارف القرآن ج ٨       

  علامہ شمس الدین ذہبی فرماتے ہیں: جو شخص حضرات صحابہ پر طعن کرتا اور سب وشتم کرتا ہے، وہ دین سے خارج اور ملت اسلام سے الگ ہے، کیونکہ ان پر طعن کرنا صرف اس وجہ سے ہوتا ہےکہ ان کے حق میں برائیوں کا اعتقاد ہو اور دل میں ان سے بغض پوشیدہ ہو، اور اللہ تعالی نے قرآن میں جو ان کی تعریف کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی جو فضیلت و بڑائی بیان کی ہے اس سے انکار ہو۔ پھرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چوں کہ دین کے پہنچانے والے اور اس کا بہترین ذریعہ ووسیلہ ہیں، اس لئے ان پر طعن کرنا گویا اصل دین پر طعن کرنا ہے، اور ناقل و منقول کی توہین کرنا ہے۔        الکبائر ص١٤٥ 
نیز امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: واضح اور آشکار مسائل میں سے ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تمام خوبیوں کو بیان کرنا، ان کی غلطیوں اور آپس کے اختلافات کو بیان کرنے سے گریز کرنا ۔ لہذا جو شخص کسی بھی صحابی کی شان میں گستاخی کرے، برا بھلا کہے اور طعنہ زنی کرے، یا کسی صحابی کی عیب جوئی کرے تووہ شخص بدعتی، رافضی اور اہل سنت کا مخالف ہے ۔اللہ تعالی (قیامت کے دن) نہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، نہ کوئی فدیہ اور کفارہ اس کی جان چھڑا سکے گا،اس کے برعکس صحابہ کرام سے محبت سنت اور ضروری ہے، ان کے لئے دعا کرنا قرب الہی کا باعث ہے، ان کی پیروی باعث نجات ہے، اور ان کی راہ پر چلنا فضیلت شمار ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سب سے اچھے لوگ تھے، کسی انسان کے لئے مناسب نہیں کہ انہیں گالیاں دے، یا عیب جوئی کرکے ان کی شان میں گستاخی کرے اور انہیں گندی زبان سے یاد کرے۔ کتاب السنة ص ٥ 
 صحابہ کرام اسلام کی ایک ایسی بیش قیمت اور زرّیں زنجیریں ہیں،کہ اگراس کےایک حلقہ (کڑی) کو بھی جدا کردیا جائے تو سارا دین غیر مستند قرار پائےگا، ہمارا علمی تفوق و بالا دستی اور اسلامی تہذیب وتمدن کا سارا ذخیرہ ملیا میٹ ہوکر رہ جائے گا۔ اسی سلسلہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی رحمةاللہ علیہ رقم فرماتے ہیں : صحابہ کرام ایمان کی کھیتی، نبوت کی فصل، دعوت اسلامی کا ثمر اور رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کارنامہ ہیں، ان کی سیرت و اخلاق میں جو حسن نظر آتا ہے وہ نبوت محمدی کی جلوہ سامانیوں کا پر تو ہے، ان سے زیادہ عظیم الشان اور تابناک تاریخ کسی دوسرے طبقے کی ملنی مشکل ہے۔                       

  بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی معرفت کے لئے صحابہ کرام ہی کی زندگی معیار بن سکتی ہے، کیونکہ یہی وہ پاکیزہ نفوس ہیں جنہوں نے دامن رسالت میں رہتے ہوئے براہ راست مشکوةِ نبوت سے استفادہ کیا، جس کی برکت سے کیفیتِ ایمانی کے اس کمال درجہ پر فائز ہو گئے ، جس کا تصور بھی بعد والوں کے لئے ممکن نہیں ۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ رکھ کر ان کو بھی عام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہو جائے گی۔نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت معتبر رہے گی، نہ قرآن اور اس کی تفسیر وحدیث کا اعتبار رہے گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطا کیا ہے، وہ ہم تک صحابہ کرام ہی کی معرفت پہنچا ہے، صحابہ پوری امت کے محسن ہیں، وہ علوم نبوت کے وارث، کمالات رسالت کے آئینہ دار، اور شریعت کے مسائل و دلائل اور حقائق وآداب کے سچے ترجمان ہیں، ان پر نقد خود صاحب شریعت  پر نقد ہے، جس طرح اللہ تعالی نے ختم رسالت کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب فرمایا، اسی طرح آپ (ص) کی رفاقت کے لئے صحابہ کرام بھی منجانب اللہ منتخب ہیں ۔قرآن و سنت میں جا بہ جا ان کے مقام بلند کی طرف صریح اشارہ ہے، اور بحیثیت طبقہ رضا کا پروانہ اور دنیوی و اخروی فوز و فلاح اور کامرانی کی بشارتیں ہیں ۔ہم یہاں ان میں سے معدودے چند آیات واحادیث مختصر وضاحت کے ساتھ سپرد قرطاس کر رہے ہیں: 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے