واقعہ کربلا اور مسلک اعتدال


واقعہ کربلا اور مسلک اعتدال

ابوعاصم الاعظمی 

 تمہیدی کلمات : چوں کہ زیرِ تحریر مضمون کا موضوع "واقعہ کربلا" ہے، اس لئے بے حد مناسب ہے کہ اولا اجمالی طور پر یہ بتا دیا جائے، کہ واقعہ کربلا کہتے کس کو ہیں، ملاحظہ فرمائیں :واقعہ کربلا یا واقعہ عاشوراء یا سانحہ کربلا ١٠/محرم الحرام بروز جمعہ سنہ ٦١ /ہجری بمطابق ٩/یا ١٠/اکتوبر سنہ ٦٨٠ /عیسوی کو موجودہ عراق میں واقع کربلا کے میدان میں پیش آنے والے اس واقعے کو کہا جاتا ہے، جس میں یزیدی فوج کے ہاتھوں حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) اور آپ کے اصحاب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) شہید ہوگئے ۔

 واقعہ کربلا میں غلط بیانی اور اس کے اسباب 

چوں کہ واقعہ کربلا (خواہ جس شکل میں بھی ہوا ہو) اول تو خود ہی بہت جذبات انگیز ہے، اور پھر اس کے پیچھے سیاسی صف آرائی کی ایک لمبی (کم از کم ٢٥/سالہ)تاریخ ہے، جو ناگزیر طور پر دوطرفہ تعصبات کو بھی جنم دے چکی ہے، اور مفادات میں دلچسپی رکھنے والے حلقے بھی بنا چکی ہے، مزید کوفیوں کی جس بے وفائی اور غداری نے یہ سانحہ کرایا، اس کا بھی تقاضا ہے کہ (قبائلی رقابتوں کے ماتحت) ایک دوسرے کو الزام دینے اور اپنے آپ کو اندر سے باوفا دکھانے والی روایتیں گھڑی جائیں، غرضیکہ ان مختلف قسم کے محرکات وعوامل نے مل کر واقعہ کربلا اور اس کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے واقعات کے بیان میں وہ غضب ڈھایا ہے کہ حقیقت کی یافت مشکل بن گئی ہے، نہایت ہی بے لاگ طریقے سے روایتوں کا تجزیہ کیا جائے، تبھی ممکن ہے کہ صداقت تک رسائی ہوسکے۔

 (واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، ص:٢٤/٢٥ مصنف: عتیق الرحمن سنبھلی نعمانی) 

  واقعہ کربلا ایک نظر میں

سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) اور بیعت یزید

سنہ ٥٦/ہجری میں یزید کی ولی عہدی کے مسئلے سے فارغ ہونے کے بعد حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) چار سال تک زندہ رہے، رجب سنہ ٦٠/ہجری میں حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا انتقال اس حالت میں ہوا، کہ جن حضرات نے سنہ ٥٦/ہجری میں یزید کی ولی عہدی سے انکار کیا تھا، وہ اسی انکار پر برقرار رہے، ادھر حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید ان کا جانشین ہوا، تخت حکومت پر قدم رکھنے کے بعد یزید کے لیے سب سے اہم معاملہ حضرت حسین اور زبیر (رضی اللہ عنہما) کی بیعت کا تھا، کیوں کہ یزید کی ولی عہدی کی بیعت کے وقت ان دونوں حضرات نے اس کو نہ دل سے تسلیم کیا تھااور نہ ہی زبان سے اقرار کیا تھا اور ان کے بیعت نہ کرنے کی صورت میں خود ان کی جانب سے دعوی خلافت اور حجاز میں یزید کی مخالفت کا خطرہ تھا، اسی بنا پر اس نے اپنی حکومت کی بقا اور تحفظ کے لیے ان دونوں حضرات سے بیعت لینا ضروری سمجھا، چنانچہ آپسی مشورے کے بعد ولید نے ان دونوں کو بلا بھیجا،

سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) کو اندازہ تھا، کہ انکارِ بیعت کی صورت میں کس حد تک معاملہ نزاکت اختیار کرسکتا ہے، اس لیے اپنی حفاظت کا سامان کرکے ولید کے گھر پہنچے اور مکان کے باہر بارہ (١٢)آدمیوں کو متعین کردیا، تاکہ اگر کوئی ناگوار شکل پیش آئے، تو فوراً وہ لوگ آپ کی آواز پر پہنچ جائیں، ولید نے انھیں امیر معاویہ کی موت کی خبر سناکر یزید کی بیعت کے لیے کہا، سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) نے تعزیت کے بعد عذر کیا، کہ میرے جیسے آدمی کے لیے چھپ کر بیعت کرنا بالکل زیبا نہیں، جب تم عام بیعت کے لیے لوگوں کو بلاؤگے، تو میں بھی آجاؤں گا اور عام مسلمان جو صورت اختیار کریں گے، اس میں مجھے بھی کوئی عذر نہ ہوگا،

 (سیرِ صحابہ، جلد:ششم، ص:١٣٥/١٣٦ ،مصنف:مولانا شاہ معین الدین ندوی، واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، باب:ہفتم، ص:١٥١، مصنف:عتیق الرحمن سنبھلی نعمانی ) 

سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) ولید کے یہاں

جس دن "سیدنا حسین" ولید سے ملے تھے، اس کے دوسرے دن "عبداللہ بن زبیر" مدینہ سے مکہ نکل گئے، اور دن بھر ولید اور ان کا عملہ ان کی تلاش میں سرگرداں رہا، اس لیے "سیدنا حسین" کا کسی کو کچھ خیال نہ آیا، اس کے بعد دوسرے دن ولید نے پھر "سیدنا حسین" کے پاس یاد دہانی کے لیے آدمی بھیجا، آپ نے ایک دن کی مہلت مانگی، ولید نے اسے منظور کرلیا، اس کے بعد بھی "سیدنا حسین" کچھ فیصلہ نہ کرسکے، اور اسی کشمکش اور پریشانی کی حالت میں رات کو مع اپنے اہل وعیال نکل پڑے، لیکن ابھی تک یہ بھی متعین نہیں تھا، کہ یہاں سے نکل کر کہاں جائیں گے،

 (سیرِ صحابہ، جلد:ششم، ص:١٣٧/١٣٨،مصنف:مولانا شاہ معین الدین ندوی رحمہ اللہ) 

 محمد بن حنفیہ (رضی اللہ عنہ) کا مشورہ

مدینہ سے کوچ کرتے ہوئے، "محمد بن حنفیہ" نے آپ کو مشورہ دیا، کہ اس وقت آپ یزید کی بیعت اور کسی مخصوص شہر کے ارادے سے جہاں تک ہوسکے الگ رہیے، حضرت نے پوچھا :پھر میں کہاں جاؤں؟ انھوں نے فرمایا :مکہ، اگر وہاں آپ کو اطمینان حاصل ہوجائے، تو کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی،

 (سیر صحابہ، جلد:ششم، ص:١٣٨، واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، ص:١٦٢) 

سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) کی مکہ روانگی

آپ شعبان سنہ ٦٠/ہجری کو مع اہل وعیال مکہ روانہ ہوگئے، جب کہ اس دوران آپ کے پاس کوفہ سے خط پر خط آرہے تھے، کہ آپ کوفہ تشریف لائیں، ہم سب جانثاری کے لیے تیار ہیں؛ لیکن چونکہ "محمد بن حنفیہ" نے کسی دوسرے مقام پر جانے کی مخالفت کی تھی، اس لیے آپ نے مکہ ہی جانے کا قصد کیا، راستے میں آپ کی ملاقات "عبداللہ بن مطیع" سے ہوئی، انھوں نے آپ کو مدینہ جاتے ہوئے دیکھا تھا، فرمایا :میں آپ پر فدا ہوں، کہاں کا قصد ہے؟ آپ نے فرمایا :فی الحال مکہ جاتا ہوں، عبداللہ نے فرمایا :اس میں مضائقہ نہیں، مگر خدارا کوفہ کا قصد نہ کیجئے گا، وہ منحوس شہر ہے، وہاں آپ کے والد محترم شہید کیے گئے اور آپ کے بھائی بے یار ومددگار چھوڑے گئے، آپ بس حرم میں بیٹھ جائیے، حجازی آپ کے مقابلے میں کسی کو ترجیح نہیں دیں گے،

 (سیر صحابہ، جلد:ششم، ص:١٣٩، واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، باب:ہشتم، ص:١٦٩) 

 مسلم بن عقیل (رضی اللہ عنہ) کی کوفہ روانگی

مکہ پہنچنے کے بعد "سیدنا حسین" نے شعب ابی طالب میں قیام فرمایا، آپ کی آمد کی خبر سن کر لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لیے آنے لگے، اور کوفیوں کے بلاوے کے خطوط کا تانتا بندھ گیا، عمائدِ کوفہ کے وفود نے آکر عرض کیا، کہ آپ جلد از جلد کوفہ تشریف لے چلیے، وہاں کی مسند آپ کے لیے خالی ہے اور ہماری گردنیں آپ کے لیے حاضر ہیں، "سیدنا حسین" نے یہ اشتیاق سن کر فرمایا :میں تمہاری محبت اور ہمدردی کا شکر گزار ہوں؛ لیکن فی الحال نہیں جاسکتا، پہلے اپنے بھائی "مسلم بن عقیل" کو بھیج رہا ہوں اور یہ وہاں کے حالات کا اندازہ لگاکر مجھے اطلاع دیں گے، اس وقت کوفہ کا قصد کروں گا، چنانچہ "مسلم" کو ایک خط دیکر کوفہ روانہ کیا، کہ وہ براہ راست خود حالات کا جائزہ لیکر مطلع فرمائیں، حکم کی تعمیل میں "مسلم" دو ساتھیوں کے ہمراہ جانب کوفہ روانہ ہوئے،

 (سیر صحابہ، جلد :ششم، ص:١٣٩، واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، باب:ہشتم، ص:١٧٠) 

 مسلم بن عقیل کوفہ میں

چوں کہ اہالیان کوفہ چشم براہ تھے ہی، "مسلم" کو ہاتھوں ہاتھ لیا، کوفہ پہنچنے کے بعد حکومت شام کے جاسوسوں نے پایہ تختِ دمشق کو اطلاع بھیجی، کہ "حسین" کی طرف سے "مسلم" بیعت لینے کوفہ آگئے ہیں، اگر سلطنت کی بقا منظور ہے، تو فوراً اس کا تدارک کیا جائے، اس اطلاع پر دربار دمشق سے "عبداللہ بن زیاد" کے نام تاکیدی حکم آیا، کہ تم فوراً کوفہ جاکر "مسلم" کو خارج البلد کردو اور اگر وہ مزاحمت کریں، تو قتل کردو، ابن زیاد کو یہ فرمان ملا، اتفاق سے اسی دن "سیدنا حسین" کا ایک اور قاصد اہل بصرہ کے نام بھی آپ کا خط لیکر آیا تھا، اہلِ بصرہ نے ان کو چھپادیا تھا، لیکن ابن زیاد کے خسر نے اطلاع پاکر ابن زیاد کو مطلع کردیا، اس نے اس قاصد کو گرفتار کرکے قتل کردیا اور اہلِ بصرہ سے مخاطب ہو کر کہا :کہ امیر المومنین نے مجھے بصرہ کے ساتھ ساتھ کوفہ کی حکومت بھی مرحمت فرمادی ہے، اس لیے میں اپنے بھائی عثمان کو نائب بناکر کوفہ جارہا ہوں، اس کے بعد ابن زیاد کوفہ روانہ ہوا، چوں کہ اہلِ کوفہ "سیدنا حسین" کے لیے چشم براہ تھے، اس لیے وہ ہر باہر سے آنے والے کو دیکھ کر اس گمان سے"مرحبا بابن رسول اللہ" کا نعرہ لگاتے تھے، کہ "سیدنا حسین" ہی آگئے، غرضیکہ کہ ابن زیاد کو کوفہ کی ہر گلی میں یہی نعرہ سنائی دیا، یہ سب سن کر وہ جوش سے لبریز ہوگیا، اور کوفہ پہنچتے ہی سب سے پہلے جامع مسجد میں جاکر سب کو اکٹھا کیا اور تقریر کی،

 (واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، باب:ہشتم، ص:١٧٢/١٧٣) 

 ابن زياد کی اہل کوفہ کے سامنے تقریر اور "مسلم بن عقیل" کی انتقال مکانی

اہل کوفہ کی "سیدنا حسین" کے تئیں اس قدر محبت کو دیکھ کر ابن زیاد جل بھن گیا اور سب کو جمع کرکے یہ تقریر کی :اے اہل کوفہ مجھے امیر المومنین نے تمہارے شہر کا حاکم بناکر بھیجا ہے اور مظلوم کے ساتھ انصاف، مطیع ومنقاد کے ساتھ احسان اور نافرمان وباغی کے ساتھ سختی کا حکم دیا ہے، میں اس حکم کی پوری پابندی کروں گا، یہ اعلان سن کر "مسلم بن عقیل" گھبرائے اور رات کو اپنی قیام گاہ سے نکل کر اہل بیعت کے ایک ہوا خواہ "ہانی بن عروہ" کے یہاں پہنچے، اس وقت ابن زیاد کے اعلان سے سب لوگ خوفزدہ تھے، اس لیے "ہانی بن عروہ" کو پہلے "مسلم" کے ٹہرانے میں تذبذب ہوا، لیکن پھر بھی زنانہ مکان کے ایک محفوظ حصہ میں چھپادیا،پھر ہوا جو ہوا، تفصیل سے پرے بالآخر بہت دنوں تلاش وجستجو کے بعد بھی" مسلم بن عقیل" کا سراغ نہ ملنے سے پریشان ہوکر ابن زیاد نے اہل کوفہ کو جمع کرکے اعلان کیا، کہ جاہل اور کمینہ" مسلم بن عقیل" نے جو فتنہ بپا کیا ہے، اس کو تم لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، لہذا جس شخص کے بھی گھر سے وہ برآمد ہوگا، وہ ماخوذ ہوگا، اور جو گرفتار کرے گا، اس کو انعام سے نوازا جائے گا،

 (سیر صحابہ، جلد:ششم، ص:١٤٠ تا ١٤٤،واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، باب:ہشتم، ص:١٧٣)

مسلم بن عقیل کی گرفتاری اور ان کا قتل

جس عورت کے گھر میں "مسلم بن عقیل" روپوش تھے، اس کے لڑکے کو علم ہوچکا تھا، کہ "مسلم" ہمارے گھر ہی میں روپوش ہیں، ابن زیاد کے اعلان کے بعد وہ گھبرایا اور دوسرے دن صبح کو اس نے "عبد الرحمن بن محمد" سے اس کا تذکرہ کیا، اس نے اپنے باپ کو اطلاع کی، اور اس نے ابن زیاد سے کہہ دیا، ابن زیاد نے اسی وقت ستّر (٧٠)آدمیوں کا ایک دستہ "مسلم" کی گرفتاری کے لیے بھیجا، "مسلم بن عقیل" نے اس دستے کا بڑی ہی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا، اس کے بعد "مسلم "اور ابن زیاد کے درمیان کافی بحث و مباحثہ ہوا، بالآخر ابن زیاد نے جلاد کو حکم دیا، اس نے مقام قتل پر لے جاکر "مسلم بن عقیل" کی گردن ماردی اور سر کے ساتھ دھڑ کو بھی نیچے پھینک دیا، اس دردناک طریقے پر "سیدنا حسین" کا ایک نہایت قوی بازو ٹوٹ گیا،

 (سیر صحابہ، جلد :ششم، ص:١٤٤/تا ١٤٩، واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، باب:ہشتم، ص:١٧٨) 

 سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) کی کوفہ روانگی 

چوں کہ "مسلم بن عقیل" جب کوفہ آئے تھے، تو اہلِ کوفہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور اٹھارہ ہزار (١٨٠٠٠)کوفیوں نے "سیدنا حسین" کی خلافت اور ان کی حمایت میں جنگ کرنے پر بیعت لی تھی، "مسلم" نے گرفتاری سے قبل ان ظاہری حالات کو دیکھ کر "سیدنا حسین" کو لکھ بھیجا تھا، کہ سارا شہر آپ کا منتظر ہے، فوراً تشریف لائیے، "سیدنا حسین" نے یہ خط پاکر سفر کی تیاری شروع کردی، لیکن بہت سارے صحابہ کرام نے آپ کو اس سفر سے منع بھی کیا، لیکن آپ نے اپنا ارادہ نہیں بدلا، بالآخر آپ کوفہ پہنچے، راستے میں یکے بعد دیگرے" مسلم" وغیرہ کے قتل کیے جانے کی خبریں موصول ہوتی رہیں، آپ نے ان دل شکن خبروں سے تنگ آکر اعلان کیا، کہ شیعوں نے ہم سے بغاوت کی، لہذا تم میں سے جو واپس لوٹنا چاہے، وہ جاسکتا ہے، پھر کیا تھا، چندے معدودے کے علاوہ سب لوگ منتشر ہوگئے، اور کوفیوں نے بھی( جوکہ "سیدنا حسین" کی آمد کے مشتاق تھے اور ان کی حمایت میں جنگ کرنے پر بیعت کیے تھے) "سیدنا حسین" کی مخالفت کی، 

(سیر صحابہ، جلد:ششم، ص:١٥١/تا ١٥٥)

 شبِ عاشورہ اور جگر گوشہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شہادت

"سیدنا حسین" اور ابن زیاد کے مابین صلح کی مجلس کے قیام اور بہت کچھ ہونے کے بعد بھی معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی چلا گیا، نوبت بایں جا رسید کہ جمعرات کا دن گزرنے کے بعد عاشورہ کی وہ تاریک رات نمودار ہوئی، جس کی صبح کو میدان کربلا میں قیامت بپا ہونے والی تھی، درمیان میں صرف ایک ہی رات رہ گئی تھی، جس میں "سیدنا حسین" کو حجلہ عبادت میں جمال حقیقت کے ساتھ رازونیاز کرنا تھی اوراس کی راہ میں جان دینے کے لیے تیاریاں بھی کرنی تھیں، چنانچہ آپ نے منتشر خیموں کو ایک جگہ ترتیب سے نصب کیا اور اس طرح ١٠/محرم الحرام سنہ ٦٠/ہجری کی صبح میں جنگ کا آغاز ہوا، اور جنگ میں یکے بعد دیگرے آپ (رضی اللہ عنہ) کے جانباز اصحاب جامِ شہادت نوش کرتے رہے، ستم بالائے ستم وحشی شامیوں نے اس جسمِ اطہر کو جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے جسد مبارک کا ٹکڑا فرمایا تھا گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کردیا اور سر مبارک تن سے جدا کردیا،-إنا لله وإنا إليه راجعون - شہادت کے دوسرے یا تیسرے دن غاضریہ کے باشندوں نے شہداء کی لاشیں دفن کیں، "سیدنا حسین" (رضی اللہ عنہ) کا لاشہ بے سر کے دفن کیا گیا، چوں کہ سر مبارک ابن زیاد کے ملاحظے کے لیے کوفہ بھیج دیا گیا تھا،

 (سیر صحابہ، جلد :ششم، ص:١٧٠/تا ١٩٠،.مصنف:مولانا شاہ معین الدین ندوی رحمہ اللہ، واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر، ص:١٨٢/تا ٢٣٠،مصنف :عتیق الرحمن سنبھلی نعمانی)

 حرف آخر : اہل سنت والجماعت کے نزدیک "ابن زیاد" کے فاسق وفاجر اور مطعون ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں، رہا "یزید" کا معاملہ تو بعض اہل سنت والجماعت کا نظریہ یہ ہے کہ یہ بھی فاسق وفاجر تھا، لیکن چوں کہ یزید کا معاملہ اس قدر نازک ہے، کہ اس کے حق میں بالکل سیدھی اور معقول بات کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے؛ کیوں کہ اگر ہم اس کی زندگی کے ایک پہلو پر غور کریں، تو وہ نہ تو شراب وکباب میں غرق تھا اور نہ ہی لہو ولعب میں مست اور زنا وقمار بازی کا رسیا تھا، جیسا کہ بتایا جاتا ہے، اور اگر دوسرے پہلو پر غور کریں، تو معلوم ہوتا ہے، کہ اسی کی حکومت کے زمانے میں اسی کے حکام اور لشکریوں کے ہاتھوں "ریحانہ رسول، جگر گوشہ بتول سیدنا حسین" (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا اور اس نے اپنے حکام سے اس پر باز پرس بھی نہ کی، لہذا مناسب یہی ہے کہ اس کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے پرہیز برتا جائے؛ کیوں کہ اگر حقیقتاً وہ فاسق بھی ہو، تب بھی ہمارے ذمے اس کو فاسق کہنا، کوئی واجب اور فرض نہیں اور نہ ہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے