ولادت با سعادت کی منظر کشی

ولادت با سعادت کی منظر کشی

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

ماہ ربیع الاول میں سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی، اسی مہینے میں آپ کی وفات بھی ہوئی، بہت سے لوگ اس مہینے کو جشن عید میلاد النبی کے نام سے مناتے ہیں، خیر القرون کے دور میں اور خود حضرات خلفائے راشدین کے دور میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس مہینے کو جشن عید میلاد النبی کے نام سے منایا ہے، ہمارے لیے نمونہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: 《 لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة 》 تہمارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے، پیدائش سے لے کر وفات تک زندگی کے تمام مراحل میں ہمارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی کامیابی کی ضامن ہے، اس سے ہٹ کر اگر ہم نے زندگی گزاری تو سوائے ناکامی کے کوئی راستہ نہیں۔

اسی لیے سیرت نگار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام گوشوں کو بیان کیا ہے، آپ کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ مخفی نہیں، حضرات محدثین اور مؤرخين نے ہر ہر لمحہ حیات کو بیان کرکے ہمیشہ کے لیے اللہ کے رسول کی زندگی کو محفوظ کردیا۔

عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ اگر کسی زبان میں سیرت طیبہ لکھی گئی تو وہ اردو زبان ہے، پھر ہر مصنف نے اپنے ذوق کے اعتبار سے آپ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور بالآخر یہ کہتے ہوئے عجز ظاہر کیا: لا يمكن الثناء كما كان حقه 

لیکن انگلی کٹاکر شہیدوں میں نام لکھ دیا جائے اور خریدان یوسف میں نام شامل ہوجائے اس لیے ہر مصنف کی خواہش ہوتی ہے کہ سیرت طیبہ کا ذکر اس کی کتاب میں بھی ہوجائے۔

کبھی مستقل تالیف کی شکل میں کبھی مقالات کی شکل میں وہ سیرت طیبہ کو بیان کرکے اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔

اسی ضمن میں اردو کے نامور مؤرخ اور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے سیرت النبی کے نام سے کتاب تالیف فرمائی، لیکن وہ مکمل نہیں ہو سکی، اس سے پہلے ہی ان کی زندگی تمام ہوگئی۔

بعد میں ان کے شاگرد رشید علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے اس کو مکمل کیا، اس کے علاوہ سید صاحب نے سیرت کے موضوع پر مختلف خطبات دئے، جن میں خطبات مدراس کے نام سے سیرت کے مختلف عنوان پر ان کے خطبات بہت ہی مشہور ہیں، جو کتابی شکل میں اردو اور عربی دونوں زبانوں میں موجود ہیں۔ 

علامہ شبلی نعمانیؒ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی منظر کشی کس قدر دلکش پیرائے میں کی ہے، قارئین ملاحظہ فرمائیں:’’چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں ، چرخ نادرہ کار نے کبھی کبھی بزم عالم اس سروسامان کے ساتھ سجائی ہے کہ نگاہیں خیرہ ہوکر رہ گئی ہیں ، لیکن آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال دید نے کروڑوں برس صرف کردئیے، سیارگانِ فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے، چرخ کہن مدت ہائے دراز سے اسی صبح جاں نواز کے لئے لیل ونہار کی کروٹیں بدل رہاتھا، کارکنانِ قضاء وقدر کی بزم آرائیاں ، عناصر کی جدت طرازیاں ، ماہ وخورشید کی فروغ انگیزیاں ، ابر وباد کی تردستیاں ، عالم قدس کے انفاسِ پاک، توحید ابراہیم، جمال یوسف، معجز طرازی موسیٰ جاں نوازی مسیح سب اسی لئے تھے کہ یہ متاعِ گراں شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں کام آئیں گے۔

آج کی صبح وہی جاں نواز، وہی ساعت ہمایوں ، وہی عید فرخ فال ہے۔ ارباب سیر اپنے محدود پیرایہ بیاں میں لکھتے ہیں کہ آج کی رات ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے گرے، آتش کدۂ فارس بجھ گیا،لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم، اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے۔ آتش کدۂ فارس نہیں بلکہ جحیم شر اور آتش کدہ کفر آزرکدہ گمراہی سرد ہوکر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی، بت کدے خاک میں مل گئے،شیرازہ مجوسیت بکھر گیا۔ نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کرکے جھڑ گئے۔ توحید کا غلغلہ اٹھا،چمنستان سعادت میں بہار آگئی، آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں ،اخلاق انسانی کا پرتو قدس چمک اٹھا‘‘۔

١٩/ اکتوبر ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے