حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما



 حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما
 ابوعاصم الاعظمى 

 "کچھ پیشگی باتیں" : رسالتِ عظمیٰ کے مخاطبین، آغوشِ نبوی میں پروردہ، انسانی گروہ کے لاثانی اور بے نظیر افراد، جن کی زندگی اخلاص وسرفروشی، اطاعت و فرمانبرداری، زہد و ورع، تقویٰ و استغناء، عبادت و ریاضت اور حبّ نبی سے سرشارہے، ایسی ہی پاکیزہ نفوس کا "رب العالمين "نے روئے زمین کی سب سے پاکیزہ شخصیت "رحمۃ للعالمین" کے لیے انتخاب کیا، انتخاب کرنے والی ذات "اللہ رب العزت" کی ہے، جس شخصیت کے لیے انتخاب کیا گیا، وہ ذات "خاتم النبيين" کی ہے، ظاہر سی بات ہے، ایسی "یکتا ذات" کا ایسی "پاکیزہ صفات" کے لیے جو انتخاب ہوگا، وہ أفضل البشر بعد الانبیاء ہی ہوگا، وہ جماعت صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی جماعت ہے، کلام الہی نے جن کے بارے میں "اپنی رضا" کا مژدہ سنایا، بیان نبوت نے جن کو" اصحابی کالنجوم" کا تمغہ دیا، "صحابہ کرام" کی جماعت ہی وہ برگزیدہ جماعت ہے، جو نبی اور امتی کے درمیان ایسا واسطہ ہے، جس سے دین امت تک پہنچا، اب صحابی کوئی بھی ہو، خواہ عربی ہو، یا سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کی طرح عجمی ہو، سب کے سب آسمانِ ہدایت کے تابندہ ستارے ہیں، ان کے تقدس کو صاف وشفاف رکھنا ہم سب کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے، ان کی اتباع شریعت کی اتباع ہے، ان سے محبت حقیقتاً "رسول اللہ" سے محبت ہے، ان کا تحفظ دین کا تحفظ ہے، انھیں برگزیدہ اور پاکیزہ شخصیات میں ایک خوبصورت شخصیت "کاتب وحی حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان" کی ہے، جن کے تعلق سے رافضیوں کی جماعت نے کیا کچھ کیچڑ نہیں اچھالا، اور تو اور آج کئی سالوں سے اپنے آپ کو اہلِ سنت والجماعت سے شمار کرنے والے بعض افراد نے بھی "حضرت امیر معاویہ" پر بے دریغ سب وشتم کرنا اپنا پیشہ بنالیا ہے، زیرِ نظر مضمون میں بڑے ہی سادے انداز میں "حضرت امیر معاویہ" کی شخصیت پر روشنی ڈالی جائے گی ۔{اللھم ارنا الحق حقا وأرنا الباطل باطلا}

 -حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت پر ایک نظر -

 نام و نسب: نامِ نامی "معاویہ"(رضی اللہ عنہ) بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی، کنیت :ابو عبد الرحمن، آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مل جاتا ہے، یہ نسب "حافظ ابن حزم" نے" جمہرۃ الانساب" میں لکھا ہے ۔(کتاب :کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ، ص:(٦)، مولف:متکلم اسلام مولانا الیاس گھمن صاحب)

 ولادت: حافظ ابن حجر (رحمہ اللہ) نے "الاصابہ" میں راجح قول یہ لکھا ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ)کی ولادت بعثت نبوت سے پانچ سال پہلے ہوئی،۔ (کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ، ص:(٦)

 قبول اسلام : حافظ ابن حجر نے "الاصابہ" میں "حضرت امیر معاویہ" کا اپنا فرمان نقل کیا ہے :کہ میں صلح حدیبیہ کے بعد سنہ (٧)ہجری میں عمرۃ القضاء سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا، اور "علامہ ابن کثیر" نے "البدایہ والنہایہ" میں لکھا ہے، کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے اسلام کا اظہار فرمایا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کو مرحبا کہا ۔(کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ، ص:(٧)

 مکارم اخلاق: امام ذھبی (رحمہ اللہ) نے تاریخ اسلام میں فرمایا ہے، کہ آپ (رضی اللہ عنہ) حلم و بردباری اور اپنے اعلیٰ اوصاف واخلاق کے اعتبار سے اپنے ہم عصر لوگوں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے، چنانچہ "قبیصہ بن جابر" فرماتے ہیں کہ میں نے "امیر معاویہ" کی ہم نشینی اختیار کی، میں نے ان سے زیادہ حلم و بردبار اور جہالت سے دور رہنے والا کوئی نہیں دیکھا، چنانچہ "امام ابن عساكر" نے اپنی تاریخ میں "امیر معاویہ" کا مروت کے بارے میں اپنا فرمان نقل کیا ہے:کہ مروت چار چیزوں میں ہوتی ہے، (١)اسلام میں پاکدامنی (٢)مال کا صحیح اور جائز طریقے سے حاصل کرنا، (٣)اقرباء کی رعایت کرنا، (٤)پڑوسیوں سے تعاون کرنا، (حوالہ سابقہ، ص:(٧)

 خشیت الہی : امام ترمذی (رحمہ اللہ) اپنی سنن میں ایک حدیث ذکر کرتے ہیں، کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے جلاد "شفیا اصبحی" نے "حضرت ابو ہریرہ" کے واسطے سے ایک حدیث سنائی، کہ قیامت کے دن عالم، مجاہد اور تیسرا سخی، ان سے حساب کتاب لیا جائے گا، اور یہ لوگ اپنی فاسد نیتوں کی وجہ سے اس میں ناکام ہوجائیں گے، تو ان کو جہنم کی بھڑکتی آگ میں ڈال دیا جائے گا، یہ سن کر "امیر معاویہ "بہت روئے، بہت روئے، یہاں تک کہ حاضرین مجلس کو خیال ہوا کہ شاید آپ اسی حالت میں فوت ہوجائیں گے، (حوالہ سابقہ، ص:(٨)

 {حضرت امیر معاویہ کا مقام آقائے مدنی کی نگاہ میں}

امام بخاری (رحمہ اللہ) نے تاریخ کبیر میں "عبد الرحمن بن ابی عمیرہ مزنی" کے واسطے سے لکھا ہے کہ اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایا :اے اللہ! تو معاویہ کو ہادی اور مہدی بنا، (یعنی انھیں بھی ہدایت نصیب فرما، اور ان کے ذریعے دوسروں کو بھی ہدایت نصیب فرما)، (حوالہ سابقہ، ص:(٨)

امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) نے مسند میں" حضرت عرباض "کے حوالے سے لکھا ہے کہ :اللہ کے رسول نے اللہ کے حضور "امیر معاویہ" کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا :اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرما، اور اسے عذاب سے محفوظ فرما، اسی طرح دیگر کئی محدثین نے "امیر معاویہ" کے فضائل ومناقب پر بہت ساری حدیثیں ذکر فرمائ ہیں، (حوالہ سابقہ، ص:(٩)

 کلام اللہ کی کتابت کا شرف : ساری انسانیت کی تا صبحِ قیامت رہنمائی کے لیے جس کتاب کو اولیت حاصل ہے، وہ "قرآن کریم" ہے، بالکل واضح اور بے غبار بات ہے کہ جب اس کو لکھا جائے گا، تو اس کے لیے قابلِ اعتماد اور پڑھے لکھے اشخاص کا تقرر ہوگا، چنانچہ دیگر محدثین کی طرح "امام ہیثمی" نے بھی اپنی کتاب "مجمع الزوائد" میں "عبداللہ بن عمر" کے حوالے سے لکھا ہے کہ "امیر معاویہ "آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی موجودگی میں کلام اللہ شریف کی کتابت فرمایا کرتے تھے ۔ (حوالہ سابقہ، ص:(٩)

 معاویہ سے دوری قرآن سے دوری : چوں کہ قرآن مجید کی بسم اللہ ہی "حضرت امیر معاویہ "سے شروع ہوتی ہے، لہذا اگر کوئی شخص "امیر معاویہ" سے دور بھاگے تو وہ قرآن سے دور بھاگ رہا ہے، (اللہ اس کو ہدایت دے)

 غزوات میں شرکت : علی بن برہان الدین حلبی (رحمہ اللہ) نے "سیرت حلبیہ" میں لکھا ہے، کہ "حضرت امیر معاویہ" نےغزوہ حنین میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ مل کر معرکہ لڑا، اللہ کے نبی نے آپ کو ایک سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی بھی عنایت فرمائ، فتح مکہ سنہ (٨)ہجری میں پیش آیا، اس کے بعد غزوہ طائف اور غزوہ حنین میں" امیر معاویہ" آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہم رکاب تھے۔ (حوالہ سابقہ، ص:(١٠)

 سلسلہ فتوحات : آپ کی حکمت عملی اور جواں مردی کے بیسیوں واقعات کتبِ تاریخ میں موجود ہیں، اپنی مدبرانہ سیاسی سوچ اور حکمتِ عملی کی بدولت آپ نے تقریباً (٦٤)لاکھ مربع میل پر حکمرانی کی، کئی ملکوں کے ملک، شہروں کے شہر، جزیروں کے جزیرے، قلعوں کے قلعے اور علاقوں کے علاقے آپ کے دور ہی میں فتح ہوئے، اور وہاں اسلامی ریاست کو فروغ دیا گیا، جن میں سے صرف چند نام یہ ہیں : بلاد افریقہ، بلاد سوڈان، قبرص، طرابلس، قیروان، جلالا،قرطاجنہ، قلعہ کمخ، قسطنطینیہ، جزیرہ ارواد، جزیرہ روڈس وغیرہ، باقی خراسان، ترکستان، کابل، بخارا، سمر قند اور بلخ وغیرہ پر معرکے جاری رہے، (حوالہ سابقہ، ص:(١١)

 دیگر سماجی خدمات : مختصر یہ کہ آپ نے کئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا، مثلاً :

(١) تجارت کے فروغ کے لیے آپ نے بیت المال سے بغیر نفع اور سود کے قرضے جاری کیے، اور اس کے لیے بین الاقوامی معاہدے کیے،

(٢) انتظامیہ کو منظم کیا اور اسے عدلیہ میں مداخلت سے روکنے کا حکم جاری کیا،

(٣) دمشق میں سب سے پہلا اقامتی ہسپتال قائم کیا،

(٤) خانہ کعبہ کے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم نامہ جاری کیا،

(٥) سب سے پہلے اسلامی بحری فوج قائم کی،

(٦) بحری جہاز کے کارخانے بنائے، عالمی سپر پاور رومی بحریہ کو شکست دی،

(٧) قانون کی طرح طب اور علم الجراحات کی تعلیم کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا،

(٨) اسی طرح فن خطاطی میں خط دیوان کے موجد آپ ہیں،

 (حوالہ سابقہ، ص:(١٧)


 {امیر معاویہ کے تعلق سے معاندین کی خامہ فرسائیوں کا کچھ نمونہ اور اس کا ازالہ}


 پہلا اعتراض : معاندین کا یہ اعتراض ہے کہ "امیر معاویہ" باغی تھے، انھوں نے حضرت علی کے خلاف بغاوت کی؟

 جواب : دراصل یہ مسئلہ مشاجرات صحابہ میں سے ہے، اور اس تعلق سے (١) امام نووی رح فرماتے ہیں:

ومذہب اہل السنۃ والحق احسان الظن بھم والامساک عما شجر بینھم۔ (المنہاج لشرح مسلم ابن الحجاج ١٨/١٩،کتاب الفتن) 

ترجمہ:حق اہلسنت کا مذھب صحابہ کے بارے میں حسن ظن رکھنے اور انکے درمیان ہونے والے واقعات سے چشم پوشی کرناہے

(٢) شارح بخاری ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں

واتفق اھل السنۃ علی وجوب منع الطعن علی احد من الصحابۃ بسبب ما وقع لھم (فتح الباری کتاب الفتن، ١٣/٣٧)

صحابہ کے درمیان ہونے والے واقعات کی بناء پر کسی بھی صحابی پر طعن و تشنیع سے بچنا واجب ہے اس پر اہل سنت کا اتفاق ہے

(٣) علامہ ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں:

وکذلک نومن بالامساک عماشجر بینھم (فتاویٰ ابن تیمیہ ٣/٤٠٦)

اسی طرح ہم صحابہ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کے سلسلہ میں خاموش رہنے پر ایمان رکھتے ہیں۔

(٤)علامہ ذھبی رح فرماتے ہیں:

کما تقرر الکف عن کثیر مما شجر بینھم (سیر اعلام النبلاء، ٩٢/١٠)

جیساکہ صحابہ کے درمیان ہونے والے بہت سے واقعات کے سلسلہ میں خاموشی اختیار کرنا طئے ہے

ائمہ اہل سنت کا ہمیشہ معمول رہاہے کہ وہ عمومی طور پرمشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں خاموشی اختیار کرتے تھے اور اپنی زبان و قلم کو مشاجرات صحابہ کے تذکرہ کے لئے جنبش نہیں دیتے تھے

(٥) امام شافعی رح سے جب مشاجرات صحابہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا

تلک دماء طھر اللہ ایدینا عنھا فَلِمَ نلوث السنتنابھا؟  (شرح فقہ اکبر لملا علی قاری، ص:٣٠٩)

کہ وہ ایسے جانیں ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں کو ان سے بچائے رکھا پھر کیوں ہم اپنی زبانوں کو ملوث کریں؟

(٦) امام احدبن حنبل رح سے پوچھا گیا کہ

ماتقول فیما کان من علی ومعاویہ ؟ (السنۃ لابن الخلال، ٦٥٩/٣)

کہ تم علی رض ومعاویہ رض کے سلسلہ میں کیا کہتے ہو ؟تو آپ نے فرمایا کہ

مااقول فیھا الاالحسنی (حوالہ سابقہ )

کہ میں خیر کے سوا کچھ نہ کہوں گا

ایک موقع پر فرمایا کہ

من انا؟ اقول فی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حوالہ سابقہ )

کہ میں ہوتا کون ہوں ؟ جو رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے بارے میں کچھ کہوں ؟

 دوسرا اعتراض : ایک مشہور اعتراض امیر معاویہ کی شان میں یہ کیا جاتا ہے، کہ معاویہ کے عہد میں ایک نہایت مکروہ بدعت یہ شروع ہوئی، کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں برسرِ اقتدار حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کی بوچھار کرتے تھے، حتیٰ کہ مسجد نبوی میں منبر رسول پر عین روضہ کے سامنے حضور کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علی کے اہل خانہ اپنے کانوں سے سنتے تھے،

 جواب : اس کے جواب میں شیخ الاسلام "مفتی تقی عثمانی صاحب" رقم طراز ہیں، کہ ہم نے بے شمار کتابیں بنظر غائر دیکھا، لیکن کسی بھی کتاب میں یہ کہیں نہیں ملا، کہ "امیر معاویہ" خود "حضرت علی" پر بر سرِ منبر سب وشتم کرتے تھے، حتیٰ کہ اس تعلق سے کوئی گری پڑی روایت بھی نہیں ملتی، اس کے برعکس اس جستجو کے دوران ایسی متعدد روایات ہمیں ملیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ "امیر معاویہ" "حضرت علی" سے اختلاف کے باوجود ان کا کس قدر احترام کرتے تھے، رہی بات یہ کہ "امیر معاویہ" کے گورنر ان کے حکم سے ایسا کرتے تھے، تو تحقیق کے مطابق یہی پتہ چلتا ہے کہ صرف دو گورنر "حضرت علی" کی مذمت کرتے تھے، ایک حضرت مغیرہ بن شعبہ اور دوسرے مروان بن حکم، اس سے آخر یہ کیسے لازم آئیگا، کہ "امیر معاویہ" کے تمام گورنر خود معاویہ کے حکم سے ایسا کرتے تھے، یہ الزام تو ایسا ہے، کہ اسے شاید کسی موضوع روایتوں کے مجموعے سے بھی ثابت نہ کیا جاسکے، اور اگر غور کیا جائے، تو واضح ہوجائے گا، کہ یہ دونوں گورنر بھی "حضرت علی" کی ذات پر کوئی شتم نہیں کرتے تھے، بلکہ قاتلین عثمان کے لیے بددعا کرتے تھے، جسے شیعہ راویوں نے "حضرت علی" پر لعن طعن سے تعبیر کردیا۔ (حضرات صحابہ پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات، ص:(٢٣ تا ٣٠) از افادات :مفتی تقی عثمانی صاحب

 تیسرا اعتراض : امیر معاویہ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انھوں نے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیوں کیا، جب کہ وہ اس کا اہل نہیں تھا، یہ چیز صرف اور صرف معاویہ کی مفاد پرستی تھی۔

 جواب: جمہور امت کا موقف اس بارے میں یہ ہے کہ "امیر معاویہ" کے اس فعل کو تدبر رائے کے لحاظ سے تو غلط کہا جا سکتا ہے، لیکن ان کی نیت پر حملہ کرنے اور ان پر مفاد پرستی کا الزام عائد کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ "امیر معاویہ" کا یہ اقدام واقعے کے اعتبار سے سو فیصد درست اور نفس الامر میں بالکل صحیح تھا، یا انھوں نے جو کیا وہ بالکل ٹھیک کیا، ہاں! اتنا ضرور کہتے ہیں :کہ وہ اپنے اس اقدام میں نیک نیت تھے، انھوں نے جو کچھ کیا، وہ نیک نیتی کے ساتھ اور شرعی جواز کی حدود میں رہ کر کیا،  *(مضمون لمبے ہونے کی بابت تفصیل سے قاصر ہوں)

تفصیل کے لیے دیکھیے :حضرات صحابہ پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات، ص:٣٨ تا ٤٩،از افادات :مفتی تقی عثمانی صاحب *

 خلاصہ کلام : ساری باتوں کا حاصل یہی ہے کہ "حضرت امیر معاویہ"  بہت ساری گونا گوں صفات کے حامل ایک جلیل القدر صحابی تھے،سیاسی بصیرت میں آپ  یکتا تھے ؛مگر تاریخ کے ساتھ ناانصافی  کرنے والوں نےحقیقت کی یافت مشکل بنا دی،ان کی سازشوں نے ان کے حسن تدبیر پر چادر ڈال دیا ،بے بنیاد الزامات لگاکر ان کے حسن معاملے کو پردۂ خفا میں ڈال دیا ؛لیکن اھل سنت نے ہر دور میں ان کا دفاع کیا ،اسے اسلامی خدمات کا ایک اہم جز سمجھا ،اللہ ہمیں بھی اس خدمات کے لیے قبول فرمائے۔۔۔اور صحابہ کا تقدس ہمارے قلوب پر نقش فرماۓ۔۔۔اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه، آمين يارب العالمين


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے