محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے


محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

پورا عالم کفر اور خصوصاً یہود ونصاریٰ اور ہنودو مشرکین روز بروز اسلام کے وسیع ہوتے دائرے کو دیکھ کر ہمہ وقت پیچ وتاب کھاتے رہتے ہیں ، اور ان کا یہ اضطراب اور غم و غصہ نیا نہیں ہے بلکہ یہ ابتداء اسلام ہی سے اسلام اور رسالت مآب ﷺ کے دشمن ازلی بنے چلے آرہے ہیں ۔

 ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 

 چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی 

اور ہمہ وقت اس تگ ودو میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح آپ کے دامنِ مبارک پر چھینٹے اڑاکر اس کو داغدار کریں تاکہ کسی بھی طرح اسلام کے شیوع کو روک سکیں اور یہی وجہ ہے کہ وقت بوقت مسلسل ایسے مکروہ واقعات اورمنظم و طے شدہ دلخراش حادثات سامنے آتے رہتے ہیں جس میں یہ بدبخت و بد باطن اور خبیث ٹولے رسالت مآب ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی اور ہرزہ سرائی کرکے اپنی روسیاہی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے امام الانبیاء، سید المرسلین، شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین ، فخر موجودات، رسالت مآب ﷺ کو جس بلند وبرتر مقام سے سرفراز فرمایا ہے اس سے نہ صرف ہر صاحب ایمان بلکہ ہر فردِ بشر بخوبی واقف ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی پاک ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’ ورفعنا لک ذکرک ‘‘ اے محبوب! ہم نے آپ کے آوازہ کو بلند کیا ہے ، چنانچہ اس پوری کائنات میں خالق ِ کائنات کے بعد مخلوق میں سے اگر سب سے زیادہ کسی کا ذکر خیر کیا جاتا ہے تو لاریب وہ ذات صرف اور صرف رسالت مآب ﷺ کی ذات اقدس ہے۔

 کرۂ ارض پر موجود ہر صاحب ایمان کے کلمۂ شہادت میں آپ کا نام ، موذن کی اذان واقامت میں آپ کا نام، نمازی کے تشہد و درود میں آپ کا نام ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر مسلمان کے سینے میں اور اس کی زبان پر آپ کا نام نامی بصد ادب و احترام جاری و ساری رہتا ہے۔

 امام بخاری اور مسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،  عَن أَنَسِ بنِ مَالِكٍ, قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صلى الله عليه وسلم " لاَ يؤمِنُ أَحَدُكُم حَتّى أَكُونَ أَحَبّ إِلَيهِ مِن وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنّاسِ أَجمَعِينَ ".

 ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا یہانتک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور پوری انسانیت سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

امام خطابی نے حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں طبعی محبت مراد نہیں ہے بلکہ اختیاری محبت مراد ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ میری محبت کی تصدیق اسی وقت ہوگی جب کہ اپنے نفس کو میری اطاعت وفرمانبرداری میں فنا کردے۔ اور میری رضا کو اپنی خواہشات پر ترجیح دے اگرچہ اس میں ہلاکت ہو۔ 

نیز شارح بخاری علامہ ابن بطال اور قاضی عیاض وغیرہ نے محبت کی تین قسمیں (محبت اجلال، محبت شفقت اور محبت استحسان) بیان کی ہیں۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو تینوں قسموں میں جمع کرے۔

آگے علامہ ابن بطال حدیث شریف کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جس نے ایمان کو کامل کرلیا تو اسے یہ بات معلوم ہوگی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق اس کے والد، بیٹے اور تمام لوگوں کے حق سے بڑھا ہوا ہے۔


 اسی لئے کہا گیا ہے کہ حب نبویؐ کے بغیر ایمان میں کمال حاصل ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے اور جس کو نبیؐ سے جتنی زیادہ محبت ہوگی وہ اتنا اپنے ایمان میں کامل ہوگا۔ گویا محبت رسولؐ ہی ایمان کی کسوٹی ہے۔ جس کو رسولؐ سے محبت نہیں اس کے ایمان کا دعویٰ جھوٹا ہوگا اورایسا ایمان اللہ کے پاس قبولیت کا مرتبہ حاصل نہیں کرسکے گا۔ مشہور شاعر اسمعیل میرٹھی نے کیا خوب کہا ہے :

 محمد ؐ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے 

 اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے 

اگر ہم صحابہ کرامؓ، تابعین اور اپنے اسلاف کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ یہ نفوس قدسیہ عشق رسولؐ میں اتنے ڈوبے ہوئے تھے کہ آپ کی خاطر مرنے کٹنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کفار کے اشعار کا جواب دیا کرتے تھے اور حضور نے ان کو مسجد نبوی کے منبر پر جگہ دیدی تھی۔ حضرت علیؓ ہجرت کے وقت اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے بستر مبارک پر سوگئے تھے۔ صحابہ کرامؐ بے سروسامانی کی حالت میں حضور کے ایک اشارے پر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے، یہاں تک کہ جب کفار نے اسلام کو مٹانے کی خاطر جنگ کا اعلان کیا تو تھوڑے سے صحابہ کرام اپنے نبی کریم کی محبت میں کفار کے ہزاروں لشکر سے لڑ پڑے۔ اسی طرح ہر صحابیؓ کی زندگی عشق رسول میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ان کی زندگیوں سے ہم کو یہی درس ملتا ہے کہ ہر مسلمان کیلئے لازم ہے کہ محبت رسولؐ کو اپنا وطیرہ بنالیں۔

 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عشق نبویؐ کی دولت نصیب فرمائے کہ یہی وہ دولت ہے جس کے ملنے سے سارے جہاں کی دولتیں حاصل ہوجاتی ہیں۔ 

علامہ اقبال فرماتے ہیں :

 کی محمدؐ سے وفاتونے توہم تیرے ہیں 

 یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے