علماء دیوبند اورعشق رسول قسط اول


علماء دیوبند اورعشق رسول قسط اول

از:  محمدساجد سدھارتھ نگری

جامعہ فیض ہدایت رام پور (یوپی)

سابق رکن مدنی دارالمطالعہ دارالعلوم دیوبند

رابطہ👇

9286195398

mdsajidqasmi869@gmail.com

 اسلامی کلینڈر کے لحاظ سے ربیع الاول سال کا تیسرا مہینہ ہے، اسی ماہ مبارک میں گلشن ہستی کا گل سر سبد ، بے کسو ں کا کس،  بے بسوں کا بس، یتیموں کا والی، غلاموں کا مولی،ٰ وجہ تخلیق کائنات، کشتی انسانیت کے کھیون ہار، سسکتی اور دم توڑتی ہوئی امیدوں کا آخری سہارا ، دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا ، خدا کے پیارے حبیب نبیوں کے نبی اور پیغمبروں کے امام، ہم سب کے آقا و مولی ، شفیع روز جزا حضور پر نور خاتم الانبیاء و المرسلین  حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔آپ کی آمد  ظلم کے شکنجے میں کسے اپنے حقوق سے محروم انسانوں کے لئے مسرتوں کی نوید اور بحر ظلمات میں ہچکولے کھا رہے مایوس مسافروں کے لئے ایک سفید جزیرہ تھی۔

 کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

حضور آئے تو سر آفرینش پاگئی دنیا۔

اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آ گئی دنیا۔

 بجھے چہروں کا زنگ اترا ستے چہروں پہ نور آیا۔

 حضور آئے تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا۔

 وہ آئے جن کے آنے کی  زمانے کوضرورت تھی۔

 وہ آئے جن کی آمد کے لیے بے چین فطرت تھی۔

 وہ آئے نغمہء داؤد میں جن کا ترانہ تھا۔

 وہ آئے گریہ یعقوب میں جن کا فسانہ تھا۔

 وہ آئے جن کی خاطر مضطرب تھی وادی بطحاء۔

 وہ آئے جن کے قدموں کے لئے کعبہ ترستا تھا۔

 وہ آئے جن کو حق نے گود کی خلوت میں پالا تھا۔

وہ آئے جن کے دم سے عرشِ اعظم پہ اجالا تھا۔ 

بلا شبہ اگر اسلامی دستور کسی کی یوم ولادت پر جشن کی اجازت دیتا تو عالم اسلام میں یومِ ولادتِ رسول انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتا کیونکہ منشی تقدیر نے آپ ہی کی وجہ سے اس کائنات کے گیسوئے برہم کو آراستہ کیا ہے۔ ہر چند کہ اس مفہوم کو بیان کرنے والی حدیث موضوع ہے تاہم مضمون بالکل درست ہے کیونکہ یہ نیلگوں افلاک اور اس پر  جگمگاتے ہوئے چاند اور سورج چمکتے ہوئے حسین ستارے دمکتے کہکشاؤں کا جھر مٹ یہ دریا اور اونچے اونچے پہاڑ بل کھاتی ہوئی ندیاں اور بہتے ہوئے آبشار چٹختے ہوئے غنچہ اور کھلے ہوئے پھول غرضیکہ کتاب فطرت کا اک اک ورق محض آپ کی وجہ سے لکھا گیا۔ اور گلشن ہستی کی ساری تپش آپ ہی کے دم قدم سے قائم اور دایم ہے۔ 

کتاب فطرت کے سر ورق پہ جو نام احمد رقم نہ ہو تا۔ یہ نقش ہستی ابھر نہ سکتا وجود لوح قلم نہ ہوتا۔

 شاعر مشرق نے کہا ہے:

 ہو نہ یہ نام تو کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو۔ 

چمن دہر میں بلبل کا ترنم بھی نہ ہو۔

 یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو۔ بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو۔

 خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے۔

 نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے۔

 اقبال کے ان اشعار کے نوک و پلک سے نکلتے ہوئے عشق کے شرارے اور سطر سطر سے پھوٹتا ہوا محبت کا چشمہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ امت مسلمہ کی کامیابی کا دارومدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور کامل پیروی میں مضمر ہے ؛کیوں کہ:

اس کا احسان ہے اس کا فیضان ہے بزم ہستی کو اس نے سنوارا بہت۔

 آ ج اشکوں سے میں نے محمد لکھا پھر اسے اپنے ہونٹوں سے چوما بہت۔

 تو درودوں میں ہے تو سلاموں میں ہے تو اذانوں میں ہے تو نمازوں ہے۔

 تیرا ثانی جہاں میں نہ مجھ کو ملا میں نے تاریخ عالم میں ڈھونڈھا بہت۔

 تیری تعریف میں جو بھی میں نے لکھا تیری توصیف میں جو بھی میں نے کہا۔

 اس کو سن کر اگر اے مسیحاء جاں مسکرادے ذرا سا تو اتنا بہت۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے:

 لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔

 تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے نزدیک میں اس کے والدین او ر اولاد سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔( بخاری شریف)

 آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرتِ عمر ابنِ خطاب رض جیسے جلیل القدر اور عظیم الشان صحابی کو اپنی کامل محبت کے بعد ہی پکا مؤمن ہونے کی بشارت عطا فرمائی۔( بخاری شریف)

 کوئی کیا جانے کیا تم ہو خدا جانے کہ کیا تم ہو۔

  بس اتنا جانتا ہوں محترم بعد از خدا تم ہو۔

 رسالت کو شرف ہے ذات اقدس کے تعلق سے۔ 

نبوت ناز کرتی ہے کہ ختم الانبیاء تم ہو۔ 

نہ یہ طاقت زباں میں ہے نہ یہ قدرت بیاں میں ہے۔ خدا جانے تو جانے کوئی کیا جانے کہ کیا تم ہو۔

 نیز دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ۔ 

ہم سب کو مانتے ہیں مگر مصطفی کے بعد۔

 حب رسول ایمان کی جان اور اطاعت رسول ایمان کی شان ہے۔ قرآن وحدیث کا مطالبہ اور کلمہ طیبہ کا تقاضہ ہے۔ 

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے۔

 اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے۔

 اسی لیے دور  اول سے تا ہنوز نبی کے عشاق کا ایک حسین تسلسل ہے جنہوں نے بوقت ضرورت نبی کی ناموس پر جان جان آفریں کے سپرد کر کے دنیا تک بآسانی یہ پیغام پہنچا دیا کہ صہبایے عقیدت کے پیمانے ہزاروں ہیں، محبوب رسالت کے مستانے ہزاروں ہیں۔ گستاخ زبانوں کو ہم کاٹ کے رکھ دیں گے۔ دنیا میں محمد کے دیوانے ہزاروں ہیں۔ خواہ وہ مسیلمہ کے سامنے حبیب بن زید بن عاصم  کی للکار اور بے انتہا جرأت وہمت کے اظہار کے نتیجے میں جام شہادت سے سرشار ہونا ہو یا پھر موجودہ زمانے کے کسی مدعی نبوت کو گولیوں سے بھوننے والا کوئی سرفروش۔ یا پھر نبی کی شان میں گستاخی کے مرتکب کو واصل جہنم کرنے والا کوئی فرانسیسی نوجوان سب اسی حسین سلسلہ کی سنہری کڑیاں ہیں۔

جنہوں نے اپنے خون کے ایک ایک قطرے سے عشق رسول کی ایسی قابل فخر تاریخ لکھی ہے کہ بلاشبہ امت مسلمہ کے لیے اس پر نازاں ہونا بالکل بجا ہے۔ ان کی محبت اور وارفتگی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شیفتگی و جاں نثاری کا جذبہ عالم سے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے۔

جو جان مانگو تو جان دین گے جو مال مانگو تو مال دیں گے۔

 مگر ہم سے نہ ہو سکے گا کہ نبی کا جاہ و جلال دیں گے۔

 نبی تو نبی ہیں میرے آقا سے منسوب کسی بھی شی کی اہانت ہمارے مذہب میں قابل گردن زدنی جرم ہے۔ شرابی ہوں مگر جب بات آجائے گی آقا کی۔ مرے ہاتھوں میں ساغر تم نہیں تلوار دیکھو گے۔ یوں تو ہر دور ناموسِ رسالت کے لیے وقت کی تند ہواؤں سے بغاوت کرنے اور نام محمد پر اپنا سب کچھ قربان کرنے والے موجود رہے ہیں تاہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرون مشہود لہا بالخیر کے بعد من حیث الجماعت اگر کسی نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت  کا اعلیٰ نمونہ بن کر تاریخ میں اپنی جگہ بنائی ہے تو وہ ما انا علیہ واصحابی کے پیکر مجسم حضرات علماء دیوبند کی جماعت ہے۔ عشقِ رسول جن کا وظیفہ حیات اور حب نبی کریم صلی اللہ علیہ جن کا طرہ امتیاز ہے۔ اتباع پیغمبر جن کی شناخت اور عظمت مصطفیٰ اور توقیر پیغمبر آں جن کا وطیرہ خاص ہے۔  اس قافلے کا سالار اعلیٰ اسی خوشگوار جذبہ کا اظہار کرتے ہوئے یوں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے:

جیوں تو ساتھ سگان حرم کے پھرتا رہوں.

 مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مور ومار۔ 

کہیں مدینہ والے کے احترام میں یوں لب کشاں ہوتا ہے کہ:

سگان مدینہ بھی بہتر ہیں ہم سے۔

 کہ حاصل ہے ان کو قرار مدینہ۔

عشقِ کی دبی ہوئی چنگاری جب شعلہ جوالہ بن کر محبوب کی جدائی پر اشک بار کرتی ہے تو اسی قافلے کا ایک فرد مچل کر یوں عرض کرتا ہے:

 اے باد صبا مجھ کو سرمے کی ضرورت ہے۔

  کچھ خاک اڑا لانا دربار محمد سے۔ 

اور بے قراری جب حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو اسی جماعت کا ایک گوہر نایاب فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ اپنی بے قراری کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:

بڑھاپا ہے چلا ہوں سوئے طیبہ۔

لرزتا لڑکھڑا تا سر جھکائے۔ 

گناہوں کا ہے سر پر بوجھ بھاری۔ 

پریشاں ہو ں اسے اب کون اٹھائے۔ 

اور کبھی جمال جہاں آراء کی ذرہ نوازی کو اپنی زندگی کی پونجی اور سرمایہ حیات جان  کر بہشت بریں کی حوروں سے تصور میں حضرت شیخ الہند یوں گفتگو فرماتے ہیں:

اے جنت تجھ میں حور و قصور رہتے ہیں۔ 

میں نے مانا ضرور رہتے ہیں۔ 

مرے دل کا طواف کر جنت۔

  میرے دل میں حضور رہتے ہیں۔ 

ارد گرد کے حالات جب ہند میں جینا دوبھر کر دیتے ہیں تو پھر اسی جماعت کا کوئی رومی بے قرار ہوکر یو گویا ہوتا ہے:

 نبی اکرم شفیع اعظم دکھے دلوں کا پیام لے لو۔

 تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو 

اور جب یہ یقین سا ہونے لگتا ہے کہ شاید گنبد خضریٰ کے مکین ہم سے کچھ خفا ہیں تو تڑپ کر یہ اپیل کرتے ہیں:

جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا۔

 شاید حضور ہم سے خفا ہیں منا کے لا۔

 بارگاہ تھانوی  کا خوشہ چیں کس لطیف پیرائے میں آپ سے عشق ومحبت کا اظہار کر گیا پڑھیے اور ذوق کو تسکین دیجیے!

چمن نے آمد خیر الورٰی کی جب خبر پائی

 پیے تعظیم خوشبو پھول سے باہر نکل آئی۔ 

(جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے