علماء دیوبند اورعشق رسولﷺ قسط دوم


علماء دیوبند اورعشق رسولﷺ قسط دوم

از:  محمدساجد سدھارتھ نگری

جامعہ فیض ہدایت رام پور (یوپی)

سابق رکن مدنی دارالمطالعہ دارالعلوم دیوبند

رابطہ👇

9286195398

mdsajidqasmi869@gmail.com


علماء اہل حق علماء دیوبند کا ہر فرد حب نبوی سے سرشار ہے ، اس جماعت کا ہر شخص دریائے  عشقِ محمدی کا شناور اور اس شعر کا حقیقی مصداق ہے:

 آپ کا عشق مری شان رسول عربی۔

 آپ پر جاں مری قربان رسول عربی۔ 

اس قافلے کے میر کارواں قاسم العلوم والخیرات حجہ اللہ فی الارض برہان الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کی حیات طیبہ سے واقف کاررسولﷺکے تیئں ان کی عقیدت ومحبت سے ہرگز بے خبر نہیں رہ سکتا۔ ہند کی ساری زندگی محبوب کی جدائی میں تڑپتے گزرتی اور بار بار یہ خیال آتا۔ اے کاش! کبوتر ہی ہم بن کے رہے ہوتے۔ اس گنبد خضریٰ کے پر نور مناروں میں۔ ہرچند کی تنگ دامانی حاضری کی راہوں میں ہمیشہ بچھ جاتی؛ تاہم آپ عشقِ کے پیروں سے اسے روند کر ، شوق کے پروں سے پرواز کر ، دیار حبیب میں حاضر ہو ہی جاتے۔ گویا کہ:

  مزاج عقل تو زاد سفر کی دھن میں رہا۔ 

جنون شوق مدینہ کی سیر کر آیا۔

 جو تیرے شھر میں پہونچا وہ معتبر ٹہرا۔

 جو تیرے شھر سے لوٹا وہ خوب تر آیا۔

زیارت اور حاضری کے آداب تو کوئی انہیں سے سیکھے یہ انہیں کا پیغام تھا کہ:

 تم اپنے دل میں مدینے کی آرزو رکھنا۔

 پھر ان کا کام ہے جذبے کی آبرو رکھنا۔

 بہت ضروری ہے دیدارِ مصطفیٰ کے لیے۔ 

جگر کے خون سے آنکھوں کو با وضو رکھنا۔

 اور ان کا عقیدہ تھا:

مرے محبوب تجھے تیرے تقدس کی قسم۔

 با وضو ہوکے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ 

جب نظر خاک مضافات مدینہ آئے۔

 تب بصارت کو بصیرت کا قرینہ آئے۔ 

زمزم عشق سے آنکھوں کا وضو لازم ہے۔

 اس سے پہلے کہ در شاہ مدینہ آئے۔

  آپ جب وادی بطحاء اور دیار جان بہاراں کے قریب پہنچتے تو حوصلوں کو پر لگ جاتے،  بوڑھی ہڈیوں میں جان آ جاتی،  مصطفیٰ جان رحمت کے شوق وصال میں دوڑ لگا دیتے،ہمیشہ یہ خیال دامن گیر رہتا:

سنبھل کر پاؤں رکھنا حاجیوں شھر مدینہ میں۔

 کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بے کار ہوجائے۔ 

 اور ہر بار اس آرزو کے ساتھ دیار حبیب کی پاکیزہ گلیوں میں داخل ہوتے:

تمنا ہے کہ گلزارِ مدینہ اب وطن ہوتا۔ 

وہاں کے گلشنوں میں کوئی اپنا بھی چمن ہوتا۔ 

بسر اے کاش  اپنی زندگی دیار قدس میں ہوتی۔ 

وہیں جیتا وہیں مرتا وہیں گور وکفن ہوتا۔

 اور ساقی کوثر کے احترام میں مدینے میں داخل ہونے سے پہلے بیر علی پرنعلین کو نکال کر اپنے ہاتھوں میں لے لیتے؛ کیونکہ یہ اس کی نگری تھی ملائکہ بھی جس کے دربار میں سر بخم اور جنید و بایزید بھی چشم نم حاضری دیا کرتے ہیں۔ 

شوق نیاز وعشق کے سانچے میں ڈھل کے آ۔ 

یہ کوچہ حبیب ہے پلکوں پہ چل کے آ۔ 

امت کے اولیاء بھی ادب سے ہیں دم بخود۔ 

یہ بارگاہ سرور دیں ہے سنبھل کے آ۔  

وہ جس کے ہاتھوں کو فرشتے بوسہ دیں اور جس کے جوتے کا تسمہ شہنشاہوں کے تاج سے بہتر ہو وہاں بذریعہ قدم نہیں بلکہ سر کے بل گھسٹ کر ہی حاضری دی جاتی ہے۔

 ترے نعلین مبارک سے رسول عربی۔

 بیضہ بوم جو ٹوٹے تو ہما پیدا ہو۔

عقل کہتی کہ کنکریلی زمینوں میں ننگے پاؤں چلنا خطروں سے کھالی نہیں عشقِ کہتا خطروں سے کھیلنا ہی محبت کی معراج ہے۔

تری جستجو میں جو آئے تو مجھے موت بھی ہے عزیز تر۔

تری آرزو میں ملے اگر مجھے زندگی بھی عزیز ہے 

اور

  اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں۔ 

اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں۔

 کانٹے مرے تلوؤں کے لیے لالہ وگل ہیں.

 گلشن ہے مرے واسطے صحرائے محمد۔ 

کب سے در اقدس کو ہیں بے تاب نگاہیں۔

  کب سے مرے دل میں ہے تمنائے محمد۔

 دانش مری آداب محبت پہ نظر ہے۔ 

قبلہ ہے مرا نقش کف پائے محمد۔ 

 پیروں کو لہو لہان کر نا گوارا تھا مگر اس خیال سے کہ کہیں محبوب کے نقش کف پا  (فداہ روحی وجسدی وعرضی) پر قاسم کا گستاخ جوتا نہ پڑ جائے  برہنہ پا ہی مدینہ منورہ زادہا اللہ شرفا وعظما میں  داخل ہوتے۔ پوری زندگی پیروں میں ہرے رنگ کا جوتا محض اس لئے نہیں ڈالا کیونکہ جس گنبد کے سائے میں محبوب کائنات آرام فرما ہیں اس کا رنگ ہرا ہے۔ جس کا دل محبت سے اس قدر لبریز ہو ظاہر ہے کہ اطاعت بھی اس کی مثالی ہوگی؛ کیونکہ المحب لمن یحب یطیع۔

 محبت تجھ کو آداب محبت خود سکھا دے گی۔

 ذرا آہستہ آہستہ ادھررجحان پیدا کر۔ چنانچہ جب انگریزوں کی طرف سے آپ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا تو خیر خواہوں کے کہنے پر آپ روپوش تو ہوگئے مگر محض تین دنوں کی روپوشی کے بعد باہر نکل آئے، لوگوں نے گرفتاری کے خیال سے بصد اصرار مزید روپوشی پر آمادہ کرنا چاہا مگر آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ حضرتِ نبی کریمﷺ اپنے یار غار کے ساتھ صرف تین یوم ہی روپوش رہے اس لیے آپ کی اتباع کا تقاضا ہے کہ روپوشی کو طویل نہ کیا جائے( سوا نح قاسمی ج 2) 

اللہ اکبر جب جان کے لا لے پڑے ہوں مقتل کو آراستہ کردیا گیا ہو ، تختہ دار اور پھانسی کے پھندے تک رسائی میں بس کچھ لمحے درکار ہوں، ایسے میں اتباع سنت کا یہ جذبہ تو بس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد علماء دیوبند کے ہی حصہ میں آیا ہے۔

 یہ سمندر ہے کنارے ہی کنارے جاؤ۔

 عشق ہر شخص کے بس کا نہیں پیارے جاؤ۔

 یوں تو مقتل میں تماشائی بہت آئیں گے۔

 آؤ اس وقت کہ جس وقت پکارے جاؤ۔

 اور پکارے جانے پر ان سعید روحوں نے ہمیشہ لبیک کہا۔ مقتل کی طرف آتے اور تیز قدم آتے۔ آواز تو دی ہوتی ہم تیری قسم آتے۔

 حضرت مولانارشید احمد گنگوہی اورعشقِ رسولﷺ

فقیہ النفس دارالعلوم دیوبند کے سابق سر پرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رح کو حضور پاک ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ جب کوئی مدینہ جاتا تو اس فرماتے کہ کچھ لانا یا نہ لانا روضہ مبارک کی خاک ضرور لانا! پھر بڑے احترام سے قبول فرماتے اور  اسے سرمہ دانی میں ملاکر آنکھوں میں لگاتے۔ مدینہ کی جو بھی شی آپ کو موصول ہوتی اس تبرک کو کسی بیش قیمت خزانہ کی طرح اہل تعلق کے درمیان تقسیم فرماتے اور کہتے کہ اسے میرے محبوب کے شھر کی ہوا لگی ہے۔

 اے باد صبا مجھ کو سرمے کی ضرورت ہے۔

 کچھ خاک اڑا لانا دربار محمد سے۔

دوران درس ایک مرتبہ بارش ہونے لگی طلبہ اپنی اپنی کتابیں لے کر جوتے چھوڑ کر سایہ میں چلے گئے دنیا کا یہ مایہ ناز محدث اور عظیم الشان فقیہ اپنے رومال میں طلبہ کے جوتے محض اس لئے بھرنے لگا کہ یہ لوگ میرے محبوب کی حدیث میں مشغول ہیں۔

 آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر۔

 اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر۔

 بات چل رہی تھی اس قافلے کی، عشق مصطفی ﷺجس کی رگ وپے میں پیوست اور سرشت میں داخل ہے ،نفس نفس میں حب رسول کی چاشنی اور دل کی ہر دھڑکن رسول اللہ کے پاکیزہ یادوں سے سر شار  ہیں تو دور آخر کے، لیکن دیکھنے والوں کو دور اول کا گمان ہوتا ہے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے رخ روشن پر شیدا حضور پر نور کے پاکباز اصحاب کے قافلے کے بچھڑے ہوئے لوگ ہوں جن کا کردار وعمل دیکھ کر دل گواہی دینے لگتا کہ اگر یہ عشاقان مصطفی نہیں تو پھر واللہ کوئی  نہیں۔ 

مصلی در بغل قرآں بکف نعت نبی لب پر۔

 وہ دیکھو جھومتا آتا ہے دیوانہ محمد کا۔

 اور دیوانے بھی ایسے کہ  اس دل کے سو ٹکڑے ہر ٹکڑے پہ ان کا نام ، ان پہ کھربوں درود و سلام۔ ان کا مسکن تو دیار ہند تھا مگر تصور میں دیار حبیب کے گلی کوچوں کا ہر گام طواف جاری تھا، جن کے دلوں کی دھڑکن محبوب کردگار اور جن کے درد کا مداوا گنبد خضریٰ کے مکین تھے۔ مدینہ کی بہاروں سے سکون قلب ملتا ہے۔ اسی کے لالہ زاروں سے سکون قلب ملتا ہے۔ وہ مکہ ہو مدینہ ہو کہ شہر قدس کی گلیاں۔ عقیدت کے دیاروں سے سکون قلب ملتا ہے۔ جن کے عشق کے قصوں اور محبت کے فسانوں کو بیان کرنے کےلئے  ایک طویل عمر اور اس بحر ذخار کو عبور کرنے کے لیے سفینہ درکار ہے۔ کیونکہ داستان عشق جب پھیلی تو لا محدود تھی اور جب سمٹی تو تیرا نام بن کر رہ گئی۔

استاذ الاساتذہ بطل حریت جبل علم شیخ الہند والعالم حضرت مولانا محمود حسن الدیوبندی رح کو آں حضرت ﷺسے جو محبت ورثہ میں ملی تھی اس کی گہرائی تک پہونچنا ہمارے لیے محال ہے البتہ آپ کے ان اشعار سے اس کا قدرے اندازا ہوتا ہے۔

 تجھ میں حور و قصور رہتے ہیں۔

 میں نے مانا ضرور رہتے ہیں۔

 مرے دل کا طواف کر جنت۔ 

مرے دل میں حضور رہتے ہیں۔ 

آپ کے تلامذہ مسترشدین اور فیض یافتگان میں سے کوئی نہیں بتلا سکتا کہ زندگی کے کسی موڑ پر ایام راحت ہو یا مصیبت قید و بند اور اسیری کی حالت ہو یا آزادی حیات کے پر مسرت لمحات کوئی عمل خلاف سنت صادر ہوا ہو۔ دنیا کا طلب گار رہا ہے نہ رہے گا۔ سرکار کے قدموں کا نشاں ڈھونڈنے والا۔ نظروں میں رہے جس کی جمال شہ والا۔ اس شخص کی دنیا ہے اجالا ہی اجالا۔ 

شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمدمدنی رحمۃاللہ علیہ کا عشقِ رسولﷺ

حضرت مولانا حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وارفتگی زبان زد خاص و عام ہے برسہا برس تک آپ کی الفت وعقیدت نے مسجد نبوی کا مدرس بنائے رکھا اور دوران درس محبت اور عقیدت کے جذبات سے لبریز قال قال صاحب ھذا القبر جب زبان مبارک سے نکلتا تو عشاقان مصطفیﷺ کی حالت غیر ہو جاتی، آنکھیں نم اور اور جذبات بے قابو ہوجاتے۔

 آج اشکوں سے دامن بھگو لینے دو۔ 

ان کی یاد آگئی مجھ کو رو لینے دو۔

 اثناء قیام جب آقا نامدار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع ملتا تو ریش مبارک سے روضہ اقدس کو صاف کرتے ہوئے فرماتے جس کی سنت ہے اس کی حرمت پر قربان ہو جائے تو بہتر ہے۔

 ساری دنیا مجھ کو کہتی ہے محمد کا غلام۔

 فخر کے قابل یہ ٹکڑا میرے افسانے میں ہے۔ 

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ کاعشق رسولﷺ

 حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ کو کس قدر آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عشق تھا اس کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی ہوسکتا ہے آپ مدرسہ امینیہ دہلی میں طلبہ کو احادیث مبارکہ کا درس دیا کرتے تھے ایک مرتبہ آپ جب مسند درس پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ کے ایک شاگرد جن کا نام عبدالحق تھا انھوں اپنا ایک خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو اسی جگہ بیٹھ کر مسلم شریف کی حدیث پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے اور تقریر من و عن وہی تھی جو آپ فرما رہے ہیں حضرت مفتی صاحب نے خواب کی صداقت پر اطمینان کر لینے کے بعد مسندِ درس سے اتر کر فرمایا کہ میرے آقا خواب میں جس جگہ بیٹھ گئے مجھے اب اس جگہ بیٹھ کر درس دینے میں سوء ادب معلوم ہوتا ہے۔( کرنیں از ابن الحسن عباسی)

 دیکھیں گے میرے سر کی طرف لوگ حشر میں۔ 

چمکے گی تاج بن کے غلامی رسول کی۔

 جو پہونچا حشر میں ثاقب فرشتے یوں لگے کہنے۔ 

محمد کے غلاموں کے غلاموں کا غلام آیا۔

 یہ چند سطور بطور خراج عقیدت محض بار گاہ رسالت مآب سے شفاعت کی امید پر تحریر کردی گئیں ہیں۔ باری تعالیٰ اپنے فضل سے قبول فرمالے تو زہے قسمت  

الٰہی تیری رحمت سے پائیں یہ رنگ قبول۔

 پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کے لیے۔

نہ خواہش مال و زر کی ہے نہ چاھت سلطنت کی ہے۔ ترے محبوب کی یارب شفاعت کا میں طالب ہوں۔ الہی حشر میں ساجد کا بیڑا پار ہوجائے۔

 سر محشر تری چشم عنایت کا میں طالب ہوں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے