آزادیِ اظہار اور آزاریِ قلوب!


آزادیِ اظہار اور آزاریِ قلوب

شکیل منصور القاسمی 

بیگوسرائے

“آزادی اظہار “ایک چیز ہے اور “آزاریِ قلوب “ دوسری چیز

آج کے زمانے کی آزادی اظہار مادر پدر آزاد بھی نہیں ہے ؛ بلکہ وہ اخلاقی قدروں کے ساتھ مشروط ہے آزادی اظہار  کے حدود کی کوئی غیر جانبدار ،واضح اور دو ٹوک  تعیین دنیا والوں نے نہیں کی ہے اپنے اپنے سماجی ، ملکی اور جغرافیائی مفادات کے پیش نظر آزادی اظہار کی حدود متعین کرکے ہتک عزت ، ہتک آئین اور توہین عدالت کا قانون وضع کرکے تند وتیز ، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز اظہار رائے اور باغیانہ انداز وبیان کو قابل تعزیر جرم قرار دے کر اس پر سزائے موت سمیت قید وبند جیسی سخت سے سخت سزا تجویز کردی گئی ہے ۔

کہیں ملکی آئین ،مقتدر  قوتوں اور تاریخی حقائق “ہولو کاسٹ  وغیرہ ) پہ رائے زنی اور حرف گیری کو آزادی اظہار سے مستثنی کرکے ممنوع قرار دے دیا گیا تو کہیں اس کے بالکل الٹ ، آسمانی مذہب “ اسلام “ کی “کتاب : قرآن کریم “ ، مقدس ہستیوں اور بنیادی تعلیمات کا آزادی اظہار کے بہانے تمسخر اڑانے اور ہتک وتوہین کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ! 

یعنی آزادی اظہار کے قانون کو مفادات حاصلہ کی جبری ومن پسند حد بندیوں سے جکڑ دیا گیا ہے ۔ 

اسلام کا خیال یہ ہے کہ ہر آسمانی مذہب کی شخصیات (رسول ) مقدس مقامات اور بنیادی تعلیمات واساس پہ غیر اخلاقی اور تکلیف دہ اظہار رائے کی اجازت نہیں ہے 

مشرکین مکہ کے معبودان باطلہ کو سورہ انعام میں غیر مناسب انداز وبیان اور تضحیکی  پیرا یہ میں یاد کرنے سے روکا گیا ہے ( اور تم معبودان باطلہ کو بھی گالی نہ دو کہ  کہیں ان کے ماننے والے سچے اللہ کو بےعلمی سے گالی نہ دے دیں۔

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ ۱۰۸)

آسمانی مذہب کی قید سےلامذہبیت ،ارتدادی فرقے ، دہریت وغیرہ نکل گئے ۔

اوہام وخرافات کا مجموعہ ، ایجاد بندہ ، بے بنیاد تعلیمات پہ مہذب کومنٹ اور علمی مواخذہ اس ذیل میں نہیں آتا ، 

اسلام نے مذہبی رواداری اور تحمل و برداشت اور غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدی تعلیم ضرور دی ہے 

لیکن اس کا یہ مطلب بھی قطعی نہیں کہ مذہبی اکائیوں کی تفریق ختم کرکے مذاھب کے درمیان فرق اور امتیاز ہی مٹادیا جائے ، اور مسلمان رواداری کے جوش میں غیر مسلموں کے عقیدہ ومذھب ہی کی تائید شروع کردیں 

پہر حق و باطل میں فرق ہی کیا رہ جائے گا ؟

غرضیکہ  تشدد کے فروغ، نسلی تعصب،  مذہبی منافرت  اور تسلیم شدہ عقائد و مذہب کی تضحیک و تمسخر کے ذریعے قتل وغارت گری کی راہ ہموار کرنے اور باہمی فساد کا باعث بن  جانے والا اظہار  رائے ممنوع ہے 

اپنی مذہبی تعلیمات و ہدایات پہ عمل در آمد کرنے، ( گائے کا گوشت کھانے) 

احقاق حق و ابطال باطل

(رد مرزائیت ) میں یہ منفی جذبے کار فرما نہیں ہوتے ؛ اس لیے یہ ممنوع  ہوگا نہ یہ مذہبی منافرت کے ذیل میں آئے گا   ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے