اسلام،مسلمان اور زراعت

اسلام،مسلمان اور زراعت


مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری ✍️

نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ


ملک عزیز ہندوستان کو قدرت نے بیشمار گونا گو نعمتوں سے نوازا ہے ان نعمتوں میں ایک عظیم نعمت اس ملک کی سرزمین کو رطوبتی اور پیداوار کے اس قابل بنانا بھی ہے جو ہر ملک کو میسر نہیں یہاں کی زمینیں انتہائی زرخیز اور قسمہا قسم کے غلہ جات کو پیدا کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں یہی وجہ ہیکہ ملک عزیز 1970 کی دہائی میں ہی زرعی پیداوار میں خود کفیل بن گیا جبکہ 1990 سے پیداوار میں اس قدر اضافہ ہوا کہ خود کفیلی کے بعد اچھا خاصا اناج پس انداز بھی کیا جانے لگا بلا شبہہ اس میں کسانوں کا رول انتہائی اہم ہے لاک ڈاؤن کے بعد جبکہ ہر شعبہ تنزلی میں مائنس کی طرف تیزی سے دوڑ لگا تا چلا آرہا ہے شعبہ زراعت وہ واحد شعبہ ہے جس نے ملکی معیشت کو غیر معمولی توانائی اور آکسیجن فراہم کرنے میں خوش کن نتیجہ دیا اس شعبہ کے اعداد و شمار جی ڈی پی میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق یہ شعبہ  جی ڈی پی میں 18.17 فیصد کا حصہ دار رہا اس کے علاوہ ملک کے مجموعی ورک فورس میں 50 فیصد کے روزگار کا ایک بڑا پلیٹ فارم زرعی شعبہ ثابت ہوا زرعی پیداوار کی برآمد معیشت کو جو فائدہ پہونچاتی ہے  وہ بھی معمولی نہیں تقریبا 40 ارب ڈالر کی زرعی مصنوعات دیگر ملکوں کو ایکسپورٹ کی جاتی ہے وطن عزیز چاول اور گیہوں کی پیداوار میں دنیا میں دوسرا مقام رکھتا ہے شاید یہی وجہ ہیکہ زمانہ قدیم سے اس ملک میں کسانوں کا احترام ہوتا چلا آیا ہے افسوس آج موجودہ حکومت اتنے اہم شعبہ کے تعلق سے بدنیتی کا شکار ہے اپنے چند کارپوریٹ دوستوں کی معیشت کو تقویت دینے کیلئے 1955 کے زرعی قوانین میں تبدیلی کرکے کسانوں کو حاشیہ پر ڈالنا چاہتی ہے ہمارے کارپوریٹ شعبہ کی مضبوطی یقینا ملکی معیشت کے لئےانتہائی اہم ہے کیونکہ وہ بھی معیشت کا ایک اہم ستون ہے لیکن یہ کون سی سمجھ داری ہے کہ ایک ستون کو طاقت پہونچانے کیلئے دوسرے اہم ستون کو زمین بوس کردیا جائے حکومت بار بار یہ اعلان کررہی ہیکہ یہ تینوں قانون کسانوں کی بھلائی کیلئے ہیں  پر ایسا نظر نہیں آرہا اگر یہ بات ہوتی تو کسانوں کی اتنی بڑی تعداد ملک کی راجدھانی کا محاصرہ اتنے یخ بستہ موسم میں سرد ہواؤں سے سینہ سپر ہوکر نہ کرتی آپ تبدیل شدہ قوانین کے منظر اور پس منظر پر نگاہ دوڑائیں تو حکومت کی بدنیتی روز روشن کی طرح عیاں ہوجائیگی 1955 کے قانون کے تحت جمع خوری ایک جرم تھا جسے موجودہ حکومت نے دو حالتوں (حالت جنگ اور قدرتی آفات ) کے استثناء کے ساتھ تبدیل کرکے جمع خوری کو قانونی حیثیت فراہم کردی ہے یاد رہے شریعت مطہرہ میں ذخیرہ اندوزی بعدہ گراں فروشی اور  ناجائز منافع خوری کی ادنی سی بھی گنجائش نہیں اسلئے کہ اس سے نہ صرف انسانوں کے حقوق متأثر ہوتے ہیں بلکہ معاشی اور معاشرتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے آپؐ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص گرانی اور منہگائی کی غرض سے غلّہ اور دیگر اشیائے صرف روکتا ہے (ذخیرہ اندوزی کرتا ہے)وہ گناہ گار ہے‘‘ (صحیح مسلم) 

امام بخاریؒ نے رسول اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی بیان فرمایا ہے کہ آپؐ نے ’’نجش‘‘ یعنی اشیائے صرف کو منہگے داموں فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کرنے سے بھی منع فرمایا‘‘(صحیح بخاری)

خیر موجودہ قانون کو سیاسی و معاشی پنڈتوں کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس قانون (essential commodities act) کا پس منظر کافی دشواریاں رکھتا ہے مستقبل میں یہ قانون(جمع خوری) غریبوں اور کسانوں کیلئے بھیانک رخ لے سکتا ہے پہلا رخ تب ظاہر ہوگا جب کسانوں کے غلہ فروخت کے وقت جمع شدہ مال کو بازار میں سستے داموں اتار کر مارکیٹ ریٹ کو بگاڑ دیا جائیگا بعدہ کسان کیلئے اپنی فصل سستے داموں فروخت کرنا مجبوری بن جائیگی جس میں سراسر کسانوں کا استحصال ہے اور دوسرا رخ جب کسانوں سے سستے داموں خریداری کرلی جائیگی تو غلہ کو روک کر اسکی قیمت آسمان تک پہونچائی جائیگی پھر جمع شدہ مال کو مہنگے داموں فروخت کیا جائیگا جس کا بوجھ عام غریب انسان کے کندھوں کو اٹھانا پڑیگا

دوسرا قانون (contract farming) جس میں فصل کی پیداوار کو ٹھیکہ پر دینے کے عمل کو متعارف کرایا گیا ہے اس کی صورت یہ ہوگی کہ بڑی بڑی کمپنیاں پیداوار سے قبل ہی کسانوں سے معاہدہ کرینگی کہ جو بھی پیداوار ہوگی اسکو اتنی قیمت پر ہم خرید لینگے اور یہ معاہدہ کئی کئی سالوں کا ہوگا بظاہر تو اس میں کسانوں کا فائدہ نظر آرہا ہے لیکن اس کا نقصان تب ظاہر ہوگا جب کھلی مارکیٹ میں فصل کی قیمت معاہدہ شدہ قیمت سے زیادہ ہوگی تب معاہدہ کے زور پر کسانوں سے کھلی قیمت سے کم خریداری کی جائیگی اور جب معاملہ اس کے برعکس ہوگا تو کمپنی فصل میں عیب نکال کر اسے لینے سے انکار کردیگی مزید ستم ظریفی کہ کسان کمپنی کے خلاف عدالت سے رجوع بھی نہیں کرپائیگا اسے اپنی شکایت حلقہ کے ایس ڈی ایم اور زیادہ سے زیادہ ڈی ایم تک پہونچانے کا اختیار ہوگا آپ ہی اندازہ لگائیں کہ محکمۂ پولیس (Department_of_Police)

اور کارپوریٹ سیکٹر  (corporate sector )کی جگل بندی میں کسان کس حیثیت میں ہوگا

تیسری چیز جو اس قانون میں متعارف کرائی گئی ہے وہ ہے پرائیوٹ منڈیاں (APMC) یعنی Agricultural Produce Market Committee جو نئی نہیں ہیں اس سے پہلے بھی کسان اپنی 95% فصل پرائیوٹ منڈیوں میں ہی بیچتا چلا آیا ہے 5سے 6% کسان ہی ایسے تھے جو اپنی فصل سرکاری منڈیوں میں بیچتے رہے سو منڈیوں سے کسان کو کوئی دقت نہیں انکی مانگ ہے کہ پرائیوٹ منڈیوں میں بھی (MSP) کو جاری کیا جائے 

MSP کہتے ہیں Minimum Support Price. کو 

ایم ایس پی  میں کسان کو یہ فائدہ تھا کہ وہ اس میں کسی کا بندھوا نہیں ہوتا بلکہ اسے جہاں فصل کی اچھی قیمت ملتی پوری آزادی سے بیچ سکتا تھا جبکہ وہ contract farming میں کمپنیوں کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہے بہر حال سب ملا کے دیکھا اور سمجھا جائے تو حکومت کسانوں کے تعلق سے سنجیدہ نہیں 

آج پوری دنیا میں ایک لہر چلی ہیکہ اسکے مقابل کوئی آواز اٹھانے والا نہ رہے ہندوستان کی موجودہ سرکار بھی اسی طرف تیزی سے قدم بڑھانا چاہ رہی ہے اور اس راہ کی جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ لوگوں کی آسودگی ہے سرکار چاہتی ہے کہ عوام الناس سے ساری دولت لوٹ کر چند لوگوں کے حوالہ کردے اور ملک کی ایک بڑی تعداد کو غربت و افلاس کی کھائی میں ڈھکیل کر خوراک و پوشاک میں اس قدر الجھا دے کہ وہ اسکے علاوہ کچھ سوچنے کے قابل ہی نہ رہیں اور خود اطمینان سے من چاہی حکومت کرتے رہیں

موجودہ حکومت اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں ملک کا ستیاناس کرنا چاہتی ہے اسے احساس نہیں کہ اسنے کتنے حساس شعبہ کو تباہ کرنے کی ٹھانی ہے یہی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہندوستان پچھلی کئی دہائیوں سے راج کرتا آرہا ہے ملک عزیز کو آج بھی ایگری کلچرل پاور ہاؤس کہا جاتا ہے افسوس آج حکومت گرتی معیشت سے بےپروا اس شعبہ کو تباہ کرنا چاہتی ہے آپ گزشتہ دہائیوں بلکہ صدیوں پے نگاہ دوڑائیں تو یہ بات صاف دکھائی دیگی کہ اسی شعبہ کے سہارے ملک کی معیشت بلندیوں پہ تھی آج ہندوستان باعتبار ملک نمبرنگ میں 181 ملکوں کی فہرست میں 142 ویں مقام پر ہے جبکہ دنیا کی مجموعی معیشت میں صرف 7.09 کا حصہ دار ہے اس کے مقابلہ جب آپ اس مغلیہ ادوار کا جائزہ لینگے جسے ملک دشمن عناصر آج منھ بھر بھر کے گالیاں دیتے نہیں تھکتے تو آپ حیرت کرینگے1526ء سے 1857ء  تک اس ملک پر مغلوں کی حکومت رہی اس پورے 331 سالہ دور میں کبھی ایسا وقت نہیں آیا جب دنیا کی مجموعی معیشت میں ہندوستان کی حصہ داری 20% سے کم ہوئی ہو 

مغربی مورخ اینگس میڈیسن کے مطابق 1700ء میں حضرت اورنگزیب علیہ الرحمہ کے دور میں برصغیر دنیا کا سب سے امیر ملک بن گیا جس کا عالمی صنعتی پیداوار اور جی ڈی پی میں حصہ 24% تھا۔ 

نیز مورخ سراستی کے مطابق مغل دور میں برصغیر پیداواری لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت  تھا ایک اور مغربی مورخ جیفری جی ویلیمسن کے مطابق بر صغیر اٹھارہویں صدی تک دنیا کی کل صنعتی پیداوار کا 25% پیدا کرتا رہا۔

 مورخ اینگس میڈیسن کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی جی ڈی پی نے جتنی ترقی کی اتنی برصغیر نے مغل دور سے پہلے گزشتہ پندرہ سو سالوں میں کبھی نہیں کی تھی

آپ ان ادوار کا باریکی سے جائزہ لینگے تو زراعت اور بلند معیشت میں آپ کو ایک خوبصورت ربط نظر آئیگا جسے موجودہ حکومت سمجھنا نہیں چاہ رہی حکومت اگر ذاتی فائدہ سے ہٹ کر ملک کی بھلائی کیلئے زرا سا بھی سنجیدہ ہے تو اسے کسانوں کی آواز پہ کان دھرنا پڑیگا انہیں ان سنا کرنے کی غلطی بھاری معاشی تباہی کو دعوت دینے والی ہوگی اللہ تعالی اس ملک کو دشمن عناصرون سے پاک صاف فرمائے

انقلاب صبح کی کچھ کم نہیں یہ بھی دلیل 

پتھروں کو دے رہے ہیں آئنے کھل کر جواب


زراعت کو اگر اسلام کے ترازو پہ تولا جائے تو اس شعبہ کی اسلام نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی ہے

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے {أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ (63) أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ } [الواقعة: 63، 64]. 

دیکھو تو سہی کہ تم جو کچھ بوتے ہو، اس کو تم اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں؟

دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:{وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَکًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ

نیز ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا ، پھر اس سے باغات اور کھیتی کے اناج اُگائے( سورہ ق )

نیز سورہ یسین میں ارشاد ربانی ہے

وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ* وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ* لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ أَفَلا يَشْكُرُونَ} [يس: 33- 34]، 

اور ان کے لئے ایک نشانی مردہ زمین ہے ، جس کو ہم نے زندہ کیا ، اس سے اناج نکالا ، پھر یہ لوگ اس میں سے کھاتے ہیں، اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کئے ہیں اور زمین میں پانی کے چشمے جاری کردیئے ہیں ، تاکہ لوگ اس کے پھل کھائیں اور یہ پھل ان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں تو کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے ؟

سورہ نحل میں ارشاد ربانی ہے

{هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَكُمْ مِنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ* يُنْبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ} [النحل: 10- 11]،

وہی خدا ہے جس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی اُتارا ، جس میں سے کچھ پینے کا ہے اور کچھ پانی سے درخت ( سیراب ہوتے ) ہیں ، جس میں تم چرایا کرتے ہو ، اللہ اس سے تمہارے لئے کھیتی ، زیتون ، کھجوریں ، انگور اور ہر قسم کے میوے اُگاتے ہیں ، یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے ، جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ۔

سورہ انعام میں رب کافرمان ہے

{وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفاً أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهاً وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ }الأنعام141

وہی خدا ہے جس نے باغات پیدا کئے ، وہ بھی جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے ، نیز کھجور کے درخت اور کھیتی --- جن سے مختلف قسم کی کھانے کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں ---ا ور زیتون اورانار پیدا فرمائے ، باہم ملتے جلتے اور الگ الگ ،جب پھل آئے تو ان کے پھل کھاؤ اور کٹائی کے دن اس کا حق ادا کردو ، نیز فضول خرچی نہ کرو کہ اﷲ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔

(ٹٹی بانس کو چیر کر چھاڑ وغیرہ چڑھانے کیلئے چھت کی طرح بناتے ہیں)

اسکے علاوہ زراعت کے سلسلہ میں خود نبی پاک ﷺ  کے ارشادات گرامی کی ایک لمبی فہرست موجود ہے دارمی کی روایت ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا

مَن اَحیٰ اَرضاً مَیتَتاً فَلَہ فِیہَا اَجر وَمَا اَکَلتِ العَافِیَۃُ مِنہُ فَہُوَ لَہ صَدَقَۃ  (رواہ الدارمی)

حضرت جابر کی روایت ہے کہ حضور ﷺ  نے ارشاد فرمایا جس شخص نے مردہ(بنجر) زمین کو زندہ کیا تو اسکے لئے اس میں ثواب ہے اور اس میں سے جو کچھ جانوروں نے کھایا تو اسکے لئے اس میں صدقہ ہے

 بخاری شریف کی روایت ہے کہ آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا " ما من مسلم يغرس غرسا، أو يزرع زرعا، فيأكل منه طير أو إنسان أو بهيمة، إلا كان له به صدقة ". 

صحيح البخاري 2320

 جو کوئی مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے پس کھا لے اس سے پرندہ یا انسان یا پھر جانور تو یہ اسکے لئے صدقہ ہوگا

ایک اور موقع پر آپ ﷺ  وسلم نے کاشتکاری اوربنجر وبے استعمال زمین کو کاشت کے لئے استعمال کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس کے پاس زمین ہو اسے اس زمین میں کاشتکاری کرنی چاہیے، اگر وہ خود کاشت نہیں کرسکتا ہو تو اپنے کسی مسلمان بھائی کو دے، تاکہ وہ کاشت کرے۔

 " من كانت له أرض فليزرعها، فإن لم يزرعها فليزرعها أخاه "..(مسلم شریف 1536 )

اسکے علاوہ بہت سی احادیث وآیات میں دین اسلام زراعت و کاشتکاری کی حوصلہ افزائی کرتا نظر آئے گا

سورہ ہود کی آیت  "واستعمرکم فیھا" کی تفسیر میں علا مہ ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ ’اس کے معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تم کو اس زمین کا آبادکار بنایا ہے، اس سے رزق حاصل کروگے، اس میں کاشت کروگے اور اس سے وہ تمام فائدے حاصل کروگے جو تمہیں اس سے اٹھانے چاہیے‘ 

نیز اس سلسلہ میں حضرات ائمہ کرام کا

قرآن و حدیث کی روشنی میں عشری مسائل پر ایک ضخیم باب قائم کرنا اسکی کھلی ترجمانی کرتا ہے

زراعت کے سلسلہ میں اسلامی احکامات اور اس میدان میں مسلمانوں کی کارکردگی کی بات کریں تو مسلمان اس میدان میں کافی پیچھے ہیں آج ہماری اکثر زمینیں خالی پڑی خراب ہورہی ہیں حالانکہ زراعت گھریلو معیشت ہو یا ملکی دونوں میں اہم کردار اداء کرتی ہے ہمارا مسلم معاشرہ اسکی دنیاوی افادیت اور دینی اہمیت سے بلکل کورا ہے مجھے تو خطرہ ہیکہ اگر بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے پہ ثواب کا وعدہ ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ قابل کاشت زمینوں کو جو کہ خدا کی عظیم نعمت ہے یوں ہی چھوڑ کر خراب کردینے پر مواخذہ  ہوجائے اللہ تعالی ہر قسم کے مواخذہ سے ہماری حفاظت فرمائے آج ہمارا نوجوان طبقہ اپنا سارا وقت لغو کاموں میں صرف کرتا رہتا ہے اگر تھوڑی سی بھی توجہ اس جانب کردے اور اس کام میں اللہ کی ذات سے ثواب کی امید رکھتے لگ جائے تو دینی اور دنیاوی فائدہ سے ایک کثیر حصہ اس کا مقدر بن جائے

اللہ تعالی ہم سبکو اصول صحیحہ پر زندگی گزارنے والا بنائے 

اداریہ ماہنامہ رسالہ فیضان اشرف ماہ دسمبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے