ایک روشن ستارہ غروب ہوگیا

 

ایک روشن ستارہ غروب ہوگیا

وفات استاذ الاساتذہ حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی مئوی

 بقلم: عبید اللہ شمیم قاسمی

آج اچانک ١٢/فروری ٢٠٢١ء بروز جمعہ مفتی محمد شاکر نثار صاحب قاسمی مدنی کے میسج کے ذریعہ یہ جانکاہ اطلاع ملی کہ حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی مئوی کا انتقال ہوگیا، اس خبر پر یقین نہیں آرہا تھا مگر خبر سن کر دیر تک إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھتا رہا اور پھر ماضی کی یادوں میں بہت دیر تک گم ہوگیا۔

پھر اس کے بعد حضرت مولانا کے صاحبزادے مولانا انظر کمال صاحب قاسمی کے یہاں فون کیا تو معلوم ہوا کہ مغرب کی اذان کے وقت وہ ایک روشن ستارہ جو اسی سال سے افق پر اپنی روشنی بکھیر رہا تھا، ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا إنا لله وإنا إليه راجعون.

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار کی گنجائش نہیں، دنیا میں آنا درحقیقت جانے کی تمہید ہے۔ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے کوئی نہیں آیا۔ اس دنیا کے اندر جو بھی سانسیں لے رہے ہیں ان کی سانسیں ایک نہ ایک دن بند ہونے والی ہیں۔ جو بھی چلنے والے ہیں ہیں ان کی چالوں پر ایک دن پابندی لگنے والی ہے۔ جو بھی جاندار ہیں وہ ایک دن یہاں سے جانے والے ہیں۔ ہمیشہ رہنے کے لئے یہاں کوئی نہیں آیا۔ یہ دنیا ایک سرائے کی سی ہے۔

زندگی کی بے ثباتی یہی وہ واحد سچ ہےجس سے انکار کی کوئی صورت ہی نہیں۔ گزرتا ہوا ہر لمحہ ہمیں بے ثباتی کے اسی احساس سے بھرتا ہے ۔ زندگی کی تمام چمک دمک فنا پذیری کی طرف رواں دواں ہے۔


وہ لوگ بڑے ہی سعید بخت ہیں کہ جن پر اس دنیا کی بے ثباتی آشکارا ہو گئی اور انہوں نے معصیت کی زندگی سے انحراف کر لیا جس کا دل بھی اس دنیا کی عارضی حیات کی حقیقت جان گیا اس کے دل سے حرص و ہوس اور عناد و کینہ سب کچھ ہی نكل جاتا ہے۔


چنانچہ حضور ﷺ نے خود اپنے بارے میں یہ مثال دی: 《 مَا لِي وَمَا لِلدُّنْیَا》 دیکھو لوگو! میرا دنیا سے کیا سروکار، آپ ﷺ نے تو دنیا سے کوئی سروکار رکھا ہی نہیں، جب آپؐ عرب کے بادشاہ بن گئے تب بھی آپؐ کے یہاں تو کئی کئی وقت کا فاقہ ہوتا تھا《 مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا 》(سنن الترمذي، أبواب الزهد: 2377). میں تو دنیا میں اس طرح ہوں کہ جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سائے کی وجہ سے بیٹھ گیا، پھر وہاں سے روانہ ہوگیا اور درخت کو چھوڑ دیا، درخت اس کی منزل نہیں ہے، اس کا گھر نہیں ہے، یہ تو اس کا عارضی سا قیام تھا جسے وہ یاد بھی نہیں رکھتا کہ میری زندگی کے اندر کوئی درخت بھی آیا تھا، بس صرف اس حد تک دنیا کے اندر دلچسپی کی اجازت ہے ، اور اگر اس سے زیادہ ہے تو پھر یہ دھوکہ ہے۔

الله رب العزت نے جگہ جگہ قرآن كريم ميں ارشاد فرمايا: ﴿وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ [آل عمران: 185].


حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی رحمہ اللہ اللہ رب العزت کے ان خوش نصیب بندوں میں تھے جنہوں نے ایک علمی گھرانے میں آنکھیں کھولیں، ان کے والد مولوی حکیم محمد فاروق صاحب ایک طبیب حاذق نیک طبیعت سادہ مزاج تھے، اپنے وقت کے تمام اکابر سے بہت گہرا تعلق رکھتے تھے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ، مصلح الامت حضرت شاہ وصی اللہ صاحب اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سے بہت گہرا ربط وتعلق تھا۔

اس دینداری کے ماحول میں پرورش کا اثر حضرت مولانا مرحوم کی پوری زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتا تھا۔

اپ نے ابتدائی تعلیم دارالعلوم مئو سے حاصل کرنے کے بعد مرکز علم وفن دارالعلوم دیوبند گئے اور اس وقت کے اکابر فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبای، حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی اور دیگر اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور پھر فراغت کے بعد اپنے مادر علمی دارالعلوم مئو میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے، اور پھر مہتمم کے عہدہ پر فائز ہوئے ایک عرصہ تک دارالعلوم کے صدر بھی رہے۔

آپ بہت سی نمایاں خوبیوں کے حامل تھے، ہمارے خسر حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند جب دارالعلوم مئو میں شیخ الحدیث وصدر مدرس تھے تو آپ کے ساتھ بالکل گھریلو تعلقات تھے۔ اور یہ تعلق اتنا پختہ و مضبوط تھا کہ جب حضرت شیخ دارالعلوم مئو سے دارالعلوم دیوبند کی طلب پر دیوبند آگئے تو اہالیان مئو نے حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی اور دیگر اساتذہ کو ایک وفد کی شکل میں دیوبند بھیجا تاکہ انہیں دوبارہ مئو لایا جاسکے، بہر حال حضرت شیخ نے دارالعلوم دیوبند کی ضرورت کو مقدم رکھا اور تا دم آخر وہیں قیام رہا اور 30 دسمبر 2016ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔


حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی کا جو تعلق حضرت شیخ سے زمانہ تدریس میں قائم ہوا تھا وہ شیخ کی زندگی کی آخری سانس تک باقی رہا، حضرت شیخ جب بھی مئو آتے تو آپ ہی کے یہاں قیام کرتے، آخر میں جب بیماری نے آپ کو گھیر لیا تو آپ کے صاحب زادے مولانا انظر کمال صاحب قاسمی اس خدمت کو انجام دیتے رہے، حضرت شیخ سے تعلق کی وجہ سے ہم لوگوں سے بھی بہت محبت فرماتے تھے، حضرت شیخ کی زندگی میں آپ کے ساتھ کئی مرتبہ مئو آپ کے دولت کدے پر جانے کا اتفاق ہوا، شیخ کے انتقال کے بعد بھی اسی طرح تعلق برقرار رہا، ابھی گذشتہ سال ماہ اکتوبر میں جب میرا ہندوستان جانا ہوا تو وقت نکال کر آپ سے ملاقات کے لیے مئو حاضر ہوا، بہت خوش ہوئے اور دیر تک دعائیں دیتے رہے، بزرگوں کے واقعات خصوصا حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی کے کئی واقعات سنائے۔


مولانا نذیر احمد نعمانی صاحب کو بڑھتی عمر کے ساتھ بہت سی بیماریوں نے گھیر لیا، آنکھوں کی بینائی زائل ہوگئی تھی، اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے پچھلے سال آپ کے صاحب زادگان بغرض علاج ممبئی لے گئے تھوڑا بہت افاقہ ہوا تو واپسی کا ارادہ کیا مگر پورے ملک میں لاک ڈاون کی وجہ سے بذریعہ ایمبولینس بہت مشقتیں اٹھاکر مئو واپسی ہوئی۔

میں ابو ظبی آنے کے بعد حضرت مولانا کی خیریت معلوم کرنے کے لیے آپ کے صاحب زادے مولانا انظر کمال صاحب قاسمی کے یہاں فون کرتا رہتا تھا، کبھی کبھی آپ سے بھی بات ہوجاتی تھی، ہمیشہ ایمان پر خاتمہ کے لیے کہا کرتے تھے۔

آپ نے تدریس کے ساتھ ساتھ بہت سے نمایاں شاگرد جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں یہ تمام آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی مدظلہ، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم، اور دارالعلوم مئو کے موجودہ شیخ الحدیث مفتی انور علی صاحب، مولانا احمد اللہ صاحب آپ کے نمایاں شاگرد ہیں، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم کا وہ جملہ بار بار یاد آتا ہے کہ "آج جو کچھ بھی میں ہوں وہ حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی کی تربیت کا نتیجہ ہے"۔

 اللہ تعالی حضرت مولانا مرحوم کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور پسماندگان خصوصا مولانا انظر کمال صاحب قاسمی اور دیگر صاحبزادگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے