مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری
نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ
کوئی بھی چیز فی نفسہ اچھی یا بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اسکی اچھائی اور برائی کو طے کرتا ہے زمانہ جس قدر تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اسی قدر سہولیات بھی انسانی زندگیوں کا حصہ بنتی جارہی ہیں انہیں سہولیات میں سوشل میڈیا بھی انسانی زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے سوشل میڈیا کے وجود کے بعد بہت سارے لسانی کام انگشتی عمل سے مبدل ہوگئے اب ہر کوئی اپنی انگلیوں کو موبائل اسکرین پہ حرکت دیکر اپنے ذہن میں موجود اچھائی اور برائی کو اسکرین کی زینت بنانا چاہتا ہے
سوشل میڈیا نے جہاں رابطوں کو عام ، تعلقات کے دائرے کو وسیع اور ہر کہہ ومہہ کو کہنے لکھنے کا موقع فراہم کیا ہے وہیں الزام تراشی افترا پردازی کی وبا کو بھی عام کرنے میں آسانیاں مہیا کی ہیں
بہت سے لوگ واقعی اس پلیٹ فارم کو امت کی فلاح و صلاح کیلئے قابل انتفاع بنانے میں اپنی محنت و لگن کا استعمال کررہے ہیں اور بہت سارے ایسے بھی ہیں جو اپنی ذہنی غلاظت کو گندگی کے ایک ڈھیر کی طرح صبح وشام اسکرین پہ پھینکتے رہتے ہیں شوشل میڈیا کی پیدائش کے بعد ایک عمل جس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ نقد وتبصرہ ہے ہر کوئی مبصر بنا تبصرہ کے آڑ میں ایک دوسرے کی تحقیر و تذلیل کر اپنے نیک اعمال ضائع کررہا ہے
پہلے ہم رسائل و اخبار میں اس کالم کو دیکھتے اور پڑھتے تھے اوپر کتاب کا نام اسکے بعد مصنف کا نام بعدہ نقد و تبصرہ کی ہیڈنگ لگی ہوتی جس کے سامنے مبصر اور نقد کرنے والے کانام درج ہوا کرتا تھا اور جس شخصیت کا نام بطور مبصر کے درج ہوتا وہ واقعتا صاحب بصیرت ہوا کرتی تھی اور علم و فن کے اعتبار سے وہ شخصیت یا تو مصنف کے ہم پلہ ہوتی یا اس سے بڑھی ہوئی ہوا کرتی تھی اس کے مقابل آج صورت حال بلکل ہی نا گفتہ بہ ہے
آج کا مبصر بھلے ہی اس میدان کے اونچ نیچ سے ناواقف ہو پر گھوڑ سواری کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے
اگر عمل میں اخلاص ہو تو پھر بھی کچھ گنجائش سمجھ میں آتی ہے پر یہاں تو نیت ہی تحقیر و تذلیل کی ہوتی ہے یقینا عزت و ذلت تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے عزت دینا چاہے ساری مخلوق مل کے اس کی رسوائی کے درپے ہو تو بھی رسوائی ممکن نہیں اور جسے وہ ذلیل کرنے پہ آئے کوئی اسکو ذلیل ہونے سے روک نہیں سکتا
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(سورہ عمران)
دوسری چیز جسے شوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پہ چند پسند و ناپسند ( Like & Dislike ) اور تبصرہ ( Comments )کے خواہشمندوں نے سب سے زیادہ فروغ دیا ہے وہ کردار کشی اتہام تراشی اور غیبت ہے جبکہ شریعت مطہرہ نے ان افعال کو انتہائی قبیح گردانا ہے اور ان اعمال پہ سخت وعید اور گرفت فرمائی ہے
غیبت کے تعلق سے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ غیبت کرنا گویا اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا ہے آپ اندازہ لگائیں اور تصور کریں کہ مردار کا گوشت مزید برآں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کتنا کریہہ اور غیر انسانی عمل ہے اگر غیبت کرنے سے پہلے انسان اس کا تصور کرلے تو کبھی بھی اس عمل کو کرنے کی ہمت نا کرپائے یاد رہے جو اعمال زبانی اداء کرنے ناجائز ہیں اسکا صدور قلم و انگشت کے زریعہ بھی ناجائز اور حرام ہے
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:- وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ_
[سورہ حجرات 12]
ترجمہ:- تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے، تم اسے ناپسند کرتے ہو اللہ تعالی سے ڈرو، بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے
بہت سے حضرات یہ کہ کے خود کو طفلانہ تسلی دیتے ہیں کہ ہم جو کہ رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں وہ غیبت نہیں بلکہ حقیقتا اس میں وہ عیب پائے جاتے ہیں تو انہیں غیبت کی تعریف پھر سے پڑھنی چاہئے اور حدیث نبوی کا مطالعہ کرنا چاہئے مسلم شریف نے غیبت کی تعریف یوں بیان کی ہے
" " ذكرُكَ أخاكَ بما يكرهُ " اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات بیان کرنا غیبت ہے جسے وہ نا پسند کرتا ہو ۔
غیبت کرنے والا جب کسی کی غیبت کرکے اسے رسوا کرنا چاہتا ہے تو مسند احمد کی روایت مطابق اللہ عز و جل خود اسے اسکے گھر میں ذلیل و رسوا فرمادیتے ہیں
، لَا تَغْتَابُوْا الْمُسْلِمِیْنَ وَلَا تَتَّبِعُوْا عَوْرَاتِھِمْ، فَاِنَّہُ مَنْ یَتَّبِعْ عَوْرَاتِھِمْ یَتَّبِِعِ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ، وَمَنْ یَتَّبِِعِ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ یَفْضَحْہُ فِیْ بَیْتِہِ)
تم مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو اور ان کے پردے والے امور کی ٹوہ میں نہ لگو، جو ان کے معائب کو تلاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کی تلاش میں پڑ جائے گا اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب کی جستجو میں پڑ جاتا ہے، اس کو اس کے
گھر میں رسوا کر دیتا ہے (مسند احمد)
غیبت کا ایک بڑا اور عظیم نقصان یہ بھی ہیکہ غیبت کرنے والے کی دعائیں رد کردی جاتی ہیں فقیہ ابو للیث فرماتے ہیں جو شخص بہت زیادہ غیبت کرتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ وہ بہت کم نادم ہوتا ہے ۔ ابراہیم بن ادھم سے لوگوں نے پوچھا کہ حضرت ہم دعا کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتی ، فرمایا تم اپنے عیبوں کو پیچھے ڈالتے ہو اور دوسروں کے عیبوں کو سامنے لاتے ہو اسلئے تمہاری دعائیں قبولیت سے خالی ہوتی ہیں
مزید برآں غیبت ایک ایسا عمل ہے جو عذاب خداوندی کو دعوت دینے والا ہے اللہ تعالی ہم سبکو ہر قسم کے عذاب سے محفوظ و مامون رکھے بخاری شریف کی روایت ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، فَقَالَ : " إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ : أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ. (صحيح البخاري)
ترجمہ: حضرت عبد الله بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی مشکل کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا بلکہ ایک کو پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے اور دوسرے کو غیبت کی وجہ سے عذاب ہورہا ہے
اسی سلسلہ میں ابوداؤد شریف کی ایک روایت ہے
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَمَّا عُرِجَ بِي مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ، يَخْمِشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ، فَقُلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ، وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ ". (سنن أبي داود)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر معراج میں میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (غیبت کرتے) اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔
اللہم احفظنا منہ
یاد رہے! غیبت ہر اس تقریر و تحریر کو کہتے ہیں جو کسی ایسے شخص سے متعلق و منسوب ہو کہ وہ محفل میں موجود نا ہو یا پھر وہ ایسے عیوب ہوں کہ اگر اسکے سامنے بھی اس بات کو کہا جائے تو اسے ناگوار لگے مسند احمد کی ایک روایت کا حصہ ہیکہ
اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا ، حَکَتْ اِمْرَاَۃً عِنْدَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذَکَرَتْ قِصَرَھَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدِ اغْتَبْتِھَا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک عورت کی نقل اتاری اور اس کے کوتاہ قد کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کی غیبت کی ہے
نیز مسلم شریف کی روایت ہے
: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ، قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟» قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ» قِيلَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ: «إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ، فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ»۔
ترجمہ :- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہوکہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کا ایسے انداز میں ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو، تو کہا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ خصلت واقعی پائی جارہی ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس میں وہ چیز پائی جارہی ہے جس کو تم نے بیان کیا تو وہ غیبت ہے، اور اگر نہیں پائی جارہی ہے تو یہ بہتان اور الزام ہے۔
غیبت کہتے ہی اس عیب کے تزکرہ کو ہیں جو سامنے والے میں موجود ہو اور اسے اسکی پیٹھ پیچھے بیان کیا جائے اگر وہ عیب موجود نا ہو تو پھر اسے تہمت کا نام دیا جائیگا اور کسی پاک دامن پہ تہمت لگانا یہ غیبت سے بھی سخت اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
(گناہ کبیرہ ہر اس گناہ کو کہتے ہیں جس گناہ پر کوئی شرعی حد یعنی دنیا میں سزاء مقرر کی گئی ہو یا جس پر لعنت کے الفاظ یا جہنم کی وعید آئی ہو)
نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو الله عَزَّوَجَلَّ اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ ) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔(ابوداؤد) وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ ".
الغرض سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر یا دوستوں کی محفلوں میں حتی الوسع غیبت و اتہام تراشی سے پرہیز کرنا چاہئے اسلئے کہ ان سب کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے یقین جانئے اگر ہم نے خود کو کبیرہ گناہوں سے بچالیا تو یقینا اللہ کی ذات سے قوی امید ہیکہ اس کی برکت سے ہم بہت سارے صغیرہ گناہوں سے بچ جائیں گے اور در گزر کردیئے جائینگے
اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا كَبٰٓئِرَ مَا تُنۡهَوۡنَ عَنۡهُ نُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَنُدۡخِلۡـكُمۡ مُّدۡخَلًا كَرِيۡمًا ۞ (النساء)
ترجمہ: جن کاموں سے تم کو منع کیا جاتا ہے ان میں جو بھاری بھاری (کبیرہ گناہ) کام ہیں اگر تم ان سے بچتے رہو تو ہم تمہاری خفیف برائیاں (صغیرہ گناہ) تم سے دور فرمادیں گے اور ہم تم کو ایک معزز جگہ (جنت) میں داخل کردیں گے۔
موجودہ زمانہ میں یوں بھی نیک اعمال کی جمع پونجی مشکل سے ہوپاتی ہے پھر اسے یوں بلاوجہ کے تبصروں میں ضائع کردینا انتہائی احمقانہ فعل ہے خود بھی بچیں اور دوستوں کو بھی باز رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ کی رحمت اور آگ سے خلاصی کا پروانہ حاصل کریں
۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ رضی اللہ عنہ ، عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: مَنْ ذَبَّ عَنْ لَحْمِ اَخِیْہِ فِیْ الْغِیْبَۃِ، کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُعْتِقَہُ مِنَ النَّارِ۔(مسند احمد:)
۔ سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کا دفاع کیا، تو اللہ تعالیٰ پر حق ہو گا کہ وہ اس کو آگ سے آزاد کر دے۔
اللہ تعالی ہم سب کو فہم سلیم و اخلاص صحیح عطاء فرمائے اور معصیت کی فراوانی و آسانی والے اس دور میں گناہوں سے محفوظ فرماتے ہوئےاپنا قرب اپنی محبت نصیب فرمائےدنیا میں بھی اپنی خوشنودی حاصل کرنے والا بنائے اور آخرت میں بھی اپنی خوشنودی سے مالامال فرمائے
0 تبصرے