اسلام میں نظام افتاء و قضاء؛ تعارف و تاریخ (قسط اول)

فتویٰ اور اسلامی عدالت


 انسانی تاریخ میں مدنیت اور شعوری تہذیب کی ابتدا جہاں سے ہوئی، اسی کے شانہ بشانہ عدل و انصاف کے حصول کی کوششیں کسی نہ کسی درجے میں نظر آتی ہیں، انسان اپنے رہن سہن، چال ڈھال اور طور طریقوں میں جیسے جیسے با شعور ہوا، اسی کے ساتھ اسے آپسی اختلافات اور کمزور و طاقتور کے مابین پیش آنے والے مسائل میں درست رہنمائی اور بسا اوقات طاقت کے زور پر عدل و انصاف کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی۔

 لیکن اس کائنات کی تاریخ میں اسلام کا ظہور اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک ایسا انقلابی موڑ ہے، جس نے ساری دنیا کا منظرنامہ تبدیل کرکے رکھ دیا، سن 6 عیسوی میں برپا ہونے والے انقلاب نے حیات انسانی کے ہر گوشے پر اپنا اثر ڈالا اور یہ اسلام کی کاملیت و تنظیم کا ثمر تھا۔

یہ شخصی نظریات و افکار پر مبنی کوئی نیا طریقۂ زندگی نہیں تھا، جو چند ذہنوں کو محدود وقت کے لئے متاثر کر کے معدوم ہو جاتا، اور نہ ہی کوئی ایسا آسمانی مذہب تھا، جس میں خدا کی تعلیمات اور بندوں کے نظریات خلط ملط ہو گئے ہوں، اور یہ تمیز نہ ہو سکے کہ فلاں حکم منزل من اللہ ہے یا کسی انسان کی اختراع،  بلکہ ایک خالص اور کامل خدائی دین تھا، جو بندوں کے لئے ان کے پیدا کرنے والے کی جانب سے منتخب و مرتب کیا گیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق رہنما ہدایات پائی جاتی ہیں، دیگر ادیان و مذاھب میں کاملیت کا یہ پیمانہ موجود نہیں، اس لیے ہر ہر معاملے میں شریعت کا نظریہ جاننے یا بتانے کا کوئی ایسا نظام نہیں، بعض معاملات میں شرعی آراء ملتی ہیں، اور بعض میں ان کی شریعت خاموش ہے۔

ہاں، بعض ملتوں میں عدالت و کچہری کا کسی حد تک نظام رہا ہے، لیکن ایک معاشرتی ضرورت کی سطح پر، کسی دینی یا شرعی محکمۂ انصاف کے طور پر نہیں۔

اس باب میں اسلام کا امتیاز ہے، کہ اس میں ولادت سے وفات تک کی کامل ہدایات موجود ہیں، اس لیے وقتاً فوقتاً پیش آنے والے مسائل میں درست شرعی رہنمائی ہر مسلمان کی احتیاج ہے، ساتھ ہی آپسی اختلافات و مقدمات میں انصاف اور حقدار کو اس کا حق ملنا یہ ایک بنیادی ضرورت ہے، بنا بریں اسلام نے ان بنیادی گوشوں کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا، اور بتدریج دو ایسے نظام متعارف و مدون ہوئے جنہوں نے کامل ذمہ داری اور پختگی سے ان دونوں ضروریات کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا ان میں سے ایک افتاء کا نظام ہے اور دوسرا قضاء کا..

ذیل کی سطروں میں ان دونوں نظاموں کا تعارف اور اجمالی تاریخ پیش کی گئی ہے۔

فتویٰ اور اس کی تعریف:

 فتوی (فاء کے ضمہ کے ساتھ) افتی یفتی افتاء کے حاصل مصدر کے طور پر مستعمل ہے، لغوی اعتبار سے اس کے معنی ہیں: "کسی بھی سوال کا جواب دینا خواہ وہ سوال احکامِ شریعت کے متعلق ہو یا کسی اور چیز کے متعلق"۔

  اصطلاحی اعتبار سے فتوی کے معنی ہیں:

 "الجواب عن مسئلۃ دینیۃ" (کسی دینی مسئلہ کا جواب)

قرآن وحدیث سے فتوی کا ثبوت:

 فتوی علماء یا فقہائے کرام کا اپنا ایجاد کردہ طریقہ یا عمل نہیں ہے، اس کا ثبوت براہ راست قرآن و حدیث سے ہے، قرآن و حدیث میں کہیں مستقل فتوی کے لفظ سے فتوے کا ذکر ہے اور کہیں کسی اور لفظ سے فتوی مراد لیا گیا ہے۔

سورہ نساء آیت نمبر 127 میں ہے: وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ. 

(اور یہ لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں، کہہ دیجیے اللہ ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے) 


اسی طرح اسی صورت میں آیت نمبر 176 میں ہے: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ. 

(یہ لوگ آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں، کہہ دیجیے کہ اللہ "کلالہ" کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے) 


قرآن کی طرح حدیث میں بھی فتویٰ کا ذکر ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

 اجرکم علی الفتوی اجرکم علی النار. 

(تم سے فتویٰ دینے پر زیادہ جری شخص، جہنم میں جانے پر سب سے زیادہ جری ہے)

فتوی کے اقسام:

 فتوی کی تین قسمیں ہیں،

 تشریعی فتاویٰ، فقہی فتاویٰ اور جزئی فتاوی

تشریعی فتاوی:

 وہ فتاویٰ ہیں، جو شارع کی جانب سے صادر ہوئے ہوں، یا تو قرآن کی وحئ متلو کے ذریعے یا احادیث کی وحئ غیر متلو کے ذریعے۔

یہ فتاوی عام طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں کسی سوال کے جواب میں یا کسی فوری پیش آمدہ مسئلے کو بیان کرنے کے لیے صادر ہوئے اور پھر عام شرعی قائدے بن گئے۔

قرآن سے تشریعی فتوے کی مثال: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ. 

حدیث سے تشریعی فتوے کی مثال: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون ن نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا کہ میری والدہ نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ حج کریں گی، لیکن وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہو گئیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ 

آپ نے فرمایا: ہاں تم ان کی طرف سے حج کر لو۔

فتوی کی یہ قسم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم  پر وحی کا سلسلہ مکمل ہو جانے کے بعد ختم ہو گئی.

فقہی فتاوی:

 وہ فتویٰ ہے کہ فقہا میں سے کوئی فقیہ اس کا اظہار کرتا ہے، لیکن وہ کسی مخصوص واقعے کے متعلق سوال کے جواب میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ مختلف تفریعات کے ضمن میں ہوتا ہے، یا کسی عمومی سوال کے جواب میں، جس کا تعلق کسی متعین جزئی واقے سے نہیں ہوتا، اور یہ اس فقیہ و مفتی کا طریقۂ کار ہوتا ہے، جو مسائل فقہیہ کی تدوین کرتا ہے۔ 

لہذا وہ ایسی جزویات کا تصور کرتا ہے، جس کے بارے میں اس سے سوال نہیں کیا گیا اور پھر وہ ان کے احکام شریعت دلائل سے مستنبط کرتا ہے، اور ایسے فتوے کو وہ کسی کتاب یا رسالے میں بیان کرتا ہے یا کسی عمومی سوال یا فرضی سوال کے جواب میں بیان کرتا ہے۔ 

اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی فقیہ سے پوچھا جائے کہ اس شخص کا کیا حکم ہے جو اپنی بیوی کو "سرحتکِ" کہے اور اس سوال میں کسی متعین واقعے کا حوالہ نہ دیا گیا ہو۔

جزئی فتاوی:

 اس سے مراد وہ فتویٰ ہے جس میں کسی متعین واقعے کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے، اس طرح کے فقہ کے کسی کلی حکم کو جزئی واقعے پر منطبق کیا جاتا ہے۔

اس کی مثال یوں ہے کہ کسی متعین شخص کے بارے میں سوال کیا جائے کہ اس نے اپنے ورثاء میں والدین، ایک بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی، اب اس کے ترکے کو کیسے تقسیم کیا جائے گا؟

اس سوال کے جواب کو جزئی فتوی کہا جائے گا۔

اکثر و بیشتر افتاء کے لفظ کا اطلاق اس آخری قسم پر ہوتا ہے۔

ابن مالک ایوبی

نوٹ: فتویٰ کی تاریخ اور مضمون کا دوسرا حصہ، قضاء؛ تعارف و تاریخ، اگلی قسط میں پڑھیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے