شب براءت اور اسکے اعمال

 

  

حامدا و مصليا : ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ شب براءت ان مبارک راتوں میں سے ہے جن میں رحمت الہی بندوں کو اپنی جانب متوجہ کراتی ہے نیز جسکی خصوصیت یہ ھیکہ بندہ جو کچھ مانگتا ہے اسے عطاءکیا جاتاہے جیسے امام شافعی (رح) فرماتے ہیں پانچ راتوں میں  دعائیں قبول ہوتی ہیں ان میں سے ایک شب براءت ہے " *إن الدعاء يستجاب في خمس ليال في ليلة الجمعة وليلة الاضحى و ليلة الفطر وأول ليلة من رجب وليلة النصف من شعبان* (الأم ۲۶۴ /۱ )،اوریہ "شب برات"  دو لفظوں سے مرکب ہے:(۱)شب یہ فارسی لفظ ہے جسکے معنی رات کے ہیں اور(۲)براءت اسکے معنی نجات پانا،چھٹکاراپانا،خلاصی دینا،بری ہونا،آزادہونا یعنی اس رات میں چونکہ بیشمار گنہگاروں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اسلۓ اسکو *شب برأت* کہتے ہیں پھر زبانوں پر زیادہ استعمال کیوجہ سے شب برات بغیر ہمزہ کے کہا جانے لگا۔۔الغرض اس وسیع عنوان کے دو چند ذیلی نکات پر بندہ روشنی ڈالنا مناسب سمجھتا ہے اور وہ یہ ہیں:(۱) *پندرہ شعبان کی رات اور اسکے دن کے روزہ کی حقیقت و اہمیت* (۲)  *مذکورہ رات میں انجام پانے والے کام اور اس رات کے گذارنے کا نبوی طریقہ* (۳)  *مذکورہ رات کی رحمت وبرکت سے محروم لوگ* مندرجہ ذیل ان عنوانات پر ترتیب وار روشنی ڈالی جائیگی:


*(۱)* شعبان کا مہینہ برکت والا مہینہ ہے  یہی وجہ ھیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ کے برکت کی دعاء فرمائ "أللهم بارك لنا في رجب و شعبان و بلغنا رمضان"( طبرانی، بیہقی ،شعب الأیمان) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مہینے میں زیادہ نفلی روزے رکھا کرتےتھے جس سے اس ماہ کی اور زیادہ اہمیت معلوم ہوتی ہے اور یہ رات شعبان کی پندرہویں رات ہے جو چودہ تاریخ کو سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور پندرہ تاریخ کی صبح صادق تک رہتی ہے نیز دس(۱۰) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اسکی فضیلت والی روایات موجودہ ہیں اگرچہ ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے کمزور ہیں مگر محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ھیکہ ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اسکی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے(مفتی تقی عثمانی صاحب :اصلاحی خطبات ۲۴۹/۴  نعیمیہ دیوبند) نیز اس رات کو  قریب والے آسمان(پہلے آسمان) کی طرف باری تعالی خصوصی توجہ فرماتے ہیں اوربے شمار لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں آپ علیہ السلام نے فرمایا اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد ( کثرت کو بتانا مقصود ہے) میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں" *إن الله تعالی ینزل إلى السماء الدنيا فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب*"( ترمذی، ابن ماجہ ،مسند احمد ) اور دوسرا مسئلہ اس مبارک رات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کا ہے اس سلسلہ میں *شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم* فرماتے ہیں " سارے ذخیرہ احادیث میں اس روزے کے بارے میں صرف ایک روایت (إذاكانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها و صوموا نهارها... ابن ماجه ١٣٨٨/١)میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھو۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے لہذا اس روایت کیوجہ سے خاص اس پندرہ شعبان کے روزہ کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں ۔۔۔۔لیکن یکم شعبان سے ۲۷ شعبان تک ہر دن روزہ رکھنے میں فضیلت ہے اور یہ بات بھی ھیکہ یہ پندرہ تاریخ ایام بیض میں سے ہے ۔۔۔۔لہذا اگر کوئ  ۱۵ شعبان کا روزہ ان دو وجہ(ایک اس وجہ سے کہ یہ ماہ شعبان کا ایک دن ہے دوسرا اس وجہ سے کہ یہ ۱۵ تاریخ ایام بیض میں داخل ہے) سے رکھ لے تو ان شاء اللہ موجب اجر ہوگا لیکن خاص پندرہ تاریخ(شعبان) کی خصوصیت کے لحاظ سے اس روزے کو  سنت قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں ۔۔۔(اصلاحی خطبات ۲۵۹-۲۶۰/ ۴)  اسی تعلق سے *محدث عصر فقیہ الزمان حضرت علامہ انور شاہ کشمیری(رح)*  فرماتے ہیں کہ شب برات کی فضیلت تو صحیح روایات سے ثابت ہے مگر جو  ضعیف باتیں (خلاف سنت افعال)  اس کے متعلق کتابوں میں پائ جاتی ہیں انکی کوئ اصل و حقیقت نہیں ہے" *هذه الليلة ليلة البراءة و صح الروايات في فضل ليلة البراءة واما ماذكر الباب الكتب من الضعاف والمنكرات فلا أصل لها* "(العرف الشذى شرح سنن الترمذي ١٧٢/٢) *خلاصہ* یہ ھیکہ یکم شعبان سے ۲۷ شعبان تک کے روزے(سواۓ ۲۸ اور ۲۹ شعبان کے کیونکہ احادیث میں  اسکی ممانعت آئ ہے تاکہ رمضان کی تیاری کے لۓ نشاط باقی رہے) مستحب  ہیں علحیدہ طور پر صرف ۱۵ شعبان کا روزہ کو سنت یا مستحب سمجھ کر رکھنا غلط اور شرعی حدود سے ناواقفیت ہے  ہاں ایام بیض کی ایک تاریخ اور شعبان کا ایک روزہ سمجھ کر رکھنا اجر کا باعث ہوگا(ان شاء اللہ)*....*

*(۲)* بہرحال اس رات میں رحمت الہی مغفرت کا عمومی اعلان کرتی ہے نیز اس رات میں ہر ایسے بچے کا نام لکھ دیاجاتا ہے جو آنے والے سال میں پیدا ہونےوالا ہے اور ہر اس شخص کا بھی نام لکھ دیا جاتا ہے جو آنے والے سال(آئندہ شعبان تک) میں مرنے والا ہے (اللہ تعالی تو جانتے ہیں مگر انتظام میں لگنے والے فرشتوں کو اس رات میں ان لوگوں کی فہرست دیدی جاتی ہے) اور اس رات میں نیک اعمال اوپر اٹھاۓ جاتے ہیں(شرف قبولیت سے نوازے جاتے ہیں)نیز اس رات میں لوگوں کے رزق نازل ہوتے ہیں جیساکہ امی جان حضرت عائشہ(رض) روایت کرتی ہیں " *هل تدرين ما في هذه الليلة يعني ليلة النصف من شعبان قالت ما فيها يا رسول الله فقال فيها أن يكتب كل مولود بنى آدم فى هذه السنة و فيها ترفع أعمالهم وفيها تنزل أرزاقهم*.....(بيهقى ،مشكوة ص ۱۱۵) لہذا ایسی مبارک گھڑی والی رات کو نبوی اعمال سے مزین کرنے کی ضرورت ہے یعنی جو اعمال سنت سے ثابت ہیں وہ اعمال کریں جیسے اس رات کی عشاء اور فجر باجماعت  اداء کرنا ،نفلی عبادات حسب طاقت پڑھنا،قرآن کی تلاوت،ذکر و تسبیح ،اور دعائیں کرنا اپنے لۓ ،اہل وعیال کے لۓ بالخصوص امت کے حق میں ،موجودہ حالات کی درستگی وغیرہ ۔ نیز اس رات میں کوئ خاص عبادت مقرر نہیں اور نہ ہی کوئ خاص طریقۂ عبادت ثابت ہے ۔۔۔اور اس رات میں *قبرستان جانا* آپ علیہ السلام سے ثابت ہے لہذا اسکا ہر شب برات میں اہتمام کرنا ،التزام کرنا ،اور اسکو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور یہ سمجھنا کہ اسکے بغیر شب برات نہیں ہوتی یہ خلاف سنت  اور جہالت ہے کیونکہ حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب (رح) فرماتے تھے کہ جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو اسے اسی درجہ میں رکھنا چاہئے اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے لہذا ساری حیات طیبہ میں آپ علیہ السلام سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے کہ آپ شب برات میں جنت البقیع تشریف لے گۓ چونکہ ایک مرتبہ جانا ثابت ہے اسلۓ اگر زندگی میں ایک مرتبہ بھی چلے گۓ تو کافی ہے سنت اداء ہوجائیگی لیکن کبھی نہ بھی جائیں یہی ہے تفقہ فی الدین۔ (مستفاد از اصلاحی خطبات ۲۵۰ -۲۵۱/ ۴) لہذا جتنا ہوسکے عبادت کریں پھر سوجائیں تاکہ بیکار کی لغویات اور لہو و لعب اور فضولیات نیز اجتماع ،شوروشغب ،میلے ٹھیلے وغیرہ سے بچاجاسکے  کیونکہ یہ راتیں اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی راتیں ہیں بس اللہ ہو اور بندہ ہو جیسے  ع: 

  *میان عاشق و معشوق رمزیست* 

  *کراما کاتبین را ہم خبر نیست* 

 اور نوافل کی جماعت سے بھی گریز کریں کیونکہ جو عبادتیں فرائض کے علاوہ باجماعت ثابت ہیں انکے علاوہ کی جماعت عند الاحناف مکروہ تحریمی ہیں سواۓ تراویح ،کسوف،استسقاء،نماز جنازہ،عیدین، رمضان میں وتر،یہ سب باجماعت ثابت ہیں انکے علاوہ کی جماعت مکروہ ہے جیسے *تنویر الابصار مع الدر المختار* میں ہے  *لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذالك على سبيل التداعى بأن يقتدي أربعة بواحد*..(شامى،قبیل باب ادراک الفریضة ۴۸-۴۹/ ۲) نیز *حلبی کبیر* میں ہے :  *واعلم  أن النفل بالجماعة على سبيل التداعي مكروه* (حلبي كبير ،تتمات من النوافل،ص ۴۳۲، ط:سہیل اکیڈمی) ۔۔۔

*(۳)* نیز اس رات کی برکات سے ہر وہ شخص محروم رہیگا جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو اور وہ توبہ نہ کرے احادیث مبارکہ میں ایسے چند لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جنکی سچی پکی توبہ کے بغیر اس مبارک رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی وہ یہ لوگ ہیں:(۱)مشرک (۲)مشاحن یعنی دو آدمیوں میں تفرقہ اور لڑائ ڈالنے والا (۳)قطع رحمی کرنے والا (۴)اپنی ازار یا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے تک پہننے والا(۵)والدین کا نافرمان (۶) شراب کا عادی (۷)ناحق قتل کرنے والا (۸)کینہ پرور (۹)زانی  وغیرہ ان تمام لوگوں کو اللہ تعالی کی اس عمومی رحمت ومغفرت سے  الگ رکھاجاتا ہے جبتک کہ وہ توبہ نہ کرلیں ،ان لوگوں کی وضاحت صاف طور پر احادیث میں آئ ہے (۱)عن عائشة(رض) ......ولا ينظر الله فيها الى مشرك،ولا الى مشاحن،ولا الى قاطع رحم ولا الى مسبل ،ولا الى عاق لوالديه،ولا الى مدمن خمر...(الترغيب والترهيب ١١٨/١)

(٢) عن عبد الله بن عمرو(رض) ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال.....فيغفر لعباده إلا اثنين مشحن و قاتل نفس (مسند احمد رقم: ٦٦٤٢)

(٣)عن أبي موسى الاشعري (رض)عن النبي عليه السلام قال ....فيغفر لجميع خلقه الا لمشرك....(ابن ماجه ١٣٩٠)

(٤) عن أبي ثعلبة الخشني (رض) عن النبي....فيغفر الله للمؤمن و يملى للكافرين ويدع اهل الحقد بحقدهم حتى يدعوه..(بيهقي في شعب الايمان رقم : ٣٦٧٣)..

*حاصل کلام* یہ ھیکہ ہمیں شرعی حدود کی رعایت اور پابندی کرتے ہوۓ نبوی طریقے کے مطابق شب براءت کو اعمال صالحہ سے مزین کرنا ہے حسب استطاعت ،گناہ اور فضولیات سے بچتے ہوئے ورنہ فرائض پڑھ کر سوجانا بھی گناہوں سے بچنے کی وجہ سے عبادت کے زمرے میں آجائیگا(ان شاء اللہ) اور اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ میرا شمار ان لوگوں میں تو ہے نہیں جن کی آج رات بھی مغفرت نہیں ہوتی اور جو آج بھی بدنصیب اور محروم رہ جاتے ہیں نیز جن اہل حقوق  کے حقوق میں کوتاہی ہوئ ان سے معافی مانگنے کی فکر کریں مگر یاد رہے کہ ہماری معافی رسمی اور سوشل میڈیا والی فیک ،جعلی معافی نہ ہو ۔۔۔ *أللہم ارزقنا من عبادک الصالحین،أللہم انا  نجعلک فی نحورہم ونعوذبک من شرورہم* اللہ تعالی شب برآت کے فیوض وبرکات سے ساری امت کو مستفید فرماۓ اور اسکی ناقدری اور ناشکری سے حفاظت فرمائے__

وهوالموفق والمعين

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے