کیا خود کو بڑا ثابت کرنے کیلئے کسی کو چھوٹا دکھانا ضروری ہے

  

تنقید اور تحقیر

27/03/2021

✍ 

مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری 

نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ


آج کل خود کو بڑا دکھانے اور بتانے کیلئے دوسروں کو حقیر اور چھوٹا ثابت کرنے کا چلن تیزی سے بڑھ رہا ہے یہ مرض نیا نہیں بہت پرانا ہے اور اس مرض کے مریض ہر طبقہ میں پائے جاتے ہیں خواہ وہ سیاسی میدان ہو یا تنظیمی..... انفرادی مصاف ہو یا اجتماعی....... مدارس کی فیلڈ ہو یا اسکولوں کی ہر طبقہ میں یہ بیماری پائی


جارہی ہے ہم میدان عمل میں کوشش کرکے اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کے بجائے دوسروں کو چھوٹا  دکھا کر اپنا قد بڑھانا چاہتے ہیں ..... سب سے زیادہ یہ مرض سیاسی.... وہ بھی مسلم سیاسی پارٹیوں میں پایا جارہا ہے..... ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا اور حقیر ثابت کرنے میں اپنی صلاحیت لگائے ہوئے ہے.... کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہی صلاحیت میدان عمل میں لگائی جاتی تو خود کو از خود بڑا بتانے کی ضرورت ہی نا پڑتی زمانہ خود ہی چیخ چیخ کر آپکی بڑائی بیان کرتا...... یہی حال مدرسوں کا بھی ہے دوسرے مدرسہ کا قد چھوٹا بتانے میں اپنی ساری صلاحیت لگادیتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہیکہ سال دو سال میں عوام کی نظروں سے اتر جاتے ہیں اور سامنے والے کیلئے بھی عوام کے دلوں میں وسوسہ چھوڑ جاتے ہیں.... یہ انتہائی خطرناک مرض ہے موجودہ زمانہ ہرگز اسکا متحمل نہیں.... یہ وقت ایک دوسرے کا حلیف بنکے رہنے کا ہے نا کہ حریف بننے کا....

ایک بات اور جو اکثر دیکھنے میں آتی ہے ہمارے بہت سے مسلمان بھائی جو دوسری سیاسی پارٹیوں (سپا..بسپا..کانگریس) کے ساتھ ہیں  بعض مسلم قائدین اور ان سے وابستہ افراد انہیں انتہائی حقارت سے مخاطب کرتے ہیں بحیثیت مسلمان تو یہ عمل انتہائی قبیح ہے ہی سیاسی طور پہ بھی انتہائی مضر ہے اسلئے کہ جمہوریت میں سر گنا جاتا ہے اور آپ سروں کو جوڑنے کے بجائے اپنی کم فہمی کی وجہ سے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں پھر آپ کیا خاک سیاست کرینگے سیاست کا تقاضہ ہیکہ جو آپ سے دور ہیں انہیں سمجھا بجھا کر اپنے سے قریب کریں اگر آپ کسی کو رسوا کرینگے تو وہ آپ سے کبھی بھی قریب نہیں ہوسکتا جو کہ سیاست میں نقصان کا سودا ہے یوں بھی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے اور شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار ہونے کی حیثیت سے کسی کو ذلیل و حقیر سمجھنا غیر شرعی اور غیر اسلامی عمل ہے ایسا کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور شریعت کی زبان میں ایسے شخص کو متکبر کہا جاتا ہے

اللہ رب العزت کا فرمان ہے

 وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا

ترجمہ : اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ ) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر ، فخر کرنے والا ہو۔ (پ5 ، النسآء : 36(

کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے ، یہ انتہائی مذموم وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، حدیث میں ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا ، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی ، انہیں جہنم کے “ بُولَس “ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ  انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی ، انہیں “ طِیْنَۃُ الْخَبَالْ “ یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔(ترمذی شریف)

اسلئے ضرورت ہے کہ ہم اس جانب توجہ دیں ایک دوسرے کا احترام کریں ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے پیش آئیں فکر اور سوچ الگ ہوسکتی ہے اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ اسے ذلیل و رسوا کریں اور اپنی نیکیاں ضائع کریں مت بھید ہونا بری بات نہیں پر من بھید ہونا اچھی بات بھی نہیں 

اللہ تعالی ہم سب کو دینی شرعی سیاسی اخلاقی سماجی سمجھ نصیب فرمائے ایک دوسرے کو عزت دینے والا بنائے کسی کو حقیر سمجھنے کے گناہ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے...آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے