آہ حضرت الاستاذ: مولانا قاری سیدمحمد عثمان منصورپوری


مرثیہ لنک ⇓⇓



کرونا وبا کی دوسری لہر میں 18 دن کے اندر غم و الم کے پیہم سلسلہ نے دل دماغ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ موجودہ وقت کے اکابر علمائے دیوبند اور بڑے بڑے اساتذہ کا سایہ عاطفت اس طرح اٹھا کہ دل پکار رہا ہے: ربنا لا تحملنا مالا طاقة لنا بہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن حجر ثانی حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے پہلے رخ انور موڑا اور مالک حقیقی سے جا ملے تو آسمان علم و ادب کے آفتاب حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی بھی غروب ہوگئے, پھر مورخ اسلام مولانانظام الدین اسیر ادروی داغ مفارقت دے گئےاور آج میر کارواں, ملت کے نگہباں, مشفق و مربی استاذ محترم امیر الہند حضرت اقدس مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیت علماء ہند بھی اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردیئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون

جو بادہ کش تھے پرانے اٹھتے جاتے ہیں 

کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے چھ سالہ مدت میں کچھ ایسے مواقع ہیں جس میں حضرت قاری صاحب مرحوم سے کئی یادیں وابستہ ہیں, حضرت سے نصابی کتاب , رد قادیانیت پر محاضرہ کے علاوہ مدنی دارالمطالعہ کے تحت شفقت و عنایت کو دامن میں سمیٹنے کا گراں بہا موقع نصیب آیا۔بہر حال رب کریم حضرت الاستاذ کی مغفرت فرمائے, اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے, وارثین اور ہم خوشہ چینوں کو صبرو سکون بخشے۔دارالعلوم دیوبند اور جمعیت علماء ہند اور ملت اسلامیہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

محمد شبیر انور قاسمی

رامپور,مدھے پورہ بہار

21/05/2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے