آہ : حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ

 


آہ : حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ

محمد شاہد اختر کھرساوی      

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کون شخص زمانے سے اٹھا،

برصغیر کے ممتاز عالم دین، بے مثال مربی، فہم و فراست، عقل ودانائی میں لاجواب، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے داماد ،مدنی دارالمطالعہ و النادی الادبی کے سرپرست، دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث و معاون مہتمم، جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم امیر الہند، ہم سب کے رہبر و رہنما حضرت الاستاذ مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری نور اللہ مرقدہ آج ہمیں یتیم چھوڑ کر رخصت ہو گئے،

انا للہ وانا الیہ راجعون،

البقاء لله وحده

كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاكرام

اللهم اغفر له وارحمه، وعافه ،واعف عنه ،وأكرم نُزُله ، ووسع مُدخلهُ ، واغسله بالماء والثلج والبرد ، ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس ، وأبدله داراً خيراً من داره ، وأهلاً خيراً من أهله وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة ،وأعذه من عذاب القبر . ومن عذاب النار 

اللهم عبدك وابن عبدك وابن أمتك احتاج إلى رحمتك ،وأنت غني عن عذابه،إن كان مُحسناً فزده في حسناته، وإن كان مُسيئاً فتجاوز عنه

گزشتہ پندرہ دنوں سے حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ کی طبیعت خراب چل رہی تھی عید الفطر سے قبل کچھ افاقہ ہوا لیکن ضعف ونقاہت کا اثر تھا، پھر دوبارہ ١٨/ مئی ٢٠٢١ ع مطابق ٥/ شوال المکرم ١٤٤٢ ھ کو بخار آیا اور طبیعت میں گراوٹ وضعف ونقاہت میں بھی اضافہ ہوتا رہا تو ڈاکٹروں کے مشورے سے ٦/ شوال المکرم ١٤٤٢ ھ مطابق ١٩/ مئی ٢٠٢١ء بروز بدھ گوڑ گاؤں کے میدانتا اسپتال میں بطور علاج داخل کیا گیا ہے، آپ I, c, u میں تھے ،پھر طبیعت نازک ہو گئ تو ویلنٹی لیٹر پر آپ کو لایا گیا، اور آج صبح ١٠:٢٣ منٹ پرحضرت الاستاذ مولانا مفتی محمد عفان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث وصدرالمدرسین مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد سے فون پر حضرت قاری صاحب کی طبیعت سے متعلق گفتگو ہوئی تو دبے الفاظ اور دھیمے آواز میں کہنے لگے کہ والد صاحب کی طبیعت اچھی نہیں ہے دعا کرو اس وقت حضرت کا جملہ سن کر میں بھی نا امید ہو گیا ورنہ حضرت انتہائی بشاشت اور کھل کر گفتگو فرماتے تھے،

 وقت موعود آ ہی گیا تھا، قدرت کا فیصلہ اٹل ہے، کل نفس ذائقۃ الموت : موت سے کسی فرد بشر کو مفر نہیں، بالآخر ٨/ شوال المکرم ١٤٤٢ ھ مطابق ٢١/ مئ ٢٠٢١ ع بروز جمعہ، عین نماز جمعہ کے وقت دوپہر سوا بجے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے،

آپ کی بیماری کے ایام میں ناکارہ برابر حضرت مفتی محمد عفان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ سے حال و احوال دریافت کرتا رہا ،روزانہ کم از کم ایک دفعہ خیریت ضرور معلوم کرتا، حضرت الاستاذ مفتی ریاست علی صاحب رامپوری دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث و مفتی مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ سے بھی اس سلسلے میں مستقل گفتگو ہوتی رہی، برادر مکرم مفتی محمد مسیح اللہ مدھوبنی خادم خاص حضرت مفتی محمد عفان صاحب منصورپوری سے بھی رابطہ رہا وقتاً فوقتاً اطلاع دیتے رہے، 

آپ کی وفات سے سخت صدمہ پہنچا ، وفات کی سنتے ہی آنکھیں اشکبار ہو گئیں، بے ساختہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، افسوس ناک خبر نے بالکل جھنجھوڑ کر رکھ دیا، چاروں طرف اداسی چھائی ہوئی ہے، غم کا ماحول ہے، ذہن و دماغ ماؤوف ہو گیا ،یقین نہیں آ رہا ہے کہ حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن خدا کو یہی منظور تھا، بس صبر اور زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب کیا جائے،

ہر سو طرف وفات کی خبر پھیل گئی، آج مدنی دارالمطالعہ، النادی الادبی اور نہ جانے کتنے مدارس وتنظیمیں ایک مثالی سرپرست سے محروم ہوئے، آج ام المدارس دارالعلوم دیوبند و جمعیۃ علماء ہند ایک اعلی منتظم، بے لوث خادم، اکابر کے علوم ومعارف کے امین سے محروم ہو گیا، آج معروف عالم دین حضرت مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ اور حضرت مفتی محمد عفان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ بھی سایہ پدری سے محروم ہو گئے، اور نہ جانے کتنے طلبہ آپ کے حسن تربیت سے محروم ہو گئے،

گزشتہ ایک سال کے اندر ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے چار نمایاں وبڑے اساتذہ رخصت ہو گئے (١) حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری (٢) حضرت مولانا نور عالم صاحب خلیل امینی (٣) حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی (٤) حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری ،

اور مؤخر الذکر تین اکابر اساتذہ گزشتہ ١٨/ دنوں کے اندر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے،

یقیناً ان حادثات سے علمی دنیا میں زبردست نقصان ہوا ہے، اور کسی کو یہ امید بھی نہیں تھی کہ اس طرح تیزی کے ساتھ حضرات اساتذہ رخصت ہو جائیں گے،

اللہ امت مسلمہ کے حالت پر رحم فرمائے،


حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری سابق شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند نے دوران درس ایک دفعہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ :

درخت کے سارے پتے پیلے ہو گئے، کب جھڑ جائیں پتہ نہیں، 

حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ انتہائی خوش مزاج، خوش پوشاک، بے مثالی مربی ومدبر ، علم و عمل کے پیکر مجسم ،تواضع و انکساری کی دولت سے لبریز، دور اندیشی، اعلی منتظم، بہترین مدرس، شاندار محدث اور مشفق عالم دین تھے، اصول کے پابند تھے، خود داری وبے نیازی میں ضرب المثل تھے، تقوی وطہارت اور خلوص وللہیت اعلی درجہ کا تھا،

دارالعلوم دیوبند کی چھتہ مسجد کے بالائی حصہ میں آپ کا مستقل قیام رہتا تھا، طلبہ کی تعلیم وتربیت میں آپ کا اہم کردار رہا، مدنی دارالمطالعہ کے عرصہ دراز سے سرپرست تھے، النادی الادبی کے بھی سرپرست تھے، اس دوران طلبہ کو خوب فائدہ ہوا،

حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے پوری زندگی درس وتدریس میں گزاری، تدریس کا آغاز مدرسہ قاسمیہ گیا (بہار) سے کیا پانچ یہاں خدمت انجام دیتے رہے پھر مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ سے وابستہ ہوئے اور گیارہ سال تک مختلف جہات سے خدمات انجام دیتے رہے، بعدہ ١٩٨٢ / میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور تدریس کے علاوہ مختلف امور وذمہ داری نبھاتے رہے، چالیس سال کے طویل عرصے آپ نے دارالعلوم دیوبند میں گزاری اور علم دین کی نمایاں خدمات انجام دیں، انتظامی امور میں آپ اپنی مثال آپ تھے، ایسے نازک وقت میں دارالعلوم دیوبند کو آپ کی اشد ضرورت تھی لیکن یہ سلسلہ تمام ہوا، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمہ اللہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے زمانہ اہتمام میں آپ نے نائب مہتمم کی حیثیت سے خوب کام کئے، انتظامی امور میں سچے خادم ومعاون ثابت ہوئے،

تربیت کا انداز نرالا تھا، حضرت قاری صاحب کے یہاں ایک ایک چیز کی وضاحت اور معاملہ کی صفائی ضروری تھا، پائ پائ کا حساب ایک ایک حرف کی نشاندہی ہوتی تھی،

آج مدنی دارالمطالعہ کی عمارت بھی اپنے آپ کو یتیم محسوس کر رہی ہوگی کہ ہمارا سرپرست ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ گئے،

وہ لوگ مدنی دارالمطالعہ سے جڑے ہوئے تھے وہ حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کی حسن تربیت اور معمولی معمولی چیزوں پر روک ٹوک کی وجہ سے بہت آگے نکل گئے جو حضرت کی توجہ خاص اور رہنمائی ہی کا نتیجہ ہے،

اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کی مغفرت فرمائے، غریق رحمت کرے ، درجات بلند فرمائے، خدمات کو قبول فرمائے، پسماندگان ،متعلقین ومتوسلین وجملہ تلامذہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کو حضرت کا نعم البدل عطا فرمائے،

آمین،

تفصیلی مضمون بعد میں انشاء اللہ،

تحریر کردہ: ٨/ شوال المکرم ١٤٤٢ ھ مطابق ٢١/ مئی/٢٠٢١ء بروز جمعہ 

بوقت ٦/ بجے شام

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے