دشت حدیث کا عظیم سیاح ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی


دشت حدیث کا عظیم سیاح ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

سرزمین اعظم گڈھ  کے وہ سنگریزے،اور ذرہ ہائے خاک جو اہل فن اور اہل نظر کی اک نگاہِ کیمیا اثر کے نتیجے میں آفتاب و ماہتاب کی صورت میں ڈھل گئے اور اپنی تابانیوں سے انہوں نے ایک دنیا کو  خیرہ کیا، ایک عالم کو روشن کیا، ایک جہان میں فکر وفن کے سورج اگائے، اور تاریخ ساز کارنامے انجام دے کر وقت کے سینے پر اپنے دوام کا نقش ثبت کر گئے ان میں ایک روشن اور نمایاں نام حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی سابق استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کا بھی ہے۔

مولانا اعظمی رحمہ اللہ متنوع کمالات کے حامل تھے

فیاض ازل نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا، وہ جہاں  اسلامی علوم کی متعدد اصناف پر دسترس رکھنے والے ایک متبحر عالم تھے،وہیں ذہن ودماغ کو فنون کے نور سے روشن کرنے والے بہترین استاذ ومعلم بھی تھے، وہ حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے مضمون نگار تھے اور دشت تحقیق کی خاک چھاننے والے زبردست محقق بھی، ماضی کے واقعات وحادثات پر وسیع نظر رکھنے والے دیدہ ور مورخ بھی تھے اور بلند پایہ مصنف بھی، دلوں کی بستیوں میں فکر ونظر کے چراغ روشن کرنے والے مربی بھی تھے اور سیاسی شعور سے آراستہ بصیرت مند ملی رہنما بھی،مگر ان ساری خوبیوں میں اور کمالات میں جس وصف نے آپ کو معاصرین میں ممتاز مقام عطا کیا اور جس خوبی کی وجہ سے آپ کے طائر شہرت کو پرواز ملی اور شخصیت کا آوازہ ملک کی سرحدوں سے نکل کر عالمی فضا میں بلند ہوا،وہ علم حدیث میں آپ کی مہارت اور اس علم کی عظیم الشان قسم، فن اسماء الرجال میں آپ کی بے پناہ گہرائی اور عبور تھا، اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ یہ فن جس قدر عظیم الشان ہے اسی قدر مشکل بھی ہے، اس فن کے سمندر کے شناور کہیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، 

حضرت مولانا اعظمی کو اس فن پر اس قدر قدرت تھی اور اس کے متعلقات پر ایسی تحقیقی نگاہ تھی کہ نہ صرف دارالعلوم دیوبند بلکہ برصغیر میں یہ فن ان کی ذات کی شناخت بن چکا تھا، اس فن کے حوالے سےتحقیق وجستجو اور اس پر بحث وتمحیص تحریر سے لیکر تدریس تک میں نمایاں تھیں، اسی وجہ سے کیا طلبائے دارالعلوم اور کیا علماء وقت ہر ایک نے انہیں ابن حجر ثانی کے نام سے پکارا۔

مولانا اعظمی دارالعلوم دیوبند میں حدیث کے استاذ تھے اور مشکوٰۃ المصابیح ومسلم شریف ان سے متعلق تھی،جب وہ درس دیتے تو معلوم ہوتا کہ فن حدیث کا آبشار بہ رہا ہے، تحقیق وتدقیق کی ایک کائینات روشن ہورہی ہے، وہ روایتوں کی عمدہ تشریح بھی کرتے،اور اس کی پوزیشن بھی بتاتے،صحت وسقم کے لحاظ سے حدیث کی حیثیت بھی واضح کرتے اور اس کے اسباب وعلل پر بھی نہایت محققانہ اور محدثانہ کلام کرتے، راویوں کی لائف ہسٹری بھی بتاتے اور ان کی روشنی میں حدیث کے درجوں کا تعین بھی کرتے، محدثین وائمہ فن کے فیصلوں کا بھی ذکر کرتے اور دلائل کی روشنی میں ان پر جرح و تنقید بھی محدثانہ شان سے کرتے، ان کا درس اس انداز کا ہوتا کہ محسوس ہوتا کہ متقدمین ائمہ حدیث کی کوئی تحقیقی درسگاہ ہے جس میں وقت کا کوئی محدث علم کے موتی لٹا رہا ہے۔

حضرت مولانا اعظمی بہترین قلم کار اور مصنف ومورخ بھی تھے،انھوں نے تین دہائیوں تک دارالعلوم دیوبند سے نکلنے والے ماہنامہ القاسم اور اس کے بعد ماہنامہ دارالعلوم کی ادارت کی،اور نہایت اہتمام سے ان رسالوں کے ذریعے دیوبند کے افکار ونظریات کی ترجمانی کی، علوم حدیث کی تشریحات کے ساتھ ساتھ تحقیقات کی دنیا آباد کی،

تاریخی آثار وواقعات کو اجاگر کیا، اور سوانحی خاکوں کے ذریعے ان کے معیار کو بلند کیا۔

مذکورہ رسالوں میں قیمتی مضامین کے علاوہ مستقل اردو اور عربی زبان میں درجنوں تحقیقی،تاریخی ،سوانحی  اور حدیثی موضوعات پر کتابیں تصنیف کیں، فن حدیث میں آپ کی مہارت اور وسعت تو ہر طبقے میں مسلم تھی ہی،کہ یہ آپ کے مطالعے اور تحقیق کا مرکزی موضوع تھا، جو مقدمہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی،کی تشریح وتوضیح کے علاوہ شیوخ ابی داؤد فی سننہ کی صورت میں ان کی محدثانہ شان کا مظہر ہے، تاریخی شعور بھی آپ کا بہت بلند تھا، اس فن میں آپ کا مطالعہ بہت وسیع وعمیق تھا، حالات واقعات کی تحقیق وتفتیش اور تبصرے وتجزئے کی مورخانہ صلاحیتوں سے آپ کا ذہن معمور تھا، اس حوالے سے ان کی لکھی ہوئی کتاب بابری مسجد کی تاریخ اور تذکرہ علمائے اعظم گڈھ اپنے موضوع،مواد اور تاریخی معلومات کا شاہکار ہے جو اپنے قیمتی اور نادر مشمولات کی وجہ سے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔

مولانا کی ذات اس کارواں کا ایک فرد تھی جو پوری زندگی علم وتحقیق کے صحراؤں میں آبلہ پا رہا، مولانا کی زندگی بھی کتابوں کی دنیا میں گذری، دوسری دنیا سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا، وہ ہمہ وقت کتابوں کی ورق گردانی میں رہتے، مطالعہ ان کی عادت نہیں بلکہ غذا تھی، اس کے لئے وہ دنیا کی بڑی سے بڑی چیزوں کو قربان کردیتے تھے، وہ اسفار نہیں کرتے تھے،جلسوں اور کانفرنسوں سے کنارہ کش تھے، دعوتوں اور مجلسوں سے دور رہتے تھے، ان کی سب سے اہم مشغولیت،اور سب سے پسندیدہ مصروفیت صرف کتب بینی تھی اسی وجہ سے انہیں کتابوں کا کیڑا کہا جاتا تھا، درحقیقت وہ صحرائے کتب کے قیس تھے،جس کی تمام تر دلچسپی اور توجہ کتابوں پر مرکوز تھی، وہ ان کے حصول کے لیے اچھی خاصی رقمیں صرف کرتے تھے ان کے متعلقین میں سے اگر کوئی کتابوں کے دیار سے آتا تو صرف کتابوں کی فرمائش کرتے اور منگاتے۔

مولانا اعظمی علیہ الرحمہ کی زیارت پہلی بار دیوبند میں ہی درجہ وہفتم کے زمانے میں ہوئی، یہیں ان کی شخصیت کا اندازہ ہوا، اور یہیں ان کی مقبولیت اور علم وتحقیق میں ان کے آسمان عظمت سے آشنا ہوا،مگر باوجود اس کے ان کی مصروفیت اور رعب کے باعث ان کے علم کدے پر ایک دو بار کے علاوہ حاضر خدمت ہونے کی توفیق نہیں ہوسکی، حالانکہ وہ بہت خوش مزاج،ظریف الطبع اور ملنسار تھے، طالب علموں کی بہت قدر کرتے اور شفقتوں سے نوازتے، ان کی مشکلات کو دور کرنے کی مکمل کوشش کرتے، خصوصا مشرقی یوپی کے طلباء کا وہ بہت خیال کرتے،ان کے معاشی،رہائشی اور انتظامی مسائل کوبغیر کسی تامل کے پوری توجہ سے حل فرماتے ۔

مولانا اعظمی مزاج کے لحاظ سے بہت نفیس اور باذوق تھے، وضعداری  ان کی زندگی میں مکمل جلوہ سامانیوں کے ساتھ نمایاں نظر آتی تھی، لباس نہایت صاف ستھرا اور نفیس پہنتے تھے، رہائش گاہ بھی ضبط ونظم اور سلیقہ مندی کا نمونہ تھی، وہ دوسروں پر زیر بار ہونا پسند نہیں کرتے تھے اپنا کام اکثر وہ خود ہی کرتے تھے، خود ہی کھانا بناتے ،قریب رہنے والے طالب علم خدمت کے لئے حاضر ہوتے مگر ان سے خدمت نہیں لیتے،شاید یہ طلباء کی عظمت کا اثر تھا جس سے ان کا قلب معمور تھا،

سیاست میں جمعیت علمائے ہند کی فکر سے وابستہ تھے،مدنی خاندان کے والہ وشیدا تھے، حضرت سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے انہیں بہت عقیدت تھی،اسی طرح مولانا ارشد مدنی صدر جمعیت علماء ہند سے بھی بہت محبت کرتے تھے اور مولانا مدنی بھی ان کی قدر کرتے تھے، عصر کے بعد حضرت مدنی کے یہاں حاضری کا بہت اہتمام تھا اگر کسی وجہ سے مولانا اعظمی  مدنی علم کدے پر نہیں جاپاتے تو مولانا مدنی خود آپ کے یہاں تشریف لاتے،جمعیت کے پلیٹ فارم سے مولانا اعظمی نے گراں قدر ملی وسماجی خدمات انجام دی ہیں، جمعیت علماء کی علمی وسیاسی تجاویز اور دستاویزات آپ ہی قلم سے تیار ہوتیں، اس تنظیم کے آپ فعال اور متحرک مینیجنگ رکن تھے، مولانا بہت خوددار، بے باک، اور بے نیاز تھے، شان استغنا ان کے ہر عمل سے ظاہر ہوتی تھی، وہ حق بات کا برملا اور دوٹوک انداز میں اظہار کرتے تھے، مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کی کسی فکر وعمل میں انہیں ذرا بھی انحراف نظر آتا تو کھل کر تنقید کرتے اور سخت لہجے میں اس کی قباحت کی وضاحت کرتے۔

مولانا اعظمی 1942/مطابق 1362ھ میں خطۂ اعظم گڈھ کی زرخیز بستی جگدیش پور میں پیدا ہوئے، مکتب کی تعلیم گاؤں کے بزرگ حاجی محمد شبلی مرحوم کے ذریعے شروع ہوئی، درجہ پنجم تک کی تعلیم گاؤں کے مکتب میں مکمل کی،والد صاحب کی خواہش تھی کہ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے تلاش معاش میں  آپ مصروف ہوں، مگر حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی نوراللہ مرقدہ کی خواہش پر مولانا کے والد اعلیٰ تعلیم کے لئے آمادہ ہو گئے اور شیخ کی کوشش سے آپ  عربی وفارسی کے لئے مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم سرائے میر میں داخل ہوئے، ابتدائی عربی وفارسی کی تعلیم کے بعد حضرت شیخ الحدیث رحمت اللہ علیہ کے ساتھ آپ مطلع العلوم بنارس چلے آئے جہاں حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحب علیا کے استاذ تھے انہیں کی نگرانی میں یہاں اکتساب فیض کا سلسلہ جاری رہا اس کے بعد دارالعلوم مئو میں متوسطات کی تکمیل کے بعد دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور 1962/مطابق 1382میں  سند فضیلت حاصل کی۔آپ کے  خاص وہ اساتذہ جنھوں نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ان میں  مولانا فخر الدین مرادآبادی، علامہ ابراہیم بلیاوی،مولانا شیخ عبدالحق اعظمی رحمہم اللہ ہیں، مؤخر الذکر شخصیت نے آپ کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے،قدوۃ السالکین حضرت پھولپوری سے بھی آپ کو تلمذ کا شرف حاصل ہے ۔

 تعلیم سے فراغت کے بعد قدوۃ الاولیاء حضرت پھولپوری کے ایما پر مدرسہ روضۃ العلوم پھولپور کے زیراہتمام تبلیغی خدمات میں مصروف ہوگئے، اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم منگراواں میں تدریسی خدمات انجام دیں، علم وفن کا یہ ابر یہاں سے اٹھا تو مدرسہ قرآنیہ بڑی مسجد جونپور میں ایک عرصے تک برسا ،1971میں جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس کی طرف سےآپ کو تدریس کی  دعوت دی گئی جسے قبول کرکے وہاں  عربی شعبے میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔1980 میں مولانا سید اسعد مدنی کی دعوت پر دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور فضلاء دارالعلوم کی تنظیم المؤتمر کے ترجمان ماہنامہ القاسم کی ادارت سے منسلک ہوگئے، 1982/ 1402/میں دارالعلوم میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے اور علیا درجے کی اہم کتابیں مشکوۃ المصابیح ومسلم شریف آپ کے سپرد ہوئیں، اسی دوران ماہنامہ دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری بھی آپ سے منسلک ہوگئی، 

 آپ کی تدریس وتحریر کا دورانیہ چالیس سال پر محیط ہے تقریباً نصف صدی میں کتنے افراد نے آپ سے کسب فیض کیا، کتنے تشنگان علم نے علمی پیاس بجھائی، کتنے قلوب میں پھیلے ہوئے شک وارتیاب کے بادل چھٹے، کتنے اذہان کی تاریکیاں کافور ہوئیں، اس کا اندازہ کیونکر لگایا جا سکتا ہے۔

  مولانا اعظمی کی عمر کا کارواں آٹھویں دہائی میں داخل ہوچکا تھا مگر ان کی فعالیت ومشغولیت اور ظاہری شکل وصورت کے لحاظ سے محسوس نہیں ہوتا تھا کہ آپ عمر کی اس منزل میں ہیں، وہ بہت صحت مند تھے،ان کا جسم بیماریوں سے ناآشنا تھا، ادھر موسمی بخار وزکام میں مبتلا ہوئے،تو گھر ہی پر علاج کی تدبیریں چل رہی تھیں،حالیہ وبائی امراض یعنی سانس کی تکلیف کا عارضہ دیکھتے ہی دیکھتے انہیں بھی لاحق ہوا، آکسیجن کی خدمات کے بعد طبیعت سنبھلی تو خلق خدا کو اطمینان میسر ہوا، مگر چند روز بعد پھر حالت نازک ہوئی تو بگڑتی چلی گئی،ہاسپٹل لے جایا گیا مگر وقت موعود آچکا تھا اور رمضان المبارک کے ساتھ ساتھ علم وتحقیق کا یہ آفتاب بھی 30/رمضان المبارک 1442/مطابق 13/مئی 2021کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوکر ایک دنیا کو سوگوار کرگیا، 

  نماز جنازہ جگدیش پور میں ہی آپ کے پوتے مولانا محمد عفان نے پڑھائی اور پھر اس گنجینہ فکر وفن کو خاک میں چھپا دیا گیا۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

مسجد انوار شواجی نگر گوونڈی ممبئی

تاریخ 15مئی 2021 /2شوال المکرم 1442

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے