گلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا


گلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا


وفات حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی 

(١٩٥٢ء/١٣٧٢ھ=٢٠٢١ء/١٤٤٢ھ)

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

٢٠/ رمضان المبارک ١٤٤٢ھ بوقت سحر یہ اندوہناک خبر ملی کہ ایشیا کی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے عربی ادب کے استاذ اور ماہنامہ الداعی کے چیف ایڈیٹر  استاذ محترم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب نے تقریبا ٧٠/سال کی عمر میں داعئ اجل کو لبیک کہا اور اس دار فانى سے دار آخرت كو رخصت ہوئے،  إنا لله وإنا إليه راجعون، إن لله ما أخذ وله ما اعطى وكل عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب


 اس الم ناک خبر نے آپ کے ہزاروں تلامذہ اور فرزندان دارالعلوم کی روح كو بيقرار، دل كو مضطرب اور قلب كو غمناک كرديا۔ 

يہ دنيا چند روزه ہے جو بھى يہاں آيا ہے اسے موت كا مزه  چكھنا ہے، اس سے كسى كو مفر نہيں، ارشاد باری تعالی ہے  ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ [العنكبوت: 57] 


زندگی کی بے ثباتی یہی وہ واحد سچ ہے جس سے انکار کی کوئی صورت نہیں، گزرتا ہوا ہر لمحہ ہمیں بے ثباتی کے اس احساس سے بھرتا ہے، زندگی کی تمام چمک دمک فنا پذیری کی طرف رواں دواں ہے۔


وہ لوگ بڑے ہی سعید بخت ہیں جن پر اس دنیا کی بے ثباتی آشکارا ہوگئی، اور انہوں نے معصیت کی زندگی سے انحراف کرلیا، جس کا دل بھی اس دنیا کی عارضی حیات کی حقیقت جان گیا اس کے دل سے حرص وہوس اور عناد وکینہ سب کچھ نکل جاتا ہے۔


موت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، ہر نکھرتی ہوئی صبح اور ہر ڈھلتی ہوئی شام کسی نہ کسی کے لیے منتہائے زیست کا پیغام لاتی ہے، گردش شام وسحر کے باوجود موت کا رقص ہر سمت جاری ہے، ہر روز لاتعداد افراد لقمہ اجل بنتے ہیں اور منوں مٹی کے نیچے سما جاتے ہیں اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی، مگر کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی رخصت پر صدیاں اور زمانے اشکبار ہوتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ بہت کمیاب اور نادر الوقوع ہوتے ہیں

 ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 

 بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 

اور متنبی نے کہا تھا:


مَضَتِ الدُهورُ وَما أَتَينَ بِمِثلِهِ

وَلَقَد أَتى فَعَجَزنَ عَن نُظَرائِهِ


انہیں شخصیات میں حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب رحمہ اللہ کی ذات گرامی تھی۔


حضرت مولانا کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا جس نے تقریبا چالیس سال سے دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان وادب کی بساط بچھا رکھی تھی، اور وحید عصر مربی جلیل حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد اس وراثت کو سنبھالے ہوئے تھے۔ اور آپ اس کے تنہا امین تھے۔

 تدریس کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کے عربی ترجمان ماہنامہ الداعی کی ادارت کا فریضہ بھی انجام دے رہے تھے۔


 حضرت مولانا کا نام سب سے پہلے آپ کی مقبول عام کتاب حرف شیریں پر دیکھا، کتاب دیکھنے کی غرض سے اٹھایا اور پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا چلا گیا، یہ ١٩٩٨ء کی بات ہے اس وقت مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی میں عربی سوم کا طالب علم تھا، اسی وقت سے حضرت مولانا کی زیارت اور تلمذ کا شوق تھا، پھر جب ٢٠٠١ء میں دارالعلوم دیوبند میں سال ہفتم میں داخلہ ہوگیا تو حضرت مولانا کو احاطہ دارالعلوم میں آتے ہوئے دیکھا کرتا، آپ ظہر کے بعد ششم ثانیہ اور تکمیل ادب میں پڑھاتے تھے۔


آپ سے باقاعدہ شاگردی کا شرف ٢٠٠٣ء میں حاصل ہوا جب تکمیل ادب میں داخلہ ہوا۔ مگر پورا سال صرف درس میں حاضری ہوتی اس کے علاوہ کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا، وجہ یہ تھی کہ حضرت مولانا اصول وضوابط کے بہت پابند تھے، آپ سے ملاقات کے لیے پہلے سے معلوم کرنا پڑتا تھا کہ آپ کس وقت خالی ہیں، دارالعلوم دیوبند کی پوری طالب علمی چھ سال کے عرصہ میں صرف ایک بار آپ کے دولت خانہ پر حاضری کی سعادت ملی۔


آپ سے تعلقات کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب ہمارے خسر حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ کا ٣٠/دسمبر  ٢٠١٦ء کو انتقال ہوگیا تو حضرت شیخ کی وفات پر حضرت مولانا کو مضمون لکھنا تھا اور آپ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جس شخصیت پر آپ مضمون لکھتے اس کی زندگی کے پورے احوال اس میں لکھ ڈالتے، کن اساتذہ سے پڑھا، ان کی وفات کب ہوئی، یہ ساری باتیں اس میں درج ہوتی ہیں، جیسا کہ آپ کی متعدد کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔

اسی غرض سے ایک مرتبہ ہمارے کرم مولانا انظر کمال صاحب قاسمی مئوی نے فون کیا کہ حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں، میں نے ان سے نمبر لیا اور حضرت کے یہاں فون کیا اور تعارف کے بعد تفصیلی بات ہوئی، حضرت مولانا نے فرمایا پھر جب بھی ضرورت پڑے گی میں فون کروں گا۔

اس کے بعد جب مضمون تیار ہوگیا تو حضرت نے میرے یہاں ایمیل کیا، اس کے بعد سے خیریت معلوم کرنے کے لیے وقتا فوقتا فون کرتا رہتا تھا۔

حضرت شیخ پر لکھا ہوا مضمون جب ماہنامہ الداعی میں شائع ہوا تو حضرت نے پتہ مانگ کر دو نسخے ڈاک سے بھجوائے۔

اور بعد میں جب وہی مضمون اردو ترجمہ ہوکر اور اضافہ کے ساتھ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں شائع ہوا تو حضرت نے اطلاع دی اور اس کے بھی دو نسخے ڈاک سے بھجوائے، آپ کا یہ شفقت کا معاملہ خردوں کے ساتھ آپ کے بلند اخلاق کی غمازی کرتا ہے۔


اس کے بعد تو حضرت کے پاس ہفتہ عشرہ میں فون کرنے کا معمول بنالیا، ٢٠١٧ء میں ایک مرتبہ دیوبند حاضری ہوئی تو حضرت کے یہاں فون کرکے حاضر ہوا اور عصر کے بعد بہترین ضیافت فرمائی اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔

اور جب جولائی ٢٠١٨ء میں میرا امارات ابو ظبی کا سفر ہوگیا تو حضرت کو اطلاع دی آپ نے کام کی نوعیت وغیرہ معلوم کی۔

غالبا دو سال قبل جب آپ کو عارضہ قلب لاحق ہوا تھا تو اس وقت فون سے خیریت معلوم کی تو حضرت نے دعا کے لیے کہا کہ ابھی بہت کام باقی ہے، دعا کرو اللہ تعالی جلد صحت دے۔


جب آپ کو صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا تو آپ کے یہاں فون کرکے مبارک باد پیش کی تو بہت خوش ہوئے۔

حضرت مولانا کی جہاں بہت ساری خصوصیات تھیں وہیں ایک خاص چیز جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ کہ آپ کو اپنے اساتذہ سے غایت درجہ محبت تھی۔

کبھی کبھی فون کرکے میں دعا کے لیے کہتا تو فرماتے کہ آپ تو ہمارے استاذ کے رشتہ دار ہیں، اور اساتذہ اور ان کے رشتہ داروں کے لیے میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں۔


حضرت مولانا کا شمار ہندوستان کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں ہوتا تھا جنہوں نے عربی زبان وادب کی خدمت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا۔

عربى زبان وادب كے حوالے سے آپ نے ايسے لازوال كارنامے انجام ديئے جو ہميشہ باقى رہيں گے۔

آپ عربی اور اردو دونوں زبانوں کے مسلّم ادیب تھے، بر صغیر ہند وپاک اور عالم عرب کے تمام بڑے علماء آپ کی تحریروں کے قدر دان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی کوئی بھی کتاب طبع ہوکر آتی تو اس کے اڈیشن بہت جلد ختم ہوجاتے تھے۔


  ذیل میں حضرت مولانا كى مختصر سوانح اور خدمات پر ايک سرسرى نظر ڈالى گئى ہے۔


 نام ونسب: 

نور عالم خلیل امینی 

والد صاحب کا نام حافظ خلیل احمد تھا، سلسلہ نسب اس طرح ہے: نور عالم بن خليل احمد بن رشید احمد بن محمد فاضل بن کرامت علی صدیقی

آپ كى کنیت ابو اسامہ نور ہے، چونكہ آپ كى فراغت  مدرسہ امينيہ دهلى سے تھى اس ليے اس كى طرف نسبت كرتے ہوئے امينى لكھتے تھے اور يہ نسبت اتنى زياده مشہور ہوئى كہ گويا آپ كے نام كا جزء بن گئى تھى۔


 تاریخ پیدائش: 

18 دسمبر  1952ء مطابق یکم ربیع الآخر ١٣٧٢ھ یاد رہے کہ عربی تاریخ پیدائش حضرت نے بعض تلامذه کو لکھوائى تھى اور فرمايا تھا کہ کتابوں میں عربی تاریخ صحیح نہیں ہے ۔

آپ كا وطن اصلی: (ددھیال) رائیپور (RAIPUR)حال ضلع سیتامڑھی سابق ضلع مظفر پور بہار تھا۔ اور جائے پیدائش ننھیال ہرپور بیشی (HARPUR BESHI)ضلع مظفر پور بہار ہے۔

آپ صرف تین ماہ کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اس کے بعد آپ کی والدہ کا نکاح ثانی ہوا مگر شوہر ثانی کا بھی انتقال ہوگیا اور تقریبا پینتیس سال کی عمر میں دوبارہ بیوہ ہوگئیں، آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور نانا نے کی۔


 تعلیم و تربیت: 

قاعدہ بغدادی کی شروعات نانا جان سے کی، اس کے بعد رائے پور میں مولوی ابراہیم عرف مولوی ٹھگن کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

اس كے بعد مدرسہ امدادیہ  دربھنگہ میں غالباً محرم ١٣٨٠ھ مطابق جون 1960ء  داخلہ ليا ، جہاں درجہ حفظ،  سات پارے حفظ کے بعد ١٣٨١ھ مطابق 1961ء میں درجہ ششم اردو میں داخل ہوئے۔ 

(مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں مولانا اویس رائے پوری، مولانا تسلیم قاسمی سدھولوی  وغيره آپ کے اساتذہ تھے۔


بعد ازاں مشرقى يوپى كى مشہور دينى درس گاه دارالعلوم مئو میں 1964 ء مطابق ١٣٨٣ھ درجہ عربی اول  ميں داخل ہوئے، جہاں مختلف اساتذه سے كسب فيض كيا، جن ميں  حضرت قارى مولانا ریاست علی بحری آبادی ، مولانا امین صاحب ادروی، مولانا نذیر احمد مئوی، مولانا عبدالحق اعظمی شیخ ثانی دارالعلوم دیوبند، وغيره شامل ہيں۔


دارالعلوم دیوبند میں ١٦ شوال ١٣٨٧ھ مطابق 20 دسمبر 1967ء كو داخل هوئے ، جهاں مختلف اساتذه كے سامنے زانوئے تلمذ تہ كيا، جن ميں حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی اورمولانا نصیر احمد خان صاحب وغيره ہيں۔


آپ كى فراغت مدرسہ امينيہ دہلى سے تھى وہاں آپ كے اساتذه ميں  نماياں حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندی كا نام ہے۔ 


 تدریسی خدمات: 

تعليم سے فراغت كے بعد آپ نے درس وتدريس كے ميدان ميں قدم ركھا اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تقریباً دس سال جون1972ءسے 1982ء تک خدمات انجام دى۔

اس کے بعد ١٥/شوال المكرم ١٤٠٢ھ مطابق٦/اگست  ١٩٨٢ء کو دارالعلوم دیوبند عربی ادب کے استاذ کی حیثیت سے تقرری ہوئی۔

جہاں تقریباً چالیس سال تک سے وفات ٣/مئى ٢٠٢١ء مطابق ٢٠/ رمضان المبارك ١٤٤٢ھ تک سلسلہ جارى رہا۔

اللہ تعالی نے حضرت الاستاذ کو زبان وبیان کا ملکہ عطا فرمایا تھا، آپ اردو عربی جس زبان میں بھی لکھتے آپ کی تحریر کی سحر آفرینی ایسی ہوتی کہ قاری اس تحریر میں کھو جاتا۔

آپ وقت کے بہت پابند تھے، کبھی کبھی مجلس اور جلسے وغیرہ میں نہیں جاتے تھے اور اپنے علمی مشاغل میں مصروف رہتے، آپ کو یوں تو تمام ہی اکابر علمائے دیوبند سے حد درجہ عقیدت و محبت تھی مگر حکیم الامت حضرت مولانا  اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے بہت قدر دان تھے اور فرماتے کہ حضرت حکیم الامت کے اصول و ضوابط کو بعض حضرات سختی سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ حضرت اصول کے پابند تھے۔

آپ بھی اوقات کی بہت زیادہ قدر تھے یہی وجہ تھی کہ بہت سی تصنیفات عربی اردو زبان میں، اور اس کے علاوہ سیکڑوں مضامین آپ کی یادگار ہیں۔


 تصنیفات بزبان اردو: 

'' وہ کوہ کن کی بات"...  ، پس مرگ زندہ، فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، صحابہ رسول اسلام کی نظر میں، کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟، عالم اسلام کے خلاف صلیبی صہیونی جنگ... حقائق اور دلائل، حرف شیریں، خط رقعہ کیسے لکھیں. رفتگان نارفتہ،( زیر طبع)

بالکل آخری کتاب غالبا پریس میں تھی، ایک روز فون کرنے پر کتاب کے مشمولات کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا اور فرمایا کہ اس میں حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ، حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ، اور حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رح کے ساتھ ساتھ کل چوبیس تذکرے ہیں، اور دو تذکرے ایسے ہیں جن میں اتنے کثرت سے خطوط ہیں کہ وہ گویا میرا ہی تذکرہ ہو۔

حضرت نے فرمایا کہ کتاب طبع ہونے کے بعد آپ کے پاس بھیجنے کی کیا شکل ہوگی، میں نے عرض کیا کہ حضرت میں خود دیوبند حاضر ہوں گا، مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور اس سے پہلے ہی آپ راہی آخرت ہوگئے، اللہ تعالی کامل مغفرت فرمائے۔


 تصنیفات بزبان عربی: 

مجتمعاتنا المعاصرہ والطریق الی الاسلام، المسلمون فی الہند، الدعوہ الاسلامیہ بین الامس والیوم، مفتاح العربیہ، دوجلدیں، العالم الھندی الفرید: الشیخ المقری محمد طیب، فلسطین فی انتظار صلاح الدین، الصحابۃ ومکانتہم فی الاسلام، من وحی الخاطر پانچ جلدوں میں اشراقہ کا مجوعہ


 تراجم اردو سے عربی: 

تقریباً پچیس کتابوں کا اردو سے آپ نے عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے جس میں سے مشہور یہ کتابیں ہیں: 

١ عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح (مولانا سید ابوالحسن الندوی) التفسیر السیاسی للاسلام فی مرآۃ کتابات الاستاد ابی الاعلی المودودی والشھید سید قطب 

٢ پاکستانیوں سے صاف صاف باتیں (مولانا سید ابو الحسن علی ندوی) احادیث صریحۃ فی باکستان 

٣ مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت (مولانا سید ابو الحسن علی ندوی) الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد الیاس الکاندھلوی 

 ٤ حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق (مفتی تقی عثمانی) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فی ضوء الوثائق الاسلامیہ 

٥ عیسائیت کیا ہے؟ ماھی النصرانیہ (مفتی تقی عثمانی) 

٦ علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج (حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب) علماء دیوبند واتجاھم الدینی و مزاجھم المذہبی 

٧ من الظلمات الی النور (کرشن لال) ماساۃ شاب ھندوسی اعتنق الاسلام 

٨ ہندوستان کی تعلیمی حالت انگریزی سامراج سے پہلے اور اس کی آمد کے بعد (مولانا حسین احمد مدنی) الحالۃ التعلیمیہ فی الھند فیما قبل عھد الاستعمار الانجلیزی وفیما بعدہ

 ٩ ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت (مولانا منظور احمد نعمانی) الثورۃ الایرانیہ فی ضوء الاسلام 

١٠ بر صغیر میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے خلاف پروپیگنڈے کے علمائے حق پر اثرات (مولانا منظور احمد نعمانی) دعایات مکثفۃ ضد الشیخ محمد بن عبد الوھاب النجدی 

١١ دعوت اسلامی مسائل و مشکلات (مولانا امین احسن اصلاحی) الدعوۃ الاسلامیہ قضا یا و مشکلات 

١٢ مقالات حکمت، ومجادلات معدلت (حکیم الاسلام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) لآلی منثورۃ فی التعبرات الحکیمہ عن قضایا الدین و الاخلاق والاجتماع 

١٣ اشتراکیت اور اسلام (ڈاکٹر خورشید احمد) الاشتراکیۃ والاسلام( مولانا سعید الرحمن ندوی کے ساتھ) 

١٤ حضرت مدنی کے مختلف مضامین کا ترجمہ. بحوث فی الدعوۃ والفکر الاسلامی


 مضامین و مقالات: 

ہندوستان و پاکستان و مختلف عربی ممالک سے شائع ہونے والے اردو عربی رسائل میں تقریباً پانچ سو مضامین و مقالات

اس مختصر مضمون میں آپ کی خدمات کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔


آپ کی زندگی میں اپنے اساتذہ کا اثر نمایاں طور پر تھا اور سب سے زیادہ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی اور حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی کا ذکر خیر کرتے تھے، حتی کہ بعض مرتبہ سنا گیا کہ آج جو کچھ ہوں انہیں اساتذہ کا طفیل ہے، ابھی جلد ہی حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی کا انتقال ہوا تو وفات پر تعزیت کے لیے فون کیا تھا اس موقع پر ان کے بہت سے اوصاف بیان کیے، امید تھی کہ ان کی شخصیت پر تفصیلی مضمون آئے گا مگر اس سے پہلے ہی آپ رخصت ہوگئے۔


 علالت اور وفات: 

حضرت مولانا ایک عرصہ سے شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے چلنے پھرنے میں بہت دشواری تھی، یہی وجہ تھی کہ نماز بھی گھر ہی پر ادا کرتے تھے، تقریبا دو سال عارضہ قلب لاحق ہوا اور اس کی سرجری ہوئی تھی۔

ابھی جلد ہی ایک روز فون کرنے پر بتلانے لگے کہ کچھ کچھ دنوں کے بعد پیروں میں زخم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی کے ساتھ ابھی ہفتہ عشرہ قبل آپ کو بخار آگیا تھا جس کی وجہ سے مظفر نگر اسپتال میں داخل کرایا گیا مگر پھر ڈاکٹر کے مشورے سے گھر ہی پر علاج چل رہا تھا، اور دو تین روز اچانک طبیعت خراب ہوگئی اور میرٹھ اسپتال میں بھرتی کیا گیا، آپ کے چاہنے والوں میں بہت بیچینی تھی اور دنیا بھر میں دعائیں جاری تھیں، معلوم ہوا کہ آپ رو بصحت ہیں اور جلد ہی دیوبند آجائیں گے۔ مگر اچانک٢/مئی کو طبیعت خراب ہوگئی اور بالآخر٣/مئی  بوقت سحر سوا تین بجے علم کا یہ نور جس سے ہزاروں افراد روشنی پارہے تھے ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ اور بہت جلد یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی اور ہر طرف سے تعزیتی پیغام کا سلسلہ جاری ہوگیا۔

اسی دن ظہر کے وقت حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی اقتدا میں نماز جنازہ پڑھی گئی اور اس گنج گراں مایہ کو مزار قاسمی میں دفن کردیا گیا۔ رحمہ اللہ رحمة واسعة

بر صغیر کی نامور شخصیات کے انتقال پر آپ کے مضامین کا شدت سے انتظار رہتا تھا، اب آپ پر چند سطریں لکھ کر اپنے دل کو سکون دے ہیں۔

اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے اور آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کے جملہ پسماندگان ولواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے