احکام ذی الحجہ


احکام ذی الحجہ


(تیسری قسط)

ترتیب

زین العابدین قاسمی

خادم جامعہ قاسمیہ اشرف العلوم نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ

اَیّامِ تشریق/تکبیر تشریق:

 ذوالحجہ کے تین دنوں (گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ ) کو ”اَیّامِ تشریق“ کہا جاتا ہے۔ یوم عرفہ، یوم النحر اور ایامِ تشریق اِن پانچ دنوں میں یعنی نویں ذوالحجہ کی فجر سے تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک ہرفرض نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیر تشریق یعنی اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدْبآواز بلند پڑھنا ہرنمازی خواہ جماعت سے پڑھنے والاہو یا تنہا، مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت سب پرواجب ہے؛البتہ عورت آہستہ کہے۔


اَیّامُ النَّحر( قربانی کے دن) :


ذوالحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو ”اَیَّامُ النَّحر“ (قربانی کے دن) کہا جاتا ہے، قربانی کی عبادت صرف انہیں تین دن کے اندر مخصوص ہے،ان کے علاوہ دوسرے دنوں میں قربانی جائز نہیں،لہٰذاگر قربانی کے دن گذر گئے اور قربانی اُس پر واجب تھی مگر ناواقفیت، غفلت یا کسی عذر کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کرناواجب ہے۔ان تین دنوںمیں جس دن چاہے قربانی کر سکتا ہے، البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے، اورقربانی رات میں کرنابھی جائز ہے مگر بہتر نہیں۔


نماز عید الاضحٰی:


دسویں ذی الحجہ کو پہلے ”عید الاضحیٰ“ کی نماز پڑھی جاتی ہے اس کے بعد قربانی کی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کی نماز واجب ہے، اور یہ دورکعت ہے عام نمازوں کی طرح ، فرق صرف اتنا ہے کہ اِس میں ہر رکعت میں تین تین تکبیریں زائد ہیں۔پہلی رکعت میں سبحانک اللّٰھم الخ پڑھنے کے بعد قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے، ان زائد تکبیروں میں اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اُٹھانا چاہئے، پہلی رکعت میں دوتکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑدیں، تیسری تکبیر میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لیں، اور دوسری رکعت میں تینوں تکبیروں میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑدیں، چوتھی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں۔ نماز عید کے بعد خطبہ سنت ہے، اور شروع ہوجانے کے بعد خطبہ سننا واجب ہے، اپنی اپنی جگہ بیٹھے ہوئے خاموشی کے ساتھ خطبہ سن کر واپس آئیں،خطبہ سنے بغیر نماز عید کاثواب نامکمل اور ادھورا رہتا ہے۔


دسویں ذوالحجہ کے دن سب سے پیارا عمل:


اس دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کاسب سے پیارا عمل ”قربانی“ ہے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ وَاِنَّہٗ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقَیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلَافِھَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْسًا۔ (رواہ الترمذی وابن ماجۃ)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحر( ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یعنی قربانی والے دن) میں آدمی کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں،اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگوں، بالوں اورکھروں کے ساتھ آئے گا،اور (قربانی کے جانور کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی (کی رضا اور مقبولیت) کے مقام پر پہونچ جاتا ہے، تو (اے خدا کے بندو!)  تم لوگ جی خوش کر کے قربانی کرو (زیادہ داموں کے خرچ ہوجانے پردل برا مت کیا کرو)۔ (ترمذی، ابن ماجہ) 


حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں:

”اس (حدیث) میں قربانی کی تین فضیلتیں ہیں: پہلی فضیلیت: نبیﷺ نے فرمایا: کوئی بھی بندہ: قربانی کےدن کوئی بھی عمل ایسا نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے یعنی قربانی کرنے سے زیادہ محبوب ہو، یعنی قربانی کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل قربانی ہے۔ دوسری فضیلت: قربانی قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی، یعنی جیسا جانور قربان کیا تھا ویسا ہی قیامت کے دن ملے گا، اس کا کوئی بے کار عضو بھی ضائع نہیں ہوگا ، سینگ ، بال اور کھر جو پھینک دئے جاتے ہیں وہ بھی ضائع نہیں ہوں گے۔ تیسری فضیلت: قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہوجاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس پر ثواب عنایت فرماتے ہیں، قبول ہونے کا یہی مطلب ہے۔نبی ﷺ نے یہ فضیلتیں بیان کرکے فرمایا: پس خوش دلی سے قربانی کرو یعنی اس کو بوجھ مت سمجھو؛ کیونکہ تمھاری قربانی ضائع نہیں ہوگی؛ بلکہ قیامت کے دن تمھارے کام آئے گی“(تحفۃ الالمعی ۴/۴۲۷)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے