يوم عاشوراء كا روزه

يوم عاشوراء كا روزه

 عبيد الله شميم قاسمى 

محرم الحرام سال كے چار حرمت والے مہينوں ميں سے ایک ہے جس كا زمانہ جاہليت ميں بھى اہل عرب احترام كرتے تھے، ان مہينوں ميں قتل وغارت گرى اور لوٹ مار سے باز رہتے تھے، وه حرمت والے مہينے ذی قعده، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب ہيں۔

اسى طرح قريش دسويں محرم كے احترام كى وجہ سے زمانۂ جاہليت ميں اس دن كى عظمت كا خيال كرتے تھے اور روزه ركھتے تھے اور خانۂ كعبہ پر نيا غلاف اسى دن ڈالتے تھے، حضرت عائشہ رضى الله عنها كى روايت ہے كہ رمضان شريف كا روزه فرض ہونے سے پہلے قریش عاشوراء كا روزه ركھتے تھے، اور  یوم عاشوراء زمانۂ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانۂ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا، ليكن جب رمضان شريف كا روزه فرض ہوگيا تو رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمايا: اب جس كا جى چاہے اس دن روزه ركھے اور جس كا جى چاہے اس كو چھوڑ دے يعنى اگر اس دن روزه ركھے گا تو اس كو ثواب ملے گا اور اس دن روزه كى جو فضيلت حديث شريف ميں وارد ہوئى ہے اس كا وه مستحق ہوگا، ليكن اگر وه كسى وجہ سے روزه نہ ركھے تو اس پر كسى طرح كى كوئى ملامت نہيں ہے۔  عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ، وَكَانَ يَوْمًا تُسْتَرُ فِيهِ الكَعْبَةُ، فَلَمَّا فَرَضَ اللَّهُ رَمَضَانَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ» صحيح البخاري (١٥٩٢). 

نبی ﷺ  یومِ عاشوراء کی شان  کے باعث اس کا روزہ رکھنے کے ليے خصوصی اہتمام کرتے تھے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "میں نے رسول اللہ ﷺ  کو دنوں میں سے عاشوراء، اور مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے روزوں سے زیادہ کسی دن یا مہینے کے روزے رکھنے کا اہتمام کرتے ہوئے نہیں دیکھا" ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا اليَوْمَ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ» صحيح البخاري (٢٠٠٦).

حدیث کے عربی لفظ: " يتحرى " کا مطلب ہے کہ اس دن کے روزے کے ثواب اور اس کے ليے دلچسپی کی وجہ سے اس کا اہتمام کرتے تھے۔

یوم عاشوراء کو نبی ﷺ  نے روزہ کیوں رکھا، اور لوگوں کو اس کی ترغیب کیوں دلائی، تو اس کا جواب بخاری شريف حديث نمبر (٣٩٤٣) میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ  مدینہ منورہ تشریف لائے، اور یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ [روزہ] کیوں رکھتے ہو؟) تو انہوں نے کہا: "[اس لئے کہ] یہ خوشی کا دن ہے، اس دن میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی، تو موسی [علیہ السلام] نے روزہ رکھا" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (میں موسی [علیہ السلام] کیساتھ تم سے زیادہ تعلق رکھتا ہوں) تو آپ ﷺنے خود بھی روزہ رکھا، اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا"۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ وَجَدَ اليَهُودَ يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ، فَسُئِلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالُوا: هَذَا اليَوْمُ الَّذِي أَظْفَرَ اللَّهُ فِيهِ مُوسَى، وَبَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى فِرْعَوْنَ، وَنَحْنُ نَصُومُهُ تَعْظِيمًا لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ، ثُمَّ أَمَرَ بِصَوْمِهِ» صحيح البخاري (٣٩٤٣).

بعض روايات ميں ہے كہ ہم موسی علیہ السلام کے ساتھ تعلق ركھنے ميں تم سے زیادہ حق رکھتے ہيں، لہذا آپ نے فرمايا كہ اگر ميں زنده رہا تو آئنده سال نويں محرم كو بھى روزه ركھوں گا، ليكن آئنده سال كى آمد سے پہلے آپ كا انتقال ہوگيا۔ مسلم شريف كى روايت حضرت ابن عباس سے مروى ہے:   عَنْ ابن عباسٍ قَالَ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ يَوْمٌ يُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لأَصُومَنَّ التَّاسِعَ". رَوَاهُ مُسْلِمٌ. [١١٣٤].

اسى وجہ سے دو دن روزه ركھنا چاہئے نو اور دس يا دس اور گياره محرم كو بھى روزه ركھے تاكہ يہود كى مخالفت بھى ہوجائے، جيسا كہ روايت ميں آيا ہے: "خَالِفُوا الْيَهُودَ وَصُومُوا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ يَوْمًا بَعْدَهُ"  يہود كى مخالفت كرو، ايک دن پہلے يا ايک دن بعد روزه ركھو۔ یعنی دسویں محرم کے ساتھ ایک روزہ اور رکھ لے۔

كيا تنہا دسويں محرم كا روزه ركھ سكتے ہيں، اس بارے ميں فقہاء كرام نے بحث كى ہے جو كتب فقہيہ ميں مذكور ہے۔ روايات ميں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہيں، كسى حديث ميں ہے: " یہ خوشی کا دن ہے" ، اس کی جگہ صحیح مسلم میں ہے کہ: "یہ عظیم دن ہے، اس میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور آپکی قوم کو نجات دی، اور فرعون اور قومِ فرعون کا غرق آب کیا"۔

كسى حدیث میں مذکور ہے كہ: "تو موسی [علیہ السلام] نے روزہ رکھا " مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ: "اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا، تو ہم بھی اسی دن روزہ رکھتے ہیں"، اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ : "ہم اس دن کا روزہ اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے رکھتے ہیں"۔

 يوم عاشوراء كے روزه كى فضيلت: 

یوم عاشوراء کا روزہ  گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ  کا فرمان ہے: (مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا  روزہ  گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا، اور مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ یومِ عاشوراء  کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا) مسلم شريف: (١١٦٢)۔

اسى طرح ترمذى شريف كى روايت ہے: عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ. سنن الترمذي (٧٥٢) حضرت ابو قتاده سے مروى ہے كہ رسول الله  ﷺ نے ارشاد فرمايا:  مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔

یہ اللہ تعالی کا ہم پر فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایک دن کا روزہ رکھنے پر پورے سال کے گناہ معاف ہونے کا بدلہ دیا، اور اللہ تعالی بہت زیادہ فضل والا ہے۔

يہ ايک عام قاعده ہے كہ احاديث ميں جہاں كہيں بھى گناہوں كے معاف ہونے كا تذكره آتا ہے تو اس سے صغائر مراد ہيں، اس ليے كہ گناه كبيره بغير توبہ معاف نہيں ہوتے۔ اسى طرح عاشوراء  کے روزے سے صرف صغیرہ گناہ مٹتے ہیں، جبکہ کبیرہ گناہوں کیلئے خصوصی توبہ کی ضرورت ہوگی۔

چنانچہ نووی رحمہ اللہ المجموع میں فرماتے ہیں: "عرفہ کے دن کا روزہ  تمام چھوٹے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، تو حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ:  کبیرہ گناہوں کے علاوہ تمام گناہ مٹ جاتے ہیں"۔

اس کے بعد  امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، جبکہ عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، اسی طرح جس  شخص کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے تو اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔

 مذکورہ تمام اعمال گناہوں کو مٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور چنانچہ اگر کوئی صغیرہ گناہ موجود ہوا تو وہ مٹ جائے گا، اور اگر صغیرہ  یا کبیرہ کوئی بھی گناہ نہ ہوا تو اس کے بدلے میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی، اور درجات بلند کر دئیے جائیں گے، اور اگر کوئی ایک یا متعدد کبیرہ گناہ ہوئے، لیکن کوئی صغیرہ گناہ نہ پایا گیا، تو ہمیں امید ہے کہ ان کبیرہ گناہوں میں کچھ تخفیف ہو جائے گی" انتہی۔ 

بہرحال معلوم ہوا کہ عاشوراء كے روزه كى فضيلت ہے، اس وجہ سے اس دن لايعنى كاموں كو ترک كردے، اگر فرصت ملے تو روزه ركھے تاكہ اس ثواب كو حاصل كيا جاسكے جو حديث شريف ميں مذكور ہے، الله تعالى ہميں عمل صالح كى توفيق دے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے