ملا عبد الحکیم حقانی؛ زندگی اور حالات

طالبان کے قد آور رہنما اور دوحہ مذاکرات کے سربراہ ملا عبد الحکیم حقانی

 قطر مذاکرات میں طا.لبا.ن کی جانب سے مذاکراتی وفد کے سربراہ رہے ملا عبد الحکیم حقانی کے تعلیمی گوشۂ حیات اور اجمالی تذکرے پر ایک مختصر تحریر، جس میں علامہ حقانی کی پیدائش، خاندان اور اساتذہ و شیوخ کا ذکر ہے۔ 

نام و نسب:

مولانا کا نسبی تعلق مشہور قبیلے "اسحاق زئی" سے ہے۔  

نسب اس طرح ہے: عبد الحکیم بن علامہ خداداد، معروف بہ حاجی ملا صاحب، بن شیر محمد، بن محمد جان، بن سعد اللہ خان، بن سید محمد خان حقانی افغانی قندھاری بند تیموری۔ 

پیدائش: افغانی سن کے مطابق 1336 میں، قندھار کے علاقے بنجوائی کے گاؤں "تلوکان" میں آپ کی ولادت ہوئی۔ 

حصول علم: آپ کے والد اپنے وقت کے مشہور علماء و فقہاء میں سے تھے، چنانچہ آپ نے قرآن کریم، فارسی کی بعض کتب، نحو و صرف، ہیئت و حکمت، منطق و فلسفہ، ادب و بلاغت، مسائلِ میراث، عقائد و کلام، فقہ و اصول فقہ اور بعض تفسیری کتب اپنے والد سے پڑھیں۔ 

پھر افغانی سن کے مطابق 1355 میں "زابل" جا کر، شیخ عبید اللہ اخوند زادہ سے علامہ تفتازانی کی مشہور کتاب "المطول" پڑھی۔

1977ء میں اعلیٰ تعلیم اور کتبِ احادیث کی تکمیل کے لیے دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک، پشاور، پاکستان کا رخ کیا، اور وہاں علامہ عبد الحق حقانی، مولانا عبد الحلیم زروبوی، مفتی محمد فرید اور مولانا محمد علی سواتی جیسے کبار علماء سے استفادہ کیا۔

دارالعلوم حقانیہ میں اپنی تعلیم کا حال شیخ یوں بیان کرتے ہیں: 

میں نے دارالعلوم حقانیہ میں، ادارے کے بانی علامہ شیخ عبد الحق سے ترمذی شریف کا کچھ حصہ پڑھا۔ 

جلالین شریف کی پہلی جلد، بخاری شریف کی جلد اول، جامع ترمذی کی جلد اول اور سنن ابی داؤد مفتی محمد فرید صاحب سے پڑھی۔ 

تفسیر بیضاوی، صحیح بخاری کی دوسری جلد اور صحیح مسلم، ادارے کے صدر مدرس علامہ عبد الحلیم زروبوی سے پڑھیں۔ 

جلالین کی دوسری جلد، جامع ترمذی کی دوسری جلد اور شمائل ترمذی مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللّٰہ سے پڑھیں۔ 

طحاوی شریف اور ہدایہ کی تیسری و چوتھی جلد مولانا محمد علی سواتی سے پڑھی۔ 

مشکوٰۃ المصابیح کا درس مولانا فضل مولی سے لیا۔ 

اور 1400 مطابق 1980 میں امتیازی نمبرات کے ساتھ سندِ فراغت حاصل کی۔ 

اکوڑہ خٹک میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد، آپ اسی سال بلوچستان کے علاقے "زیارت" چلے گئے، اور وہاں شیخ جان محمد رحمہ اللہ سے، شعبان و رمضان کے دو ماہ میں قرآن کریم کی تفسیر پڑھی۔

آپ کے مشہور اساتذہ اور ان کی سندیں: 

1- علامہ عبد الحق حقانی، جو شیخ الاسلام حسین احمد مدنی سے روایت کرتے ہیں، حضرت مدنی شیخ الہند سے، شیخ الہند محمود حسن دیوبندی امام محمد قاسم نانوتوی رحمھم اللّٰہ سے روایت کرتے ہیں۔ 

2- علامہ عبد الحلیم زروبوی، یہ بھی شیخ الاسلام حسین احمد مدنی سے روایت کرتے ہیں۔ 

3- مفتی محمد فرید زروبوی رحمۃ اللہ علیہ، یہ شیخ نصیر الدین سے روایت کرتے ہیں، شیخ نصیر شیخ قمر الدین پنجابی سے، شیخ پنجابی مولانا احمد علی محدث سہارنپوری رحمھم اللّٰہ (بانئ مظاہر علوم، سہارنپور) سے روایت کرتے ہیں۔

4- علامہ محمد علی سواتی، جو شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی سے، شیخ کاندھلوی اپنے استاذ مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری رحمھم اللّٰہ سے روایت کرتے ہیں۔ 

5- علامہ فضل مولی، یہ بھی(محدث احمد علی سہارنپوری کے سلسلے کے) شیخ نصیر الدین غورغشتوی رحمھم اللّٰہ سے روایت کرتے ہیں۔ 

6- مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ، جنہیں مولانا بدر عالم میرٹھی سے سند حاصل ہے، مولانا میرٹھی کو علامہ کشمیری اور شیخ عزیز الرحمان دیوبندی رحمھم اللّٰہ سے حاصل ہے۔ 

7- مولانا عبداللہ درخواستی، انہیں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمھا اللّٰہ سے سند حاصل ہے۔

آپ کی تصانیف: 

1- زاد المحتاج فی تحقیق المنھاج، تحقیق منھاج السنن پانچ جلدوں پر مشتمل جامع ترمذی کی جلد اول کی شرح ہے، اور آپ کے استاذ مفتی محمد فرید رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے۔ 

2- زاد الشرعی، پانچ جلدوں میں جامع ترمذی کی دوسری جلد کی شرح.. 

3- زاد المحافل فی شرح الشمائل 

4- مجموعۃ الرسائل، اس میں سولہ رسالے ہیں۔ 

5- روضۃ القضاء

6- تتمۃ النظام فی تاریخ القضاء فی الاسلام

7- تحقیق معین القضاۃ و المفتیین

8- زاد المعاد فی مسائل الج.ھا.د (پشتو میں) 

9- طریق الفضل فی مسائل الغنیمۃ والفئ والنفل 

 10- طریق الجنۃ 

11- زاد الدارین فی تفسیر الجلالین

12- التحقیق العجیب فی حل شرح الجامی

✍️: ابن مالک ایوبی 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے