ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

ادیب العصر  مخدوم مکرم حضرت الاستاد مولانا نور عالم خلیل امینی رح

از: اعجاز الحق خلیل شمس پوری سہارنپوری

  ملاقات و تأثرات  

اس عظیم کائنات کے وجود و عدم وجود ،بحر و بر خشک و تر کی حرکت و سکون ،مادی اور معنوی حیات کا فلسفہ اور آدم تا ایں دم آمد و رفت کا یہ سلسلہ اک نئی منزل کا پتہ دیتا ہے ،جو منزل اپنے مسافرین و راحلین اور اس میں اقامت پذیر ایک انسانی کارواں کو پناہ دے کر ہمیشہ کے لیے خاموشی کی آماجگاہ بن جاتی ہے ،اسی لیے لوگ اس کو شہر خموشاں سے تعبیر کرتے ہیں ،کل تک جو خاکی رمق دمق اس خاکی پتلےکے وجود میں سرایت کی ہوئی تھی ،آج وہ ایک پر سکون مجسمہ بن کر خاموش اور ساکت ،حرکت سے عاجز دوسری دنیا کا مسافر بن جاتا ہے ،لیکن موت و حیات کا یہ فلسفہ محض مادی نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے اور محض ایک خواب و خیال بن جائے  اور اپنے نقوش و تأثرات لوگوں کے ذہن ودماغ پر ثبت نہ کر پائے ؛بل کہ جس طرح حیات کا تعلق  دونوں سے ہے  اسی طرح ممات کا تعلق بھی دونوں صفات سے ہے ،معنوی کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان بہ ظاہر ہمارے درمیان سے چلاجاتا ہے ،اور منوں مٹی میں دفن ہوکر ہمیشہ ہمیش کے لیے ابدی نیند سوجاتا ہے؛لیکن اپنی عظیم خدمات ،علمی و عملی اقدامات ،امتیازات و خصوصیات اور خصوصی کمالات کی بناء پر ہمیشہ کے لئے لوگوں کے ذہنوں پر ایسے انمٹ نقوش ثبت کرجاتا ہے کہ رہتی دنیا تک اس کو نہ صرف یاد رکھا جاتا ہے بلکہ اس کے کارناموں اور سرگرمیوں کو سراہا بھی جاتا ہے ۔ 

اسی معنوی صفت سے ہمارے مخدوم مکرم، استاد محترم، برصغیر  کے عبقری ادیب،اردو اورعربی کے عظیم انشا پرداز عظیم مصنف بے مثال استاد الداعی کے چیف ایڈیٹر، سابق استادعربی ادب دار العلوم دیوبند حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ بھی متصف ہیں۔ 

یوں تو اردو عربی کی دنیائے ادب میں ،عرب و عجم کے اس حسین سنگم میں ایک سے ایک درۂ یکتا اور لعل و گہر پیدا ہوئے، لیکن حضرت استاد محترم نے اپنی ولولہ انگیز تعجب خیز اور اخلاص ریز  عطر بیز تحریر سے اردو عربی ادب کے گیسوئے برہم سنوارنے میں اپنی قابل قدر اور بیش قیمت زندگی نہ صرف صرف کی ؛ بل کہ اس کے دامن کو تر کرنے میں اپنے آپ کو اس میں گھلا ملا دیا تھا، اور اس چمن کو اپنے خون جگر سے سیراب کرکے چھوڑا ۔ 

آپ کی حیات ،جہد مسلسل ،تربیت فکر و آگہی، مقاصد جلیلہ ،علم و عمل کی صحیح جامعیت، فکر و نظر کی بھر پور وسعت تحریری انفرادیت ،ہمہ گیر عبقریت،ظاہر و باطن کی یکسانیت، اصحاب عزیمت و استقامت، صلحاء و داعیان اسلام کی صحبت اور ان کے یہاں آپ کی مقبولیت ،پر خلوص اور البیلی تحریر و تقریر کی جادوگری و اثر انگیزی اور نوجوان فضلاء کی تعمیر و ترقی سے عبارت تھی۔ 

آپ کے جملہ اہل قلم و اہل علم تلامذہ پر آپ کا یہ حق ہے کہ وہ حضرات آپ کی حیات کے ہر منور اور روشن گوشہ کو قارئین کی نذر فرمائیں؛ تاکہ وہ ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں؛ اس لیے کہ حضرت الاستاد ایسی صفات اور خوبیوں کا مجموعہ تھے جن کو ظاہر کرنا اور قارئین کی نذر کر نا میں ضروری سمجھتا ہوں،! ؛اگر چہ آپ کے کمالات و خصوصیات کا پلڑا اس قدر  وزنی ہے کہ مجھ جیسے بے بضاعت خامہ فرسائی کرنے والے کو الفاظ و تعبیرات کی تنگ دامنی کے شکوے پر مجبور کردے، اور قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے، اور آپ کے گوشۂ حیات کو اجاگر کرنے والے کو یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ تحریر کا آغاز کس پہلو سے اور کن خوبیوں سے کیا جائے، اس لیے کہ آپ کی گونا گوں خصوصیات و کمالات ،منفرد صفات،  زبان و قلم کو اپنی طرف دعوت دیتی نظر آتی ہیں، لکھنے والا شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہے، اپنی کم مائیگی و بے مائیگی پر نالاں نظر آتا ہے..... 

     مجھے رسوا کیا کم مائیگی نے

    میرا ہی ظرف مجھ پر طعنہ زن ہے

لیکن انگشت کٹا کر شہیدوں کی صف میں کھڑے ہونے کی روش عام پر گام زن ہونے اور حضرت سے وابستہ حسیں یادوں اور ملاقاتوں کے تسلسل نے اس بات پر آمادہ کرہی دیا کہ آپ کی سرگرمئ حیات کا خلاصہ تحریر کروں۔ 

ابھی تو سر دست ایک مخلص رفیق کے پیہم تقاضے کے پیش نظر" ملاقات و تاثرات " کے عنوان سے کچھ تحریر کرنے کی سعی لاحاصل کررہا ہوں ؛اور پھر اگر قدرت  نے یاوری کی تو انشاء اللہ اس سلسلہ کو دراز کرتے ہوئے آپ کی حیات کے جملہ گوشوں پر مختصر نقوش تحریر کرنے کی کوشش کروں گا،اللہ تعالیٰ نصرت و تائید فرمائے ،تکمیل کی توفیق عطا فرمائے، اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، اخلاص و للہیت کی دولت سے مالامال فرمائے ۔ 

 جو قابل ناز کے تھی،لٹ گئی رونق گلستاں سے

یہ بات اہل علم اور اہل قلم پر قطعاً مخفی نہیں ہے کہ حضرت استاد محترم مخدوم مکرم کے رخصت ہونے سے جہان علم و ادب میں اور فیضان فکر و فن میں جو خلا پیدا ہوا وہ ناقابل پر خلا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ کوئی شخص کسی قافلے کے بچھڑے ہوئے راہی کے خلا کو پر نہیں کرسکتا ہے بقول مخدوم مکرم استاد محترم مولانا امینی رح (حضرت کا یہ قول میں نے بعض جگہ بطور تبصرہ شامل بھی کیا ہے )اور آج خود حضرت کے تعلق سے لکھنا پڑرہا ہے؛اگر مولانا کے الفاظ میں کہوں تو یہ ہے :کہ ہر آدمی منفرد اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، اپنی الگ شناخت کے حوالے سے اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں  میں لاجواب ہوتا ہے، معمولی ہو یا غیر معمولی، خواندہ ہو یا ناخواندہ، دین دار ہو یا بے دین، مسلم ہو یا غیر مسلم ہر فرد بشر الگ پہچان رکھتا ہے،در حقیقت کوئی انسان دوسرے انسان کا جواب یا اس کا بدل یا اس کی نظیر نہیں ہوتا ہے۔ 

اب اس کی جگہ براجمان ہونے والا شخص ممکن ہے اس سے بھی لائق و فائق ،ٹھوس مضبوط صلاحیت کا حامل ہو، لیکن وہ بہت سی صفات و خصوصیات میں پہلے سے مختلف ہوگا، یہ ممکن ہے کہ اس کی جگہ آنے والا علمی و عملی میدان کا قابل شہ سوار ہو، گفتار دلبرانہ ،کردار قاہرانہ ،جذب قلندرانہ کے ساتھ ساتھ شہرت و عزت اور مقبولیت و محبوبیت میں ماقبل سے فوقیت رکھتا ہو؛لیکن پھر بھی مثلاً ثبات و استقلال، معاملہ فہمی و احسان شناسی، حلم و بردباری وغیرہ صفات سے اتصاف ان کو مابعد سے ممتاز کرتا ہے، اور یہی چیزیں انسان کے جدا ہونے پر یاد آتی اور تڑپاتی ہیں، اس کی یہی خصوصیات و امتیازات نقوش دوام سے سے تعبیر کیے جاتے ہیں ،اور رہ رہ کر ان کی یاد دلاتے ہیں۔ 

ممکن ہے دار العلوم دیوبند اور الداعی کو ان سے بااثر باثمر شخصیات میسر آجائیں، لیکن جو بات حضرت کے وجود مسعود کی تھی، اور آپ نے جو طرز تحریر ، اور جو رنگ و ڈھنگ اور آہنگ عطا کیا ہے، اور دار العلوم کی فضائے مسعود و محمود میں اپنے فن اور تحریر کی سحر کاری  جادوگری اور اثر انگیزی  کے جو جوہر دکھائے، اور علم و ادب کی غیر معمولی خوبیوں سے مزین مختلف اسلامی موضوعات پر اپنی گراں قدر تصانیف اور تحریروں سے اسلامی دنیا کے کتب خانے کو مالا مال کیا، آپ کی ان پر خلوص اور البیلی تحریر کی جادوگری ،زبان و قلم کی ضیا پاشی  اور علم و فکر کی تابانی کو دار العلوم دیوبند کے در و دیوار اور الداعی کے صفحات میں ہمیشہ  ہمیش محسوس کی جاتی رہے گی ...

     آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو

 گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

   ادیب عصر جو سدرہ نشین عزم و ہمت تھا

سحاب فیض، کوہ استقامتاستقامت، بحر حکمت تھا

پیاپے آرہی ہے یہ صدا شہر خموشاں سے

جو قابل ناز کے تھی ،لٹ گئی رونق گلستاں سے


جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے