تمام علماء کرام اور مذہبی ذمہ داران کی خدمت میں ایک التماس

 

میڈیا کی فرقہ وارانہ چالوں سے بچنے کا بہترین طریقہ

   آج کل میڈیا میں افغانستان کے معاملے میں مستقل بحث ومباحثہ چل رہا ہے ـ چونکہ جلد ہی کئی ریاستوں میں الیکشن ہوسکتے ہیں اس لئے میڈیا اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر فرقہ پرستوں کو فائدہ پہونچانے کی کوشش کررہا ہے ـ 

  افغانستان کے موجودہ انقلاب کے فورا بعد اس سلسلے میں کچھ علماء کے بیانات کو توڑ مڑور کر پیش کیا جارہا ہے، ساتھ ہی لائیو ڈیبیٹ میں کسی مسلم شخص کو بیٹھا کر اینکر سمیت دیگر شرکاء اس کی مسلسل بے عزتی کرتے ہیں، مختلف مذہبی شخصیتوں کے بیانات اور انٹر ویو ریکارڈ کرکے اس میں کاٹ چھانٹ کے بعد چند سکنڈ کا وہ حصہ دکھاتے ہیں جو ان کے لئے مفید معلوم ہوتا ہے، پھر اس ریکارڈنگ پر ایسے اہسے تبصرے ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ! 

    افغان تختہ پلٹ کے بعد ہی سے روز مختلف چینلس مجھ سے رابطہ کرکے ڈیبیٹ میں شامل ہونے پر یا کم از کم اس سلسلے میں کوئی بیان دینے پر اصرار کررہے تھے، آج بھی کئی فون آئے، چونکہ مجھے اندازہ ہے اس لئے میں سب کو منع کردیتا ہوں، .............. پتہ چلا ہے کہ دیگر علماء کرام کے پاس بھی ایسے فون آرہے ہیں، آج دوپہر میرے پاس ایک مشہور چینل سے فون آرہا تھا جو میں نے رسیو نہیں کیا، پھر کچھ دیر کے بعد ہی ہمارے ایک مشہور عالم دین اور ایک بڑے ادارے کے صدر مفتی کا فون آیا کہ فلان چینل کا رپورٹر مجھ سے بہت اصرار کررہا ہے کہ طالبان کے سلسلے میں کوئی بیان ریکارڈ کرادیں، ......... میں نے مفتی صاحب کو منع کیا کہ بالکل کوئی بیان نہ دیں اگر زیادہ اصرار کرے تو میرا نمبر اس کو دیدیں میں ٹھیک کردونگا ـ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد میرے پاس دوبارہ اس چینل کا فون آیا میں نے اس بار بات کی اور اس کوزبردست جھاڑ پلائی، پوری بات چیت میرے پاس محفوظ ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ـ     میں اپنی اس تحریر کے ذریعے تمام علماء کرام اور مذہبی شناخت رکھنے والی تمام شخصیات سے دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ از راہ کرم میڈیا کے جھانسے میں بالکل نہ آئیں، یہ لوگ جب فون کرتے ہیں تو انتہائی نرم اور میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں، اپنے کو مسلمانوں کا ہمدرد بھی ظاہر کرتے ہیں، مگر ایک مرتبہ ریکارڈنگ حاصل کرنے یا ڈیبیٹ میں آپ کو پہونچانے میں کامیابی حاصل کرپانے کے بعد ان کا مسلم مخالف چہرہ کھل کر سامنے آتا ہے، وہاں نہ آپ کی بات سنی جاتی ہے نہ بولنے کا موقع ملتا ہے، سارے لوگ مل کر چڑھ ڈوڑتے ہیں، اب تو گالی گلوج والی زبان بھی استعمال ہونے لگی ہے ـ 

   اس لئے ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ جیسے ہی آپ کے پاس میڈیا کا فون آئے تو اول مرحلے میں ہی انکار کرکے فون بند کردیں، مزید بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہ لوگ انتہائی شاطر اور چاپلوس بھی ہوتے ہیں، سادہ لوح انسان بہت جلد ان کے جھانسے میں آجاتا ہے، ........ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ خدانخواستہ کوئی غلط بات اپ کے منہ سے نکل جائے، آجکل ریکارڈنگ کا زمانہ ہے آئندہ مشکل بھی پیش آسکتی ہے ـ


   نوٹ : احقر یہ امید کرتا ہے کہ میری یہ تحریر مقتدر علماء کرام اور مذہبی ذمہ داران تک ضرور پہونچے گی 


    محمود احمد خاں دریابادی 

  ۱۹ اگست ۲۰۲۱ شام ۴ بجے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے